اداریہ

خوابِ غفلت یا مردہ ضمیر؟

اب جب کہ دنیا میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 57 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے اور 3.55 لاکھ لوگ موت کی آغوش میں جا چکے ہیں، وطن عزیز میں بھی اموات 4 ہزار کا ہندسہ پار کر چکی ہیں تو یقیناً یہ ہمارے ملک اور دنیا کے لیے تشویشناک حالت ہے۔ جس میں اس بات کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے کہ وبائی وقدرتی حصہ اس میں کتنا ہے اور انسانی خامیوں اور نا اہلیوں کا کتنا؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکم رانوں کی بے حسی سے جوں جوں پردہ اٹھتا گیا، عوام اور باضمیر شہریوں نے حالات کی مار کم کرنے کی اپنی سی کوششیں جاری رکھیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ حکومتی مشینری، انتظامیہ اور عملے کی پوری قوت اور پشت پناہی کے بغیر ان کی تگ و دو پِدّی کا شوربہ ہی ثابت ہوگی۔ آج بھلے ہی حکم رانوں نے ہماری جمہوریت کے تمام ستونوں کو کمزور کرنے اور ہر ایک ادارے کو اپنا غلام بنانے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا ہے لیکن انسان تو پھر انسان ہے، اس کا ضمیر بھی جاگتا ہے۔
اس دوران ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے آئے دو مثبت فیصلوں نے ایک امید کی جوت ضرور جگا دی ہے۔ سپریم کورٹ نے مزدوروں کی زبوں حالی کے لیے ذمہ دار ’سرکاری ناکامیوں‘ کا ازخود نوٹس لے کر ان کی راحت رسانی کے لیے جاری اقدامات پر سماعت کی۔ ملک کے کروڑوں مزدور اب بھی اس فراق میں ہیں کہ کسی بھی طرح وہ اپنے آبائی وطن، ان کے اپنے گھروں کو پہنچ جائیں۔ درآں حالیکہ اب تک حکومت نے ٹرینوں کے ذریعے ایک کروڑ سے بھی کم مزدوروں کو ان کے وطن واپس بھیجا ہے۔
یہ بات دیگر ہے کہ سپریم کورٹ اچانک نہیں جاگا ہے بلکہ اس کو جگانے کے لیے ملک کے سرکردہ وکیلوں کو عدالت کے نام ایک مکتوب لکھنا پڑا جس میں اس کی ’دستوری ذمہ داری‘ کو یاد دلاتے ہوئے اب تک کی عدالت کی معنی خیز خاموشی پر جھنجھوڑنا بھی پڑا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق خط لکھنے والوں میں ممبئی اور دلی کے کم از کم بیس سنیئر ترین وُکلا کے نام شامل ہیں اور اس خط پر پرشانت بھوشن، اندرا جئے سنگھ، کپل سبل، پی چدمبرم، وکاس سنگھ، اقبال چاؤلہ، نوروز سیروئی سمیت مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک اہم رکن یوسف مُچھالا کے بھی دستخط ہیں۔ ایک نہایت سنگین انسانی المیہ کے دوران نہ صرف حکومت کی سرد مہری، بے حسی اور بے دلی کی جانب متوجہ کیا گیا بلکہ روزآنہ پیش آنے والے انسانیت سوز اور شرمناک واقعات کے دوران خود عدالت کے پہلو تہی کے رویے پر بھی نکتہ چینی کی گئی۔ ان وکیلوں نے لکھا کہ مرکزی حکومت کے غلط دعوؤں پر مبنی حلف ناموں کو عدالت نے آنکھیں موند کرتسلیم کر لیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایمرجنسی کے دوران عدلیہ نے زیرِ حراست لوگوں کو عاملہ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا۔ اس مکتوب میں سپریم کورٹ کے سرکاری وکیل تُشار مہتا کے اُس بیان پر عدالت کے ذریعے اطمینان کا اظہار کرنے کا حوالہ بھی دیا گیا کہ حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ ’’وطن جانے کے لیے ایک بھی مزدور سڑک پر پیدل نہیں چل رہا ہے۔