سرکاری اسپتالوں کے لیے خریدے گئے وینٹیلیٹر خود ہوگئے ہیں ’کورونا‘ کا شکار

ذاتی مفاد ات کو ترجیح دے کر نجی کمپنیوں کو ٹھیکے دینے کا حکومت پر الزام وینٹیلیٹرس کی خریداری میں ہوئی بے ضابطگی ۔آرٹی آئی رپورٹ

افروز عالم ساحل

ملک میں کووڈ کی تیسری لہر کی آہٹ اب نظر آنے لگی ہے۔ مرکزی حکومت کہ رہی ہے کہ ہم اس تیسری لہر سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلی لہر کے بعد سرکاری اسپتالوں کے لیے خریدے گئے وینٹیلیٹر خود اب دم توڑ رہے ہیں۔

حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) سے ملے دستاویزات بتاتے ہیں کہ پی ایم کیرس فنڈس سے وینٹیلیٹر خریداری میں بڑے پیمانے پر لاپروائی برتی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں عوام کے فنڈس سے خریدے گئے وینٹیلیٹر نہ صرف ابھی بھی ڈبے میں بند ہیں یا خراب نکل رہے ہیں بلکہ زیادہ تر اسپتالوں میں دم توڑ چکے ہیں۔ وہیں میڈیا میں آئی رپورٹوں کے مطابق بہار، اتر پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان جیسی ریاستوں کے بہت سے اسپتالوں میں، پی ایم کیرس فنڈ سے خرید کر بھیجے گئے وینٹیلیٹرس دھول چاٹ رہے ہیں۔ وینٹیلیٹرس کے ٹھیک طرح سے کام نہیں کرنے کے بارے میں بہت ساری جگہوں سے شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ وہیں زیادہ تر جگہوں پر تربیت یافتہ عملہ نہیں ہونے کی شکایت ہے، کہیں وائرنگ خراب ہے تو کہیں مرکزی حکومت کے ذریعے بھیجے گئے وینٹیلیٹر میں اڈاپٹر ہی نہیں ہے۔

کووڈ کے دور میں وینٹیلیٹرس کی خریداری کے سوال پر آرٹی آئی داخل کر کے معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ملک کے مشہور آر ٹی آئی کارکن وینکٹیش نائک سے ہفت روزہ دعوت نے خاص بات چیت کی۔

ان کے ساتھ ہوئی طویل گفتگو میں وہ کہتے ہیں: جب لوگوں کی زندگی اور موت کا سوال ہو، تو صرف مشین بھیج کر ان کو بچانے کی کوشش کوئی معنی نہیں رکھتی۔ حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ وینٹیلیٹرس کو اسپتالوں میں بھیجنے سے پہلے ان کی جانچ کر کے دیکھتی کہ یہ وینٹیلیٹر کارآمد بھی ہیں یا نہیں؟ وینٹیلیٹرس کے بارے میں جس طرح کی شکایتیں پورے ملک سے آرہی ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ حکومت کا مقصد لوگوں کی جان بچانا تھا۔

آپ کو بتا دیں کہ ’کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انسٹیٹیوٹ‘ سے جڑے وینکٹیش نائک پی ایم کیئرس فنڈس سے خریدے گئے وینٹیلیٹرس پر کئی آر ٹی آئی داخل کر کے سوال پوچھ چکے ہیں، ان میں ایک آر ٹی آئی ان سوالوں کے بارے میں تھی کہ کس طرح سے ان تکنیکی مشنیوں کو بنانے کی منظوری دی گئی تھی؟ کس حساب سے ان کے تکنیکی وضاحتیں طے کی گئی تھیں؟ ساتھ ہی انہوں نے ان وینٹیلیٹرس کی کارکردگی کے معیار کے تعلق سے بھی کئی سوال پوچھے تھے۔

غور طلب ہے کہ ہندوستان میں کووڈ سے پہلے زیادہ تر وینٹیلیٹر بیرون ملک سے آتے تھے۔ جس ملک سے بھی یہ وینٹیلیٹر آتے تھے، ان پر اس کی کوالیٹی کی جانچ کرنے والی آرگنائزیشن کا سرٹیفکیٹ ہوتا تھا۔ مثلاً امریکی آرگنائزیشن یو ایس ایف ڈی اے یا یورپین آرگنائزیشن کا یورپین سرٹیفیکیشن۔ یہ آرگنائزیشنز اپنی سطح پر میڈیکل مشین کی جانچ پڑتال کے بعد ایک سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشین طے شدہ معیار کے مطابق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک میں کووڈ کے معاملوں میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے جب گھریلو کمپنیوں کو وینٹیلیٹر بنانے کا کام دیا گیا تب ان کی جانچ یا معیار کو طے کرنے کے لیے کوئی گائیڈلائنس یا قاعدے قانون موجود نہیں تھے۔ اسی درمیان گجرات میں جیوتی سی این سی کمپنی کے دھمن1 وینٹیلیٹر کے معیار پر سوال اٹھا تو اس کے بعد 5 جون 2020 کو ’بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈس‘ کا اجلاس ہوا اور یہ طے کیا گیا کہ وینٹیلیٹرس کی خریدی کے لیے کچھ معیار طے کیے جائیں۔ 26؍ جون 2020 کو ’بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈس‘ نے اسٹینڈرڈ اسپیسیفیکیشن تیار کیے تاکہ وینٹیلیٹر کی کوالیٹی کے لیے کچھ معیار طے کیا جا سکے۔

