آزاد ہندوستان کا منظرنامہ اور خیرامت

ابنائےوطن کو حقیقی آزادی سے روشناس کروانے کی ضرورت

لئیق اللہ خاں منصوری، ایم اے، بنگلور

 

ہر سال پندرہ اگست کو ملک عزیز میں یوم آزادی کا جشن منایا جاتا ہے۔جنگِ آزادی کے مراحل اور مجاہدینِ آزادی کو یاد کیا جاتا ہے۔آزاد ہندوستان میں ہم نے اب تک کیا کھویا اور کیا پایا، ملک نے کتنی ترقی کی، جیسے موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔لیکن اس پہلو پر کم ہی گفتگو ہوتی ہے کہ کیا واقعی ہمارا ملک ہر طرح کی غلامیوں سے آزاد ہوچکاہے؟ کیا اس ملک کے شہری حقیقی آزادی سے ہمکنار ہوئے ہیں؟ آزادی کا حقیقی تصور کیا ہے؟ ایک مسلمان کے لیے آزادی کا کیا مفہوم ہے؟ آئیے ان پہلوؤں پر غور کرتے ہیں۔
دستور ہند کی تمہید میں انصاف، آزادی، مساوات اور اخوت کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔دستورِہندکے حصہ سوم میں ’’بنیادی حقوق ‘‘کے عنوان کے تحت جن حقوق کا ذکر کیا گیا ہے ان میں حقِ مساوات کے فوری بعد دوسرے نمبر پر حقِ آزادی کو درج کیا گیا ہے جس میں اظہارِ خیال کی آزادی، امن کو خراب کیے بغیر جمع ہونے، انجمن یا یونین قائم کرنے، ملک میں آزادانہ نقل وحرکت کرنے، کسی بھی علاقہ میں رہائش اختیار کرنے، کسی پیشہ کو اختیار کرنے اور تجارت وکاروبار چلانے کی آزادی کا حق محفوظ کیا گیا ہے۔دفعات پچیس اور چھبیس میں ’’مذہب کی آزادی کا حق ‘‘کے عنوان کے تحت آزادیٔ ضمیراور کسی بھی مذہب کو آزادنہ قبول کرنے، اس کی پیروی کرنے اور اس کی تبلیغ کی آزادی کو درج کیا گیا ہے،ساتھ ہی مذہبی امور کے انتظام کی آزادی بھی محفوظ کی گئی ہے۔دستور ہند کے یہ بنیادی اجزااس ملک کے تمام شہریوں کے لیے خوش آئند ہیں اور ان اصولوں کی حفاظت کے لیے تمام شہریوں کو یکساں طور پر فکر کرنی چاہیے۔
گزشتہ چوہتر برسوں میں اس ملک نے کئی نشیب وفراز دیکھے ہیں۔مجموعی لحاظ سے ملک میں دستوری تحفظات قائم ہیں لیکن ان تحفظات کو کمزور کرنے اور مخصوص طبقات کے خلاف ماحول کو مکدر کرنے، جانی ومالی نقصان پہنچانے کی کوششیں وقتاً فوقتاً ہوتی رہی ہیں جن کے نتیجے میں چھوٹے بڑے فسادات سے اس آزاد ملک کی تاریخ داغ دار نظر آتی ہے۔مسلم دشمنی کی بنیاد پرپرسنل لا پر ڈاکہ ڈالنے کی کوششیں دستور ہند کے تحفظات کے وقار کو مجروح کرتی رہی ہیں۔بابری مسجد اور رام مندر کے حوالے سے ملک کے شہریوں میں مستقل تناؤ کی کیفیت قائم رکھ کر ملک کی قومی یکجہتی کو خراب کرنے کا کام کیا جاتا رہا ہے۔شہریوں کے درمیان تفریق وامتیاز اور مخصوص طبقات کے خلاف نفرت کا فروغ دستور ہند میں محفوظ کیے گئے بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔۲۰۱۴ء سے ان منفی کیفیات ورجحانات میں برابر اضافہ ہوتا رہا ہے۔اظہار رائے کی آزادی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔میڈیا کا غیر جانب دارانہ رول کمزور ہوا ہے اور میڈیا کا ایک حصہ جانب دار ہوچکا ہے۔غیر جانب دار عدالتی نظام کو اس طرح کمزور کیا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہی خطرہ میں پڑ گئی ہے۔حکومت کی غلط پالیسیوں یا اس کے نمائندوں پر حقیقت پسندانہ تنقید کو ملک کے خلاف قرار دیا جانے لگا ہے۔