احتیاط اور احساس جرم میں فرق ہے

اپنے خلاف افسانے کا عنوان خود فراہم نہ کریں

ایاز احمد اصلاحی

کرونا وائرس ( کووڈ ۱۹) کی وبا ہندوستان میں بھی اپنے پیر پوری طرح پھیلا چکی ہے۔ یہ ایک خطرناک متعدی بیماری جس کا کوئی مکمل علاج انسانی دماغ ابھی تک دریافت نہیں کر سکا ہے اولاً چین سے شروع ہوئی اور اس وقت لگ بھگ دنیا کے سبھی ملکوں میں اس کا وائرس پہنچ چکا ہے۔ سماجی فاصلہ بندی ( Social Distancing ) کی اصطلاح جو انسانی سماج کے لیے بظاہر ایک منفی فکر کی حامل اصطلاح محسوس ہوتی ہے اس وقت وہی مطلوب ومحبوب بن گئی ہے اور اپنے آپ کو گھر تک محدود کرلینا ہی اس بیماری کا سب سے بڑا علاج اور اس کے حملے سے محفوظ رہنے کی تدبیر ہے۔ اسی پر اجتماعی عمل کے لیے بطور احتیاط ملکی سطح پر ۲۱ روزہ بندی (lockdown) ہے۔ یہ مرض اب یہاں تیسرے خطرناک ترین مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ اس تیسرے مرحلے کو عام سماجی انفکشن ( Community Transmission) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس کے آ جانے کے بعد اس پر قابو پانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ ذرا سوچیے اٹلی جو دنیا کے تمام ممالک میں صحت اور طبی ترقی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آتا ہے، وہ بھی اس مرحلے میں داخل ہونے کے بعد پوری طرح بے بس ہوگیا ہے تو پھر ہندوستان کہاں ٹھہرے گا جہاں ایمس (AIIMS) اور کے جی ایم یو کے ڈاکٹروں کی یہ شکایت ریکارڈ میں آ چکی ہے کہ انھیں اس بیماری سے محفوظ رہنے کے لیے ذاتی تحفظ کی بنیادی کٹ ( PPE) بھی حکومت فراہم نہیں کر پا رہی ہے؟ ایک طرف یہ حال ہے دوسری طرف بڑی طاقتیں کسی کی مدد کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف محض سازشی تصورات ( Conspiracy Theories) گھڑنے میں مصروف ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جن سے آپ سبھی بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے میں آپ کو اس مہلک مرض کے ایک دوسرے سماجی پہلو (جسے آپ ملی بھی کہہ سکتے ہیں) کی طرف متوجہ کرنا چاہوں گا۔ اس نازک وقت میں ملت کو حوصلہ وہوشمندی دونوں کی ضروت ہے۔ اس کے علاوہ باہمی تعاون ودستگیری بھی وقت کا تقاضا ہے۔ لیکن اس کے بجائے یہ عجیب وغریب المیہ ہے کہ اس وقت اس وبا کے حوالے سے مسلمانوں کو ایک نئے خوف میں مبتلا کرنے کی خود مسلمانوں کی جانب سے کوشش ہو رہی ہے۔ یہ بات مسجد کے مائک سے لے کر آڈیو، ویڈیو جیسے وسائل کی مدد سے ہر جگہ پہنچائی جا رہی ہے کہ مسلمان دوسروں کے مقابلے میں نماز، نماز جمعہ اور دیگر اجتماعی فرائض کی ادائیگی میں زیادہ احتیاط سے کام لیں، مساجد میں کم سے کم جمع ہوں، بہتر ہے کہ وہ اب اپنی نمازیں صرف اپنے اپنے گھروں میں ادا کریں اور ہر قسم کے مظاہروں سے بچیں۔ اس سادہ سی اپیل میں بظاہر کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں کوئی ایسا پہلو ہے جس سے موجودہ صورت حال میں انکار اور اختلاف کی کوئی گنجائش ہو۔ بے شک ہمارا بھی یہی کہنا ہے کہ ایک زندہ اور دائمی شریعت کی حامل اس امت کو زندگی کے ہر میدان میں، چاہے وہ سماجی وسیاسی بحران ہو یا کسی عالمی وبا سے تحفظ کا مسئلہ، اسے ہر جگہ عالم انسانی کے لیے ایک مثالی کردار کے ساتھ خلق خدا کے سامنے آنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ اپنے ملک میں اکثریت میں ہو۔ اس کے اندر زندگی موجود ہے تو وہ اقلیت میں رہ کر بھی قائدانہ اور مثالی رول ادا کر سکتی ہے۔ لیکن مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب اس رائے کے حاملین ایک مناسب بات کو غیر مناسب طریقے سے لے کر نمودار ہوتے ہیں جو نہ تو ان حالات میں مطلوب ہیں اور نہ ہی حکمت عملی کے تقاضوں پر پورا اترنے والی ہیں۔ وہ یہ فرما رہے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے احتیاط سے کام نہیں لیا اور مسجدوں میں جانا ترک نہیں کیا اور نماز جمعہ کے لیے یوں ہی مسجدوں میں بھیڑ لگاتے رہے تو کرونا پھیلانے کا سارا الزام انہی پر لگا دیا جائے گا، یہاں تک کہ دوسری قومیں ان کا سماجی بائیکاٹ بھی کر سکتی ہیں، اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔۔
ہمارا اعتراض محض اس نصیحت کے آخری حصے پر ہے۔ ان حضرات کا حال یہ پے کہ وہ اپنے اس نیک اور بے ضرر مشورے کے ساتھ بڑی شدت سے اپنے اس اندیشہء بے جا کو بھی بر سرِ عام ظاہر کر رہے ہیں کہ مسلمانوں نے اگر مسجدوں میں جانا نہیں چھوڑا اور پوری طرح خود کو اپنے گھروں تک محدود نہیں کیا تو یہ امت کسی بڑی آزمائش میں گرفتار ہو جائے گی۔ اس ڈراوے کے پیچھے ان کی منطق یہ ہے کہ مسلمانوں کی بے احتیاطی کی وجہ سے اس بات کا پورا امکان ہے کہ اکثریتی فرقہ اور حکومتی طبقہ اس خطرناک وائرس والی بیماری کورونا وائرس کے اس ملک میں پھیلنے اور بڑھنے کا سارا الزام مسلمانوں کے سر تھوپ کر انہیں تختہ مشق بنانا شروع کردے گا اور بیچاری مسائل کی ماری یہ قوم ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو جائے گی۔ بھائیو! کہیں تو ٹہرو، کبھی تو خود پر لگام لگاؤ اور کچھ تو سوچو کہ کیا کہہ رہے ہو اور اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔ کیا آپ لوگوں کو احساس ہے کہ آپ جس انداز سے مسلمانوں کو ایک نئے ممکنہ خطرے سے ڈرا رہے ہو وہ خود ان کے لیے نئے خطرے کا موجب بن سکتا ہے؟ سب سے پہلے یہ کہ میرے نزدیک مسلمانوں پر کورونا وائرس کے پھیلنے کا سبب بننے کے حوالے سے ان پر لگنے والے ممکنہ الزامات کے فرضی اندیشے کو بار بار عوامی سطح پر دہرانا ایک خوفزدہ اور شکست خوردہ ذہنیت کا مظہر ہے۔ یہ پوری طرح ایک دفاعی رویہ ہے جو امت کے لیے کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک نتائج پیدا کرنے والا عنصر بن سکتا ہے اور اس سے بچنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا خود کورنا وائرس سے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر ہم نے اپنی یہ سوچ نہیں بدلی اور اس روش پر مستقل طور سے قائم رہے تو یہ امت اجتماعی طور سے احساسِ کمتری کے ایک ایسے مرض میں مبتلا ہو جائے گی جو ایک ضعیف، بزدل اور خوف زدگی و ناطاقتی کی شکار امت کا مقدر ہوتی ہے۔ یہ کوئی نیا ٹرینڈ نہیں ہے، اس سے پہلے ہم دیگر واقعات میں بھی اس نامطلوب رویے کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ کشمیر ہو کہ کورونا وائرس ہر بار ہمارا خوف ہم سے یہی غلطی کرواتا ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ مسئلہ پلوامہ حملے کا ہو، دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے کا ہو، ہند وپاک کشمکش ہو، کشمیریوں پر ہو رہے مظالم کا ہو یا پھر کورونا کی وبا کا ہو، آخر ناکردہ گناہوں کے الزام کا خوف ہر بار صرف مسلمانوں کے اندر ہی جگہ بنانے میں کیوں کامیاب ہوتا ہے؟ دوسری قومیں بھی تو اس ملک میں رہتی بستی ہیں ان میں یہ خوف پیدا کیوں نہیں ہوتا؟ ایسا اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے بلا وجہ ڈرنے اور ڈرانے کا کام اپنے ذمہ نہیں لے رکھا ہے اور ان کے قائدین محض موشگافیوں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ صحیح وقت آنے پر اپنے منصوبوں پر عمل کر کے دکھاتے ہیں۔
