اداریــــہ

کانگریس : داخلی احتساب کی ضرورت

 

۲۸/دسمبر کو انڈین نیشنل کانگریس کے قیام کو ۱۳۵ برس مکمل ہو رہے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ برطانوی سوِل سروس افسر ایلن او ھیوم (Allan Octavian Hume) نے جب اس پارٹی کے قیام میں سرگرم کردار ادا کیا تھا تب کون پیش گوئی کر سکتا تھا کہ یہ تیرہ دہائیوں بعد بھی زندہ رہے گی اور اس کی تقدیر ایک بیمار کارگزار صدر پر ٹکی ہوئی ہو گی۔ کانگریس کو یہ بات سمجھنے میں کافی مشکل پیش آرہی ہے کہ اب اس کا مقابلہ ایک عام سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ ایک ’چناؤ جیتنے والی مشین‘ سے ہے جو اپنے ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ کانگریس کی پشت پر اب ویسا ’کیڈر‘ نہیں ہے اور نہ مضبوط تنظیم ہے جیسا کہ بی جے پی کو میسر ہے۔ اس وقت ملک کے موجودہ حالات کئی اعتبار سے ’’غیر معمولی‘‘ ہیں۔ ملک کی سرکردہ شخصیات اور حزبِ اختلاف کی جانب سے گاہے بہ گاہے یہ کہنا کہ ملک میں ’غیر مُعلنہ ایمرجنسی‘ کی صورتحال پائی جاتی ہے، بے معنیٰ نہیں ہے۔ جمہوری اقدار و روایات کی پامالی، قوانین کو بحث و مباحثے کے بغیر منظور کروانے کے لیے ’’حکم نامہ‘‘ (آرڈیننس) کی آڑ لینا اور ایوانِ پارلیمان میں بلوں کو پیش کرنے سے گریز کرتے ہوئے آمرانہ طرز پر حکمرانی کے راستے نکالنا اس کا شیوہ بن چکا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کانگریس نے اقتدار میں رہتے ہوئے آرڈیننس کا استعمال اور صدر جمہوریہ کی آڑ میں من مانی نہیں کی، لیکن جس بے دردی، جارحانہ جرات اور دیدہ دلیری کا ثبوت موجودہ اربابِ اقتدار دے رہے ہیں اس سے ان کے مستقبل کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور اس کی سنگینی کو ملک کی اپوزیشن وقت رہتے بھانپ لے تو بہتر ہے۔ ۲۳، نومبر ۲۰۱۹ سنیچر کے روز، علی الصبح ۵ بج کر ۴۷ منٹ پر مرکزی داخلہ سکریٹری سے ایک حکمنامے پر ڈجیٹل دستخط کروائے گئے تاکہ مہاراشٹر میں اپنے پسندیدہ فرد دیویندر پھڈنویس کو ۸۰ گھنٹوں ہی کے لیے سہی، ۲۶، نومبر تک دوبارہ وزیرِ اعلیٰ کی کرسی پر براجمان کیا جاسکے۔ جس کی خاطر، صدر راج ختم کرنے کے لیے مرکزی کابینہ کی منظوری لینے والی شرط کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ حالانکہ خود صدر رامناتھ کووِند نے ۱۲، نومبر کو مہاراشٹر میں صدر راج نافذ کیا تھا۔ اس طرح دن دہاڑے شب خون مارنے کا کانگریس نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا۔ تیز طرّار بی جے پی نے گوا میں اپنی حکومت بنانے کے دوران کانگریس کے منھ سے نوالہ چھین لیا۔ دوسری جانب عین انتخابات سے قبل تین طلاق جیسے انتہائی متنازعہ بل سمیت متعدد آرڈیننس کو منظوری دی گئی جس کے لیے وزیرِ خزانہ ارون جیٹلی نے یہ دلیل دی تھی کہ
”…Extraordinary situations do call for such steps.”