آزادانہ انتخابی نظام اس ملک کی پہچان رہی ہے لیکن ماضی قریب میں انتخابی نظام کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔ای وی یم کی دھاندلیوں پر آوازیں اٹھتی رہی ہیں لیکن شاطرانہ طور پر ان آوازوں کوکمزور کیا جاتا رہا ہے۔سی اے اے اور ین آر سی کی آڑ میں شہریوں کی ایک بڑی تعداد کی شہریت کو ہی ختم کرنے کی سازش رچی گئی، جسے ملک بھر میں ہوئے احتجاجات اور کورونا وبا نے فی الوقت موقوف یا ملتوی کررکھا ہے۔ملک کی آزاد فضا اور جمہوری اقدار کے لیے یہ فسطائی رجحانات ایک سنگین خطرہ ہیں۔آج ہمارا ملک ان رجحانات کی بیڑیوں میں محصور ہے جن سے آزادی کے لیے کوشش کرنا ان تمام شہریوں کی ذمہ داری ہے جو دستور کے تحفظات کو ملک کی سالمیت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں فرعون نے بھی اسی قسم کی تفریق اور ظلم وزیادتی کا طریقہ اختیار کیا تھا اور بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔فرعون کے طرز عمل کو اللہ تعالیٰ نے فساد قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو سورہ قصص:۴) جبکہ اللہ کا منشا یہ تھا کہ اس دبے کچلے گروہ کو اوپر اٹھا کر برسر اقتدار بنادے اور فرعون اور اس کے لشکروں کو وہی کچھ دکھادے جس سے وہ خائف ہیں۔خدا کے دربار میں دیر ہے اندھیر نہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شیطانی چالوں کو کمزور قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو سورہ نساء:۷۶)۔خدائے تعالیٰ انسانوں کی چالوں کو انہیں کے خلاف پھیر دیتا ہے۔جس دریا سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام اور بنی اسرائیل کو بحفاظت پار کرایا تھا اسی دریا میں فرعون اور اس کے لشکرکو غرقاب کردیااور فرعون کی لاش کو قیامت تک لیے درس عبرت بنا کر رکھ دیاتاکہ آنے والا ہر زمانے کا فرعون سبق لے کر اپنی فرعونی حرکتوں سے باز رہے ،بصورت دیگر اسی قسم کے انجام سے دوچار ہونے کے لیے تیار ہوجائے۔ملک کی صورت حال کو بہتر بنانے
اور ملک میں حقیقی آزادی کو بحال کرنے کے لیے تمام امن پسندشہریوں کو بڑے پیمانے پر فسطائیت کے خلاف مؤثر تحریک چلانی ہوگی۔ملک کے صالح عناصر کو مجتمع اور منظم کرنا ہوگا۔ملک میں صالح اقدار پر مبنی سیاست کو فروغ دینا ہوگا۔ایسے نمائندوں کو آگے بڑھانا ہوگا جو ملک اور شہریوں کی خیر خواہی کو اپنا اولین فرض سمجھ کر خدمت انجام دینے کی صلاحیت کے حامل ہوں۔قوی امید ہے کہ ان کوششوں سے ملک کے سیاسی منظرنامہ میں خوش گوار تبدیلی محسوس ہو گی اور باشندگان ملک کو حقیقی آزادی میسر آسکے گی۔ان شاء اللہ
اس گفتگو کا دوسرا پہلو امت مسلمہ سے متعلق ہے۔ اسلام ساری انسانیت کے لیے اللہ کا دیا ہوا دین ہے جس میں انسانوں کے جملہ مسائل کا حل موجود ہے۔جو دین اللہ کے رسولﷺ نے نمونے کے طور پر عملاً قائم کر کے دکھا دیااور حضرات خلفائے راشدین نے طریقۂ نبوت پر جاری و ساری کر دیا، آج وہ دین دنیا میں اجنبی بن کے رہ گیا ہے۔ہم نے دین کو گھر اور مسجد کی حد تک محدود کر دیا ہے جبکہ اللہ کا دین مکمل اور قیامت تک کے لیے محفوظ ہے۔