یاد دلا دوں کہ راقم ان افراد میں سے نہیں ہے جنہیں لاک ڈاون کے دنوں میں بھی مساجد کو کھلی رکھنے اور ہر حال میں نماز باجماعت کے سلسلے کو جاری رکھنے پر اصرار ہے۔ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے، حالات کو سامنے رکھ کر امت کا اجتماعی فیصلہ جو بھی ہو اسے ہر ایک کو قبول کرنا چاہیے۔ اسلام دین رحمت ہے، یہاں اپنی طرف سے دین کے نام پر تنگی اور سختی پیدا کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ہے۔ اسلامی شریعت کی روح بندگان خدا کے لیے دین میں نرمی وکشادگی کو زیادہ پسند کرتی ہے۔ نیت صحیح ہو تو اس دین میں اجتہادی غلطییوں پر بھی کوئی گرفت نہیں ہے بلکہ جیسا کہ حدیث نبوی سے ثابت ہے ہمیں یقین ہے کہ ہمارا رحیم وکریم رب ہر دو صورتوں میں ہمیں اجر وثواب سے نوازے گا اور ہمیں اپنی رحمتوں سے محروم نہیں کرے گا۔ غیر معمولی حالات کے بطن سے پیدا ہونے والے اس طرح کے مسائل پہلے بھی آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی آتے رہیں گے، لیکن ان کے حل کی معقول راہ سراسیمگی وحواس باختگی نہیں ہے بلکہ اجتہاد، تحقیق اور غور وفکر ہے۔ اجتہاد بے شک امت مسلمہ کو ملنے والی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ یہ اس امت کے لیے ایک نعمت بھی ہے اور اس کی زریں روایت بھی۔ شریعت کے بنیادی مآخذ اور موجود نصوص یعنی قرآن وسنت کی تعلیمات پر نئے مسائل کو قیاس کرنا اور امت وانسانیت کے حق میں بروقت صحیح فیصلہ لینا ہی اجتہاد ہے جس کا ہدف مسئلے کا مثبت حل ہو اور جس کا طریقہ قرآن کریم کی وہ واضح تعلیم ہو جس میں اللہ و رسول اور اہل امر کی اطاعت اور متنازعہ مسائل میں اللہ و رسول کی طرف پلٹنے کا حکم دیا گیا ہے( فان تنازعتم فی شيء فردوه الى الله و الرسول، ان کنتم تؤمنون بالله و اليوم الآخر…. النساء: ٥٩ )۔ لیکن یہ اجتہاد فتوی بازی یا بے مصرف فقہی موشگافی سے بالکل مختلف ہے۔ اگر قرآن وسنت کا علم اور ہمارا شعور ہمیں مطلوبہ ہدف اور شریعت کی روح تک نہ پہنچا سکے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم تفقہ کے نام پر جو کچھ کر رہے ہیں وہ اجتہاد نہیں بلکہ فقہی موشگافیاں ہیں جن سے نکلے بغیر ہم اپنا کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔ اجتہاد کا مقصود ہی دینی تقاضوں کی تکمیل ہے۔ یہی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ آپ نے خود قرآنی احکام کو سامنے رکھ کر نئے نئے مسائل میں فیصلے کیے اور ایک پر دوسرے کو قیاس کر کے مناسب ترین حل نکالا اور آپ کے ہاتھوں دین کا تقاضا بدرجہ اتم پورا ہوا۔ "فدين الله أحق أن يقضى” (بخاري، حديث: ۱۸۱۷) ۔ اسی عظیم مقصد کے لیے شرعی مسائل میں اجتہاد وتحقیق کا دروازہ تا قیامت کھلا رکھا گیا ہے اور بقول ابن قیم نبی کریم اس امت کے پہلے مجتہد ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ راہ اس لیے دکھائی تاکہ اللہ کی روشنی ہمیشہ اہل ایمان کے ساتھ رہے اور حالات جیسے بھی ہوں اس روشنی کی مدد سے ہم اپنی شناخت کے ساتھ اپنا فرض ادا کرتے رہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم اسی راہ پر گامزن ہیں تو پھر بات بات میں ہم ہر مسئلے کو الجھی گانٹھ بنا کر کیوں رکھ دیتے ہیں؟ اس تعلق سے سب سے زیادہ قابل توجہ بات مسلمانوں کو کورونا وائرس کے پھیلاو کے ممکنہ الزامات کے مفروضہ اندیشوں کے تحت احساس جرم میں مبتلا ہونے سے نکالنا ہے۔ اس تعلق سے آنے والی ویڈیوز اور تحریروں میں پیش کی جانے والی باتیں انہی موشگافیوں کی طرح ہیں جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے اور جن کا نہ تو اجتہاد سے کوئی تعلق ہے اور نہ فراست مومن سے۔ اس قسم کے مواد کی حامل آڈیوز، ویڈیوز برادران وطن کے ہاتھوں میں پہنچ کر کتنے خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہیں اس کا شاید انہیں اندازہ نہیں ہے۔ ان ویڈیوز کی خطرناکی کا تصور وہی شخص کر سکتا ہے جو نازک مسائل میں جلد بازی سے کام نہیں لیتا اور ملکی حالات کے ساتھ ساتھ مستقبل کے تیور سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔

