ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ترقی یافتہ ممالک کا کھلونا

محنت کشوں کو مراعات سے محروم کرنے اور کارپوریٹ اداروں کو فائدہ پہچانے کی پالیسی!

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

بین الاقوامی ادارہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن WTO ایک ایسا ادارہ ہے جس کے تحت بین الاقوامی سطح پر تجارت ہوتی ہے۔ یہ واحد بین الاقوامی ادارہ ہے جو مختلف ممالک کے درمیان تجارت کے قوانین طے کرتا ہے، ایسے ممالک جو بین الاقوامی طور پر تجارت کرنا چاہتے ہیں یہ ادارہ ان کے درمیان ایک کڑی کا کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ ممالک کے درمیان معاہدے طے کرواتا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک اس کے رکن ہیں۔ ان ملکوں کی پارلیمنٹوں نے اس کی باضابط توثیق کی ہے۔
اس ادارے کے 164 ممالک ممبر ہیں جس کے تحت بین الاقوامی تجارتی معاہدے طے پاتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے۔ اس کے اجلاس میں ملک کے بڑے بڑے وزرا شریک ہوتے ہیں، یہی ادارہ طے کرتا ہے کہ کون سا ملک کس ملک سے اپنے تجارتی معاہدے کر سکتا ہے اور اپنی پیداوار کا کتنا فیصد برآمد کر سکتا ہے۔ بین الاقوامی طور پر بہت سے معاشی معاملات اسی کے ذریعے طے پاتے ہیں۔ اس ادارے پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ یہ صرف ترقی یافتہ ممالک کے مفادات کا خیال رکھتا ہے بلکہ صرف ان ہی ممالک کی خدمت کے لیے کام کرتا ہے۔ اس ادارے کے ممبر ممالک کے درمیان اختلافات بھی پائے جاتے ہیں، اس کے ممبر ممالک دو حصوں میں منقسم ہیں، ایک حصہ ان ممالک پر مشتمل ہے جو ترقی یافتہ ہیں اور دوسرا وہ جو ترقی پذیر ہیں۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی اس کا اجلاس منعقد ہونے جا رہا ہے، اس اجلاس کے ایجنڈے پر ابھی سے تنقیدوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ بہت سے ممالک کا کہنا ہے کہ ادارہ واضح طور پر اپنی قراردادیں ایسی مرتب کر رہا ہے جس سے صرف اور صرف ترقی یافتہ ممالک کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں خاص طور پر چار پانچ نکات مثلا: غذائی مراعات فوڈ سیکیورٹی اور زراعت، مچھلیوں پر دی جانے والی مراعات، کوویڈ ویکسین کی انٹلیکچول پراپرٹی کی برخواستگی، آئن لائن ٹرانزیکشن پر ٹیکس اور کوویڈ سے متعلق حالات پر گفتگو کی جائے گی۔
ایسے ممالک جو زرعی کہلاتے ہیں اور جن کی معیشت کا زیادہ حصہ زراعت پر مشتمل ہے انہوں نے اس کے پہلے نکتہ پر سخت اعتراض کیا ہے۔ ہمارے ملک نے بھی اس اجلاس میں پیش ہونے والے قرارداد کے مسودے پر اعتراض اٹھایا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک اس قرارداد کو کس طرح روک پاتے ہیں جو صرف ترقی یافتہ ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔
اس اجلاس کے مسودے کی پہلی شق فوڈ سیکیورٹی اینڈ اگریکلچر کے تحت یہ طے کیا جائے گا کہ ہر زرعی ملک اپنی پیداوار کا کتنا حصہ اپنے ملک میں محفوظ کر سکتا ہے اور کتنا بر آمد کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ادارے نے ایک فارمولا تیار کیا ہے کہ ہر زرعی ملک اپنی پیداوار کا صرف دس فیصد حصہ ہی اسٹاک کر سکتا ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ دس فیصد بھی رواں سال یا سالانہ پیداوار کا نہیں بلکہ 1986 اور 1988 میں ہونے والی پیداوار کے دس فیصد حصہ کے مطابق ہو گا۔ ہمارا ملک اناج کی پیداوار کو کسانوں سے خریدتا ہے اور پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے ذریعے غریب عوام میں تقسیم کرتا ہے جو زرعی پیداوار (اناج) کا تقریباً 24 فیصد ہوتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ڈبلیو ٹی او کے فارمولے کے مطابق عوامی تقسیم کا یہ نظام چلے؟ بڑی ہوشیاری کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک نے مسودے میں اس شق کو رکھا ہے، یعنی جو ملک اناج پیدا کرتا ہے وہ اپنی مکمل پیداوار کا دس فیصد حصہ بھی اسٹاک نہیں کر سکتا بلکہ 1986 کی پیداوار کے مطابق ہی اسٹاک کر سکے گا۔ ہمارا ملک اس قانون کے مطابق گندم دس فیصد اسٹاک کرتا ہے اور جہاں تک دھان کی بات ہے وہ دس فیصد سے زیادہ اسٹاک کر رہا ہے، کیوں کہ بہت ساری ریاستوں نے دھان کی پیداوار بڑھا دی ہے، مثلا تلنگانہ میں دھان کی کاشت گزشتہ سالوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ مرکز دھان خریدنے میں ٹال مٹول کرتا ہے، کیوں کہ ہمارا ملک بھی ڈبلیو ٹی او کا رکن ہے اور اس کے وضع کردہ اصولوں پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ملک دس فیصد سے زیادہ اسٹاک کرتا ہے تو کیا ہو گا جبکہ ہمارا ملک دس فیصد سے زیادہ اسٹاک کرتا ہے اور وہ اس کی ضرورت بھی ہے۔ اس کے لیے ہمارے ملک نے 2013 میں ایک امن معاہدہ کیا جسے پیس کلاس کہا جاتا ہے، اس کے تحت اگر کوئی ملک دس فیصد سے زیادہ اناج اسٹاک کرتا ہے تو اس کو ڈبلیو ٹی او کے بہت سارے شرائط ماننے پڑتے ہیں، تبھی وہ اپنی حد مقرر سے زیادہ اسٹاک کر سکتا ہے ورنہ ڈبلیو ٹی او اس کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتا ہے، انہی شرائط کی بناء پر ہمارا ملک ڈبلیو ٹی او کے سامنے سر جھکاتا ہوا نظر آتا ہے۔ تلنگانہ اور مرکز کے درمیان دھان کی خریداری پر جو رسہ کشی چلتی ہے وہ انہی قوانین کی وجہ سے ہے، ریاست کہتی ہے کہ پہلے جس طرح ہم سے دھان خریدا جاتا تھا اسی طرح آج بھی خریدا جائے لیکن مرکز چوں کہ ڈبلیو ٹی او کا پابند ہے اس لیے وہ ہر ریاست سے پوری دھان کی فصل نہیںخرید سکتا۔
نئے زرعی قوانین بھی اسی کا ایک حصہ ہیں، حکومت گاہے بگاہے یہ بات کہتی رہتی ہے کہ اناج کے تحفظ کا نظام نہیں ہونا چاہیے، کسان اپنی پیداوار کہیں بھی کسی کو بھی فروخت کر سکتا ہے، کم از کم قیمت خرید کا نظام بھی صحیح نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ تین زرعی قوانین کا لانا اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت نے ڈبلیو ٹی او کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ہے۔
ڈبلیو ٹی او کا استدلال یہ ہے کہ حکومتیں کسانوں سے سستے داموں اناج خرید کر مہنگے داموں برآمد کر رہی ہیں جو کہ بین الاقوامی تجارتی قوانین کے خلاف ہے اور یہی ترقی یافتہ ممالک کا بھی کہنا ہے، جبکہ زرعی پیداوار کرنے والے ممالک، اور خاص طور پر ہمارے ملک کا کہنا یہ ہے کہ اتنے بڑے ملک میں اگر حکومتی سطح پر اگر اناج کی خریداری کا نظام نہ رکھا جائے تو غریب عوام کو اناج کی تقسیم نہیں ہو پائے گا اور سطح غربت میں اور اضافہ ہو گا اور اگر کم از کم قیمت خرید کا نظام نہ رکھا جائے تو کسانوں کا استحصال ہو گا اور قیمتوں کو قابو میں نہیں رکھا جا سکے گا۔ اناج کی عوامی تقسیم کا نظام اگر لاگو نہیں ہوتا ہے تو اناج کی قیمتیں بے قابو ہو جائیں گی۔
ڈبلیو ٹی او کے مسودے کے مطابق مچھیروں کو دی جانے والی مراعات بھی مکمل طور پر ختم ہو جانی چاہئیں۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ مراعات کی وجہ سے مچھیرے ضرورت سے زیادہ مچھلیاں پکڑ رہے ہیں جس کے نتیجے میں ماحولیاتی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک کا کہنا ہے کہ اس شعبے سے وابستہ افراد جن کا روزگار یہی ہے وہ بے روزگار ہو جائیں گے۔ معاہدے کے تحت یہ سارے مراعات ختم کر دیے جانے چاہئیں لیکن ترقی پذیر ممالک پچیس سال کا وقت مانگ رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومتیں کہاں تک اس کا مقابلہ کرتیں ہیں۔
ڈبلیو ٹی او ایک تجارتی ادارہ ہے اسے عوام سے کیا مطلب، وہ تو صرف تاجروں کے مفادات کی بات کرے گا، اسے کارپوریٹس کے مفادات کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ سارا کھیل ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان کھیلا جا رہا ہے۔ ڈبلیو ٹی او کی ساری چالیں ترقی یافتہ ممالک کو مزید ترقی یافتہ بنانے اور ترقی پذیر ممالک کو اپنے ماتحت کرنے کے لیے چلی جا رہی ہیں۔

 

***

 ڈبلیو ٹی او ایک تجارتی ادارہ ہے اسے عوام سے کیا مطلب، وہ تو صرف تاجروں کے مفادات کی بات کرے گا، اسے کارپوریٹس کے مفادات کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ سارا کھیل ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان کھیلا جا رہا ہے۔ ڈبلیو ٹی او کی ساری چالیں ترقی یافتہ ممالک کو مزید ترقی یافتہ بنانے اور ترقی پذیر ممالک کو اپنے ماتحت کرنے کے لیے چلی جا رہی ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 جولائی تا 09 جولائی 2022