الہان عمر، امریکن کانگریس کی پہلی با حجاب رکن

جس نے صدر ٹرمپ کے اسلاموفوبیا کے ایجنڈے کو طشت از بام کیا ‏

عمّارہ رضوان،
نئی دلی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ

 

’’ الہان عمر! کیا تم ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو صومالیہ کی طرح دیکھنا چاہتی ہو اور امریکہ کو غربت وافلاس اور جہالت و تاریکی میں دھکیلنا چاہتی ہو؟ وہی صومالیہ جہاں سے بھاگ کر تم نے امریکہ میں پناہ لے رکھی ہے جہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، جو امن و آشتی سے خالی ہے، تم ہمیں یہ بتاؤ گی کہ حکومت کیسے چلائی جاتی ہے؟ ‘‘یہ وہ الفاظ ہیں جو روئے زمین کے سب سے زیادہ طاقتور شخص نے ریاست اوکلاہاما (Oklahama) کے شہر تلسا (Tulsa) میں مورخہ 20؍ جون 2020کو اپنی پہلی انتخابی ریلی میں کہے ہیں۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے عوامی رجحانات کو اپنی جانب مائل کرنے کے لیے اس اپنے آخری ترپ کے پتے کو استعمال کیا اور کہا ’’اگر اس انتخاب میں بائیڈن (Joe Biden) حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے تو یاد رکھنا کہ الہان عمر کا کردار بہت اہم اور نمایاں ہوگا اور یہ لوگ امریکہ میں نفرت کی کھیتی کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ تو امریکہ اور امریکی ثقافت پر ہر وقت حملہ کرتے رہتے ہیں، ان کی دلچسپیاں اپنے خاندان اور اپنے سابقہ ملکوں سے وابستہ ہیں‘‘ صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہاکہ ’’لیسی جانسن شان دار کام کریں گے جبکہ الہان عمر بد عنوانی کی آفت ہیں‘‘ لیسی جانسن ناقابل یقین حد تک بد عنوان رکن کانگریس الہان عمر کے خلاف کامیاب رہیں گے‘‘۔
ڈونالڈ ٹرمپ کا امریکی ممبر کانگریس الہان عمر کو نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔اس سے پہلے بھی وہ کئی بار اپنی پریس کانفرنسوں، انٹرویوز اور انتخابی ریلیوں میں الہان کو خوب ’’صلواتیں‘‘ سناتے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کو اصل پریشانی الہان کے مسلم ہونے اور اسلامی تشخص بالخصوص حجاب کی پاس داری اور اسرائیل کے تعلق سے ان کے سخت موقف کی وجہ سے ہے، جس سے ان کے اندر کی بھڑاس براہ زبان معاشرے میں زہر گھولتی رہتی ہے۔
الہان عمر جو اس وقت منیسوٹا سے ڈیموکریٹک پارٹی سے امریکن کانگریس کی منتخب ممبر ہیں گزشتہ سال اگست کے مہینے میں نسلی منافرت کا شکار ہو چکی ہیں اور ان کو جان سے مارنے کی دھمکی بھی مل چکی ہے۔ اس وقت ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما الہان عمر نے اپنے خلاف ایک نسل پرست دھمکی کو منظرِ عام پر لایا تھا جس کے مطابق انہیں ریاستی سطح پر منعقد ہونے والے ایک میلے کے دوران ’ایک انتہائی ماہر شخص کے ہاتھوں ایک بڑے ہتھیار کے ذریعے‘ قتل کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
منیسوٹا سے منتخب ہونے والی رکن کانگریس الہان عمر کا خیال ہے کہ اس طرح کے گمنام پیغامات کی بنا پر اب سکیورٹی گارڈز ان کے ساتھ ہوتے ہیں، حالانکہ الہان اس’’ہٹوبچو‘‘ کلچرکے خلاف ہیں اور اپنی ایکٹویٹی میں اس کے خلاف سخت ردِّ عمل کااظہارکرتی ہیں۔’’ مجھے نفرت ہے ایسی دنیامیں سانس لینے سے جہاں انسان کو انسانوں سے ہی سب سے بڑاخطرہ ہو ، میں نے اپنے بچپن میں جنگ کی منحوسیت دیکھی ہے اور اس سے ملتی جلتی کیفیت سے اب بھی گزر رہی ہوں۔کچھ گھٹیا قسم کے لوگ میری جان کے پیچھے پڑے ہیں، جس کی وجہ سے مجھے سیکورٹی کا سہارا لینا پڑ رہا ہے ‘‘۔