لیکن وینکٹیش نائک کے آر ٹی آئی کے جواب میں ’بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈس‘ نے واضح طور پر بتایا ہے کہ ہندوستان میں کسی بھی وینٹیلیٹرس مینوفیکچرنگ کمپنی یا سپلائرز نے ابھی تک آئی سی یو وینٹیلیٹرس کے لیے طے اسٹینڈرڈ اسپیسیفیکیشن IS 17426: 2020 کے تحت اپنی مصنوعات کی تصدیق کے لیے درخواستیں نہیں دی ہیں اور نہ ہی کوئی بھی اپنی مصنوعات کے لیے سرٹیفیکیٹ لینے آیا۔

یعنی کوئی بھی کمپنی جو یہ وینٹیلیٹرس تیار کرتی ہیں ان میں سے کسی نے بھی یہ جانچ نہیں کروائی کہ ان کی یہ مشینیں کتنے کام کی ہیں۔ واضح ہو کہ ’بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈس‘ نے یہ انفارمیشن 19اکتوبر 2020کو آر ٹی آئی کے تحریری جواب میں دی تھی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان میں بننے والے یہ وینٹیلیٹرس، جن کے معیار پر بار بار سوال اٹھائے جارہے ہیں، ان کے بنانے والی کمپنیوں نے ’بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈس‘ میں کوالیٹی سرٹیفیکٹ کے لیے درخواست کیوں نہیں دی؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ خود حکومت نے وینٹیلیٹرس لینے سے پہلے ’بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈس‘ کے ذریعہ طے کی گئی اسٹینڈرڈ اسپیسیفیکیشن کے تحت ان کی جانچ کیوں نہیں کروائی؟

آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ ہندوستان میں میڈیکل ڈیوائسز رولز 2017بھی موجود ہے، جس کے تحت وزارت برائے صحت وخاندانی بہبود کے تحت آنے والی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ہیلتھ سروسیز کی ’سنٹرل ڈرگ اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن‘ (سی ڈی ایس سی او) مطلع شدہ طبی آلات کے معیار، حفاظت اور کارکردگی کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ جانکاری 6؍ مارچ 2020کو لوک سبھا میں وزارت صحت وخاندانی بہبود کے وزیر ہرش وردھن نے دی تھی۔ انہوں نے اپنے تحریری جواب میں یہ بھی بتایا تھا کہ مرکزی حکومت نے میڈیکل ڈیوائسز رولز 2017میں 11فروری 2020کے جی ایس آر 102(ای) کے ذریعہ ترمیم کی ہے، جو یکم اپریل 2020 سے موثر ہوگا، جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ تمام طبی آلات کا رجسٹریشن کیا جائے گا۔ تو سوال ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈس سے خریدے گئے وینٹیلیٹرس کے معاملے میں ’سنٹرل ڈرگ اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن‘ کہاں غائب ہو گیا۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ سال 2020 ماہ جولائی کے آغاز میں ہی کانگریس نے ایک پریس کانفرنس کرکے پی ایم کیئرس فنڈس سے وینٹیلیٹر کی خریداری میں دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔ نیز انہوں نے خریدے گئے وینٹیلیٹروں کے معیار پر بھی سوال اٹھایا تھا۔ کانگریس نے متعدد معروف ڈاکٹروں، اسپتالوں اور ملک کے ماہرین کی باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسپتالوں میں بیکار اور دوسرے درجے کے وینٹیلیٹر سپلائی کیے ہیں۔ کانگریس نے اس خریداری میں شفافیت پر بھی سوال کھڑا کیا اور پوچھا کہ کیا وینٹیلیٹر کی خریداری کے لیے اوپن ٹینڈرنگ کی گئی تھی؟ 5؍ جولائی 2020 کو راہل گاندھی نے بھی ٹویٹ کر کے کہا تھا کہ ’پی ایم کیئرس فنڈس کو لے کر ابہام کی وجہ سے ہندوستانیوں کی جان خطرے میں ڈالی جارہی ہے اور عوام کے پیسے سے سیکینڈ کوالیٹی کے سامان خریدے جا رہے ہیں۔‘

