او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس

بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا اور حقوق انسانی کی پامالی پر اظہار تشویش

مسعود ابدالی

چین کا مسلم ممالک سے اظہار یکجہتی لیکن ایغور مسئلہ پر خاموشی
عالم اسلام کو سب سے پہلے اپنا احتساب کرنے کی ضرورت: ترکی
منظمہ التعاون الإسلامی، المعروف او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس اسلام آباد میں ختم ہو گئی۔ یہ ادارے کے وزرائے خارجہ کی 48 ویں بیٹھک تھی۔ او آئی سی کا قیام مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی پر مسلم دنیا کے شدید ردعمل کا نتیجہ تھا۔ یہ واقعہ 21اگست 1969کو پیش آیا جب 28سالہ آسٹریلوی انتہا پسند ڈینس مائیکل روحان نے فجر کی نماز کے بعد مسجد اقصیٰ کے منبر پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی تھی۔ بارہویں صدی کا یہ منبر تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے شام کے سلجوقی حکمراں نور محمد زنگی نے حلب کی جامعہ مسجد کے لیے 1169 میں بنوایا تھا۔ لکڑی سے تراشے گئے اس منبر کی محراب پر خوبصورت رسم الخط میں قرآنی آیات تحریر تھیں۔ جب 1187 میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو ساری اسلامی دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور نورالدین زنگی نے بہت اہتمام کے ساتھ یہ منبر بیت المقدس بھجوا دیا۔ سلطان صلاح الدین نے اپنے ہاتھوں سے منبر کو مسجد اقصٰی میں نصب کیا اور اس پر بیٹھ کر پہلا خطبہ دیا، اس وقت سے یہ منبرِ سلطان صلاح الدین ایوبی کہلاتا ہے۔
ڈینس کا دعویٰ تھا کہ وہ (نعوذ باللہ) خدا کا فرستادہ ہے اور اسے اس کے رب نے مسجد اقصیٰ کو تباہ کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ اس جگہ پر ہیکل سلیمانی تعمیر کیا جا سکے۔ آگ سے نہ صرف منبر جل کر خاک ہوا بلکہ قریب کے چوبی ستون، دروازے اور چھت کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا۔ واقعے کے دوسرے روز ڈینس کو پولیس نے گرفتار کر لیا لیکن مقدمے کے دوران اسرائیلی عدالت نے اسے ذہنی مریض (insane) قرار دیتے ہوئے علاج کے لیے نفسیاتی ہسپتال بھیج دیا۔ پانچ سال بعد اُسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر واپس آسٹریلیا روانہ کر دیا گیا۔
مسجدِ اقصیٰ میں آتشزدگی کا سانحہ 1967 کے سقوطِ بیت المقدس کے صرف دو سال بعد پیش آیا۔ القدس شریف پر قبضے کے ساتھ ہی انتہاپسندوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ مسجد اقصٰی ہیکل سلیمانی کی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے اور اسے منہدم کرنے کی تجاویز کئی بار پیش کی گئیں، چنانچہ آگ لگنے کی خبر آتے ہی ساری دنیا کے مسلمان مشتعل ہو گئے۔ سب سے بڑ مظاہرہ سری نگر میں ہوا۔
مفتیِ اعظم فلسطین سید امین الحسینی نے مسلم سربراہان اور مولانا مودودی سمیت دنیا کی اسلامی تحریکوں اور تنظیموں کو خطوط لکھے جس میں قبلہ اول کی حفاظت کے لیے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے پر زور دیا گیا۔ مفتی صاحب نے اپنے مراسلوں میں لکھا کہ فلسطینی عوام خود پر ڈھائے جانیوالے مظالم کا مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن مسجد اقصیٰ، مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کی طرح مسلم امت کا مشترکہ سرمایہ ہے جسکے تحفظ کے لیے مراقش سے انڈونیشیا تک ساری ملت کو مل کر جدوجہد کرنی ہو گی۔