الہان عبد اللہ عمر جو اس وقت امریکی سیاست میں ایک نام ور چہرہ ہیں اور ٹرمپ کی اس انتخابی مہم میں سب سے زیادہ زیر ِ بحث مسلم مہاجر خاتون بھی۔ وہ 4؍ اکتوبر 1981 کو صومالیہ کے دارالحکومت مقدیشو (Mogadishu) میں پیدا ہوئیں۔الہان اپنے سات بہن بھائیوں میں آخری بہن تھیں۔جب وہ دو سال کی تھیں ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ والد دارالحکومت کے ایک سینئر سیکنڈری اسکول میں استاد تھے ، والدہ کی وفات کے بعد والد اور دادی نے مل کر الہان کی پرورش کی۔الہان ابھی دس سال کی تھیں کہ1991 میں صومالیہ میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور انہیں اپنے بھائیوں ، بہنوں کے ساتھ کینیا کے ایک کیمپ میں پناہ لینی پڑی اور 1995 کے اواخر تک وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ پناہ گزیں رہیں۔ 1995 میں الہان نے اپنے والد کے ساتھ امریکہ کی طرف نقل مکانی کی اور شروع میں ریاست ورجینیا کے ارلنگٹن ایریا (Arlington) میں قیام کیا، مگر چار ہی مہینوں بعد اہل خانہ کے ساتھ مینیا پولیس کو اپنا مستقر بنا لیا جہاں پر افریقی ممالک کے اکثر مہاجرین پہلے سے منتقل ہو چکے تھے۔ الہان نے تین مہینوں میں ہی انگریزی زبان پر اچھی خاصی قدرت حاصل کرلیں اور تھامسن اڈیسن سینئر سیکنڈری اسکول مینیا پولیس سے امتیازی نمبرات سے امتحان پاس کیا۔ اسی دوران وہ فری لانس مترجم (Translator) کی حیثیت سے اپنے والد کے کسب معاش میں ہاتھ بٹانے لگیں۔2011 میں الہان عمر نے یونیورسٹی آف نارتھ ڈاکوٹا (University of North Dakota) سے پولیٹیکل سائنس اور انٹر نیشنل اسٹڈیز میں گریجویشن کیا۔ اپنی گریجویشن کی تعلیم کے دوران الہان عمر یونیورسٹی آف مینیسوٹا میں پالیسی فیلو بھی رہیں۔
2006 سے 2009 تک الہان
مینیا پولیس کے ان علاقوں میں تعلیم وصحت کے لیے مہم چلاتی رہیں جہاں بڑی تعداد میں عرب اور افریقی ممالک سے مہاجرین آکر آباد ہو گئے تھے، لیکن امریکہ کے سیاسی منظر نامے پر الہان کا نام 2012 میں اس وقت طلوع ہوا جب وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کیری ڈیزیڈک ( Kari Dziedzic ) کی انتخابی مہم کے لیے ان کو انچارج بنایا گیا اور الہان کی بے مثال منصوبہ بندی اور ناقابل تسخیر جدّوجہد نے کیری کو مینیسوٹا کے سینیٹ کا ممبر بنا دیا۔ اس کے بعد وہ ڈیموکریٹک پارٹی سے مینیا پولیس سے وارڈ 12 کے نمائندے کے لیے انڈریوجانسن ( Andrew Jonson ) کی انتخابی مہم کی ذمہ دار بنائی گئیں اور اس مہم کو بھی کامیابی سے ہم کنار کرایا۔ الہان عمر کا سیاسی اقبال اس وقت بلند ہوا جب 2016 میں وہ بذات خود انتخابی میدان میں اتریں اور 8؍ نومبر 2016 کو مینیسوٹا کی سینیٹ میں منتخب ہو کر امریکی تاریخ میں پہلی بار کسی با حجاب مسلم کی حیثیت سے نمائندگی درج کرائی۔ الہان عمر ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کی حیثیت سے مینیسوٹا کے حلقہ نمبر 60 ب کے انتخابی میدان میں اتریں اور80 فیصدسے زائد ووٹوں کو اپنی جھولی میں ڈال کر ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار عبد المالک عسکر کو شکست دی جو اس حلقہ سے صدر ٹرمپ کی پارٹی کی پہلی پسند تھے، وہ الہان عمر ہی کی طرح صومالیہ سے ہجرت کر کے امریکہ کے شہری قرار پائے تھے۔ان کے حق میں صدر ٹرمپ نے ایک ریلی کو خطاب بھی کیا تھا ‏لیکن الہان عمر کی عوامی مقبولیت نے صدر ٹرمپ کی اپیل پر پانی پھیر دیا۔ اس سے قبل اگست 2016 کے اواخر میں الہان عمر نے ڈیموکریٹک پارٹی کے داخلی انتخاب میں بھی حصہ لیا تھا اور یہودی نژاد سابق امریکی رکنِ کانگریس فلپس کو شکست دے کر پارٹی میں اپنی پوزیشن مستحکم کی تھی ۔