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں وینکٹیش نائک نے بتایا کہ ایک پل کے لیے مان بھی لیا جائے کہ لوگوں کی جان بچانے کی فکر میں حکومت نے پہلی بار عجلت میں فیصلہ لیا لیکن جب اس متعلق شکایتیں سامنے آنے لگیں تو اس کے بعد بھی لاپروائی کیوں برتی گئی؟ اتنی مہنگی قیمتوں پر خریدے گئے وینٹیلیٹرس کی جانچ کیوں نہیں کی گئی؟ حکومت ہند کے وزارت صحت وخاندانی بہبود نے اس کام میں دلچسپی کیوں نہیں دکھائی؟ کم ازکم حکومت کا جو بھی ادارہ یا کمپنی اس کو خرید رہی تھی اسے تو اپنی گائیڈلائنس کے مطابق ان مشینوں کی جانچ کرنی چاہیے تھی۔ آخر کسی نے بھی اس طرح کی کوشش کیوں نہیں کی؟ اس سے بھی اہم سوال ہے یہ وینٹیلیٹر ایک تکنیکی مشین ہے، اسے ہر ڈاکٹر انسٹال یا آپریٹ نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے اس کے تکنیکی ماہرین کا ہونا ضروری ہے۔ تو پھر حکومت نے اس جانب توجہ کیوں نہیں دی؟ ان کمپنیوں نے یا حکومت نے تکنیکی ماہرین اسپتالوں تک کیوں نہیں بھیجے؟ اور یہ حالات اب بھی ویسے ہی ہیں، جبکہ ملک میں تیسری لہر کے آنے کی اطلاع دی جا رہی ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ اس پورے معاملے میں حکومت کو ایک وائٹ پیپر لانا ضروری ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈس سے خریدے گئے وینٹیلیٹرس اب بھی بند ڈبے میں کیوں پڑے ہیں؟ زیادہ تر وینٹیلیٹرس استعمال کرتے ہی خراب کیسے ہو گئے؟ ان کو ٹھیک کرنے کے لیے کیا قدم اٹھایا گیا؟ ان وینٹیلیٹرس کی خریداری، ان کے الاٹمنٹ اور ان کے استعمال میں کہاں کہاں لاپروائیاں برتی گئی ہیں؟ آخر ان کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری کس کی تھی؟ ساتھ ہی مرکزی حکومت کو اپنا رول اور ذمہ داری بھی واضح کرنا پڑے گا۔ حکومت کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ کون سی کمپنی کے وینٹیلیٹروں میں کس طرح کی کمیاں پائی گئیں اور حکومت نے ان کمپنیوں کے ساتھ کیا رویہ اپنایا؟ کیونکہ ان تمام وینٹیلیٹرس کو اس ملک کی عوام کے ذریعہ دیے گئے چندے سے خریدا گیا تھا۔ اس طرح سے یہ عوام کے چندے کا غلط استعمال بھی ہے۔ عوام کو جاننے کا پورا حق ہے کہ ان کے پیسے کی کووڈ کی پہلی لہر سے نمٹنے کے نام پر بندر بانٹ کیوں ہوئی اور فیڈ بیک ملنے کے باوجود حکومت نے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ جبکہ اسی لاپروائی کی وجہ سے دوسری لہر میں لوگوں کو جان گنوانی پڑی۔

وینکٹیش نائک کہتے ہیں کہ حکومت نے وینٹیلیٹرس خریدنے کے لیے کچھ گائیڈ لائنس اور قاعدے قانون تو بنائے تھے لیکن ان پیمانوں پر وینٹیلیٹرس کو پرکھا نہیں گیا، جو پیمانے بنے تھے ان کے مطابق ان مشینوں کی جانچ نہیں ہوئی، کم از کم دوسری لہر میں جانچ کروا کر ان وینٹیلیٹرس کو اسپتالوں میں پہنچایا ہوتا۔ یا اسپتالوں میں موجود وینٹیلیٹرس کو تکنیکی ماہرین کو بلا کر درست کروایا گیا ہوتا اور خراب وینٹیلیٹرس کو کمپنیوں کو لوٹا دیا گیا ہوتا تو حالات اس قدر خراب نہیں ہوتے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ جس طرح ہر الیکشن میں استعمال ہونے والے ای وی ایم کی تکنیکی خرابیوں کو درست کرنے کے لیے اس کے تکنیکی ماہرین ہوتے ہیں اور اگر انہیں درست نہیں کیا جا سکتا تو انہیں کمپنیوں کو واپس لوٹا دیا جاتا ہے، تو حکومت نے ایسا ہی رویہ وینٹیلیٹرس کے معاملے میں کیوں نہیں اپنایا؟ معلوم ہو کہ ای وی ایم بنانے والی کمپنیوں میں سے ایک کمپنی ایک دیگر کمپنی کے ساتھ مل کر وینٹیلیٹر بھی بنا رہی ہے۔

