اداریــــہ

ٹیکہ اندازی کا خیر مقدم لیکن۔۔۔

 

۷؍ جون کی شام وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک سے خطاب کرتے ہوئے کووڈ وبا اور ٹیکہ اندازی کی پالیسی سے متعلق بعض اہم اعلانات کیے ہیں۔ سب سے اہم اعلان ٹیکہ اندازی کی پالیسی کے متعلق ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اب مرکز کی جانب سے تمام لوگوں کے لیے مفت کووڈ ٹیکہ فراہم کیا جائے گا۔ حالانکہ ماہ مئی کے وسط میں مرکز نے آزاد ویکسینیشن پالیسی کو اختیار کرتے ہوئے صرف ۵۰ فیصد ٹیکوں کی خریداری اور فراہمی کا ذمہ اپنے سر لیا تھا جس کے ذریعے ۴۵ سال سے زائد عمر کے لوگوں ہی کو مفت ٹیکہ دیا جانے والا تھا۔ جب کہ ۱۸ سے ۴۴ سال کی عمر کے افراد کو یہ ٹیکہ مفت نہیں بلکہ معاوضے پر ملنے والا تھا۔ اس کے لیے ۲۵ فیصد ٹیکے ریاستی حکومت اور ۲۵ فیصد ٹیکے نجی اسپتال خرید کر ایک متعین قیمت پر لوگوں کو فراہم کرنے والے تھے۔ دو ایک ریاستوں کے سوا تمام ہی ریاستی حکومتیں اس سے ناراض تھیں اور اس پر کافی اعتراضات کیے جارہے تھے۔ مرکز کے کہنے کے بعد کچھ ریاستوں نے عالمی بازار میں ٹینڈر بھی جاری کیے لیکن بڑی کمپنیوں نے واضح کیا کہ وہ صرف مرکزی حکومت سے معاملت کریں گی۔
بالآخر سپریم کورٹ کی ڈانٹ اور اس پالیسی کو من مانی اور غیر معقول قرار دینے کے بعد مرکزی حکومت نے اپنی غلطی کی اصلاح کرلی اور تمام لوگوں کے لیے ٹیکہ کی فراہمی کا اعلان کر دیا۔ ریاستی حکومتوں، اپوزیشن اور مختلف تجزیہ نگاروں نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ توقع ہے کہ اس سے ویکسینیشن کے کام میں تیزی پیدا ہو گی۔
ٹیکہ اندازی کی پالیسی سے متعلق اس اعلان کے علاوہ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کئی اور باتیں بھی کہیں جن میں بعض باتیں خلاف واقعہ بھی ہیں اور بعض باتیں غیر ضروری اور مبالغے کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکہ اندازی کے کام میں ہونے والی رکاوٹ اور اس بحران کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں کے سر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ریاستوں نے بروقت ویکسین کی خریداری نہیں کی جس کی وجہ سے ملک میں ویکسین کی قلت پیدا ہو گئی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مرکز نے جب یہ کام اپنے ذمہ لیا تھا تو اس نے مختلف دواساز کمپنیوں کو اپنے آرڈر دینے میں کافی تاخیر کر دی تھی۔ دنیا کے اکثر ممالک نے گزشتہ سال ماہ جون تا اگست کے دوران ہی اپنے لیے ویکسین کے آرڈر دے دیے تھے جب کہ ہندوستان نے یہ کام جنوری ۲۰۲۱ تک بھی نہیں کیا۔ کیوں کہ ہمارے وزیر اعظم کے مطابق ہم نے تو ویکسین کے بغیر ہی کووڈ کو شکست دے دی تھی۔ لیکن کورونا کی دوسری لہر نے جب اس دعوے کی قلعی کھول دی اور اس وقت ویکسین کی قلت پیدا ہوئی تو انہوں نے یہ ذمہ داری ریاستوں کے سر ڈال دی۔ ریاستوں میں سے دہلی اور پنجاب نے جب فائزر اور موڈرنا کمپنیوں سے ویکسین خریدنے کی کوشش کی تو ان کمپنیوں نے ویکسین فراہم کرنے سے انکار کر دیا کیوں کہ انہوں نے کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی سے استثنیٰ کا مطالبہ کیا اور یہ استثنیٰ ریاستی حکومت نہیں بلکہ مرکزی حکومت ہی دے سکتی تھی۔ اس کے باوجود وزیر اعظم ریاستوں پر ویکسین کی خریداری نہ کرنے کا الزام کیسے لگا سکتے ہیں؟