سعودی عرب کے فرماں روا شاہ فیصل بن عبدالعزیز، مراقش کے بادشاہ حسن دوم، انڈونیشیا کے صدر سوہارتو اور ملائیشیا کے وزیراعظم ٹنکو عبدالرحمان نے مختلف مسلم سربراہوں سے گفتگو کی اور 22 سے 25 ستمبر تک مراقش کے دارالحکومت رباط میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی جہاں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔ چوٹی ملاقات سے پہلے وزرائے خارجہ کے کئی اجلاس ہوئے جس میں ایجنڈے کے علاوہ رکنیت کی شرائط طئے کی گئیں جس کے مطابق مسلم اکثریتی ممالک کے علاوہ ان ملکوں کو بھی رکن بنایا جائے گا جہاں مسلمان اکثریت میں تو نہیں لیکن قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی طئے ہوا کہ ہندوستان کو مبصر کے طور پر دعوت دی جائےگی۔ دہلی کو مدعو کیے جانے کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان، پاکستان اور انڈونیشیا مسلم آبادی کے اعتبار سے دنیا کے تین بڑے ممالک ہیں۔
اس تاسیسی اجلاس میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان شدید بدمزگی پیدا ہوئی جس کا جائزہ شائد ہمارے قارئین کو دلچسپ محسوس ہو۔
سربراہ کانفرنس کے لیے وزرائے خارجہ کے تیاری اجلاس میں پاکستان نے بھی ہندوستان کو مدعو کرنے کی حمایت کی تھی اسی بنا پر یہ فیصلہ متفقہ قرار پایا۔ہندوستان نے دعوت ملنے پر وفد کی تشکیل شروع کر دی اور اس دوران رباط میں ہندوستان کے سفیر شری گربچن سنگھ کو وفد کا قائم مقام سربراہ مقرر کردیا گیا۔ وزیر اعظم شریمتی اندرا گاندھی نے او آئی سی کانفرنس کے لیے فخرالدین علی احمد کی سربراہی میں ایک چار رکنی وفد کی منظوری دی۔ فخرالدین علی احمد اس وقت وزیر صنعت تھے جو بعد میں ہندوستان کے صدر منتخب ہوئے۔ وفد کے دوسرے ارکان میں مشہور ماہر لسانیات اور جامعہ علی گڑھ کے سابق شیخ الجامعہ ڈاکٹر عبدالعلیم، وزارت خارجہ کی ایک اعلی افسر ڈاکٹر عشرت عزیز اور شری گربچن سنگھ کو نامزد کیا گیا۔
اتفاق سے اسی دوران احمد آباد میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے جس میں جانی نقصان کے ساتھ کاروباری مراکز کو نذر آتش کر کے مسلمانوں کا معاشی قتل عام بھی کیا گیا۔ پاکستان کے صدر یحییٰ خان نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے او ائی سی کے تاسیسی اجلاس کے لیے ہندوستان کا دعوت نامہ منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ صدر یحییٰ نے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اگر سربراہی اجلاس میں ہندوستانی وفد موجود ہوا تو وہ اس نشست میں شریک نہیں ہوں گے۔ انہوں نے شاہ مراقش کی اس گاڑی کو واپس بھیج دیا جو انہیں لینے ان کی قیام گاہ آئی تھی۔ پاکستانی صدر کو منانے مراقش کے بادشاہ، سعودی شاہ فیصل، شہنشاہ ایران، صدر سوہارتو اور افغان وزیر اعظم جناب اعتمادی خود شاہی محل آئے لیکن صدر یحیٰی اپنے وقف پر ڈٹے رہے۔ یہ صورتحال میزبان کی حیثیت سے مراقشی حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث تھی۔ معاملہ خراب ہونے پر ہندوستانی وفد نے خود ہی شرکت سے معذرت کر لی۔ اپنے ایک بیان میں ہندوستانی سفیر گربچن سنگھ نے کہا کہ ’ہندوستان مسلم قوم کے مفادات کو اپنی سفارتی انا کے بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتا چنانچہ ہم بوجھل دل کے ساتھ اجلاس میں شرکت سے معذرت کرتے ہیں‘۔
تاسیسی اجلاس کے بعد سے او آئی سی کے 12 سربراہ اجلاس ہو چکے ہیں۔ دوسری سربراہی کانفرنس 22 سے 24 فروری 1974، لاہور میں منعقد ہوئی جس میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا جس کے بعد شیخ مجیب الرحمان نے اجلاس میں شر کت کی۔ اس وقت او آئی سی کے رکن ممالک کی تعداد 57 ہے جن میں سے 56 اقوام متحدہ کے رکن ہیں، فلسطین کو اقوام متحدہ میں مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔ بڑی مسلم اقلیت والے ممالک روس اور تھائی لینڈ کے علاوہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین بھی اوآئی سی کے اجلاسوں میں مبصر کے طور پر شریک ہوتے ہیں۔ اگر جغرافیائی اعتبار سے او آئی سی کا تجزیہ کیا جائے تو افریقہ کے 27، ایشیا کے 27 اور جنوبی امریکہ کے دو یعنی گیانا اور سرینام اس کے رکن ہیں۔ او آئی سی میں یورپ کا صرف ایک ملک البانیہ شامل ہے۔ شام کی رکنیت معطل ہے۔ او آئی سی کے رکن ممالک کی کُل آبادی ایک ارب 90 کروڑ ہے۔