وینکٹیش نائک کے پاس حکومت کے ذریعے خریدے گئے وینٹیلیٹرس سے متعلق کئی سوالات ہیں۔

انہی سوالوں کے درمیان وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک غیر جانبدار کمیٹی کے ذریعے اس پورے معاملے کی جانچ بے حد ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس کی قیادت میں یہ جانچ کروائی جانی چاہیے یا پھر لوکپال، جو آج کی تاریخ میں تین سال سے کوئی کام نہیں کر رہا ہے، اس کو بھی اس کی جانچ کا کام سونپا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی صوبائی حکومتوں کو بھی پوری ایمانداری کے ساتھ عوام کو بتانا چاہیے کہ ان کے صوبہ کے اسپتالوں میں وینٹیلیٹرس کس وجہ سے بند پڑے ہیں۔ اور جن لوگوں کی کووڈ کی وجہ سے اسپتالوں میں موت ہوئی ہے ان میں سے کتنے فیصد لوگوں کی موت وینٹیلیٹرس کی ناکامی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ تبھی ہم آگے کے حالات بہتر بنا سکتے ہیں اور مستقبل میں آنے والی تیسری لہر سے ایمانداری کے ساتھ لڑ سکتے ہیں۔

حالانکہ ان تمام الزامات کے باوجود مرکزی حکومت کا ماننا ہے کہ کووڈ سے نمٹنے کے لیے خریدے گئے تمام وینٹیلیٹرس صحیح ہیں، ان میں کوئی خرابی نہیں پائی گئی ہے۔ 12فروری 2021کو لوک سبھا میں وزیر مملکت برائے صحت وخاندانی بہبود اشونی کمار چوبے نے ایک تحریری جواب میں واضح طور پر کہا کہ وزارت برائے صحت وخاندانی بہبود کے تحت آنے والی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ہیلتھ سروسیز کی ٹیکنیکل کمیٹی نے کلینیکل جانچ پڑتال کے بعد کلینیکل استعمال کے لیے ان تمام وینٹیلیٹرس کو صحیح پایا ہے۔

خریدے گئے وینٹیلیٹرس کے الگ الگ اعداد وشمار

وزیر مملکت برائے صحت وخاندانی بہبود اشونی کمار چوبے نے 12 مارچ 2021 کو لوک سبھا میں دیے گئے تحریری جواب میں بتایا کہ 05مارچ 2021تک مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوں کو 38,867 وینٹیلیٹر مختص کر چکی ہے۔ ان میں سے 35,269 وینٹیلیٹرس لگائے جا چکے ہیں۔

اس سے قبل 18ستمبر 2020کو اشونی کمار چوبے نے لوک سبھا میں بتایا تھا کہ مرکزی حکومت نے 60,948وینٹیلیٹرس خریدنے کا حکم جاری کیا ہے۔ 15ستمبر 2020تک 32,109 وینٹیلیٹرس ریاستوں کو الاٹ کر دیے گئے ہیں، جن میں سے 30,663وینٹیلیٹر بھیجے جاچکے ہیں۔ اسی تحریری جواب میں یہ بھی بتایا گیا کہ کل 58,850’میک اِن انڈیا‘ وینٹیلیٹر تیار ہو رہے ہیں۔

لیکن 20مئی2021کو وزارت صحت وخاندانی بہبود نے آر ٹی آئی ایکٹیوسٹ لوکیش بترا کو آر ٹی آئی کے تحت دیے گئے انفارمیشن میں بتایا کہ 3اپریل 2020کو وزارت صحت وخاندانی بہبود نے 30ہزار وینٹیلیٹرس خریدے تھے، اس کے بعد اب تک 58,850 وینٹیلیٹرس خریدے گئے ہیں۔

وہیں وینکٹیش نائک کو حکومت ہند کے ’ایچ ایل ایل لائف کیئر لمیٹیڈ‘ نے 7ستمبر 2020کو دیے آر ٹی آئی کے جواب میں بتایا کہ اب تک کل 28,963 وینٹیلیٹرس خریدنے کے لیے آرڈر دیے جا چکے ہیں۔

