اداریہ: انتہا پسند سیکولرازم اور اسلام

 

جس زمانے میں یوروپ میں دائیں بازو کے نازی اور فاشسٹ نظریات طاقتور ہو چکے تھے، متحدہ بھارت میں مسلم لیگ اور کانگریس کے تال میل سے ناراض کئی سخت گیر کانگریسی رہنما ہندو مفادات کو سب سے بالا تر رکھنے پر زور دے رہے تھے۔ وہ گاندھی اور نہرو کے سیکولرازم کو ’مسلمانوں کی منھ بھرائی‘ سے تعبیر کر رہے تھے۔ کیشو بلی رام ہیڈگیوار، مدن موہن مالویہ اور بال گنگادھر تِلک کے نہایت قریبی رہے ڈاکٹر بال کرشنا شیورام مونجے وغیرہ کے دماغوں میں ایک الگ کھچڑی پک رہی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ لوگ کانگریس سے علیحدہ ہوتے چلے گئے اور ہندو مفادات کے تحفظ بلکہ غلبے کے ایجنڈے پر لوگوں کو متحد کرنے لگے تھے۔ یہاں تک کہ انڈین نیشنل کانگریس سے ٹوٹ کر اَکِھیل بھارت ہندو مہاسبھا بنی جس سے بیریسٹر وِنایک دامودر ساورکر کی وابستگی نے اس کے نظریات میں مزید کٹّرپن پیدا کر دیا۔ وہ عدم تشدد اور شہری نافرمانی کی کانگریسی تحریکات کی سخت مخالفت کے ساتھ ساتھ سیکولرازم کی عَلم برداری کے بھی خلاف ہو گئے تھے۔ اس حد تک کہ ساورکر نے گاندھی جی کی اپیل کے خلاف جا کر انگریزوں کی ملازمت جاری رکھنے اور دوسری جنگِ عظیم میں برطانوی افواج کے ساتھ لڑنے کی وکالت بھی کی تھی۔ دراصل ہندو بالادستی کے خبط میں مبتلا اس گروپ نے ہٹلر کے نازی جرمنی سے اپنی آریائی نسل کی فوقیت والا نظریہ بھی اختیار کر لیا تھا۔ پروفیسر شمس الاسلام نے اپنی کتاب ’’آر ایس ایس کے آرکائیوز سے شواہد: ایک دہشت گرد تنظیم‘‘ میں سخت گیر اور انتہا پسندانہ ہندوتوا نظریہ کے علمبردار ڈاکٹر مونجے کی ڈائری کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ 19 مارچ 1931 کو روم جا کر وہاں ڈکٹیٹر مسولینی سے بالمشافہ ملاقات کرتے ہیں جو ان کے لیے بڑی تحریک اور جذبے کا باعث بنتی ہے۔ ڈاکٹر مونجے نے مسولینی سے متاثر ہونے کے بارے میں اپنی ڈائری میں درج کیا ہے جہاں 6 سے 18 برس کے بچوں کو لازمی فوجی تربیت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بدنام زمانہ فاشسٹ مملکت اٹلی میں فوجی اسکولوں کے نظام کا معائنہ کر کے لوٹنے والے مونجے نے مہاراشٹر کے ناسک میں ‘بھونسلے ملیٹری اسکول’ قائم کیا۔ بم دھماکوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی گہری تفتیش کے دوران جس میں لیفٹنٹ کرنل پرساد پروہت پر شک کی سوئی ٹک گئی تھی وہ اسی بھونسلے اسکول سے وابستہ رہا ہے۔ جانکار اس مرحلے کو نظریاتی بنیادوں سے قبل کی جدید ہندوتوا تحریک کی پہلی سیڑھی قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ مدن موہن مالویہ نے اس سے بہت پہلے سن 1915 میں ملک گیر سطح پر ہندو مہاسبھا کی تنظیمِ نَو کر دی تھی۔
اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ قدیم و جدید کے تمام دائیں بازو نظریات کے حاملین کو لفظ ’سیکولرازم‘ سے یک گونہ نفرت سی ہوا کرتی تھی۔ حالانکہ مغرب اور مشرق میں اس کے مفہوم میں بڑا بنیادی فرق بھی رہا ہے۔ موجودہ فرانس نے سیکولرازم کو کمزور ہونے سے روکنے کے لیے اسلام کی انتہا پسندی سے ملک و معاشرے کو بچانا لازم سمجھا۔ فرانس کے صدر ایمیونل ماکروں نے اسکارف کے ساتھ سیکولرازم کے نام پر فرانسیسی مسلمانوں کی مذہبی شناخت ختم کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے اور اگر قانون سازی کے لیے ان کی مہم کامیاب ہوگئی تو عدم برداشت کے حوالے سے فرانس چین کے ہم پلہ ہو جائے گا۔ پیرس میں ‘انتہاپسندی سے نمٹنے کی حکمت عملی’ کے تعلق سے بات کرتے ہوئے صدر ماکروں نے سیکولرازم کا ایک انتہا پسندانہ پہلو پیش کیا کہ ‘اسلامی انتہا پسندی سے سیکیولر اقدار کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی’۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف فرانس ہی نہیں بلکہ اسلام ساری دنیا میں بحران کا شکار ہے۔جناب ماکروں نے فرانسییسیوں کو یقین دلایا کہ تعلیم اور عوام سے اسلام کو بے دخل کرنے کے لیے مؤثر قوانین وضع کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ دسمبر میں ایک مسودہ قانون فرانسیسی پارلیمان میں پیش کیا جا رہا ہے جس میں 1905 کے ایک قانون کو مزید تقویت دی جائے گی جس کے تحت گرجا اور حکومت کو الگ الگ کر دیا گیا تھا۔ فرانس کے صدر یہ کہنے سے بھی نہیں رکے کہ مسلم انتہا پسندی سے فرانس کی اندرونی سلامتی کو بڑا خطرہ لاحق ہے۔ اسلام کے ‘خطرے’ کے لیے اب حجاب پر مکمل پابندی کو یقینی بنایا جائے گا اور ملک بھر میں پھیلے مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
