پولیس کو انتباہ دینے والی طالبہ ہمت و جرأت کی علامت بن گئی

افروز عالم ساحل، دلی

؍ دسمبر 2019ء کو پورے ملک میں جنوبی دہلی علاقے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ ڈھائی منٹ کی اس ویڈیو میں پانچ لڑکیاں اپنے ساتھی طالب علم پر پولیس کا تشدد دیکھ کر طیش میں آجاتی ہیں۔ پھر اپنے ساتھی کو پولیس کے ظلم سے بچانے کے لیے انسانی ڈھال بن جاتی ہیں۔ پولیس والوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں اور ان کے خلاف ’واپس جاؤ، واپس جاؤ‘ کے نعرے لگاتی ہیں اور بالآخر انہیں واپس جانے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ انہی پانچ بہادر و دلیر لڑکیوں میں ایک عائشہ رنا بھی ہیں۔ انہوں نے حملہ آور دہلی پولیس اہلکاروں کو روکنے کے لیے نہ صرف خود کو پولیس کی لاٹھیوں کے آگے کرلیا بلکہ اپنے ہاتھ کی انگلی اٹھاکر انہیں وارننگ بھی دی کہ اگر اب لاٹھی اٹھی تو بہت برا ہوگا۔ اس سے پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تقریر کرتے ہوئے ان کی ایک تصویر پہلے ہی وائرل ہوچکی تھی۔ اس تصویر اور ویڈیو کی تعریف پوری دنیا میں کی گئی اور پولیس کو انگلی اٹھاکر خبردار کرتی عائشہ ہمت و جرأت کی ایک علامت بن گئی ہیں۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں عائشہ رنا کہتی ہیں، ’ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں کہتی تھیں کہ وہ خواتین کو خود اختیار بنائیں گی، لیکن ان پارٹیوں نے ملک کی خواتین کو کبھی بھی اپنی باتوں کو رکھنے کا کوئی موقع نہیں دیا۔ اس لیے یہ مسلم عورتیں اپنی شناخت کے ساتھ کھل کر باہر آرہی ہیں۔ یہ کافی خوش آئند ہے اور میں امید کرتی ہوں کہ امپاورمنٹ کی بات کرنے والی دوسری خواتین بھی باہر آئیں گی اور ہمارا ساتھ دیں گی۔‘
عائشہ مزید کہتی ہیں، ’یہ ہندتوا پالیسی والی بی جے پی حکومت ہمیشہ اختلاف کی آوازوں کو دباتی آئی ہے اس لیے وہ ملک بھر میں جاری شہریت ترمیمی قانون مخالف احتجاج کو ہر حال میں کچل دینا چاہتی ہے۔ لیکن شاید حکومت یہ بھول رہی ہے کہ ہماری یہ لڑائی ملک کے آئین کو بچانے کے لیے ہے، اسے کچلنا ممکن نہیں ہے۔‘
امپاورمنٹ کے سوال پر وہ کہتی ہیں، ’ابھی ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ وومن امپاورمنٹ کی سب سے صحیح و مناسب مثال ہے۔ اس سے بہتر وومن امپاورمنٹ کی کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ مسلم عورتوں کے بارے میں ہمیشہ سے کہا جاتا رہا ہے کہ وہ حجاب کی وجہ سے پچھڑی ہوئی ہیں، لیکن آج یہ اسی حجاب کے ساتھ باہر ہیں اور اپنے اور اپنے ملک کے وقار کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔‘
مرکزی حکومت اور پولیس کے رول پر بات کرتے ہوئے عائشہ کہتی ہیں، ’پولیس کا ظلم صرف اور صرف مسلم اکثریتی علاقوں میں ہورہا ہے اور جن لوگوں کی جان گئی ہے، اس میں بھی اکثریت مسلمانوں کی ہی ہے۔ بی جے پی کا ہمیشہ سے پہلا نشانہ مسلمان ہی رہے ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کو بھی اسی لیے لایا گیا ہے کیونکہ آسام این آر سی کے بعد وہاں مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنا اصل مقصد ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے دیگر مذاہب کے انصاف پسند لوگوں کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہوں، جیسے بھیم آرمی چیف چندر شیکھر آزاد ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مسلمانوں کے بعد دوسری اقلیت بھی اس بی جے پی حکومت کے نشانے پر ہوگی۔‘