واضح رہے کہ 18مئی 2020کو وزیراعظم کے مشیر بھاسکر کلبے نے وزارت صحت کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے پی ایم کیئرس فنڈ سے دو ہزار کروڑ روپیوں کی رقم سے 50ہزار ’میڈ اِن انڈیا‘ وینٹیلیٹرس کے آرڈر دیے جانے کی جانکاری دی تھی۔ اب سوال ہے کہ خریدے گئے وینٹیلیٹرس کے اعداد وشمار میں اتنا کنفیوزن کیوں ہے۔

وینٹیلیٹرس کی خریدی کی رقم کے الگ الگ اعداد وشمار

وزیر مملکت برائے صحت وخاندانی بہبود اشونی کمار چوبے نے 12 مارچ 2021 کو لوک سبھا میں دیے گئے تحریری جواب میں بتایا کہ حکومت نے 38,867 وینٹیلیٹروں کی خریداری کے لیے 1850.76 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔

وہیں 20 مئی 2021 کو وزارت صحت وخاندانی بہبود نے آر ٹی آئی ایکٹیوسٹ لوکیش بترا کو آر ٹی آئی کے تحت دیے گئے انفارمیشن میں بتایا کہ 30اپریل 2020کو بھارت الیکٹرانکس لمیٹڈ (بی ای ایل) سے1513.90کروڑ میں 30,000وینٹیلیٹر خریدے گئے۔ اس کے بعد 818.08کروڑ روپے کے 28,850 وینٹیلیٹرس کچھ دوسری کمپنیوں سے خریدے گئے ہیں۔ اس طرح 58,850 ہزار ’میک اِن انڈیا‘ وینٹیلیٹرس کی خریداری کے لیے 2332کروڑ کی کل رقم میں سے 2000کروڑ کی مالی امداد پی ایم کیئرس فنڈس سے لی گئی ہے۔

وینکٹیش نائک کو حکومت ہند کے ’ایچ ایل ایل لائف کیئر لمیٹیڈ‘ نے 7 ستمبر 2020کو دیے آر ٹی آئی کے جواب میں بتایا کہ اب تک کل 28,963 وینٹیلیٹرس خریدنے کے لیے آرڈر دیے جا چکے ہیں اور ان پر کل 834 کروڑ 15 لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔

وینٹیلیٹرس کی قیمتوں میں بہت بڑا فرق کیوں؟

وینکٹیش نائک کو آر ٹی آئی سے ملے اہم دستاویزوں کو جب ہفت روزہ دعوت نے بغور دیکھا تو پایا کہ حکومتی ٹینڈر میں ایک ہی اسٹینڈرڈ اسپیسیفیکیشن والی وینٹیلیٹروں کی قیمتوں میں کافی زیادہ فرق ہے۔ ’بی پی ایل میڈیکل‘ کے وینٹیلیٹر کی قیمت 15.64 لاکھ ہے اور ’اگوا‘ اور ’آندھرا پردیش میڈی ٹیک‘ کے وینٹیلیٹرس کی قیمت 1.66 لاکھ ہے، یعنی قیمت میں آٹھ نو گنا تک کا فرق ہے۔

وینکٹیش نائک کو آر ٹی آئی سے ملے اہم دستاویزوں کے مطابق، نئی دہلی کے ’بی پی ایل میڈیکل ٹیکنولوجیز پرائیویٹ لمیٹیڈ‘ نے اپنے ایک وینٹیلیٹر ELISA 600 ماڈل کی قیمت 15 لاکھ 34 ہزار 400 روپے طے کی ہے، وہیں اس کمپنی کے دوسرے وینٹیلیٹر ELISA 300 ماڈل کی قیمت 14 لاکھ 28 ہزار روپے ہے۔ چنئی کی کمپنی ’ویپرو جی ای ہیلتھ کیئر‘ نے اپنے ایک وینٹیلیٹر کی قیمت 13 لاکھ 94 ہزار 400 روپے طے کی ہے۔ گروگرام کی کمپنی ’الائیڈ میڈیکل لمیٹیڈ‘ نے اپنے ایک وینٹیلیٹر کی قیمت 8 لاکھ 62 ہزار 400 روپے رکھی ہے۔ وہیں نوئیڈا کی کمپنی ’اگوا‘ اور وشاکھا پٹنم کی کمپنی ’آندھرا پردیش میڈی ٹیک زون لمیٹیڈ‘ کے وینٹیلیٹرس کی قیمت ایک لاکھ 66 ہزار 376 روپے رکھی گئی ہے۔