جہاں تک اپنے خطاب میں خلاف واقعہ باتیں بیان کرنے کا معاملہ ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے لیے یہ ایک معمول کی بات بن چکی ہے، ہم نے این آر سی اور سی اے اے کے متعلق پارلیمنٹ کے ایوانوں میں تقریر کے دوران انہیں غلط بیانی کرتے ہوئے سنا ہے۔ ہمیں امید تھی کہ اس خطرناک وبا کے متعلق خطاب کرتے ہوئے وہ ملک اور اس کی عوام کے سامنے کوئی غلط بیانی نہیں کریں گے لیکن ’ائے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت نے ملک میں ویکسین بنانے والی کمپنیوں کو ہر طرح سے مدد فراہم کی ہے، کلینکل ٹرائلس اور ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کے لیے آتم نربھر بھارت پیکیج کے تحت مشن کووڈ سرکھشا کے ذریعے ہزاروں کروڑ روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے جو حلف نامہ داخل کیا گیا ہے اس میں حکومت نے خود اقرار کیا ہے کہ بھارت بائیوٹیک اور سیرم انسٹیٹیوٹ نامی کمپنیوں کو کلینیکل ٹرائلس کے لیے محض ۴۶ کروڑ روپے دیے گئے ہیں۔اسی حلف نامے میں حکومت یہ کہتی ہے کہ ان دو کمپنیوں کو ٹیکوں کی تیاری میں ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کے لیے کوئی رقم نہیں دی گئی۔ اگرچہ بعد میں حکومت نےان کمپنیوں کو کچھ ہزار کروڑ روپے وہ بھی بطور قرض دینے کی بات کہی ہے، لیکن یہ بھی ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کے لیے نہیں ہے۔ سپریم کورٹ میں حکومت نے کہا کہ ہم نے زیادہ رقم مینوفیکچرنگ کے لیے دی ہے تحقیق کے لیے نہیں۔ لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم غلط بیانی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے کلینیکل ٹرائلس اور ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے لیے ہزاروں کروڑ روپے دیے ہیں۔
وزیر اعظم نے خطاب کے دوران اشاروں کنایوں میں اپوزیشن بالخصوص کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بعض طبقات کی جانب سے ویکسین کے متعلق لوگوں میں غلط فہمی پھیلائی گئی اور لوگوں کو ایک طرح ٹیکہ لینے سے روکا گیا ہے۔حالانکہ خود وزیر اعظم نے اپریل کے دوران وزرائے اعلیٰ کے اجلاس میں انتہائی فخر کے ساتھ یہ اعلان کیا تھا کہ ہم نے ویکسین کے بغیر ہی کووڈ کو شکست دے دی ہے۔ اگر ملک کا وزیر اعظم ہی ٹیکے کے بغیر کووڈ کو شکست دینے کا اعلان کرے تو عوام کیوں ٹیکے لینے کی زحمت گوارا کرے گی؟ دوسری جانب وزیر اعظم کے قریبی بابا رام دیو نے اپنی گفتگووں میں ٹیکوں کا مذاق اڑایا اور لوگوں کو اس سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ کیا وزیر اعظم نے اس بیان بازی پر کوئی کارروائی کی؟
یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وزیر اعظم کے سامنے کووڈ کی مصیبتوں کو جھیل رہی عوام نہیں بلکہ کسی انتخابی جلسے میں شریک لوگ ہیں جنہیں وہ اپنے کارناموں سے اگلے انتخاب میں کامیاب کروانے کی اپیل کر رہے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ عوام کو زمینی سطح پر جس پریشانی اور مصیبت کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کے بعد وہ ایسی بے سروپا اور غلط باتوں پر یقین کرنے والے نہیں ہیں۔ یقیناً ٹیکہ اندازی کی لبرل پالیسی سے رجوع کرنا ملک کی عوام کے لیے ایک اچھی بات ہے، مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کی ڈانٹ کے بعد ہی سہی اس پالیسی میں جو اصلاح کی ہے اس کے لیے اس کی تحسین کی جانی چاہیے لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کی محض تعریف و توصیف سے آگے بڑھے اور ہر معاملے کو محض انتخابی عینک سے دیکھنے اور اسے انتخابات میں کامیابی کے لیے استعمال کرنے کے بجائے عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دے کر انہیں حل کرنے کی کوشش کرے۔ ساتھ ہی اس کے نفاذ میں پائے جانے والے نقائص اور خامیوں کو بلا تاخیر دور کرنے کی کوشش کرے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021