’’بھارتی جمہوریت بے بس نہیں ہو سکتی، غیر معمولی حالات میں ایسے اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے‘‘ یعنی حکم راں پارٹی کے نزدیک ملک کے حالات ’غیر معمولی‘ ہیں چنانچہ وہ ایوانِ پارلیمان میں بلوں پر بحث کا راستہ ترک کر کے ’حکم ناموں‘ کا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔ بِعینہ یہی طریقہ ’غیر معمولی حالات‘ اور ’خصوصی‘ اختیارات کی دلیل کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم اور شق ۳۷۰ کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے اختیار کیا گیا جب The Gazette of India-Extraordinary, Part II, Section3(i
۶ اگست ۲۰۱۹ کو شائع کیا گیا۔ اس کے علاوہ آر ٹی آئی کو کمزور کرنا ہو، تفتیشی اداروں سے لے کر عدالت و انتظامیہ کو اپنی مٹھی میں کرنا ہو یا منتخب عوامی نمائندوں کی خرید و فروخت کا معاملہ ہو، جمہوریت کو کمزور کرنے والے ہر قسم کے اقدامات میں بی جے پی نے کانگریس کو بری طرح پچھاڑ دیا ہے۔ ریاستوں میں علاقائی پارٹیوں کے ساتھ ’استعمال کرو اور پھینک دو‘ والا رویہ ہو یا ملکی سطح پر ’کانگریس مُکت بھارت‘ کا نعرہ ہو، سیاسی جنگ میں بھی کانگریس نے بی جے پی کے لیے میدان کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ ان غیر معمولی حالات میں اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور سیاسی حریف سے مقابلے کے دوران کانگریس کو بھی زبردست قوتِ ارادی اور پوری تیاری کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہنا چاہیے تھا لیکن وہ اپنی گروہ بندیوں، اندرونی خلفشار اور مفاداتِ حاصلہ کے بوجھ تلے دب گئی ہے۔ مانا کہ، شرد پوار کے نکل جانے کے بعد، اب کانگریس میں ایسا لیڈر نہیں ہے جس کے تحت تمام گروپ متحد ہو سکیں، یہی وجہ ہے کہ کانگریس اپنے وجود کو باقی رکھنے کے لیے ’گاندھی خاندان‘ کی پناہ لینے پر مجبور ہے۔ حالانکہ کانگریس کئی ادوار سے گزری ہے لیکن یہ کڑوا سچ کیسے بھلا دیا جاتا ہے کہ موجودہ کانگریس، ھیوم کی بنائی ہوئی پارٹی نہیں ہے بلکہ یہ کانگریس پارٹی کا ’’اِندرا گروپ‘‘ ہے جسے قومی سطح پر چیلنج کرنے والی بی جے پی کے منظرِ عام پر آتے ہی گہن لگنے لگا ہے۔اب کانگریس کو طے کرنا ہے کہ وہ بی جے پی کو بھی دوسری پارٹیوں کی مانند بی محض ایک سیاسی حریف سمجھتی ہے، جیسا کہ ملک کے آسودہ حال طبقے نے اس کو باور کرا رکھا ہے، یا پھر وہ اعتراف کر لیتی ہے کہ اسے ایک غیر معمولی حریف سے مقابلہ درپیش ہے جو سیاسی اور نظریاتی ہی نہیں بلکہ زمینی کیڈر کی سطح پر بھی ایک بڑی طاقت ہے۔ سیاسی مقابلے کے لیے مضبوط تنظیم، صاف ستھرا نظریہ، واضح لائحہ عمل، شفاف حکمت عملی اور پختہ عزم و حوصلہ درکار ہے۔ بھارت جیسے تکثیری سماج میں تمام طبقات کا اعتماد حاصل کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ کانگریس کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ موجودہ ووٹر نے نہ جنگِ آزادی کی تاریخ دیکھی ہے اور نہ ہی وہ کانگریس کی قربانیوں سے واقف ہے بلکہ وہ اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں آنکھ کھولنے والا، آرزوؤں، امنگوں کو دل میں پالنے والا اور انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کو اپنی مٹھی میں کر لینے کی خواہش رکھنے والا جواں سال شہری ہے۔ لیکن اس کے ذہن کو زہر آلود کیا جا چکا ہے، جس کے دل میں نفرت کے بیج بو دیے گیے ہیں اور جس کے اردگرد مثبت سے زیادہ منفی ایجنڈے پر رشتے بنتے یا بگڑتے ہیں۔ لہٰذا کانگریس کو سب سے پہلے خود کے نظریے کو درست کرنا ہوگا تاکہ وہ اور اس کے ورکرز بی جے پی و آر ایس ایس کے دامِ فریب میں آنے سے بچے رہیں۔ اپنے اندر کے فساد کو دور کرنا ہوگا تاکہ مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے خود کو محفوظ رکھ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے کھوئے ہوئے ’کیڈر‘ کی تیاری کا عمل شروع کرنا بھی ضروری ہے۔ اسے پتہ ہی نہیں چل سکا کہ کس طرح اس کا اپنا کیڈر کھسک کر مخالف کیمپ میں پہنچ چکا ہے اور اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ مختلف سطحوں کی قیادتیں بھی اس کے ساتھ وابستگی کے سوال پر تذبذب کا شکار ہیں اور مخالف کیمپ کی ایک معمولی پیش کش پر ادھر چھلانگ لگانے کو تیار ہیں۔ پارٹی میں جان ڈالنے کے لیے لیپا پوتی کرنے کا وقت اب جاچکا۔ اسے پارٹی کے بزرگوں اور جوانوں کے درمیان کی چپقلش کو ختم کرنے اور گروہ بندیوں کی کھائی کو بلا تاخیر پاٹنے کی ضرورت ہے۔ رہی بات مسلمانوں کی، تو انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان کا کوئی سیاسی والی نہ کبھی تھا اور نہ ہے۔ مسلمان موجودہ لاغر کانگریس کو اب بھی ایک سیاسی متبادل خیال کرتے رہیں یا اسے نظرانداز کر کے کسی اور کا دامن تھام لیں، یا الگ الگ صوبوں میں الگ الگ گوشہ ہائے عافیت تلاش کریں یا جمہوری اقدار کو تھام کر اپنے بل بوتے پر اپنی قیادت پیدا کریں یا شراکت و شمولیت پر مبنی اپنا فلاحی نظریہ حکم رانی لے کر میدان میں آئیں اور دیگر طبقات کو ساتھ لے کر آمریت و کلیت پسندانہ نظریات کا مقابلہ کریں؟ اس سوال کا جواب انہیں خود تلاش کرنا ہوگا۔ کانگریس نے ان کی قیادت کو نہ صرف پنپنے سے روکا بلکہ الٹا بیخ کنی کی ہے اور اکثریت کی منھ بھرائی کرتے ہوئے ’’توازن‘‘ کی آڑ میں ان کی دینی وسماجی تنظیموں کے ساتھ بھی ناانصافی کی ہے۔ آج بھی وہ ایک خیالی ’نرم ہندوتوا‘ کی راہ پر چلنے ہی میں عافیت سمجھ رہی ہے۔ بی جے پی نے علاقائی پارٹیوں کو بھی بڑی حد تک مسلمانوں کے جائز موقف میں ان کی حمایت کرنے سے عاجز بنا رکھا ہے۔ تازہ ترین مثال حیدرآباد کے بلدی انتخابات میں بی جے پی نے ۴۸ سیٹوں پر کامیابی حاصل کر کے حکم راں تلنگانہ راشٹر سمیتی کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود ابھی تک مجلس اتحاد المسلمین کی حمایت لینے یا دینے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہے کہ کہیں بی جے پی اس کے اس اقدام کو بنیاد بنا کر اسے ’’ہندو مخالف‘‘ یا ’’مسلم نواز‘‘ کے طور پر پیش نہ کر دے اور اس کی رہی سہی زمین بھی پاؤں تلے سے کھسک نہ جائے۔
کانگریس کو علاقائی جماعتوں کے ساتھ ان کی عزت و وقار کا لحاظ کرتے ہوئے معاہدے کرنا چاہیے نہ کہ اپنی اَنا کی بنیاد پر؟ اسی طرح مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ قبائلیوں، دلتوں اور غیر برہمن ذاتوں کو بھی ان کی آبادی کے لحاظ سے نہ سہی، خاطر خواہ اضافی نمائندگی دینے اور فیصلہ سازی میں شامل کرنا چاہیے۔ کانگریس جیسی قومی پارٹی کا وجود ملک میں ایک صحت مند جمہوریت اور سیکیولرزم دونوں کی بقا کے لیے لازمی ہے۔ بی جے پی کی اپنی بنیادیں بہت زیادہ پائیدار نہیں ہیں بلکہ وہ پختہ اور مضبوط اپوزیشن کے خلا کو پُر کر رہی ہے۔ کانگریس کو چاہیے کہ اپنی مسلسل ناکامیوں کے لیے دوسرے عناصر کو ذمہ دار قرار نہ دے۔ جس دن وہ نفاق سے پاک ہو کر ووٹروں کے سامنے آئے گی اس وقت تک ممکن ہے وہ بی جے پی کی اصلیت جان کر اس کی ’جملے بازی‘ سے تنگ آچکے ہوں گے، لیکن اگر ان کے سامنے بی جے پی سے زیادہ مضبوط کوئی پارٹی موجود نہ ہو تو پھر وہ بی جے پی کو ہی ووٹ دینے پر اپنے آپ کو مجبور پائیں گے۔ کانگریس کو اس الزام سے بھی پاک ہونا ہو گا کہ وہ بھی کسی نہ کسی حد تک سَنگھ اور اس کے نظریات و مقاصد کی تکمیل کے لیے کام کرتی ہے۔ کانگریس اس ملک میں اگر اپنی ماضی کی بنیاد پر سیاست کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے اخلاقی، آئینی اصول و اقدار سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ اب ’پِدرم سلطان بود ‘ والی خُو کانگریس کو بچا نہیں سکتی اور نہ گومگوں والی کیفیت اس کی ڈوبتی کشتی کو ساحل پر لا سکتی ہے۔ بغیر کسی لیت و لعل کے، اسے خود کو اپنے اصل چہرے کے ساتھ پیش کرنا ہوگا ورنہ ملک کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس کی اعلیٰ کمان کوئی ’گاندھی‘ سنبھالتا ہے یا کوئی اور!

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21