اداریــــہ

حیدرآباد کے بلدی انتخابات اور ہندوستانی سیاسی کلچر

 

یکم دسمبر کو حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوئے اور جس وقت یہ سطور آپ پڑھ رہے ہوں گے ان کے نتائج آچکے ہوں گے۔ ہندوستان جیسے عظیم ملک میں جہاں ہر سال کسی نہ کسی سطح کے انتخابات ہوتے رہتے ہیں وہاں کسی شہر کے بلدیاتی انتخابات اتنا اہم واقعہ نہیں ہیں کہ اس پر بہت خصوصیت سے ساتھ گفتگو کی جائے۔ لیکن حیدرآباد کے حالیہ انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں بالخصوص مرکز کی حکم راں جماعت نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی شہر کے بلدیاتی انتخابات نہیں بلکہ اسمبلی یا پارلیمنٹ کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ حکم راں جماعت نے ریاستی قائدین ہی نہیں بلکہ قومی سطح کے مختلف قائدین اور دیگر ریاستوں کے لیڈروں بھی کو انتخابی میدان میں اتار دیا تھا، یہاں تک کہ مرکزی وزیر داخلہ نے بھی ان بلدیاتی انتخابات کو ملک کے دارالحکومت میں ہونے والے کسانوں کے شدید احتجاج سے زیادہ اہم سمجھا اور ان کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے سیدھے حیدرآباد پہنچ گئے اور انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ یقیناً ہر پارٹی اپنی انتخابی مہم کو اپنے طور پر چلانے کے لیے آزاد ہے اور وہ اپنے کسی بھی قائد کو اس کے لیے استعمال کرسکتی ہے، لیکن جب کوئی فرد ملک کی کسی اہم ذمہ داری پر فائز ہوتا ہے تو ملکی سطح کے مسائل اور اس منصب کے تحت عائد ذمہ داریوں کی ادائیگی ہی اس کی اولین ترجیح ہونی چاہیے کیوں کہ وہ محض کسی سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ پورے ملک کی عوام کا قائد ہو جاتا ہے۔ لیکن جب ملک اور ملک کے مفاد سے زیادہ اقتدار کا حصول اور انتخاب جیتنا ہی اصل مقصد قرار پاتا ہے تو پھر اسی طرح کے رویوں کا ظہور ہوتا ہے۔
حیدرآباد کے میونسپل الیکشن کی انتخابی مہم کے سلسلے میں دوسرا سب سے تشویش ناک مسئلہ اس مہم کی کیفیت اور اس کا معیار ہے۔ مختلف پارٹیوں خاص طور پر حکم راں جماعت نے حیدرآباد میں جس طرح کی انتخابی مہم چلائی ہے اس نے ہندوستان کی جمہوری و انتخابی روایات اور ملک کے سماجی تانے بانے کی بقا کے متعلق کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور ملک کے سنجیدہ شہریوں کو ملک کے مستقبل کے بارے میں گہرے تفکر میں ڈال دیا ہے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا یہاں انتخابات کے موقعوں پر ہونے والے سنجیدہ مباحث، عوام کے بنیادی مسائل پر گفتگوئیں، اچھی حکم رانی اور ملک کی ترقی کی باتیں، مخالف جماعتوں کی تنقیدوں اور تجاویز پر سنجیدہ غور و فکر، ان کو مطمئن کرنے والے جوابات، تنقید کے لیے معیاری زبان اور سنجیدہ اسلوب کے ساتھ ہونے والی تقریریں اور گفتگوئیں اب صرف تاریخ کا حصہ بن جائیں گی؟ اور ان کی جگہ جھوٹ، مخالفین پر گالی گلوج، اشتعال انگیز بیانات، بھونڈی زبان، غیر سنجیدہ و بازاری انداز میں کی جانے والی جذباتی تقریروں اور غیر اہم ایشوز پر ہی انتخابات لڑے جائیں گے؟ کیوں کہ حیدرآباد کی بلدیاتی انتخابی مہم کو دیکھنے سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ حکمراں جماعت کے قائدین نے اپنی سابقہ روایات کے مطابق حیدرآباد میں بھی انہی گھسے پٹے موضوعات اور ویسی ہی سطحی زبان و اندازِ بیان کو اختیار کیا ہے جو وہ اس سے قبل دلی اور بہار کے ریاستی انتخابات کے مواقع پر استعمال کر چکے ہیں۔ پارٹی کی ریاستی یونٹ کے صدر نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ اگر ان کی پارٹی میونسپل انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو حیدرآباد کے پرانے شہر پر ‘سرجیکل اسٹرائیک’ کرے گی اور وہاں موجود پاکستانیوں، بنگلہ دیشیوں اور روہنگیاؤں کو باہر نکالے گی۔ آخر اس دھمکی نما بیان سے وہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ وہیں ایک اور لیڈر کی دل چسپی شہر کے نام کو تبدیل کرنے سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری پارٹی کامیاب ہو گی تو شہر حیدرآباد کا نام بدل کر بھاگیہ نگر کر دیا جائے گا۔ گویا کہ نام کی تبدیلی کے ساتھ ہی شہر کے عوام کی قسمت بھی بد ل جائے گی۔ مہم کے دوران ایک خاص طبقے کو نشانہ بنانے کے لیے بار بار نظام دکن اور نظام دور حکومت کا نام بھی استعمال کیا گیا۔ ایک نوجوان لیڈر نے اپنی انتہائی غیر معقول تقریر میں کہا کہ ’اویسی جناح کے جدید اوتار ہیں‘ اور یہ کہ ‘بی جے پی کو دیا جانے والا ہر ووٹ ہندتوا کے لیے ہوگا’۔ کسی بھی سیاسی پارٹی، اس کی حکمت عملی اور پالیسیوں سے ہر کسی کا اتفاق رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔ ان پر معقول انداز سے تنقید کی جاسکتی ہے، ان کی ناکامیوں کو اجاگر کیا جا سکتا ہے لیکن ان سب کے برعکس اس طرح کی نامعقول زبان اور غلط الفاظ کے استعمال سے آخر اس ملک کی حکم راں جماعت سیاسی مکالمے کے معیار کو کس سطح پر لے جانا چاہتی ہے؟
دوسری جانب یہ ایک حقیقت ہے کہ شہر حیدرآباد کے لوگ بھی ملک کے دیگر شہروں کی طرح بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ عوام کو یہ توقع تھی کہ بلدی انتخابات میں ان کے بنیادی مسائل پر گفتگو ہوگی۔ کوئی تو ایسی پارٹی ہوگی جو ان مسائل کو اپنا موضوع بنائے گی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس انتخابی گہما گہمی میں خود ووٹر ہی کہیں گم ہو گیا ہے۔ اس کے مسائل پارٹیوں کے مفادات کے بوجھ تلے دبا دیے گئے ہیں۔ حالاں کہ اسے روز مرہ کی زندگی میں کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ پینے کے لیے صاف پانی، رہائش، سیوریج، اچھی سڑکیں اور نہ جانے کن کن مسائل سے وہ روزآنہ جنگ لڑتا رہتا ہے۔ کہنے کو یہ عظیم تر اور بین الاقوامی معیار کا شہر ہے، اسے انفارمیشن ٹکنالوجی کا ہب بھی کہا جاتا ہے لیکن ایک عام آدمی کے لیے یہاں زندگی کس قدر دشوار ہے یہ وہی جانتا ہے جو ہر روز ان مسائل سے گزرتا ہے۔ اس کے لیے یہاں بہتر زندگی کا تصور گویا ہمالیہ کی چوٹی سر کرنے کے برابر ہے۔ شاید اسی لیے حیدرآباد کے ووٹروں سے کیے گئے ایک سروے میں 95 فیصد نے اس تجویز کی تائید کی کہ انتخابات کے بعد اگر کوئی نمائندہ کام نہ کرے تو اسے منصب سے ہٹانے کا اختیار بھی رائے دہندوں کو ملنا چاہیے، کیوں کہ منتخب ہونے کے بعد کارپوریٹرس پر ان کا کوئی اختیار نہیں رہتا۔ دی کوئنٹ کے اس سروے کے مطابق تقریباً ستر فیصد رائے دہندوں کا کہنا تھا کہ کارپوریشن کے کامیاب کارپوریٹر اپنی میعاد کے دوران کوئی کام نہیں کرتے، وہ صرف انتخابات سے پہلے سرگرمی دکھاتے ہیں۔ یہ کسی ایک پارٹی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ وہ حمام ہے جس میں سب ہی برہنہ ہیں۔ اس سروے کا ایک دل چسپ انکشاف یہ ہے کہ جواب دہندگان کی 78 فیصد تعداد کام نہ کرنے والے نمائندوں سے اتنی بے زار ہے کہ وہ اس کے لیے وسط مدتی انتخاب کی پریشانی بھی جھیلنے کو بھی تیار ہے، جب کہ ہمارے وزیر اعظم ‘ایک ملک ایک انتخاب’ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ حالانکہ واپس طلب کرنے کا حق ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس میں بھی کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں لیکن اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام خود اپنے ہی منتخبہ نمائندوں کی کارکردگی سے کس قدر مایوس ہو چکی ہے۔
بہرحال یہ اور اس سے قبل ہونے والے مختلف سطحوں کے انتخابات اور ان کی انتخابی مہمات ملک کے سیاسی کلچر اور سیاست دانوں کے مفاد پرستانہ رویے کی عکاسی کرتے ہیں جس میں کافی عرصے سے بگاڑ ہوتا آیا ہے اور آج یہ اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اب بھی عوام اس کی سنگینی کو محسوس نہیں کریں گے اور ان کی اصلاح کے لیے بروقت اور مناسب اقدام نہیں کریں گے تو ایک طویل عرصے کا پچھتاوا ان کا مقدر ہو جائے گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020