غور طلب بات ہے کہ جب حکومت ہند کے ’ایچ ایل ایل لائف کیئر لمیٹیڈ‘ نے ٹینڈر نکالا تو معلوم ہوا کہ خریدے جانے والے وینٹیلیٹرس کے فیچرس ایک کمیٹی نے طے کیے اور یہ شرط رکھی گئی کہ ہر وینٹیلیٹرس مینوفیکچرنگ کمپنی کو یہی فیچرس رکھنے ہوں گے، ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہی جیسے فیچرس اور ایک ہی اسٹینڈرڈ اسپیسیفیکیشن والے وینٹیلیٹروں کی قیمتوں میں اتنا فرق کیوں ہے؟

جس کمپنی نے کبھی وینٹیلیٹر بنایا ہی نہیں، اسے دیا گیا آرڈر

آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ اتر پردیش کے نوئیڈا میں مقیم ’اگوا ہیلتھ کیئر‘ کو دس ہزار وینٹیلیٹر بنانے کا آرڈر ملا۔ جب کہ اس سے قبل ’اگوا‘ کو وینٹیلیٹر بنانے کا کوئی تجربہ ہی نہیں رہا ہے۔ بلکہ آن لائن موجود جانکاری کے مطابق یہ کمپنی سال 2020 کے اکتوبر مہینے میں بنی ہے۔ ’اگوا ہیلتھ کیئر‘ نے کار بنانے والی کمپنی ماروتی کی مدد سے وینٹیلیٹر بنائے ہیں۔

’ہف پوسٹ انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، حکومت کی جانب سے تشکیل دیے گئے ’ٹیکنیکل ایویلیویشن کمیٹی‘ نے 16مئی 2020کو دلی کے رام منوہر لوہیا اسپتال میں ’اگوا ہیلتھ کیئر‘ کی وینٹیلیٹرس کا ایک ٹرائل کیا، جس کے بعد اس کمیٹی نے بتایا کہ اس کمپنی کا وینٹیلیٹر ’ریسپیریٹری پیرامیٹر‘ کو درست نہیں رکھ پا رہا ہے۔ اس کمیٹی نے صاف طور پر کہا کہ ’ان وینٹیلیٹرس کو مزید جانچنے کی ضرورت ہے۔ انہیں کثیر بیماری والے مریضوں پر استعمال کرکے دیکھنا ہوگا تاکہ یہ پتہ چل سکے یہ ایمرجنسی وینٹیلیٹر کی طرح کام کرسکتے ہیں یا نہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جہاں میڈیکل گیس پائپ لائن سسٹم نہیں ہے وہاں یہ مشین کیسے کام کرے گی۔

لیکن اس رپورٹ کے 11دنوں بعد 27مئی کو ’اگوا‘ کمپنی کے وینٹیلیٹرس کی دوبارہ جانچ کے لیے ایک نئی ٹیم تشکیل دے دی گئی اور ان وینٹیلیٹروں کی دوبارہ ٹیسٹنگ ہوئی۔ اس کمیٹی نے کہا کہ ’اگوا‘ نے پہلی کمیٹی کی جانب سے دیے گئے مشوروں کے ساتھ کافی سدھار کرلیا ہے اور اس کا پی ای ای پی ٹھیک کام کر رہا ہے۔

یکم جون 2020کو اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اس وینٹیلیٹر کو ٹیسٹنگ میں پاس کردیا گیا ہے، جیسا کہ ’کووڈ-19 کے سبب حالات کو دیکھتے ہوئے ہمیں وینٹیلیٹروں کی ملک بھر میں ضرورت ہے۔‘یہی نہیں، گجرات کے راجکوٹ کی کمپنی ’جیوتی سی این سی‘ کو بھی ٹھیکہ ملا۔ اس کمپنی کو بھی ماضی میں وینٹیلیٹر بنانے کا کوئی تجربہ نہیں رہا ہے۔ یہ وہی کمپنی ہے جس کے وینٹیلیٹر ’دھمن 1‘ کو لے کر ڈاکٹروں نے سوال کھڑے کیے تھے، لیکن اس کے باوجود اس کمپنی کو پانچ ہزار وینٹیلیٹرس بنانے کا آرڈر دیا گیا۔ ’جیوتی سی این سی‘ وہی کمپنی ہے، جس نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کا نام لکھا ہوا سوٹ تحفہ میں دیا تھا، جس پر کافی تنازعہ ہوا کھڑا ہوا تھا۔

بامبے ہائی کورٹ نے لگائی پھٹکار

مہاراشٹر کے اورنگ آباد میں پی ایم کیئرس فنڈ کے تحت مرکز سے سرکاری اسپتالوں کو ملے 150 میں سے 113وینٹیلیٹرس خراب پائے گئے۔ یہ تمام وینٹیلیٹرس ’جیوتی سی این سی‘ کمپنی سے ہی خریدے گئے تھے۔ ان خراب وینٹیلیٹروں کو لے سنوائی کرتے ہوئے 2 جون 2021 کو بامبے ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر وینٹیلیٹرس کام نہیں کر رہے ہیں، تو انہیں تبدیل کرنے کی ذمہ داری مرکزی حکومت کی ہوگی۔

