پیگاسس جاسوسی تنازعہ: حکومت جوابدہ

سعودی عرب سے ہندوستان تک اسرائیلی سافٹ ویئر کا سیاسی مخالفین پر استعمال

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

پیگاسس اپنے مالویئر کی جدید کاری کرتا رہتا ہے۔ اگر ماہرین اس کے ایک حملے سے بچنے کی تیاری کرتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو نئےانداز میں حملہ کرنے کے لیے تیار کرلیتا ہے یعنی اس کے حملوں سے بچنا نا ممکن سا ہوجاتا ہے ۔ آئیے آج ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر یہ پیگاسس کس بلا کا نام ہے ۔
پیگاسس ایک اسپائی ویئر (جاسوسی کرنے والا ایک سافٹ وئیر)ہے جو اسرائیلی سائبر کمپنی این ایس او گروپ نے تیار کیا ہے جو آئی فون iOS اور اینڈرائیڈ Android موبائل فون (اور دیگر آلات) میں چوری چھپے نصب کیا جاتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ اور دیگر ممتاز میڈیا ذرائع کے مطابق اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ اس وقت دستیاب جدید پیگاسس سافٹ ویئر آئی فون کے سارے ہی ماڈلس میں داخل کیا جاسکتا ہے یہ ٹیکسٹ، ای میل ، ویب سرچ ، فون کے مائیکروفون اور کیمرہ ہی کی نہیں بلکہ مواصلات کے ہر ذریعہ کی نگرانی کرسکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ فون سے ہونے والی بات چیت اور محل وقوع کی بھی معلومات فراہم کرسکتا ہے ۔ بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ یہ معلومات ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ یہ سارے فون ہی کو اپنے آلے کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔ اس کمپنی کا نام اس کے بانیوں کے ناموں پر رکھا گیا ہے ۔ این ایس او یعنی (نیئو ، شیلو اور عمری ) حقیقت میں یہ ایک اسرائیلی ٹکنالوجی فرم ہے جس کا ایک اسپائی ویئر ’پیگاسس‘ بھی ہے جو اسمارٹ فونز کی ریموٹ نگرانی کرتاہے۔ اس کمپنی کی بنیاد ۲۰۱۰ میں نیوی کارمی ، عمری لاوی ، اور شیلو ہولیو نے رکھی تھی۔ ۲۰۱۷ تک اس میں تقریباً پانچ سو افراد ملازم تھے اس کا دفتر ہرزلیہ کے مقام پر واقع ہے جو تل ابیب کے قریب ہے ۔
این ایس او کا دعویٰ ہے کہ وہ حکومتوں کو یہ ٹیکنالوجی اس لیے فراہم کرتی ہے جس کے ذریعہ وہ دہشت گردی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکیں اور جرائم کا مقابلہ کرنے میں ان کی مددگار ثابت ہوں لیکن متعدد ذرائع سےہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس سافٹ ویئر کا استعمال انسانی حقوق کے لیے لڑنے والوں اور حکومتوں پر تنقید کرنےوالے صحافیوں کے خلاف کیا گیا ہے ۔ سعودی حکومت سے اختلاف کرنے والے صحافی جمال خشوگی کے خلاف اس کا استعمال کیا گیا ، پاکستان کے خلاف جاسوسی میں اس کا استعمال ہوا ہے ۔ واٹس ایپ اور فیس بک نے این ایس او کے خلاف یو ایس کمپیوٹر فراڈ اینڈ ابیوز ایکٹ (سی ایف اےاے)کے تحت مقدمہ دائر کیا ہے ۔ اسرائیل نے پیگاسس اسپائی ویئر کو ہتھیار کے درجہ میں رکھا ہے۔ اگر کمپنی اس ٹیکنالوجی کو کسی اور ملک کو برآمد کرنا چاہتی ہے تو اسے حکومت کی منظوری لینی ہوگی۔ ۲۰۱۳ میں اس کمپنی کی سالانہ آمدنی تقریباً چار کروڑ ڈالر تھی جو ۲۰۱۵ میں بڑھ کر پندرہ کروڑ ڈالر ہوگئی تھی ۔جبکہ جون ۲۰۱۷ میں اس کمپنی کو سو کروڑ ڈالر میں فروخت کرنا طے کیاگیا تھا۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس تیزی کے ساتھ اس کمپنی نے ترقی کی ۔