اس بیماری کے خطرات، اس سے روک تھام کی عملی تدابیر سے عام لوگوں کو بیدار کرنے کی مہم، اس کی زد میں آنے والوں کی مدد، لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے مزدوروں اور پریشان حال غریبوں کا تعاون جیسے بے شمار کام ہیں جن میں یہ عام لوگوں کی مدد ورہنمائی کرکے اپنا فرض ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جہاں ہر کس وناکس اپنے وجود کی علاحدہ شناخت کے لیے مر رہا ہو وہاں ہمارے بیشتر نمایاں یا سماج کی رہنمائی کرنے والے لوگوں کو ان رفاہی امور میں زیادہ دلچسپی کیسے ہو سکتی ہے؟

ایسے ماحول میں جبکہ ہندوستان میں یہ وبا تیسرے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، جو بات کہنے کی ہے وہ یہ کہ مسلمان بھی عام شہریوں کی طرح حتی الامکان اپنے گھروں میں محدود رہیں اور احتیاطی تدابیر پر سنجیدگی سے عمل کریں۔ اسی میں خود ان کی اور دوسرے سبھی لوگوں کی بھلائی ہے۔ اس کی بجائے ان ویڈیوز میں فرقہ وارانہ رد عمل کی دہائی دے کر بار بار مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کے اندیشہ کو جس طرح اچھالا گیا ہے وہ اپنے آپ میں بہت خطرناک ہے۔ اسی کو کہا جاتا ہے صحیح مقصد کی غلط تعبیر و توجیہ۔ اس غلطی کے بہت سے نقصانات میں سے دو بڑے نقصانات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔ ایک تو اس قسم کی تحریریں یا آڈیوز/ویڈیوز مسلمانوں میں خوف وبزدلی کی نفسیات اور احساس جرم و احساس کمتری کو پروان چڑھانے کا سبب بنتی ہیں۔ اگر ہر موقع پر ہمارے بعض علماء وقائدین کا رویہ ایسا ہی رہا تو اس کا قوی امکان ہے کہ مستقبل میں یہ امت اپنے ہی ملک میں سب سے کمزور وکمتر قوم بن کر رہ جائے گی جو روح جہاد و روح اجتہاد دونوں سے محروم ہوگی۔ دوسرے یہ کہ اس سے غیر ضروری طور سے لوگوں کا ذہن ایک ایسے مسئلے کی طرف منعطف ہوگا جس کا وجود ہی نہیں ہے۔ اس سے مسلم مخالف ذہن میں ان کے خلاف ایک نئی مہم کا خیال پیدا ہو جانا ممکن ہے کیونکہ ڈرے ہوئے کو ڈرانا آسان ہوتا ہے اور ڈرے ہوئے کو کون نہیں ڈرانا چاہے گا؟ جس طرح احتیاط کے نام پر ہندووں کی طرف سے اس بیماری کے پھیلاؤ کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرائے جانے کے اندیشے کو بار بار دہرانے کی غلطی کی جا رہی ہے وہ اس طور سے بھی غلط ہے کہ اس سے آئندہ ملت اسلامیہ کی عزت و ناموس کا تحفظ مشکل ہوجائے گا جو اس وقت اس ملک میں اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ اس کا ایک دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ یہ غیر محتاط باتیں متشدد گروپوں کے ہاتھ بھی لگ سکتی ہیں جو موجودہ حکومت میں بالکل بے لگام ہیں اور مسلمانوں کے خلاف کسی بھی اقدام کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ان مفروضہ اندیشوں کا کھلے عام ذکر کرکے گویا ہم خود اپنے دشمنوں کو دشمنی کا نیا گُر سکھا رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں نفرت کے سوداگروں اور انسانیت کے دشمنوں کو ملت کے خلاف نفرت وعناد کے ایک نئے افسانے کا سر عنوان اور اس کا پورا پلاٹ ہم خود فراہم کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ ویڈیوز جو یقیناً مسلمانوں کی خیر خواہی میں تیار کی گئی ہیں اگر شیطانی طاقتیں اس جانب متوجہ ہو گئیں تو اس کا نتیجہ بد خواہی پر منتج ہوگا۔ اس سلسلے کی دوسری حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہندوتوا کی لگائی ہوئی نفرت کی آگ ملک میں پہلے سے کہیں زیادہ دہک رہی ہے۔ حال یہ ہے کہ اگر مسلمان اس وبا کے پھیلنے کا سبب نہ بھی ہوں تب بھی اس قسم کی افواہیں انہیں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ایک نیا موقع سجھا سکتی ہیں۔ یہ ایک ایسی سادہ لوحی ہے جس کا بد نیت لوگ ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ گزشتہ نماز جمعہ کے بعد بعض مساجد سے نکلنے والے نمازیوں پر پولیس عین مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر جس طرح ڈنڈے برسائی ہے وہ اس کی چھوٹی سی مثال ہے۔ یوں لاک ڈاون کے دوران اسے ایک عام سی بات کہ کر ٹالا جا سکتا ہے کیونکہ پولیس باہر نکلنے والے عام راہگیروں کی بھی اسی طرح پٹائی کرتی دیکھی گئی ہے۔ پھر بھی ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان نمازیوں کو وہ پولیس تھوڑی سی سختی کرکے پہلے ہی مسجد جانے سے روک سکتی تھی جو اس وقت ملک کے ہر موڑ اور چوراہے پر تعیینات ہے لیکن اس نے پٹائی کا منصوبہ مسجد کے سامنے نماز کے بعد ہی کیوں بنایا؟ ایسی بعض تحریریں بھی نظر سے گزری ہیں جن میں مسلمانوں پر کورنا وائرس پھیلانے کا الزام لگنے کے فرضی اندیشے کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف ممکنہ سماجی بائیکاٹ کے اندیشے کا بھی شوشہ چھوڑ دیا گیا۔ کورونا وائرس کے تعلق سے بیدار رہنا ہم سب کے لیے ضروری ہے لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ملت کی خیر خواہی کے نام پر اس کے لیے نت نئے مسائل کھڑے کرے اور مشکلات کے لیے راہ بھی ہموار کرے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ مفروضہ الزامات سے مسلمانوں کو ڈرانے اور مساجد ونماز باجماعت کا جاو بے جا حوالہ دے کر انہیں احساس جرم میں مبتلا کرنے والی اس طرح کی ویڈیوز بالکل لغو ہیں۔ یہ مسلم سماج کے لیے معاون بننے کی بجائے صرف مشکلات کھڑی کرنے والی ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس قسم کی آڈیو/ ویڈیوز پر قوم کی طرف سے فورا روک لگائی جائے اور انھیں وائرل ہونے سے روکا جائے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ان بے ہنگم آڈیو/ویڈیوز کا موجودہ سلسلہ ہمارے لیے نئے مسائل کھڑا کر سکتا ہے۔
ایک بار پھر پوچھتے چلیں کہ کیا کرونا وائرس کے نام پر آگے آنے والے علماء وقائدین کے پاس ان فروعی فقہی مسائل کے علاوہ کوئی اور معقول کام نہیں ہے؟ اس بیماری کے خطرات، اس سے روک تھام کی عملی تدابیر سے عام لوگوں کو بیدار کرنے کی مہم، اس کی زد میں آنے والوں کی مدد، لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے مزدوروں اور پریشان حال غریبوں کا تعاون جیسے بے شمار کام ہیں جن میں یہ عام لوگوں کی مدد ورہنمائی کرکے اپنا فرض ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جہاں ہر کس وناکس اپنے وجود کی علحیدہ شناخت کے لیے مر رہا ہو وہاں ہمارے بیشتر نمایاں یا سماج کی رہنمائی کرنے والے لوگوں کو ان رفاہی امور میں زیادہ دلچسپی کیسے ہو سکتی ہے؟ وہ تو وہی کہیں گے یا کریں گے جس سے ہر ایک دانتوں تلے انگلیاں دبا کر ان کی طرف متوجہ ہوجائے۔ ان حالات میں ہماری دعا یہی ہے کہ خدا ہر حال میں خیر کرے اور ہم اس خطرناک وبا اور اپنی غیر محتاط باتوں کے شر دونوں سے محفوظ رہیں۔
***