اداریــــہ

صحت کے ساتھ دھوکہ !

 

ایک سال قبل ۱۴، اپریل ۲۰۲۰ کی دوپہر مرکز کی این ڈی اے حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ کورونا کے شکار مہلوکین کے وارثین کو مبلغ ۴ لاکھ روپے ایکس گریشیا دے گی۔ لیکن وزارتِ داخلہ نے اسی دن پانچ بج کر ۴۵ منٹ پر نیا حکمنامہ جاری کیا جس میں کورونا کو ‘آفت‘ کے زمرہ میں شامل کرتے ہوئے اس میں وبا کے مہلوکین کو دی جانے والی مالی امداد کا ذکر ہی ہٹا دیا تھا۔ یوں اپنے فیصلے بدلنے کے لیے مشہور حکومت کے کھاتے میں مزید ایک ’یوٹرن‘ درج ہو گیا۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے بعد کے دنوں میں بے سہارا مزدوروں کو چلچلاتی دھوپ میں مرنے کے لیے بے یار مددگار چھوڑ دیا تھا۔ اب جب کہ اپنے شہریوں کو کورونا ٹیکہ اندازی کا مرحلہ در پیش ہے تو حکومت عالمی بازار میں اپنی دواساز کمپنیوں کے تیار کردہ ویکسین بیچ کر پیسہ کمانے کی فکر میں ہے۔ حالانکہ بعض پڑوسیوں کو ٹیکے مفت بھی دیے گئے جس کے لیے نیپال کے وزیر اعظم نے شکریہ بھی ادا کیا۔ ان کو پہلے تو ۵۰ لاکھ سے زائد ٹیکے ’تحفتاً‘ پیش کیے گئے اور اگلی کھیپ کے ٹیکے کم نرخ میں دیے جانے کی بات بھی ہوئی۔
واضح رہے کہ ملک میں اب تک مجموعی طور پر ایک کروڑ ۱۲ لاکھ کووِڈ مثبت مریض درج ہوئے ہیں جن میں سے ایک لاکھ ۵۷ ہزار سے زائد افراد موت کی آغوش میں چلے گئے۔ گجرات کے محکمہ صحت کا ایک کارکن ۱۶ جنوری اور ۱۵ فروری کو دو بار ٹیکہ لینے کے باوجود کووِڈ پازیٹیو پایا گیا۔ بعض جگہوں پر ٹیکہ لینے کے بعد طبیعت کے بگڑنے یا کسی کے مرنے کی خبریں بھی آئی ہیں لیکن حکومت اور دواساز کمپنیوں نے اس طرح کے خدشوں سے عوام کو واقف کروانے کے لیے کما حقّہ انتظامات نہیں کیے۔ البتہ جب خود صدر جمہوریہ، وزیر اعظم اور دیگر سیاست دانوں نے آگے بڑھ کر ٹیکے لیے تب جاکر لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکا۔ ابھی تک کے تین مرحلوں میں ہم اپنی۱۳۰ کروڑ کی آبادی میں محض دو کروڑ سے بھی کم (1.94کروڑ) شہریوں کو ٹیکے لگا سکے ہیں۔ اگر ملک کی تمام آبادی کو ٹیکے لگانے ہوں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کتنا بڑا مرحلہ ہے اور اس پورے عمل سے کتنا بڑا کاروبار وابستہ ہے؟
بنگلورو کی بایوکون (Biocon) کمپنی کی سربراہ اور ایم ڈی کِرن مَجمدار شا نے حیرت انگیز طور پر یہ کہہ کر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس نے دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ حکومت نے نجی اسپتالوں کو ٹیکہ لگانے کی اجازت تو دی لیکن اس کی قیمت صرف ڈھائی سو روپے مقرر کی۔ اس میں ایک خوراک کی قیمت ۱۵۰ روپے اور سو روپیے سروس چارج ہے۔ جب اسی بنگلورو شہر کی ایک جہد کار دِشا روی کسانوں کی حمایت کرنے پر گرفتار ہوئی تھیں اس وقت تو ان کِرن میم کی زبان بند ہو گئی تھی لیکن آج جب اپنے کاروبار پر زد پڑ رہی ہے اور منافع میں کٹوتی نظر آرہی ہے تو وہ حکومت کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ سرمایہ داروں کو عام شہریوں کی پروا اسی وقت تک رہتی ہے جب تک کہ ان کے کاروباری مفادات محفوظ رہتے ہیں۔ جب ان کے منافع پر ضرب پڑتی ہے تو وہ کسی اقتدار کی حمایت یا مخالفت کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ نیز اقتصادیات کا یہ اصول بھی یہاں غلط ثابت ہوگیا کہ "امیروں سے پیسہ رِس رِس کر غریبوں تک پہنچتا ہے‘‘۔ یہاں تو غریبوں سے زیادہ سے زیادہ ہمدردی کی ضرورت تھی لیکن ایسے موقع پر بھی یہ سرمایہ دار عوام کو کوئی راحت دینا نہیں چاہتے۔ یہاں یہ بات ایک بار پھر ثابت ہو گئی کہ فلاحی جمہوریتوں میں کمزور اور غریب طبقات کے مفادات کا تحفظ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ ان کے حق میں اقدامات کرنا اور ان کو کھلے بازار کے استحصالی نظام کی مار سے بچانا لازم ہے۔ اگر اس کے لیے سخت اقدامات نہ کیے گئے تو کاروباری لوگ عوام کو لوٹنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے، چاہے وہ دواساز کمپنیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی بات تیل کی قیمتوں کے معاملے میں حکومت پر بھی صادق آ رہی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ دراصل عام آدمی کی جیب پر ڈاکہ ہے جب کہ تیل کمپنیاں ان نازک حالات میں بھی منافع خوری کرتے تھک نہیں رہی ہیں۔ وہی پیسہ مختلف ناموں سے سرکاری تجوری میں پہنچتا ہے پھر سرکاری بجٹ کی تجاویز اور دیگر طریقوں سے یہ پیسہ بالواسطہ طور پر سرمایہ داروں کی جیب میں پہنچ جاتا ہے۔ لیکن جب حکومت ذرا کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے تو وہ کِرن شا جیسے کاروباریوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔
امریکہ کے شہر فلوریڈا میں خاص لوگوں کو ویکسین لگانے کے لیے پہلے سے طے شدہ عام لوگوں کو ان کے بکنگ سلاٹس رد کر کے واپس بھیج دیا گیا تو یومِ خواتین پر ٹویٹر ہیش ٹیگ چلائے گئے کہ ’صحت کا حق بھی حقِ خواتین‘ کے تحت آتا ہے۔ ادھر سعودی حکومت نے بھی تمام عازمینِ حج کے لیے ویکسین کو لازم کر دیا ہے۔
ویکسین کی فروخت میں ’کھلے بازار‘ اور سرکاری کنٹرول کے بیچ کی لکیر بھی انتہائی مدھم سی ہے۔ فائزر کمپنی کا ٹیکہ ہول سیل میں بیس ڈالر یعنی تقریباٌ ڈیڑھ ہزار روپے میں ملتا ہے۔ ماڈرناکے ٹیکے قریب تیرہ سو روپے میں دستیاب ہیں، جب کہ اسٹرا زینیکا آکسفورڈ چار ڈالر میں اپنا ٹیکہ بیچ رہے ہیں جس کو بھارت میں ’کووِیشیلڈ‘ کے نام سے فروخت کیا جا رہا ہے۔ عالمی قیمت کے اعتبار سے اسے چار سو روپیوں میں فروخت ہونا چاہیے لیکن حکومت چاہتی ہے کہ نجی اسپتال والے اس کی ڈھائی سو روپے سے زیادہ قیمت وصول نہ کریں۔ جو حکومت گیس اور ایندھن کی قیمتوں میں اپنی (ٹیکسوں) کی کمائی سے پائی بھی کم نہ کرے وہ دواساز کمپنیوں اور اسپتالوں سے ان کا منافع کم کرنے کی توقع کر رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس طرز عمل سے نجی کمپنیاں مزید سرمایہ کاری کرنے سے خود کو باز رکھیں گی۔
ویسے حکومت کو یہ اندازہ تو پہلے ہی ہو جانا چاہیے تھا کہ ملک کی ۱۳۰ کروڑ آبادی کے لیے ٹیکہ اندازی کا کام سرکاری مشینری اپنے بل بوتے پر انجام نہیں دے سکتی تھی۔ ۲ مارچ سے حکومت نے اس کام میں نجی شعبے کے اسپتالوں کو بھی شامل کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تیسرے مرحلے میں ۵ مارچ کے روز ایک ہی دن میں ریکارڈ ۱۵ لاکھ ٹیکے لگائے گئے۔ ۱۶ جنوری ۲۰۲۱ کو ٹیکہ اندازی کے پہلے مرحلے میں صحت و صفائی اور نظم و انصرام سے وابستہ ملازمین اور شہریوں کو کووِڈ ویکسین کے ڈوز دیے گیے تھے۔ یکم مارچ کے دوسرے مرحلے میں سرکاری اسپتالوں میں مفت اور نجی اسپتالوں میں قیمتاً ویکسین فراہم کرائی گئی۔ اس بار ۶۰ برس سے زائد عمر کے تمام اور ۴۵ سال سے زائد عمر کے ان شہریوں کو ٹیکہ اندازی مہم میں شامل کیا گیا جن کو کوئی اور بیماری لاحق ہو گئی ہو۔ تیسرے مرحلے کے تحت ۵ مارچ کو کورونا ویکسین اس کی گارنٹی اور اس کی قیمت سے لے کر اس کو شہریوں تک لے جانے کے تمام مراحل کے درمیان عوام کو شفاف اور واضح ہدایات نہیں مل سکی تھیں اسی لیے مختلف افواہوں کے پنپنے کے مواقع پیدا ہوئے۔
ان دنوں مہاراشٹر، گجرات، کیرالا، تمل ناڈو، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور پنجاب میں کورونا کے نئے کیسوں میں مسلسل اضافہ درج ہو رہا ہے۔ بعض مقامات پر پھر لاک ڈاؤن کا انتباہ دیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں ملک کی ترجیح یہ ہونی چاہیے تھی کہ کورونا کو ختم کرنے پر سب متفق ہو جائیں لیکن کارپوریٹس کی خود غرضی، لالچ اور منافع خوری کی عادت ایک بار پھر آشکار ہو گئی۔ آکسفام کی رپورٹ نے پچھلے مہینے ہی بتا دیا تھا کہ دنیا بھر میں کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کی تعداد میں قابلِ لحاظ اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر بھارت کے کارپوریٹس نے اپنے کاروبار اور سرمایہ کاری میں کافی نمایاں کارکردگی درج کی ہے۔ اس کے برخلاف عام آدمی کے مقدر میں پریشانیاں ہی رہ گئیں۔ ایک طرف لاک ڈاؤن کے دوران دیکھا گیا کہ لوگ اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر کورونا کی مار جھیلنے والوں کی جان و مال سے خدمت کر رہے تھے اور دوسری جانب ویکسین کے معاملے میں منافع کمانے کی یہ دوڑ دیکھی جا رہی ہے۔
مرکزی حکومت نے کافی دن پہلے ایک اچھا قدم اٹھایا تھا جب غریب لوگوں کو سستے داموں میں دوائیں مہیا کروانے کے لیے ملک بھر میں جَن اَوشدھی (जन औषधि) دوکانوں کا قیام عمل میں لایا تھا۔ ان میں برانڈ والی دواؤں کی بجائے جنریک دوائیں فروخت کی جاتی ہیں۔ جہاں آدھی قیمت میں بلکہ بعض دوائیں نوے (۹۰) فی صد تک کم قیمت میں دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ عوام کو راحت دینے کی ایک چھوٹی سی کوشش تھی لیکن جب گیس اور تیل کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں تو اس اچھی کوشش کو گہن لگ جاتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات جی ایس ٹی کے دائرہ سے باہر رکھی گئی ہیں نتیجتاً مرکزی اور ریاستی حکومتیں دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہی ہیں۔ بالخصوص ڈیزل کی قیمت بڑھنے کا اثر روز مرہ کی اشیائے ضروریہ کے مہنگے ہونے کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ان پریشان کن معاشی حالات میں کیا مصیبت زدہ عوام کو مفت ویکسین فراہم کرانے کے لیے ’’پی ایم کیئر فنڈ‘‘ کے استعمال کی بات کی جاسکتی ہے؟ کیا عوام کی صحت اور ان کی جان کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے؟ آخر عوام کی صحت کے ساتھ دھوکہ کب تک کیا جاتا رہے گا؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021