افاداتِ مودودی

داعیانِ دینِ حق کی شخصیت کے چند قابل تقلید پہلو

وحید داد خان

 

اللہ تعالی قرآن میں مختلف مقامات پر داعیانِ حق کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو پیش فرماتا ہے جو دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے تاقیامت نمونہ ہیں۔ ان میں سے چند پہلوؤں کو ذیل میں بیان کیا جارہا ہے۔
غلطیوں پر رجوع اور اللہ سے دعا
موسٰیؑ کی قوم کے اللہ پر ایمان رکھنے والوں کی دعا سورہ یونس کی آیت ۸۵ میں بیان ہوئی ہے۔
رَبَّنَا لا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
یعنی ہمارے رب ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا
داعی اگر اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کر جائیں یا مصائب و مشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں یا ان سے بلکہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی عیب کا صدور ہو جائے تو بہت سے لوگوں کے لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں۔
اس لیے یہ دعا مانگی کہ ہم کو غلطیوں، خامیوں اور کمزوریوں سے بچا تاکہ ہمارا وجود تیری خلق کے لیے وسیلہ شر نہ بن جائے۔
بے غرضی و بے نفسی
سورہ یٰسین کی بیسویں آیت میں بتایا گیا ہے کہ ایک صالح انسان اپنی قوم کو ان الفاظ میں مشورہ دیتا ہے کہ اتَّبِعُوْا مَنْ لاَّ یَسْئَلُکُمْ اَجْرًا وَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ
(اے میری قوم کے لوگو) پیروی کرو ان لوگوں کی و تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے۔
قرآن اللہ کی طرف بلانے والوں کی نشانی یہ بتاتا ہے کہ ان کا کردار بے داغ ہے اور یہ کہ تم سے ان کا کچھ اپنا مفاد وابستہ نہیں ہے۔ وہ بے غرض تمہیں ہدایت کی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں، انجام بد سے بچانا چاہتے ہیں یہ بے غرضی اور کردار کی پاکیزگی کسی مشرک معاشرہ میں نایاب ہوتی ہے۔
صاحب تفہیم القرآن اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ آخر کار اس بے غرض وبے داغ بندہ خدا کو ’’قتل کر دیا گیا‘‘ اور اللہ عزو جل کا حکم ہوتا ہے کہ ’’داخل ہوجاو جنت میں۔ اس وقت اس شہید بندہ خدا کی زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں ’اے کاش میری قوم کو معلوم ہوتا کہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی اور مجھے با عزت لوگوں میں داخل فرمایا۔
اس مردِ مومن کے کمال اخلاق کا نمونہ دیکھیے کہ قتل کردیے جانے کے بعد بھی اس کے دل میں یہ تمنا ہوتی ہے کہ کاش میری قوم اس انجام نیک سے باخبر ہو جائے اور میری زندگی سے نہیں تو میری موت ہی سے سبق لے اور راہِ راست اختیار کر لے۔
وہ شریف انسان اپنے قاتلوں کے لیے بھی جہنم نہیں چاہتا تھا بلکہ یہ چاہتا تھا کہ وہ ایمان لا کر جنت کے مستحق بنیں۔ اسی کی تعریف کرتے ہوئے حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ ’’نصح قومہ حیات و میتا‘‘ اس شخص نے جیتے جی بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی اور مرکر بھی‘‘
مدعو سے محبت اور اس کے لیے دعا
سورہ الزخرف کی آیت ۸۹ میں اللہ تعالیٰ وقت کے نبی کو ان کی امت کے برے رویہ، تضحیک و استہزا پر ان کے لیے بد دعا کرنے یا سخت بات کہنے سے روکا بلکہ انہیں سلام کر کے ان سے الگ ہوجانے کی ہدایت فرمائی:
فاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ
اے نبی، ان سے درگزر کرو اور کہہ دو کہ سلام ہے تمہیں۔ عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا‘‘۔
مدعو کو جہنم سے بچانے کی تڑپ
سورہ الکہف کی چھٹی آیت ہے
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا
اے محمدؐ، شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائیں۔
رسول اللہ ﷺ کو رنج ان تکلیفوں کا نہ تھا جو آپ ؐ اور آپ کے ساتھیوں کو دی جارہی تھیں بلکہ جو چیز آپؐ کو اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی وہ یہ تھی کہ آپؐ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالنا چاہتے تھے اور وہ کسی طرح نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی۔ آپؐان کو تباہی اور عذاب الٰہی سے بچانے کے لیے اپنے رات دن ایک کیے دے رہے تھے۔
یہ اندازہ کرنا کچھ دشوار نہیں ہے کہ انسانوں کے لیے خواہ وہ آپ کے نقطہ نظر سے گمراہ تھے پھر بھی آپؐ میں ان کے لیے کس درجہ کی درد مندی اور خیر خواہی پائی جاتی تھی جبکہ وہ ایسے لوگ تھے جو آپؐ اور آپؐکے ساتھیوں کی دشمنی میں ہر حد کو پار کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔
مذکورہ بالا قابل تقلید مثالیں دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے نہایت عمدہ رہنمائی کرتی ہیں۔ داعی اپنے طرزِ عمل کو ان کی روشنی میں درست رکھ سکتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021