جب عائشہ کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی تب کچھ ٹی وی چینلوں نے عائشہ پر کئی سوال کھڑے کیے تھے۔ اس پر سوال پر عائشہ کہتی ہیں، ’رائٹ ونگ میڈیا کو میں نے کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا ہے کیونکہ یہ شروع سے اس احتجاج کو دبانےکی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ ہمیں ٹارگیٹ کرنے کا اصل مقصد بھی اس تحریک کو دبانا ہی ہے۔ ان کو جو کرنا ہے کریں ہم اب پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔
ملک بھر میں جاری اس تحریک کے مستقبل کو کیسے وہ دیکھتی ہیں۔ اس سوال کے جواب میں عائشہ کہتی ہیں، ’بی جے پی حکومت کی نیت بہت ہی خراب اور خطرناک ہے لیکن اسی حکومت کو ابھی ہمیں اگلے چار سال تک جھیلنا ہے۔ تو ایسے میں یہ لڑائی اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ ابھی اس حکومت کی مخالفت نہیں ہوئی تو یہ اور بھی خطرناک پالیسیاں ملک میں نافذ کرے گی۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ این پی آر کو روکا جائے کیونکہ یہ تمام خطرناک پالیسیوں کی ایک شروعات ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ملک کے تمام لوگ اس کا بائیکاٹ کریں اور کوئی بھی کاغذ کسی بھی سرکاری افسر کو نہ دکھائیں اور نہ دیں۔
مستقبل میں سیاست میں جانے کے سوال پر عائشہ کا جواب ہے، ’نہیں، بالکل نہیں! سیاست میں جانے کا کوئی خیال نہیں ہے۔ اس بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں۔ ابھی ذہن میں بس ایک ہی سوچ ہے کہ کس طرح سے سی اے اے اور این پی آر کو اس ملک میں روکا جائے۔
عائشہ رنا کا تعلق کیرالا کے ملاپورم سے ہے۔ انہوں نے ملاپورم کے ہی کالج سے گریجویشن پاس کیا تھا اور اب دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم اے ہسٹری کر رہی ہیں۔ یہ پوچھنے پر کہ وہ پڑھائی اور سرگرمی دونوں میں توازن کس طرح قائم رکھ رہی ہیں، عائشہ نے کہا ’’ اکٹیویزم اکیلے کام نہیں کر سکتا اس لیے تعلیم اور اکٹیویزم کو ساتھ لے کر چلتی ہوں۔ ان دونوں میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اپنی فیملی، بہن اور دوستوں کی مدد لے رہی ہوں۔ ملک کے تمام نوجوانوں سے میری اپیل ہے کہ احتجاج کے ساتھ ساتھ ہر حال میں تعلیم پر توجہ برقرار رہنی چاہیے‘‘۔
میں حجابی مسلمان ہوں اور مجھے اس شناخت پر فخر ہے :لدیدہ فرزانہ
پوری دنیا میں وائرل ہوئے ویڈیو کی ان پانچ بہادر و دلیر لڑکیوں میں ایک کیرالا کے کنور علاقے کی لدیدہ فرزانہ بھی ہیں۔ اس سے پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تقریر والی تصویر میں عائشہ رنا اور چندا یادو کے ساتھ ساتھ لدیدہ بھی شامل ہیں۔ یہ بھی پورے ملک میں چل رہے شہریت ترمیمی قانون مخالف تحریک کا ایک نشان بن گئی۔ لدیدہ بھی اس وقت ملک بھر میں گھوم پھر کر لوگوں کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف متحد کر رہی ہیں۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں لدیدہ شہریت ترمیمی قانون سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ملک میں جاری احتجاجوں پر اپنی خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’اب یہ ملک گیر تحریک بن چکی ہے۔ ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ ملک کے عام لوگ کسی قانون کے خلاف اپنے گھروں سے باہر نکل رہے ہیں، ملک کی آئین کو بچانے کی بات کر رہے ہیں۔ اور خاص بات یہ بھی ہے کہ ان تمام احتجاجوں کی عورتیں و نوجوان قیادت کر رہے ہیں۔‘
ایک طویل گفتگو میں وہ کہتی ہیں، ’میں ایک حجابی مسلمان ہوں اور مجھے اپنی اس شناخت پر فخر ہے۔‘
لیکن حجاب سے کئی لوگوں کو مسئلہ ہے اور اس سے متعلق کئی طرح کے بیانات بھی آتے ہیں، اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گی؟ اس سوال پر لدیدہ کہتی ہیں، ’ایک عورت کو پورا حق ہے کہ وہ جیسے چاہے رہ سکتی ہے۔ اگر کوئی حجاب یا برقعہ پہنتی ہے تو یہ اس کی خود کی پسند ہے۔ ہمیں اس پر زبردستی اپنی پسند، خیال یا نظریہ تھوپنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مجھے اپنے ڈھنگ سے جینے کا حق ہمارے آئین نے دیا ہے۔‘
وومن امپاورمنٹ کے سوال پر وہ کہتی ہیں، ’میری نظر میں وومن امپاورمنٹ صرف گھروں سے باہر نکلنا نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اُلٹ ہے۔ ایک عورت اپنے گھر کے اندر یا باہر رہ کر دونوں ہی طریقوں سے امپاور ہو سکتی ہے۔ اس میں اس کی خود کی چوائس سب سے ضروری ہے۔ ہمیں اس کے فیصلوں کی عزت کرنا سیکھنا ہوگا اور یہ بات بھی دھیان میں رکھنا ہوگا کہ ہمیں کوئی اور امپاور نہیں کر سکتا۔ سچ پوچھیے تو ہمیں اپنے ذہن، سوچ اور نظریہ کو امپاور کرنے کی ضرورت ہے۔‘ کچھ میڈیا تنظیموں میں ان کے خلاف پروپیگنڈہ کے سوال پر لدیدہ فرزانہ کہتی ہیں کہ انہیں رائٹ ونگ میڈیا کے پروپیگنڈے سے کوئی ڈر نہیں لگتا ہے اور نہ ہی وہ اس حکومت سے ڈرتی ہیں۔ وہ صاف طور پر کہتی ہیں، ’مجھے کسی بھی طرح کے پروپیگنڈے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں صرف اللہ سے ڈرتی ہوں۔‘ وہ آگے مزید کہتی ہیں، ’میری پوری فیملی میرے ساتھ ہے، میرے شوہر میرے ساتھ ہیں اور میری ہر طرح سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں، جس سے مجھے ہمت ملتی ہے۔‘
یہ پوچھنے پر کہ وہ ملک بھر میں جاری سی اے اے مخالف تحریک کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچتی ہیں؟ وہ کہتی ہیں کہ وہ اس تعلق سے کافی مثبت سوچ رکھتی ہیں۔ ’لوگوں کا جذبہ قابل تعریف ہے۔ ان کے دلوں سے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا ڈر نکل چکا ہے۔ اس لیے اب ڈرنے کی ضرورت حکومت کو ہے نہ کہ اس ملک کی عوام کو؟ وہ مزید کہتی ہیں،’ لوگوں نے سرکار کو چنا ہے نہ کہ سرکار نے لوگوں کو۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ حکومت فاشسٹ ہے اور لوگوں کی یہ بیداری جمہوریت کے لیے ایک اچھی علامت ہے۔‘
22 سال کی لدیدہ فرزانہ دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں عربی سے گریجویشن کر رہی ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے بی اے اکنامکس کیا ہے۔ ان کے والد محمد سخالون ایک سیلزمین ہیں۔ کیرالا میں اسٹیشنری شاپ چلاتے ہیں۔ وہیں ان کی ماں ایک عربی مدرسہ میں معلمہ ہیں۔ ان کے مطابق دہلی کا رخ کرنے سے پہلے ہی وہ سماجی تحریک کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگی تھی۔