یہ دین زندگی کے ہر پہلو میں انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔اسلام کا اپنا روحانی اور اخلاقی نظام ہے، معاشرتی اور معاشی نظام بھی ہے اور قانونی و سیاسی نظام بھی ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہ نظام، تلاوت اور قرآن کی زینت بنے رہنے کے لیے نازل نہیں کیا ہے بلکہ امت مسلمہ کو اس قرآن کا حامل بنا کر منصب نبوت کی جانشین امت کے طور پر خیر امت کے مقام پر فائز کیا ہے تاکہ دنیا کی اصلاح کا انبیائی کام جاری رہے اور اس کا دین دنیا میں قائم ہو اور انسانوں کے لیے خوش حالی میسر آسکے۔قیامت تک انبیائی کام اسی امت مسلمہ کے ذمہ ہے۔آج مسلمان آزاد ہیں، لیکن اسلام مقید ہے۔علامہ اقبالؒ نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے :
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اسلام کی حقیقی آزادی اس وقت سمجھی جائے گی جب اسے معاشرہ میں عملاً نافذ کیا جائے گا۔یقیناً یہ خواب ایک طویل جدوجہد کا متقاضی ہے لیکن اگر امت اس مشن کے شعور ہی سے غافل ہوجائے ، یا شعور تو ہو لیکن کسی جدوجہد کو ضروری نہ سمجھا جائے تو ملک وملت کے روشن مستقبل کا خواب دیکھنا بھی عجیب محسوس ہوگا۔ امت کے سامنے راستہ یہی ہے کہ وہ اپنی منصبی ذمہ داری کو محسوس کرے۔اس ملک میں اللہ کے دین کو اللہ کے بندوں تک پہنچائے ، ان کی غلط فہمیوں کودور کرے۔یہ دین دنیا میں بسنے والے ہر انسان کا حق ہے،اور اس حق کو حق داروں تک پہنچانے کی ذمہ داری ملت اسلامیہ کی ہے۔اگر ہم اسلام کے حیات بخش نظام سے خوش اسلوبی کے ساتھ باشندگان ملک کو متعارف کرائیں گے تو ممکن نہیں کہ سعید روحیں اسے قبول کرنے سے انکار کردیں۔ہمیں پر امن اور آئینی طریقوں سے اسلام کے حق میں ملک کی رائے عامہ کو ہموار کرنا ہوگا۔دعوت دین کے ساتھ صالح افراد کو منظم کرنااور نظام حکومت کی اصلاح کے لیے ایک دور رس وژن کے ساتھ تمام طبقات کی نمائندگی کو یقینی بناتے ہوئے صالح افراد پر مشتمل اورصالح اقدار پر مبنی سیاسی متبادل کو فروغ دینا ہوگا۔امت مسلمہ اپنے مشن کو سمجھ کر اگر جدوجہد کے لیے تیار ہوجائے تو اس ملک کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔امت مسلمہ نتیجہ خیز محنت کی مکلف ہے،اور کوشش ہی کے بارے میں مسئول ہے۔ نتیجہ اللہ کے اختیارمیں ہے۔یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ’’جو لوگ ہماری خاطرمجاہدہ کریں گے ، انہیں ہم اپنے راستے دکھا ئیں گے، اور یقیناًاللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے۔ (سورہ عنکبوت:۶۹)۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نصب العین کا شعور نصیب فرمائے اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
***

اسلام کی حقیقی آزادی اس وقت سمجھی جائے گی جب اسے معاشرہ میں عملاً نافذ کیا جائے گا۔یقیناً یہ خواب ایک طویل جدوجہد کا متقاضی ہے لیکن اگر امت اس مشن کے شعور ہی سے غافل ہوجائے ، یا شعور تو ہو لیکن کسی جدوجہد کو ضروری نہ سمجھا جائے تو ملک وملت کے روشن مستقبل کا خواب دیکھنا بھی عجیب محسوس ہوگا۔ امت کے سامنے راستہ یہی ہے کہ وہ اپنی منصبی ذمہ داری کو محسوس کرے۔اس ملک میں اللہ کے دین کو اللہ کے بندوں تک پہنچائے ، ان کی غلط فہمیوں کودور کرے۔یہ دین دنیا میں بسنے والے ہر انسان کا حق ہے،اور اس حق کو حق داروں تک پہنچانے کی ذمہ داری ملت اسلامیہ کی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم اگست تا 7 اگست 2021