اجتماعی کوششوں سے ہی ملک میں تعلیمی انقلاب برپا کرنا ممکن

ملک بھر میں اکیڈمک انٹنسیو کیئر یونٹ ماڈل اختیار کرنے پر زور

(دعوت دلی نیوزبیورو)

موجودہ تعلیمی وسائل کو بروئے کار لانے کی وکالت، حکومتی اقدامات کا منتظر رہنا وقت کا ضیاع
مرکزی تعلیمی بورڈ کی کانفرنس کا انعقاد۔نیشنل ایچیومنٹ سروے رپورٹ2021 کا جائزہ۔ اہم تجاویز پیش
مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی کے زیر اہتمام دہلی میں واقع صدر دفتر میں ملک کی ’موجودہ تعلیمی صورتحال کی زبوں حالی اور این اے ایس 2021 (نیشنل اچیومنٹ سروے 2021) کی رپورٹ کا تجزیاتی مطالعہ‘ کے عنوان سے ایک اہم کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ مذکورہ رپورٹ جے این یو کے ریسرچ اسکالر سعادت حسین خلیفہ نے پیش کی۔ سعادت حسین نے وزارت تعلیم کے ذریعہ تیار کردہ اس ضخیم رپورٹ کے اہم ترین پہلوؤں پر اپنے طریقے سے تحقیق کی تھی جس کی انہوں نے ایک مختصر مگر جامع رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے وہاں موجود سرکردہ شخصیات، ماہرین تعلیم اور جماعت اسلامی کی مرکزی تعلیمی بورڈ کے اہم ترین ذمہ داروں کو اس کے نکات جستہ جستہ پیش کیے اور اس پر تفصیلی روشنی بھی ڈالی۔
این اے ایس کی رپورٹ کے مطابق عالمی وبا کورونا وائرس کے دوران گزشتہ دو برسوں میں ملک کا تعلیمی نظام بلکہ پورا ڈھانچہ ہی تہہ و بالا ہو گیا۔ اس دوران کورونا کی کئی لہروں نے اور اس درمیان لگائے جانے والے ملک گیر لاک ڈاؤن نے جہاں عام لوگوں کو متاثر کیا وہیں اس نے سب سے زیادہ طلبا و تعلیمی نظام سے جڑے افراد کو مصیبت میں ڈالا۔ اسکولوں اور تعلیمی اداروں کے بند ہونے سے آن لائن ذریعہ تعلیم ملک میں متعارف ہوا لیکن اس کی پیچیدگی کو سمجھنے، اس کو قابل استعمال بنانے، اس کی تکنیکی ضرورت کو بروئے کار لانے اور اسے برتنے میں بھی کافی وقت ضائع ہوا جس سے تعلیم و تعلم کا شعبہ بری طرح متاثر ہوکر رہ گیا۔ آن لائن ذریعہ تعلیم نے دیہی علاقوں میں رہنے والے بیشتر طلبا استفادہ نہیں کر سکے جس کی بنیادی وجہ موبائل فون، ٹیب یا گیزٹ کے نہ ہونے نیز بجلی اور مناسب کنکٹی ویٹی کا فقدان رہا۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر سعادت حسین نے کانفرنس کے شرکا کو بتایا کہ عالمی وبا کے دوران ہونے والے لرننگ لاس (تعلیمی نقصان) کے تعلق سے عظیم پریم جی یونیورسٹی اور یونیسیف نے دو اہم رپورٹیں شائع کی ہیں جس میں تعلیمی اداروں کے رول، اساتذہ اور طلبا کو پیش آنے والی مشکلات، بذریعہ اسکرین اور کیمرے پر مرکوز کلاسز و دیگر امور پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے جسے طلبا و اسکول انتظامیہ کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ متعدد ماہرین تعلیم نے اس تعلق سے بہت کچھ لکھا ہے، مذاکروں اور کانفرنسوں میں بھی اس پر کافی گفتگوئیں ہوئیں لیکن ملک کی ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر انیتا رام پال نے اسے لرننگ ڈپریویشن (تعلیم سے یکساں محرومی) سے تعبیر کیا ہے۔ حکومت ہند کی وزارت تعلیم کے ذریعہ مرتب کر دہ اس اہم ترین رپورٹ میں درجہ سوم، پنجم اور ہشتم کے علاوہ دسویں کلاس کے طلبا کی تعلیمی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں مرکزی و ریاستی حکومتوں کے ذریعہ چلائے جانے والے اسکول، امداد یافتہ اسکول، پرائیوٹ اسکولز اور وہ اسکول جن کی حکومتیں مالی امداد کرتی ہیں، کے طلبا کی تعلیمی لیاقت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کو این سی ای آر ٹی نے ڈیزائن کیا ہے جبکہ سی بی ایس ای نے اس پر تحقیقی کام کیے ہیں۔ اس سروے میں ایک لاکھ، 18 ہزار 274 اسکولوں، وہاں تدریس سے وابستہ اساتذہ (جن کی تعداد تقریباً 5,26,824 ہے) 34 لاکھ طلبا اور پورے ملک کے 733 اضلاع کو اس میں شامل کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ تعلیمی شعبے کے لیے ایک جامع رپورٹ ہے جس میں ملک کے تعلیمی نظام کو جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ یہ رپورٹ تعلیم و تعلم سے جڑے افراد، پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم، غیر سرکاری ایجنسیوں /تنظیموں /اداروں، اسکولوں (خواہ سرکاری ہوں یا خانگی) کے طلبا و طالبات اور تعلیم سے وابستہ ہر شخص کے لیے انتہائی قیمتی اور معلومات کا خزانہ ہے۔ اس میں صنف، ذات پات، شہری و دیہی، سرکاری و غیر سرکای ہر طرح کے اسکولوں کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی تعلیمی صورتحال کو واضح کیا گیا ہے۔
این اے ایس 2021 کے اہم ترین اور کلیدی نکات:
مرکزی و ریاستی حکومت کے تحت چلنے والے اسکولوں، امداد یافتہ اور غیر امداد یافتہ 60 فیصد اسکولوں کا سروے کرنے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں ہمارا ملک اور ہمارا تعلیمی نظام کافی ابتر صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ پورے ملک میں تعلیمی طور پر مغربی بنگال نے تمام پیرا میٹرز (معیار) پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
دہلی کی کیجریوال حکومت اپنے اسکولنگ ماڈل کو ملک بھر میں نافذ کرنے پر اصرار کرتی ہے اور اس کی تشہیر کرتے نہیں تھکتی۔ اسے ورلڈ کلاس ماڈل بھی بتانے سے گریز نہیں کرتی لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ درجہ سوم اور پنجم میں پڑھنے والے طلبا نہایت ہی کمزور ہیں۔ ریاضی، زبان اور دیگر مضامین میں یہ طلبا کافی کمزور ہیں۔ درجہ ہشتم کے طلبا لینگویج اور سائنس میں قدرے بہتر ہیں لیکن سوشل سائنس میں یہ طلبا بہت پیچھے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہروں میں رہنے والے 72 فیصد طلبا کے پاس آن لائن کلاسز کے لیے موبائل فون دستیاب ہے اس لیے ان کی تعلیم دیہی علاقوں کے طلبا سے بہتر ہوئی ہے لیکن ان کی لیاقت اتنی نہیں ہے جتنی کہ ہونی چاہیے۔ درج فہرست ذات و قبائل اور دیگر پسماندہ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کووڈ کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور ان کی تعلیمی پسماندگی میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے جو تشویش کا باعث ہے۔ انہیں نہ تو تکنیکی آلات ہی مہیا کرائے گئے اور نہ ہی ان کے تعلیم کے لیے کوئی الگ سے مناسب انتظام کیا گیا۔
رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن کلاسز زیادہ سودمند ثابت نہیں ہوئیں۔ کیوں کہ بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنا ماؤں کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے امور خانہ داری جن کی ذمہ داری ہے ان کی تعلیمی استعداد بہت کم ہے۔ 18 فیصد خواتین پڑھنا لکھنا نہیں جانتیں۔ 7 فیصد خواتین پڑھی لکھی تو ہیں لیکن وہ کبھی اسکول نہیں گئیں۔ 5 فیصد خواتین کی تعلیمی لیاقت پرائمری سطح سے بھی کم ہے۔ 25 فیصد خواتین پرائمری سے اپر پرائمری تک ہی تعلیم یافتہ ہیں۔ 27 فیصد خواتین سکنڈری اور ہائر سکنڈری تک کی ہی تعلیم حاصل کر پائی ہیں۔ 12 فیصد خواتین ہی گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر میں 78 فیصد مائیں بارہویں سے نیچے تک کی ہی تعلیم حاصل کر پائی ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے بچوں کو تعلیم میں کتنا حد تک ہاتھ بٹا سکتی ہیں یہ سمجھا جا سکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ این اے ایس 2021 پر اس کانفرنس میں تفصیلی روشنی ڈالی گئی جس کے بعد شرکا نے بھی اپنے تاثرات پیش کیے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق پرو وائس چانسلر پروفیسر الیاس حسین نے مذکورہ رپورٹ کی روشنی میں مرکزی تعلیمی بورڈ کو کافی اہم تجاویز پیش کیں۔ اسکول آف ایکسیلنس، نئی دہلی کے پرنسپل محمد شارق نے اس موقع پر دہلی حکومت کے ذریعہ چلائے جانے والے ’مشن بنیاد‘ کی طرف شرکا کی توجہ مبذول کرائی اور اس سے رونما ہونے والے مثبت اثرات پر بھی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے تعلیمی گراوٹ کو دور کرنے کے لیے بہت ہی اہم نکات کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے بیس لائن اسسٹمنٹ، زبان و بیان کو سمجھنے کے لیے طلبا کی تیاری، ہفتہ وار اسسمنٹ، سمر کیمپ کا انعقاد، طلبا کو سمر کیمپ میں زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کے لیے کن تدابیر کا استعمال کرنا ہے، اس کے نکات، طلبا کی تعلیمی لیاقت کو سمجھنے کے لیے کیا پیمانے اختیار کیے جانے چاہیے اور ان کے مسائل کیسے دور کرنے ہیں، برج کورس، اکیڈمک کیلنڈر کی تیاری، کمیونیٹی پارٹیسیپیشن، موبائل کا مفید استعمال کیسے کریں؟ ریڈنگ میلہ، والدین کی تربیت، ٹکنالوجی کا صحیح استعمال اور طلبا و اساتذہ کے درمیان بہتر روابط سمیت متعدد امور کی طرف شرکا کی توجہ مبذول کروائی۔
مرکزی تعلیمی بورڈ کے ڈائرکٹر، میڈیا سیل و شعبہ تعلیمات کے سکریٹری اور ماہر تعلیم سید تنویر احمد نے اس اہم ترین کانفرنس میں تعلیمی شعبے میں انقلاب لانے والے ایک نئے ماڈل کو روشناس کرایا۔ اسے اے آئی سی یو ماڈل (اکیڈمک انٹینسیو کیئر یونٹ) کا نام دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ماڈل کو شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس (جو طلبا کو مسابقتی امتحانات میں تیار کرانے کے لیے ملک بھر میں امتیازی مقام رکھتا ہے) نے تجربے کے طور پر شروع کیا جس کے انتہائی حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس ماڈل کے ذریعہ کمزور طلبا کی تعلیمی لیاقت کو ہونہار طلبا کی تعلیمی لیاقت کے مساوی کر دیا گیا ہے جو تعلیمی میدان میں کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ اگر ہم اس ماڈل کو اختیار کریں تو ہم اپنے طلبا کو ہر مضمون اور مسابقتی امتحانات کے لیے بہت بہتر طریقے سے تیار کر سکیں گے۔ یہ آزمودہ اور کافی کارگر نسخہ ہے جسے ہر سطح پر اختیارکیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مرکزی و ریاستی حکومتوں کو مشورہ دیا کہ وہ سب سے پہلے طلبا و اساتذہ کے توازن کو مساوی کریں۔ اساتذہ کی خالی اسامیوں کو پُر کریں۔ تعلیم میں آنے والی گراوٹ کی نشاندہی کریں اور اس کے حل کے لیے منصوبہ بندی کریں نیز اس کے لیے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی کی تشکیل کریں اور کمیٹی کی پیش کردہ تجاویز پر فی الفور عملدرآمد کریں۔ اقلیتوں اور پسماندہ طبقات پر خصوصی فوکس کرتے ہوئے انہیں تعلیم کے مرکزی دھارے میں شامل کریں کیوں کہ جب تک ایک بڑا طبقہ تعلیم سے دور رہے گا تب تک شرح خواندگی میں اضافے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ مرکزی تعلیمی بورڈ ملک بھر کے ماہرین تعلیم کو یکجا کر کے ایک ملک گیر کانفرنس کا اہتمام کرے گا جس میں آگے کی حکمت عملی طے کی جائے گی اور ملک کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں کی جائیں گی۔
مرکزی تعلیمی بورڈ کے چیئرمین مجتبی فاروق جو اس کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے، نے اپنے صدارتی خطاب میں تمام مقررین کی تجاویز پر کافی جامع انداز میں روشنی ڈالی۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم اس وقت تک تعلیمی نظام کو درست نہیں کرسکتے جب تک ہم مجموعی طور پر اس کے تئیں ذمہ دارانہ مظاہرہ پیش نہیں کرتے۔ انہوں پی پی پی ماڈل (پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ) کو تھوپنے کی پرزور انداز میں مخالف کرتے ہوئے کہا کہ اس سے تعلیم کی نجکاری ہو گی جو کسی کے لیے بھی مفید نہیں ہو گی۔ اس کا سب سے منفی اثر معاشی طور پر کمزور طبقات کے بچوں پڑے گا اور اس کی وجہ سے ملک تعلیمی شعبے میں مزید ابتر پوزیشن میں پہنچ جائے گا۔ انہوں نے بالخصوص اقلیتی طبقے میں تعلیمی بیداری لانے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی شعبے میں حکومت کیا کچھ کرے گی، اس کا انتظار کرنا وقت کے ضیاع سے زیادہ کچھ نہیں ہے، لہٰذا ہمیں موجودہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کے امکانات تلاش کرنے ہوں گے اور اجتماعی کوششوں کے ذریعہ ہی ملک میں تعلیمی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔
کانفرنس میں مرشد علی (نائب صدر آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس ایسو سی ایشن)، محمد فریاد علی (استاذ، ہمدرد پبلک اسکول) شکیل احمد (ریاستی صدر، اے آئی آئی ٹی اے) خلیق احمد (سکریٹری، اے آئی آئی ٹی اے) محمد مظفر علی، عبدالرشید (آل انڈیا ایجوکیشن موومنٹ) قاضی محمد میاں (مینیجر، دی اسکالر اسکول) پروفیسر محمد فاروق (این سی ای آر ٹی) سلیم اللہ خان (اسسٹنٹ سکریٹری، مرکزی تعلیمی بورڈ) اور مولانا انعام اللہ فلاحی (مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند) سمیت دیگر سرکردہ شخصیات نے بھی اظہار خیال کیا اور اہم تجاویز پیش کیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 جولائی تا 09 جولائی 2022