عورت کے پاس اتنی ہمت ہے کہ وہ حکومت کو ہلاکر رکھ سکتی ہے
مسلم لڑکیاں اور خواتین جب بولتی ہیں تو سب چپ ہوجاتے ہیں۔ سواتی کھنہ
ملک میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف چل رہے احتجاج کا سواتی کھنہ ایک اہم چہرہ بن کر ابھری ہیں۔ سوشل میڈیا پر اپنے ویڈیوز کے ذریعے وہ لوگوں کو بتارہی ہیں کہ حالیہ شہریت ترمیمی قانون جو ملک میں نافذ کیا گیا ہے وہ اس ملک اور ملک کے آئین کے منافی ہے۔ سواتی دہلی یونیورسٹی کے لا فیکلٹی میں قانون کی طالب علم ہیں۔ ایل ایل بی کے آخری سال میں ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے دہلی یونیورسٹی کے گارگی کالج سے اکنامکس میں بی اے کیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں سواتی کہتی ہیں، ’اس ملک میں عورتوں کو دو طریقوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر عورت نے کپڑے کم پہنے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اس میں شرم و حیا نہیں ہے، یا اس نے کپڑے زیادہ پہنے ہیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے اندر بولنے کی ہمت نہیں ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پہلی کے پاس بہت عزت ہے اور دوسری کے پاس اتنی ہمت ہے کہ وہ ملک کی حکومت تک کو ہلا کر رکھ سکتی ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ بار بار یہ کہا جاتا رہا ہے کہ مسلم عورتوں کو آزادی نہیں ہوتی۔ مسلم سماج انہیں گھروں میں قید رکھتا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ قدامت پسندانہ سوچ خود مسلمان بھی رکھتے ہیں۔ میں نے ملک بھر میں شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہروں میں لوگوں کو بولتےسنا ہے کہ لوگ بولتے تھے کہ ہماری عورتوں کو آزادی نہیں ہے، لیکن دیکھو اب ہماری عورتیں سڑکوں پر آگئیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ خود عورتیں یہ سوچتی تھیں کہ ہمارے گھر میں ہمیں آزادی نہیں ہے۔ لیکن میرا کہنا ہے کہ جب ضرورت پڑتی ہے تو ہر عورت باہر آتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سی مسلم لڑکیوں و عورتوں کو دیکھا ہے کہ جب وہ بولتی ہیں تو بہت اچھا بولتی ہیں اور ایسا بولتی ہیں کہ سب چپ ہوجاتے ہیں۔‘
وومن امپاورمنٹ کے سوال پر سواتی کھنہ کہتی ہیں، یہ امپاورمنٹ ہی تو ہے کہ عورتیں اب تک ڈٹی ہوئی ہیں۔ جب جامعہ کے بچوں پر وار ہوا تو مائیں ہی سب سے پہلے اپنے ان بچوں کے لیے باہر نکلیں اور سڑکوں پر ڈٹ کر بیٹھ گئی۔ صاف طور پر کہا کہ آج اس طرح سے بچوں پر وار ہوگا تو کل ہماری آنے والی نسلوں پر بھی وار ہوگا۔ ان عورتوں کی خود اعتمادی کافی بڑھ چکی ہے۔