بھارت کے ہندوتووادیوں کی مانند وہ یہ کہنا نہیں بھولے کہ ہم اسلام کے خلاف نہیں لیکن انتہا پسندوں اور ملک کے غداروں سے ملک کی سالمیت کو سخت خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ صدر ماکروں کا دعویٰ برقرار رہا کہ فرانس سیکیولر ملک ہے۔ یہاں مسلم انتہا پسندوں کی شکل میں کوئی علیحدہ شناخت بنائے رکھنے کی قطعی اجازت نہیں دی جا سکتی، جیسا کے ہمارے یہاں ’قدیم سناتن سنسکرتی‘ میں ضم ہونے کی وصییت ابھی ابھی آر ایس ایس کے سپریمو موہن بھاگوت نے کی ہے۔ ہماری حکومت جس طرز ہر نِت نئے قوانین لا کر ملک کے طول و عرض میں یکسانیت لانے کو بے چین ہے اور ’غیر ملک سے وفادار مذہب کے حاملین‘ کو حقِ شہریت سے ختم کرنے ک ی کوششیں تیز تر کر دی گئی ہیں۔ طلاقِ ثلاثہ، مدارس، مسلم اداروں کو مالی امداد وغیرہ کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف اقدامات مودی حکومت کرتی جا رہی ہے۔ فرانسیسی صدر نے بھی اعلان کیا ہے کہ مسلم انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے حکومت چاہتی ہے کہ وہ یہی کام قانونی راستوں سے انجام دے: فنڈنگ کی کڑی نگرانی، مساجد و مدارس کی نگرانی اور شریعت کے نام پر خواتین پر بندشیں لگانے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ حجاب اور اسکارف پر پابندی کو سخت بنانے کے لیے نئے قانون میں سرکاری اسکول و کالج، دفاتر، ساحلِ سمندر، پارک اور تفریحی مقامات کے ساتھ نجی اداروں میں بھی سر ڈھانکنے پر پابندی ہوگی۔ واضح ہو کہ بھارت کے عدالتی نظام نے جس طرح اقتدار اور اکثریتی سماج کے جذبات کے نام پر بعض امور میں اقلیتی سماج کے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا ہے، فرانس جیسا انتہائی آزاد، جمہوریت اور سیکولرازم کے اصولوں پر کاربند رہنے والا ترقی یافتہ ملک بھی مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے میں کوئی کَسر نہیں چھوڑنا چاہتا۔ وہاں کے میگزین چارلی ہیبڈو کے خلاف ایک معاملے میں مسلم تنظیموں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ تمام مذاہب کا یکساں احترام فرانسیسی آئین کا ایک جزو ہے۔ اس کے باوجود عدالت کے روبرو اپنے ایک تحریری بیان میں اس وقت کے فرانسیسی صدر نکولس سارکوزی نے اخبارکی غلطی کا دفاع کیا تھا۔ جب کہ ایک دیگر کیس میں عیسائی تنظیموں کو عدالت نے اس سے بر عکس فیصلہ سنایا تھا۔ دنیا اسلام کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر اقدام کر گزرنا چاہتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بھارت میں آئین اور سیکولرازم کے جسم کو باقی رکھ کر اور ان کی روح نکال کر ان کاموں کو بڑی چابک دستی کے ساتھ انجام دیا جا رہا ہے اور فرانس جیسے بعض مغربی ممالک یہی جنگ کھلم کھلا کھیلنا چاہتے ہیں۔ لیکن تمام یوروپ میں ایسا نہیں ہے۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکیل نے سن 2017 میں کھل کر بیان دیا تھا کہ اسلام شدت پسندی اور دہشت گردی کی وکالت نہیں کرتا اور ان کو ببانگِ دہل اپنی بات دنیا کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ سویڈن اور امریکہ وغیرہ ممالک میں بھی انصاف پسند آوازیں گوشے گوشے سے اٹھتی رہتی ہیں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے کہ بھارت میں ہندوؤں اور دلتوں کے بیچ خاصی تعداد میں ایسے لوگ آج کے بگڑے حالات میں بھی کھل کر مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ مایوسی کی کوئی وجہ نہیں اگر ملت اسلامیہ یک جسم ہو کر باطل کے خلاف کمر بستہ ہو جائے اور اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے کا عزم مصمم کر لے تو یوروپ کو اس کی تاریخ یاد دلائی جا سکتی ہے اور روحانیت و اخلاقیات سے عاری ہوتے جا رہے مغربی سماج میں اسلام کی فلاح و کامرانی کا مژدہ سنانے کی بھی ضرورت ہے۔ در اصل پوری دنیا کی جمہوریتوں میں اسلام اور مسلمان ایک انتخابی موضوع ہوتے ہیں جن کو اپنی حکمرانی کی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ فرانس ہو کہ امریکہ ہو یا بھارت کے سیاستداں، کوئی بھی ان سے الگ نہیں۔
سبق پڑھ پھر صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18-24 اکتوبر، 2020