‘‘ اس طرح مارچ میں عدالت لاکھوں بے سہارا مزدوروں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہی تھی اور پھر مئی میں جب مزدوروں کا سیلِ رواں سڑکوں پر نکل پڑا تو عدالت نے اس معاملے کو ’’پالیسی ایشو‘‘ بتا کر اپنا پلہ جھاڑ لیا تھا۔ وکیلوں نے لکھا کہ تارکین وطن مزدوروں کے حالات کا براہِ راست تعلق دستور کے حوالے سے ہے اور انصاف کی تکمیل کے لیے عدالت دفعہ ۱۴۲ کے تحت ہر ممکنہ اقدام کر سکتی ہے۔ اور سپریم کورٹ کا تو نعرہ ہی’ یَتو دَھرمَستَتو جَیہ‘ ہے
( यतो धर्मस्ततो जयः)
یعنی جہاں حق (دھرم) ہوگا، کامیابی وہیں ملے گی۔ لہذا عدالت کو اس کی لاج رکھتے ہوئے اپنی بے چارگی سے باہر نکل کر انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کا سامان کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اتنے سخت الفاظ کا کچھ تو اثر ہونا تھا چنانچہ 25 مئی کی رات اس خط کی وصولی کے اگلے ہی دن سپریم کورٹ نے مزدوروں کے معاملے کا سُوموٹو نوٹس لیا اور 29 مئی کو سماعت کرتے ہوئے بالخصوص ریاستوں کے لیے بعض سخت عبوری احکامات بھی جاری کیے۔
ادھر سالیسیٹر جنرل مہتا نے سماعت کے دوران نہایت بھونڈا تبصرہ کیا کہ مزدوروں کا دُکھڑا سنانے والے صحافی ’’منفیت پھیلانے والے قیامت کے پیامبر‘‘ ہیں بلکہ وہ ’’گِدھ‘‘ ہیں۔ یہ بیان مرکزی حکومت کے پَرلے درجے کے تکبر وبے حسی کا غمّاز ہے۔ بجا طور پر سنجیدہ میڈیا حلقے نے سوال اٹھایا کہ مُردار کا گوشت کھانے والا کون ہوگا؟ وہ جو رپورٹنگ کے ذریعہ زمینی حقائق کو اجاگر کر رہا ہے یا وہ جو اپنا منھ ریت میں چھپائے ہوئے ہے؟ سپریم کورٹ میں حکومت نے اپنا پاجامہ بچانے کے لیے ہر دوسرے فرد کا کرتا پھاڑنے کی کوشش کی۔
دراصل حکومت مزدوروں کے حقوق کا تحفظ چاہتی بھی نہیں ورنہ اسے عدالت کی پھٹکار کا انتظار ہی کیوں کرنا پڑتا؟ ان معاملات کے ذریعے پھر ایک بار یہ بات ثابت ہو گئی کہ بی جے پی برہمنوں کی پارٹی تو ہے ہی ساتھ میں بَنیا پارٹی بھی ہے۔
یقیناً سپریم کورٹ مذکورہ نامی گرامی وکیلوں کے مکتوب ملنے کے بعد حرکت میں آئی ہے لیکن اسسے قبل بھی عدالت کے سامنے عرضیاں پہنچی ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لے کر ممبئی آئے صغیر احمد خان نے مئی کے پہلے ہفتے میں ایک عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی تھی اور اپنے آبائی ضلع سَنت کبیر نگر کو مزدوروں کو بھیجنے کے سلسلے میں مرکزی حکومت، حکومتِ اتر پردیش اور مہاراشٹرا سمیت وزارتِ ریل کو جوابدہ بنایا تھا۔ ایڈووکیٹ صغیر نے اپنی جیب سے مبلغ پچیس لاکھ روپے دینے اور تارکین کو گھروں کو بھیجنے کے لیے انتظامات کرنے کی پیشکش کی تھی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ متعدد ورکرز اپنی ’خودداری وغیرت‘ بچانے کے لیے اپنے وطن لوٹنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سرکاری یا امدادی اناج پانے کے لیے قطار میں کھڑے ہو کر اپنی عزت نفس کا سودا نہیں کرنا چاہتے۔