ہم جنس پرستی جیسے حساس سماجی معاملے پر او آئی سی یکسو نہیں۔ اس حوالے سے سرکاری موقف یہ ہے کہ تنظیم ہم جنس پرستی کو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف سمجھتی ہے لیکن البانیہ، گبون، گنی بساو اور سیرالیون نے اقوام متحدہ کے اس چارٹر پر دستخط کر دیے ہیں جس کے تحت ہم جنس پرستی کو ایک معمول کا انسانی رویہ تسلیم کیا گیا ہے۔ بحرین، عراق، اردن اور ترکی نے اقوام متحدہ کے مذکورہ بالا چارٹر پر دستخط تو نہیں کیے لیکن ان ملکوں میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔
حالیہ وزرائے خارجہ کانفرنس 48 ویں تھی جو اسلام آباد میں 22 سے 23 مارچ کو منعقد ہوئی۔ پاکستان اس سے پہلے چار بار وزرائے خارجہ کانفرنس کی میزبانی کرچکا ہے، 1970 اور 1993 کی مجلسیں کراچی میں، جبکہ 1980 اور 2007 کے اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوئے۔
حالیہ اجلاس کے آغاز پر غیر ضروری جوش و خروش نظر آیا اس لیے کہ ایک ہفتہ قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے Organization of Islamic Cooperation (اوآئی سی) کی جانب سے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 15 مارچ کو یومِ تدارکِ اسلامو فوبیا (Day to Combat Islam phobia) قرار دیا گیا۔ یہ بلاشبہ او آئی سی کا بڑا کارنامہ ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کے معاملے پر دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس موضوع پر ہم ایک تفصیلی مضمون گزشتہ ہفتے نذرِ قارئین کرچکے ہیں۔
’شراکت برائے اتحاد، انصاف اور ترقی‘ کو اس کانفرنس کا خیالیہ (theme) قرار دیا گیا اور تقریروں میں اتحاد پر خاصا زور رہا لیکن ہر ملک نے مسلمانوں سے بدسلوکی کے معاملے میں اپنے مفادات کا ’خاص‘ خیال رکھا۔ مثلاً عمران خان نے مسلمانوں سے بدسلوکی کا ذکر کرتے ہوئے چین کے ایغور اور میانمار (برما) کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموشی اختیار کر لی کہ چین کے بارے میں خاطرِ احباب لاحق تھا۔ اسی طرح ترک وزیر خارجہ میولت چاووشولو (Mevlut Cavusoglu) نے مسلم امت کے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے یروشلم کی طرف اشارہ کیا لیکن اس بار فلسطینیوں کی حالتِ زار پر ان کا لہجہ روایتی ترک جوش وخروش سے محروم تھا۔
اس احتیاط کے باوجود اجلاس سے عمران خان کا افتتاحی خطاب اور ترک وزیر خارجہ کی تقریر کو پزیرائی نصیب ہوئی۔ اپنے خطاب میں ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ’شراکت برائے اتحاد، انصاف اور ترقی‘ کو اس کانفرنس کو محض اس کانفرنس کے خیالیے اور نعرے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ اس ڈھانچے پر فکر وعمل کی یگانگت کے ساتھ بھرپور کام ہونا چاہیے۔ ترک وزیر نے امت مسلمہ کو اس بات پر غور کرنے کی دعوت دی کہ ’ہماری 1400 سال پرانی تہذیب، شاندار ثقافت، سائنس و دانش کہاں ہے؟ آنکھوں سے اوجھل اس خزانے کو کیسے تلاش کیا جائے؟ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے عظیم الشان تہذیبی مراکز یروشلم، دمشق، حلب اور کابل تباہ کر دیے گئے۔ ان کی شناخت بدل دی گئی۔ مسلم ترکوں نے مغرب کو سات سو اور قبرص کو پانچ سو سال عادلانہ نظام فراہم کیا اور اکیسویں صدی میں ہم خود بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔
دنیا بھر کے مسلمانوں کو لاحق آزمائشوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ہمارے بھائی بہنوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں۔ یورپ میں اسلاموفوبیا عروج پر ہے۔ چین میں ترک نژاد اویغور اور دوسرے مسلمانوں کے لیے اپنے مذہب پر عمل کرنا مشکل کر دیا گیا ہے۔ بھارت ان ملکوں میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں لیکن وہاں اسکارف پر پابندی لگا دی گئی ہے یا یوں کہیے کہ کروڑوں چینی اور ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیبی شناخت خطرے میں ہے۔ روہنگیا (برما) مسلمانوں کا تو اب دنیا ذکر بھی نہیں کرتی۔
عالمی قوتوں سے شکوے کے ساتھ انہوں نے خود احستابی پر زور دیا۔ جناب چاووشولو نے کہا اپنی محرومیوں کا دوسروں پر الزام دھر دینا بہت آسان ہے۔ لیکن اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ امت کو سب سے پہلے خود احتسابی پر کاربند ہونا ہو گا۔ لیبیا، شام اور یمن میں بھائی بھائی کا خون بہا رہا ہے۔ کئی اسلامی ممالک کی شناخت خانہ جنگی، زبوں حالی اور خونریزی ہے۔ او آئی سی مشترکہ مفاد کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ اہم معاملات پر ایک زبان ہونے اور مشترکہ بیانیے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ترک وزیر خارجہ نے یوکرین جنگ کے تناظر میں مہذب سفید فام دنیا کی نسل پرست ذہنیت کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے کہا، مغربی میڈیا پر یہ جملے عام ہیں ‘ یہ مشرق وسطیٰ تو نہیں، یہ افغانستان بھی نہیں تو پھر یہاں کیوں خونریزی ہو رہی ہے؟’ ہم کہتے ہیں کہ ‘ہمارے لیے خون بس خون ہے ، چاہے خارکیف میں بہے یا حلب میں ‘
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اسلامی دنیا کو کسی فریق کا اتحادی بننے کے بجائے غیر جانبدار رہ کر خونریزی روکنے اور تنازعہ کا حل میں قائدانہ کردار اداکرنا چاہیے ۔ یوکرین کی جنگ سے ساری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہم ڈیڑھ ارب ہیں لیکن عالمی منظر نامے میں ہماری کوئی حیثیت نہیں۔ یہ اس لیے کہ ہم نے خود کو بڑی طاقتوں سے وابستہ کر لیا ہے۔ گروہی (بلاک) سیاست اور مجازی کشمکش (Cold War) نے دنیا کو غلط سمت میں ڈال دیا ہے جو اجتماعی تباہی کا راستہ ہے۔ مسلم دنیا کو اس سے الگ رہ کر حق وانصاف کے اصولوں پر قیامِ امن کی کوشش کرنی چاہیے۔ عمران خان نے زور دے کر کہا کہ افغان حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ ہمارے افغان بھائی سنگین انسانی بحران کا شکار ہیں۔ اگر دنیا سے دہشت گردی کی وجوہات کو ختم کرنا ہے تو افغان حکومت کی مدد اور اسے مستحکم کرنا ہو گا۔ مغرب میں انسان تو کیا جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے لیکن مظلوم افغانوں کا کسی کو خیال نہیں جو چالیس برس سے بیرونی حملوں اور مداخلت کا شکار ہیں۔ کوئی قوم افغانوں کی طرح متاثر نہیں ہوئی۔ دنیا جان لے کہ افغان قوم پر فیصلے مسلط نہیں کیے جا سکتے۔
پاکستانی وزیر اعظم نے او آئی سی کا نظریاتی تشخص اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے کی بنیادی ذمہ داری اسلامی اقدار کا تحفظ ہے، ہمیں انٹرنیٹ پر فحاشی کے خاتمے کے لیے مشترکہ اقدامات کرنے ہوں گے، دنیا غلط سمت میں جا رہی ہے، ہم 1.4 ارب مسلمانوں کو دنیا میں خیر کے فروغ اور ظلم وستم اور ناانصافی کے خاتمے کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے ولے ‘اعلانِ اسلام آباد’ میں فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے حق خود ارادی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا۔ او آئی سی نے اپنے پرانے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسرائیل کی 1967 کی سرحدوں پر واپسی انصاف کا تقاضا ہے۔ اعلامیے میں القدس شریف کو آزاد وخود مختار فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا گیا۔