اس سے قبل 28 مئی 2021 کو مرکزی حکومت نے بامبے ہائی کورٹ کے سامنے مکمل طور پر انکار کر دیا تھا کہ اورنگ آباد علاقے میں سپلائی کیے گئے خراب وینٹیلیٹرس پی ایم کیئرس فنڈ کے ذریعے فراہم کیے گئے تھے۔ مرکزی حکومت کے مطابق یہ وینٹیلیٹرس مرکزی وزارت صحت وخاندانی بہبود کی وزارت کے ذریعہ خریدے گئے تھے۔

دراصل بامبے ہائی کورٹ نے اس معاملے پر مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔ اس پر اسسٹنٹ سالیسیٹر جنرل اجئے تلہر نے وزارت صحت وخاندانی بہبود کے انڈر سکریٹری جی کے پیلئی کی جانب سے ایک حلف نامہ داخل کیا۔ حلف نامے میں حکومت کا جواب پڑھ کر ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کی کھچائی کی اور کہا کہ حلف نامہ پڑھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے حکومت وینٹیلیٹر بنانے والی گجرات کی کمپنی کے دعوؤں کی حمایت کر رہی ہے۔

حلف نامے میں کہا گیا تھا کہ وینٹیلیٹر میں کوئی خرابی نہیں ہے اور دیگر کئی ریاستوں میں اس کمپنی نے جو وینٹیلیٹر دیے ہیں، وہ ٹھیک طرح سے کام کر رہے ہیں۔ اس میں مزید یہ بھی کہا گیا،’’اسپتال کے عملے کو مناسب طریقے سے تربیت دی جانی چاہیے تھی انہیں وینٹیلیٹر کو استعمال کرنا نہیں آیا۔‘‘

ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت سے پوچھا ’’کیا آپ کمپنی کو صحیح ٹھیرانا چاہتے ہیں یا اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ یہ وینٹیلیٹر لوگوں کی زندگی کو متاثر کر رہے ہیں؟‘‘ بنچ نے کہا کہ حیرانی کی بات ہے کہ مرکزی حکومت نے کمپنی کے دعوؤں کو جوں کا توں کیسے مان لیا اور آپ نے یہ تک نہیں کہا کہ اس معاملے کی جانچ ہو گی۔

بامبے ہائی کورٹ نے کہا ’’ہم اس دعوے کو صحیح نہیں مان سکتے کہ وینٹیلیٹر صحیح حالت میں ہیں، ہم مرکز کی تعریف کرتے اگر حلف نامے میں الزامات سے بچا جاتا اور اس کے بجائے مریضوں کے تئیں حساسیت دکھائی جاتی، اپنے شہریوں کی دیکھ بھال کرنا حکومت کا بنیادی مقصد ہے۔‘‘

بتادیں کہ صرف مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر حصہ سے وینٹیلیٹروں میں خرابی کی شکایتیں آرہی ہیں۔ پنجاب کے شرومنی اکالی دل کے صدر سکھبیر سنگھ بادل نے بھی 11 مئی 2021 کو وزیر اعظم نریندر مودی سے پی ایم کیئرس فنڈ کے ذریعے خراب وینٹیلیٹروں کی خریداری کی تحقیقات کا حکم دینے کی گزارش کی ہے۔ یہاں پی ایم کیریئرس فنڈ کے تحت حاصل صرف فرید کوٹ کے گرو گووند سنگھ میڈیکل کالج میں ہی 80 وینٹیلیٹروں میں سے 71 خراب پائے گئے ہیں۔

وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں سکھبیر سنگھ بادل نے کہا ہے ’’مجھے یقین ہے کہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ قومی صحت کی ہنگامی صورتحال کے وقت ناقص معیار کے وینٹیلیٹروں کی فراہمی ایک جرم ہے۔ اس کے لیے ذمہ دار کمپنی کے مالکان کو گرفتار کیا جانا چاہیے اور قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے‘‘

13 مئی 2021 کو راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ پی ایم کیئرس فنڈ سے حاصل ہونے والے تقریباً 1900 وینٹیلیٹرس کا معیار اچھا نہیں ہے۔ یہ تمام وینٹیلیٹر ایک یا دو گھنٹے چل کر بند ہو جاتے ہیں۔ اس میں پریشر ڈراپ کا مسئلہ ہے۔