آپ ملک کے کئی شہروں میں جاکرمخالف سی اے اےمظاہروں میں تقریر کر رہی ہیں کیا کبھی آپ کے گھر والوں کی طرف سے کبھی کوئی رکاوٹ آئی ہے؟ اس سوال پر سواتی بتاتی ہیں کہ بہت ساری رکاوٹیں آئی ہیں۔ لیکن میرے لیے اچھی بات یہ ہے کہ میرے گھر والے چاہے میری باتوں سے اتفاق نہ رکھتے ہوں لیکن انہوں نے پھر بھی مجھے یہ آزادی دی ہوئی ہے کہ میں ملک کے کونے کونے میں جاکر اپنی بات رکھوں۔ میرے والدین یہ ضرور کہتے ہیں کہ بیٹا تمہاری سوچ اچھی ہے، تم سچ کے لیے کھڑی ہوئی ہو۔ لیکن میں نے اپنے والدین میں ڈر کو بڑھتا ہوا دیکھا ہے۔ حالانکہ ہر طرح کے ڈر کا سامنا کرکے میرا ڈر ضرور کم ہوا ہے، لیکن میرے ماں باپ کے دلوں میں ڈر لگاتار بڑھتا ہی جا رہا ہے، کیونکہ ان کو ہمارے پڑوسی، رشتہ دار سب بولتے ہیں کہ آپ کی بیٹی بولتی تو اچھا ہے، لیکن وہ ان سب باتوں میں پڑے گی تو ہو سکتا ہے کہ غنڈے اس کے پیچھے پڑ جائیں گے یا سیاسی لوگ اس کا تعاقب کریں گے۔ وہ مجھے اس طرح سے دیکھتے ہیں گویا کہ میں بہت بھولی ہوں اور مجھے کچھ سمجھ نہیں ہے اور ظاہر سی بات ہے ان باتوں سے کسی کے بھی ماں باپ کو ٹینشن تو ہوگا ہی۔ یہ سب کچھ بولنے کے بعد سواتی کافی اداس سی ہو جاتی ہیں۔
اور جو لوگ آپ کو تقریر کے لیے بلاتے ہیں، ان کا برتاؤ کیسا ہوتا ہے؟ اس سوال پر پھر سے ان کے چہرے پر مسکان آجا تی ہے اور وہ بولتی ہیں، ’امید سے زیادہ عزت دیتے ہیں۔ لوگ اس بات کا احسان ماننے لگتے ہیں کہ میں نے ان کے لیے آواز اٹھائی، لیکن میرا خیال ہے کہ میں ان کے لیے نہیں بلکہ خود کے لیے آواز اٹھاتی ہوں۔ ایک طالب علم کی اتنی ذمہ داری تو بنتی ہی ہے کہ وہ اپنی تعلیم و نالج کو دوسروں تک پہونچائے۔ اب ایک قانون کی طالبہ قانون کو پامال ہوتے ہوئے کیسے دیکھ سکتی ہے؟ اور اگر آپ آئین پر حملہ ہوتا ہوا دیکھ کر بھی آواز نہیں اٹھا رہے ہیں تو آپ کے اندر ضمیر ہی نہیں ہے۔
ملک میں جاری تحریک کے مستقبل کے سوال پر سواتی کہتی ہیں، اس تحریک کے بارے میں مَیں نے سوچا ہی نہیں تھا کیونکہ میں نے اس ملک کے لوگوں سے امید چھوڑ دی تھی۔ مجھے محسوس ہوا تھا کہ سب اندر سے مر چکے ہیں یا پھر ان کو کسی بھی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ لیکن اب جبکہ لوگ سڑکوں پر ہیں، خاص طور پر عورتیں سڑکوں پر ہیں تو اس امید نے تقویت پائی ہے کہ ہمارے ملک کو کوئی نہیں توڑ سکتا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس تحریک کا مستقبل کیا ہے، لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گی جب جرمنی، سری لنکا یا برما سےایک خاص طبقے کے لوگ نکالے گئے تو وہاں سارے چپ چاپ دیکھ رہے تھے، لیکن ہندوستان کی تاریخ میں یہ ضرور کہا جائے گا کہ بھارت کے لوگ اٹھے ضرور تھے۔ انہوں نے ہار جیت کی پروا نہیں کی تھی۔ انہوں نے تاناشاہی کو منظور نہیں کیا تھا۔
عورتوں کو جتنا خود اختیار اسلام بناتا ہے اتنا کوئی مذہب نہیں بناتا:آفرین فاطمہ
اتر پردیش کے الہہ آباد شہر میں پیدا ہونے والی آفرین فاطمہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پورے ملک میں جاری مظاہروں کا ایک خاص چہرہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو ملک کے آئین کے خلاف تو دیکھتی ہی ہوں ساتھ ہی مَیں یہ کہنے سے بھی کوئی گریز نہیں کروں گی کہ اس قانون کے نشانے پر مسلمان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان بھاری تعداد میں سڑکوں پر اترے ہیں۔‘