5؍ جون 2018الہان عمر کی سیاسی زندگی میں ایک اہم موڑکی حیثیت رکھتا ہے ‏جب ڈیموکریٹک پارٹی نے ان کو ریاست مینیسوٹا کی طرف سے امریکن کانگریس میں بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اس انتخاب کے لیے الہان عمر کو اپنا امیدوار بنایا۔ انہوں نے پہلے ہی مرحلے میں 14؍ اگست کو یہ معرکہ سَر کر لیا اس طرح وہ امریکن کانگریس کی پہلی رکن منتخب قرار پائیں جو نہ صرف مسلم نام سے جانی جاتی ہیں بلکہ اسلامی شناخت کا اظہار و اعلان بھی کرتی ہیں۔ الہان عمر گرچہ تمام اہم امور میں پارٹی لائن کا خیال کرتی ہیں اور اپنے خطابات، انٹرویوز اور پریس کانفرنسز میں انہی ایشوز کو ایڈریس کرتی ہیں جس پر ڈیموکریٹک پارٹی زور دیتی ہے مگر انسانی حقوق، عرب اور افریقی ممالک کے مہاجرین کے مسائل کو بہت شدّت کے ساتھ مختلف فورمس پر اٹھاتی ہیں۔ مینیا پولیس میں جارج فلائیڈ کے امریکی پولیس کے ذریعے ہلاکت کو انسانی حقوق کے علم بردار ملک کا مکروہ چہرہ قرار دیتی ہیں۔ اسی طرح کانگریس میں وہ اس بات پر زور دیتی رہی ہیں کہ امریکہ کی ہر ریاست میں یومیہ اجرت کم از کم پندرہ ڈالر متعین ہونی چاہیے اور ایسے امریکی خاندانوں کے تمام طلبہ کی گریجویشن تک تعلیم مکمل فری ہونی چاہیے جن کی سالانہ آمدنی سوا لاکھ ڈالر سے کم ہو ‏۔
الہان عمر فلسطین کے قلب میں صیہونی ریاست کے تعلق سے صدر ٹرمپ کے بالکل برعکس موقف رکھتی ہیں اور اپنے اس موقف کا پوری قوّت کے ساتھ اظہار بھی کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کو امریکہ میں صیہونی لابی کی شرارتوں کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے۔ 14؍ اگست 2018 کو الہان عمر نے اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں پائی جانے والی صیہونی متلوّن ریاست (apartheid regime) یہودیوں کی نمائندگی نہیں کرتی۔اسی طرح 2012 میں اپنے اس بیان کی وجہ سے صیہونی لابی ان کے پیچھے پڑگئی جب انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’صیہونی ریاست نے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بڑی طاقتوں کو نیند کی گولی کھِلا رکھی ہے‘‘ بعد میں پارٹی کے دباؤ میں انہیں اپنے اس بیان سے رجوع کرنا پڑا تھا اور یہ بیان دینا پڑا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ایک حقیقت ہے جسے ہر فریق کو اب تسلیم کرلینا چاہیے۔ 2012 میں اسرائیل نے جب غزہ پر بمباری شروع کر دی تو الہان عمر نے اس پر شدید احتجاج کیا اور اسرائیل کے اس عمل کو شرارتی ٹولے کی ناعاقبت اندیشانہ کارستانی قرار دیا۔ وہ اس سے قبل جب یونیورسٹی آف مینیسوٹا میں پالیسی فیلو تھیں، ایک ریسرچ پیپر کے ذریعے یہ مطالبہ کر چکی تھیں کہ امریکی حکومت کی اسرائیل سے حددرجہ قربت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے لہٰذا امریکہ کو اسرائیل کے تئیں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ الہان عمر کے یہ مواقف امریکہ میں موجود صیہونی لابی کو ایک نظر نہیں بھاتے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حقوق انسانی کی اس آواز کو خاموش کردیں۔
الہان عمر کی شادی 2002 میں ایک صومالی نژاد امریکی نوجوان احمد حرثی سے ہوئی جن سے الہان کی دو بچے ہیں۔الہان کے والد نور عمر محمد جو ان کے ہر سفر میں ساتھ ساتھ تھے اور اپنی بیٹی کا حوصلہ بڑھا رہے تھے 16؍ جون 2020 کو کرونا وائرس کا شکار ہو کر اپنے مالک حقیقی جا ملے۔ الہان نے اس موقع پر اپنے ٹویٹر پیغام میں صرف اتنا لکھا :’’إنا لله وإنا إليه راجعون۔ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے ہیں کہ وہ میرے لیے کیا تھے یا ان کے لیے جو ان کو قریب سے جانتے ہیں آنسوؤں کے ساتھ ائے والد محترم الوداع‘‘
***

الہان عمر انسانی حقوق، عرب اور افریقی ممالک کے مہاجرین کے مسائل کو بہت شدّت کے ساتھ مختلف فورمس پر اٹھاتی ہیں۔ مینیا پولیس میں جارج فلائیڈ کے امریکی پولیس کے ذریعے ہلاکت کو انسانی حقوق کے علم بردار ملک کا مکروہ چہرہ قرار دیتی ہیں۔ اسی طرح کانگریس میں وہ اس بات پر زور دیتی رہی ہیں کہ امریکہ کی ہر ریاست میں یومیہ اجرت کم از کم پندرہ ڈالر متعین ہونی چاہیے اور ایسے امریکی خاندانوں کے تمام طلبہ کی گریجویشن تک تعلیم مکمل فری ہونی چاہیے جن کی سالانہ آمدنی سوا لاکھ ڈالر سے کم ہو ‏۔