اس سے قبل اوڈیشہ، کرناٹک اور مدراس ہائی کورٹ نے مزدوروں پر سرکاروں کی جواب دہی متعین کرنے کی بات کہی تھی جبکہ تلنگانہ ہائی کورٹ نے کورونا جانچ پر حکومت کی سرزنش کی ہے۔ اب گجرات ہائی کورٹ نے تاریخی شہر احمد آباد میں سرکاری مشینری کی لاپروائی اور کورونا علاج میں ناکامی کا از خود نوٹس لیا اور 29 مئی کو سماعت کی تاریخ طئے کی لیکن اس سے ایک دن قبل ہی عدالت نے اس جج کو ہی سماعت سے ہٹا دیا۔ جسٹس اِیلیش وُورا کو سرکاری عتاب کا شکار ہونا پڑا کیوں کہ انہوں نے گجرات حکومت کی انتہائی سخت لہجے میں نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’احمد آباد سِول اسپتال کسی کال کوٹھری سے بھی بد تر ہے، نیز گجرات کی صحت خدمات کی حالت ایک ڈوبتے ہوئے ٹائٹانک جہاز کی مانند ہے‘‘۔ وزیر اعلیٰ وجئے روپانی کے ایک دوست کو فائدہ پہنچانے کے لیے جعلی وینٹیلیٹرز خریدے گئے اور اس ’دَھمَن‘ مشین نے متعدد جانیں لے لیں جس پر مقامی بی بی سی صحافی نے بھی انگشت نمائی کی ہے۔ ان کے خاندان کے ایک فرد کی موت پر ان کے جسم سے دستی گھڑی اور موبائل فون تک چرا لیے گئے تھے اور اس وقت سوال کیا گیا تھا کہ کیا ان کے مریض کو بھی اسی جعلی وینٹیلیٹر پر رکھا گیا تھا؟
اس پر طُرہ یہ کہ ان معاملات پر مودی سرکار کا کہنا ہے کہ ’بعض ریاستوں میں عدالتیں ’متوازی حکومتیں‘ چلا رہی ہیں۔ اس اپروچ کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے رویے پر قائم ہے اور اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں ہے۔ گویا عدالت اور صحافت دونوں کو حکومت باضابطہ سپریم کورٹ کے اندر بھی نشانہ بنا رہی ہے۔
مؤمن کبھی مایوس نہیں ہوتا اور نہ وہ تدبیر کرنے سے چوکتا ہے۔ حکومتوں کے اس اَڑیَل رویے کا جواب بھی قانونی وعدالتی چارہ جوئی اور سوشل میڈیا میں مدلل انداز سے حقائق کو اجاگر کر کے دیا جاسکتا ہے۔ بعض مسلم جماعتوں نے تبلیغی جماعت پر نفرت انگیزی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا جس پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت، پریس کونسل اور میڈیا ہاؤسز سے جواب طلب کیا ہے کہ فرضی اور یک طرفہ خبریں نشر کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف حکومت نے کیا کارروائی کی ہے؟ یہ بجائے خود کسی بڑی حصولیابی سے کم نہیں۔

 

یہ بات دیگر ہے کہ سپریم کورٹ اچانک نہیں جاگا ہے بلکہ اس کو جگانے کے لیے ملک کے سرکردہ وکیلوں کو عدالت کے نام ایک مکتوب لکھنا پڑا جس میں اس کی ’دستوری ذمہ داری‘ کو یاد دلاتے ہوئے اب تک کی عدالت کی معنی خیز خاموشی پر جھنجھوڑنا بھی پڑا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق خط لکھنے والوں میں ممبئی اور دلی کے کم از کم بیس سنیئر ترین وُکلا کے نام شامل ہیں اور اس خط پر پرشانت بھوشن، اندرا جئے سنگھ، کپل سبل، پی چدمبرم، وکاس سنگھ، اقبال چاؤلہ، نوروز سیروئی سمیت مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک اہم رکن یوسف مُچھالا کے بھی دستخط ہیں۔ ایک نہایت سنگین انسانی المیہ کے دوران نہ صرف حکومت کی سرد مہری، بے حسی اور بے دلی کی جانب متوجہ کیا گیا بلکہ روزآنہ پیش آنے والے انسانیت سوز اور شرمناک واقعات کے دوران خود عدالت کے پہلو تہی کے رویے پر بھی نکتہ چینی کی گئی۔ ان وکیلوں نے لکھا کہ مرکزی حکومت کے غلط دعوؤں پر مبنی حلف ناموں کو عدالت نے آنکھیں موند کرتسلیم کر لیا ہے۔