اوآئی سی نے جموں وکشمیر کے مسلمانوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ان کے حق خودارادی کے تحفظ پر زور دیا۔ اعلامیے میں 5 اگست 2019 کو جموں وکشمیر کی خود مختار حیثیت کی تبدیلی پر اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے اسے سلامتی کونسل کی قراراداد کی صریح خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ اس سال 9 مارچ کو آواز سے تیز رفتار میزائیل کی آزمائش کے دوران ہندوستان کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا بھی اعلامیے میں نوٹس لیا گیا۔
اعلانِ اسلام آباد میں جموں وکشمیر کے علاوہ مالی، صومالیہ، سوڈان، کیمرون، جیبوتی، بوسنیا، نگورنوکاراباخ( آذربائیجان) اور ترک قبرصی عوام کو مسلم امت کی جانب سے غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا گیا۔ ایران یا حوثیوں کا نام لیے بغیر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر میزائیل اور ڈرون حملوں کی شدید مذمت کی گئی۔
مشرقی یورپ میں یوکرین اور روس کے درمیان جنگ سے ہونے والے جانی ومالی نقصانات پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے روس اور یوکرین پر زور دیا گیا کہ وہ جنگ بند کر کے اپنے تنازعات بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ اس ضمن میں او آئی سی نے ثالثی کی بھی پیشکش کی۔
مسلم وزرائے خارجہ کو افغانستان کی صورتحال پر سخت تشویش ہے۔ او آئی سی نے افغانستان کی سالمیت اور خود مختاری کی مکمل حمایت کرتے ہوئے افغان اسٹیٹ بینک کی منجمد رقوم جلد از جلد جاری کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ کابل کی مالی مشکات کو دور کیا جا سکے۔
حالیہ او آئی سی کانفرنس کی سب سے اہم بات چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی شرکت تھی جنہیں مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا۔ جناب وانگ یی نے دعوت پر حد درجہ مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے میزبان یعنی پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو ’بھائی جان‘ کہہ کر مخاطب کیا۔
انہوں نے کہا ’کشمیر پر ہم نے آج ایک بار پھر اپنے بہت سے اسلامی دوستوں کے مطالبات سنے ہیں, جن کی چین مکمل حمایت کرتا ہے۔‘ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان شری ارندم باگچی نے اس بیان کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ’ہم او آئی سی کے افتتاحی اجلاس میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی طرف سے بھارت کے حوالے کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘جموں وکشمیر سے متعلق تمام امور، بھارت کے اندرونی معاملات ہیں۔ جس پر چین سمیت دیگر ممالک کے پاس تبصرے کا کوئی جواز نہیں ۔
کشمیر کے معاملے پر چینی وزیر خارجہ کے بیان اور اس پر ہندوستان کا شدید ردعمل جس وقت سامنے آیا اس کے دوسرے ہی دن جانب وانگ یی کو دہلی پہنچنا تھا۔ لداخ میں گزشتہ برس چین اور بھارت کے درمیان خوفناک تصادم کے بعد کسی چینی رہنما کا یہ پہلا دورہ بھارت تھا۔ وانگ یی 25 مارچ کو کھٹمنڈو جاتے ہوئے کابل سے دہلی پہنچے تھے جہاں انہوں نے اپنے ہم منصب ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال سے ملاقات کی۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس دورے کا مرکزی ایجنڈا شدید معاشی پابندیوں میں جکڑے روس کی مدد تھا۔ بیجنگ اور دہلی دونوں کا خیال ہے کہ پابندیوں سے امن کے امکانات روشن ہونے کے بجائے روس کے اشتعال میں اضافہ ہو رہا ہے ۔اسی کے ساتھ جناب وانگ نے چین بھارت تعلقات معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر ہندوستان نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے بات چیت کے آغاز کو لداخ سے چینی فوجی کی واپسی سے مشروط کر دیا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 تا 09 اپریل  2022