اداریہ

تقریریں نہیں کام چاہیے۔۔۔

اس سال پندرہ اگست کو ہمارے ملک نے اپنی آزادی کی پچہترواں جشن آزادی بڑے دھوم دھام سے منایا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پورا ملک ملکی پرچم کے تین رنگوں میں ڈوب گیا ہے۔ ویسے تو ہر سال آزادی کا جشن بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن اس بار آزادی کے پچہتر سال کی تکمیل کے سبب ہر سطح پر خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ملک بھر میں حکومتی سطح پر گزشتہ ایک سال سے آزادی کا امرت مہوتسو کے نام سے مختلف تقریبات منعقد ہو رہی تھیں۔ یوم آزادی سے قبل ہر گھر ترنگا کے نام سے ایک ملک گیر مہم چلائی گئی۔ ہمارے ملک میں مختلف نعرے اور علامتی مہمات منائی جاتی رہتی ہیں تاکہ مختلف امور پر عوام میں بیداری پیدا کی جاسکے لیکن یہ نعرے اور علامتی مہمات حکومت کی اصل ذمہ داریوں اور بنیادی فرائض کا بدل نہیں ہو سکتیں۔ حکومت کا اصل کام یہ ہے کہ وہ عوام کے لیے غذا، روزگار، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کرے، ملک میں امن و قانون کو برقرار رکھے، مختلف مذاہب کے شہریوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے انہیں ایک پرامن ماحول اور خوشحال زندگی فراہم کرے۔ ان تمام کاموں کی انجام دہی کے دوران کبھی کبھی علامتی مہمات بھی کی جاسکتی ہیں تاکہ ان اہداف کی تکمیل میں وہ معاون بنیں۔ لیکن موجودہ حکومت میں ان علامتی مہمات کی تعداد ضرورت سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ہر تھوڑے دنوں بعد ایک پرکشش نعرے کے ساتھ ایک نئی مہم چلائی جاتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2014 کے بعد سے اب تک تقریباً ساٹھ عنوانات پر مہمات منائی گئیں اور عوام سے مختلف عہد لیے گئے ہیں۔ ان مہمات کے لیے کروڑوں روپے کا عوامی فنڈ خرچ کیا گیا، لیکن ان مہمات اور عوام سے لیے گئے ان عہدو پیمان کا کیا نتیجہ نکلا اس کا کسی کو علم نہیں ہے۔ پچہترویں یوم آزادی کے اس تاریخ ساز موقع پر لال قلعے سے ملک کے نام خطاب کرتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم نے ایسی بہت ساری باتیں کہیں جنہیں محض تقریر میں نہیں بلکہ عملاً زمین پر انجام پانا چاہیے۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کرپشن کے خاتمے پر کافی زور دیا ہے۔ گزشتہ آٹھ سال سے وہ حکومت میں ہیں اور کرپشن و بدعنوانی کے خلاف بھی ہیں لیکن ملک کرپشن کے معاملے میں آج بھی وہیں کھڑ اہے جہاں آج سے آٹھ پہلے کھڑا تھا۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان 2014 کے دوران دنیا کے 190 ممالک میں 85 ویں نمبر پر تھا اور 2021 میں بھی اسی مقام پر کھڑا ہے۔ کرناٹک، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں اقتدار کے حصول کے لیے ان کی پارٹی نے جس طرح کا کھیل کھیلا ہے اسے آخر کس زمرے میں رکھا جائے گا؟ کیا کوئی بھی سنجیدہ اور باشعور سماج اسے شفاف جمہوری عمل قرار دے گا؟ اپنی تقریر میں وزیر اعظم نے ملک کے مختلف اداروں میں موجود اقربا پروری کی برائی کا بھی ذکر کیا۔ یقیناً اقربا پروری ملک کی صلاحیتوں کو برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ اس سے باصلاحیت نوجوان مایوس ہو جاتے ہیں، ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور یہ ملک کا بہت بڑا نقصان ہے۔ صلاحیت کے مقابلے میں اپنے عزیزوں کو ترجیح دینے پر یہ نقصان تو ہوتا ہی ہے لیکن یہ اس صورت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب صلاحیت کے مقابلے میں اپنے ہم مشرب یا اپنے ہم مذہب لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور محض نظریاتی پسندیدگی کی بنیاد پر لوگوں کو مواقع دیے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال بھی قابل اصلاح ہے۔ کرکٹ بورڈ کی صدارت کس قابلیت کی بنیاد پر موجودہ صدر کے حوالے کی گئی؟ مختلف اہم ملکی اداروں میں جس طرح صلاحیت کے بجائے نظریاتی وابستگی کو ترجیح دی جاتی رہی ہے اس سے کیا نوجوان صلاحیتیں ضائع نہیں ہوتیں؟ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں خواتین کے مقام و مرتبے کا لحاظ کرنے اور ان کی عزت کرنے پر بھی کافی زور دیا ہے۔ ملک میں خواتین کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، خصوصا دلت خواتین کی۔ ان پر ظلم کرنے والے ہر طرح کے لوگ ہیں لیکن حکومتیں جس طرح ان ظالموں کی پشت پناہی کرتی ہے اور مظلوم خواتین کو انصاف سے محروم کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے وہ اس دعوے کو کھوکھلا ثابت کر دیتی ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ملک میں تبدیلی محض علامتی مہمات، پرکشش نعروں، دل فریب تقریروں اور ظاہری عہد و پیمان سے نہیں آتی اس کے لیے پوری سنجیدگی اور اخلاص سے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ یہی وہ صفات ہیں جن سے ہمارے سابق کے حکمران بھی محروم تھے اور آج کے حکمران بھی محروم ہیں۔ قول و فعل کا یہ تضاد اور محض خوشنما باتوں سے عوام کا دل بہلانے کی ایسی کوششیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے بلکہ اس میں مزید ترقی ہوتی جا رہی ہے۔
ضروررت اس بات کی ہے کہ عوام کو اس معاملے میں باشعور بنایا جائے اور انہیں حکمرانوں کے دھوکے میں آنے کے بجائے ان کا احتساب کرنے والا بنایا جائے۔ مسلمان اس معاملے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیوں کہ اس ملک میں صرف وہی ایک ایسی ملت ہیں جن کے پاس شفاف اور جواب دہ حکمرانی کی مثالیں موجود ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ وہ اس وقت کوئی مثبت اور تعمیری اقدام کرنے کے بجائے اپنے وجود اور اپنے مستقبل کے متعلق اضطراب و پریشانی کا شکار ہیں۔ امت کے قائدین کی یہ ذمہ داری ہے وہ ملت کو اس کیفیت سے نکالیں اور ملک میں اپنا مثبت رول ادا کرنے کے لیے تیار کریں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 اگست تا 27 اگست 2022