مرکزی حکومت نے تمام الزامات کو کیا مسترد

دلچسپ بات یہ ہے کہ 15 مئی 2021 کو مرکزی حکومت نے حکم دیا کہ اس کے ذریعہ ریاستوں کو بھیجے گئے تمام وینٹیلیٹرس کا آڈٹ کیا جائے گا، یعنی ریاستوں کو اس کا حساب کتاب رکھنا ہوگا کہ ان وینٹیلیٹر کا استعمال کہاں، کیسے اور کب ہوا۔ یہ حکم ایک ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب تمام ریاستوں سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ پی ایم کیئرس فنڈ کے ذریعے خریدے گئے زیادہ تر وینٹیلیٹرس خراب ہیں، کووڈ کی دوسری لہر میں بھی ان کا استعمال نہیں ہو سکا اور وہ اب بیکار پڑے ہوئے ہیں۔

لیکن باوجود اس کے مرکزی حکومت نے وینٹیلیٹروں میں خرابی کے تمام الزامات کو واضح طور پر مسترد کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ ایک حکم میں کہا گیا ہے ’’وزیر اعظم نے کچھ ریاستوں میں دھول چاٹ رہے وینٹیلیٹرس کی خبروں کو سنجیدگی سے لیا ہے اور ہدایت دی ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ فراہم کرائے گئے وینٹیلیٹرس کو لگانے اور اس کے استعمال کرنے کا فوری آڈٹ کیا جائے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ اگر ضرورت ہو تو طبی کارکنوں کو وینٹیلیٹروں کے مناسب استعمال کی تربیت فراہم کی جانی چاہیے۔

بین الاقوامی تعاون میں ملے 11,516 وینٹیلیٹرس

حکومت کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق 27 اپریل 2021 سے 22 مئی 2021 تک مجموعی طور پر حکومت ہند کو 11,516 وینٹیلیٹرس یا بی آئی پی اے پی بین لاقوامی تعاون کے طور پر حاصل ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ 16,630 آکسیجن کونسٹریٹر، 15,961 آکسیجن سلنڈر، 19 آکسیجن جنریشن پلانٹس، اور 6.99 لاکھ ریمڈیسیویر انجکشن مرکزی حکومت مختلف ملکوں سے تعاون کے طور پر ملے ہیں۔

وہیں 15 ستمبر 2020 کو وزرات صحت وخاندانی بہبود کے وزیر مملکت اشونی کمار چوبے نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ امریکہ نے یو ایس اے آئی ڈی کے ذریعہ دو کھیپ جون میں سو اور اگست میں سو جملہ دو سو ٹرانسپورٹ وینٹیلیٹرس ہندوستان کو بھیجے ہیں۔ve

***

دستاویزوں کے مطابق، نئی دہلی کے ’بی پی ایل میڈیکل ٹیکنولوجیز پرائیویٹ لمیٹیڈ‘ نے اپنے ایک وینٹیلیٹر ELISA 600 ماڈل کی قیمت 15 لاکھ 34 ہزار 400روپے طے کی ہے، وہیں اس کمپنی کے دوسرے وینٹیلیٹر ELISA 300 ماڈل کی قیمت 14لاکھ 28ہزار روپے ہے۔ چنئی کی کمپنی ’ویپرو جی ای ہیلتھ کیئر‘ نے اپنے ایک وینٹیلیٹر کی قیمت 13لاکھ 94ہزار 400روپے طے کی ہے۔ گروگرام کی کمپنی ’الائیڈ میڈیکل لمیٹیڈ‘ نے اپنے ایک وینٹیلیٹر کی قیمت 8لاکھ 62ہزار 400 روپے رکھی ہے۔ وہیں نوئیڈا کی کمپنی ’اگوا‘ اور وشاکھا پٹنم کی کمپنی ’آندھرا پردیش میڈی ٹیک زون لمیٹیڈ‘ کے وینٹیلیٹرس کی قیمت ایک لاکھ 66 ہزار 376روپے رکھی گئی ہے۔
غور طلب بات ہے کہ جب حکومت ہند کے ’ایچ ایل ایل لائف کیئر لمیٹیڈ‘ نے ٹینڈر نکالا تو معلوم ہوا کہ خریدے جانے والے وینٹیلیٹرس کے فیچرس ایک کمیٹی نے طے کیے اور یہ شرط رکھی گئی کہ ہر وینٹیلیٹرس مینوفیکچرنگ کمپنی کو یہی فیچرس رکھنے ہوں گے، ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہی جیسے فیچرس اور ایک ہی اسٹینڈرڈ اسپیسیفیکیشن والے وینٹیلیٹروں کی قیمتوں میں اتنا فرق کیوں ہے؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم اگست تا 7 اگست 2021