اس سافٹ ویئر کے ذریعہ مختلف ممالک کے حکومت مخالف جہد کاروں ، حزب اختلاف کے سیاسی قائدین اور صحافیوں کی جاسوسی کی گئی ہے ۔ ہمارے ملک میں بھی حکومت کے اپنے مخالفین کی اسی طرح کی جاسوسی کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جاسوسی کرنے والا سافٹ ویئر ہماری حکومت نے خریدا ہے یانہیں ؟ کانگریس کے رہنما ڈگ وجے سنگھ راجیہ سبھا میں حکومت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ ’’اس معاملے میں صرف تین امکانات ہوسکتے ہیں ۔ حکومت راست طور پر جاسوسی کررہی تھی یا کسی کو غیر قانونی طور پر کرنے کی چھوٹ دی گئی تھی یا پھر حکومت کے علم کے بغیر یہ کام ہورہاتھا۔کیا حکومت نے اسرائیلی کمپنی ین ایس او کے ساتھ جس نے اسپائی ویئر پیگاسس تیار کیا ہے، کوئی معاہدہ کیا ہے؟ کانگریس ہی کے ایک اور رہنما آنند شرما نے حکومت سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’’وزیر اطلاعات سے میرا سوال بالکل صاف ہے۔ کیا سرکاری اداروں نے اس اسپائی ویئر کا غیر مجاز استعمال کیا ہے؟‘‘ حزب اختلاف نے کہا کہ کیا کسی سرکاری ایجنسی نے پیگاسس سافٹ ویئر کو غیر قانونی طور پر خریدا اور اسے استعمال کیا ہے؟ اور اگر حکومت کے کسی ادارے نے اسے نہیں خریدا ہے تو کس کی اجازت سے یہ اسرائیلی کمپنی این ایس او نے اس کام کو انجام دیا ہے ؟ کیوں اس کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جارہی ہے ؟ کیوں اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا ہے ؟ ترنمول کانگریس کے ندیم الحق نے پوچھا کہ "کیا حکومت نے اس بات کی تحقیقات کی ہے کہ کس نے اس سافٹ ویئر کو خریدا ہے جس کے ذریعہ ہندوستانی شہریوں کی جاسوسی کی جارہی ہے؟ کیا حکومت نے کسی بھی کمپنی یا ادارے کو پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ چوری چھپے نگرانی کرے ؟‘‘ سی پی ایم کے رکن پارلیمنٹ کے کے راگش نے کہا کہ ’’پیگاسس سافٹ ویئر کے مالک این ایس او کا کہنا تھا کہ وہ اس اسپائی ویئر کو صرف حکومت یا سرکاری ایجنسیوں کو ہی فروخت کررہے ہیں۔ پھر یہ ہندوستان کیسے آیا؟ کونسی سرکاری ایجنسی پیگاسس سافٹ ویئر کو ہندوستان لے آئی ہے ؟ کیا اس کو حکومت نے براہ راست درآمد کیا ہے یا کسی اور ایجنسی کے ذریعہ لایاگیا ہے ؟‘‘
دی وائر اور دیگر سولہ میڈیا تنظیموں نے ساتھ مل کر ان لوگوں کے نام ظاہر کیے ہیں جسے این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر نے نشانہ بنایا تھا۔ اس فہرست میں ریاستوں کے سربراہ، سیاسی شخصیات، سماجی جہد کار، طلباء، وکلاء اور صحافی شامل ہیں۔ فرانس کی ایک میڈیاتنظیم فوربیڈن اسٹوریز (جوغیرمنفعت بخش ادارہ ہے ) نے پچاس ہزار فون نمبروں پر مشتمل ڈیٹا بیس تک رسائی حاصل کی جن پر این ایس او کے خریدار نگرانی کررہے تھے ۔ اسرائیلی کمپنی کے مطابق یہ جدید ترین اسپائی ویئر صرف اور صرف حکومتوں کو ہی فروخت کیا جاتا ہے اس لیے یہ بات جاننے میں مشکل نہیں ہوگی کہ اس سافٹ ویئر کے ذریعہ کن افراد پر نگرانی کی جارہی تھی ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دی وائر نے مل کر دس ہندوستانیوں کے فونوں کی جانچ کی جس سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ یا تو ان کے فونس کو ہیک کرنےکی کوشش کی گئی یا وہ ان کے فونس ہیک کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔
وائر نے اب تک ایک سو پندرہ افراد کے ناموں کو منظرعام پر لایا ہے جو این ایس او گروپ کے خریداروں کے ذریعہ نگرانی کی گئی تھی۔ ان افراد میں راست طور یہ خود ہدف تھے یا کوئی دوسرا ہدف تھا جس تک ان ذریعہ سے پہنچا جانا تھا ۔ ان ناموں کو پیگاسس کے شراکت داروں نے واشگاف کیا ہے۔
دی وائر نے کم از کم چالیس صحافیوں کے نام ظاہر کیے ہیں جن پر نگرانی رکھی گئی تھی۔ سات صحافیوں کے فونس کا فارنسک تجزیہ کیا گیا ان میں سے پانچ صحافیوں کے نمبروں میں پیگاسس انفیکشن کے آثار پائے گئے ۔ جن میں یم کے وینو، سوشانت سنگھ ، سدھارتھ ورداراجن ، پرن جئے گوھا ٹھاکرتا، ایس ایم این عابدی وغیرہ ۔ اسی طرح سیاسی رہنماؤں میں راہل گاندھی ، النکار سوامی ، سچن راو ، پرشانت کشور ، ابھیشک بنرجی وغیرہ ۔ پھر جو سرکاری عہدوں پر تھے ان میں پر بھی نگرانی رکھی گئی جیسے : اشوک لواسا۔ اسی طرح سماجی جہد کار وکلاء جن میں خاص طور پر ہنے بابویم ٹی ، رونا ولسن ، ورنن گنزولوز، آنند تلٹمبڈے، گوتم نولکھا، عمر خالد ، خالد خان ، یس اے آر گیلانی وغیرہ۔ اور بھی بہت سے نام ہیں جن کا ذکر یہاں ممکن نہیں ہے ورنہ ایک صفحہ تو صرف ان کے ناموں سے ہی بھر جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے لوگ حکومت کو اس کے غلط کاموں پر، اس کے غلط منصوبوں پر اور سماجی عدم انصاف پر تنقید کیا کرتے تھے یعنی حقیقتِ حال سے عوام کو واقف کرواتے تھے، حکومت کو آئینہ دکھایا کرتے تھے ۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام پر چوری چھپے نگرانی کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کیوں غیر قانونی طور پر ان کے فونوں کو ہیک کیا گیا ؟ کیا حکومت کے کاموں کی مخالفت کرنا وطن سے غداری کے مترادف ہے ؟ اگر حکومت کی ناک کے نیچے یہ سب نہیں ہوا ہے تو اس کی مکمل جانچ ہونا چاہیےکہ کس جمہوریت کے دشمن نے یہ کام کیا ہے؟ اس کو منظر عام پر لانا چاہیے اور اسے کیفر کردار تک پہنچانے کی ذمہ داری حکومت کی ہی ہے۔ اور اگر یہ حکومت یا اس کے کسی ادارے کی کارستانی ہے تو پھر اس کو اخلاقی طور پر حکمرانی کا کوئی حق باقی نہیں رہ جاتا، اسے چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنی کرسی خالی کردے ۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں سنجیدگی سے غور کریں اور ایسی چوری چھپے جاسوسی کرنے والی حکومت کو گدی سے نیچے اتار پھینکیں۔
***

سوال یہ ہے کہ ان تمام پر چوری چھپے نگرانی کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کیوں غیر قانونی طور پر ان کے فونوں کو ہیک کیا گیا ؟ کیا حکومت کے کاموں کی مخالفت کرنا وطن سے غداری کے مترادف ہے ؟ اگر حکومت کی ناک کے نیچے یہ سب نہیں ہوا ہے تو اس کی مکمل جانچ ہونا چاہیےکہ کس جمہوریت کے دشمن نے یہ کام کیا ہے؟ اس کو منظر عام پر لانا چاہیے اور اسے کیفر کردار تک پہنچانے کی ذمہ داری حکومت کی ہی ہے۔ اور اگر یہ حکومت یا اس کے کسی ادارے کی کارستانی ہے تو پھر اس کو اخلاقی طور پر حکمرانی کا کوئی حق باقی نہیں رہ جاتا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم اگست تا 7 اگست 2021