لیکن سی اے اے کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں ہر مذہب و طبقے کے لوگ سڑکوں پر ہیں؟ اس پر آفرین کہتی ہیں کہ جو لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں وہ بتائیں کہ کس غیر مسلم علاقے میں احتجاج ہو رہا ہے۔ ان مظاہروں میں مرنے والے لوگ کون ہیں۔ اس ملک میں مسلمان اقلیت ہیں لیکن ان احتجاجوں میں ان کی ہی اکثریت ہے۔ مطلب صاف ہے کہ ملک کی اکثریت سڑکوں پر نہیں آ رہی ہے۔ اگر ہر مذہب و طبقے کے لوگ مظاہرہ کر رہے ہوتے تو مسلمان ان مظاہروں میں بھی صرف 14،15فیصد ہی نظر آتے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ حالانکہ وہ اس بات سے بھی انکار نہیں کرتیں کہ کئی اہم غیر مسلم حضرات اس لڑائی میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔
وومن امپاورمنٹ کے سوال پر وہ کہتی ہیں، ’ یہ دوغلا پن ہمیشہ ہی رہا ہے کہ مسلم عورتوں کو اسٹریو ٹائپ طریقے سے دکھایا گیا ہے کہ ان کو کوئی آزادی نہیں ہے، ان پر ظلم ہوتا ہے، حجاب ان کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ اتنی بھاری تعداد میں مسلم عورتیں گھروں سے نکل رہی ہیں۔ اتنی بھاری تعداد میں دوسرے کمیونٹی کی عورتیں شاید ہی کبھی نکلی ہوں۔ یہ بات بھی ہم کو سمجھنی پڑے گی کہ اسلام میں کبھی بھی عورتوں کو مظلوم نہیں بنایا گیا۔ عورتوں کو جتنا خود اختیار اسلام بناتا ہے اتنا کوئی مذہب نہیں بناتا۔ ہماری تاریخ بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ مسلم خواتین اپنی شناخت اور حجاب کے ساتھ لڑی ہیں۔ حضرت خدیجہ و عائشہ وومن امپاورمنٹ کی زندہ مثالیں ہیں۔ موجودہ دور میں بھی دیکھ لیجیے کہ مسلم خواتین اتنی امپاور ہیں کہ پورے ملک میں سی اے اے مخالف احتجاج کو دو مہینوں سے زیادہ دنوں سے چلا رہی ہیں اور ضرورت پڑی تو اگلے چار سال تک بھی چلا سکتی ہیں۔ ہم کو لڑنا بخوبی آتا ہے۔ اس سے پہلے ہم بھلے ہی چپ رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مظلوم تھے۔ ‘
حجاب پر کئی طرح کے بیان آتے ہیں، اس پر آپ کیا کہیں گی؟ کیا حجاب کبھی رکاوٹ تھا یا ہے؟ اس پر آفرین کہتی ہیں، ’نہیں، بالکل نہیں! حجاب نہ کبھی رکاوٹ تھا اور نہ ہے۔ کچھ لوگ اسلاموفوبیا کے شکار ہیں۔ اسی لیے میں کہتی ہوں کہ ہماری یہ لڑائی صرف سی اے اے تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہ لڑائی اس سے آگے بھی ہے۔ ہماری لڑائی اس بات کی بھی ہے کہ میرا حجاب ہندوستانی سیکولزم کو کیوں کھٹکتا ہے؟ ایسا کیا ہے میرے حجاب میں کہ یہ سب کو کمیونل لگتا ہے؟ ہمیں ہمارے ملک کا آئین اپنی شناخت کے ساتھ رہنے کا حق دیتا ہے تو پھر کاٹجو یا لیفٹ کے لوگ بولنے والے کون ہوتے ہیں کہ آپ اپنا حجاب اپنے گھر پر رکھ کر آئیے۔ ہماری لڑائی اس بات کی بھی ہے کہ ہم کوئی دوسرے درجے کے شہری نہیں ہیں بلکہ اس ملک کے دیگر شہریوں کی طرح ہی ایک شہری ہیں۔ جب آپ کو سکھوں کے پگڑی یا ہندوؤں کے ٹیکے سے پرابلم نہیں ہے تو پھر مسلم عورتوں کے حجاب یا مسلم مرد کی داڑھی ٹوپی سے بھی کسی کومسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے الہہ آباد میں آفرین فاطمہ کی تقریر کے ایک کلپ پر سوال کھڑا کرتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا، جس کے بعد چینلوں نے آفرین فاطمہ پر کئی سوال اٹھائے تھے۔ اس پر آفرین کہتی ہیں، ’میرا احساس ہے کہ ہندوستان ایک ایسا ملک جہاں کے تمام شہریوں کو معلوم ہے کہ یہاں کی زیادہ تر میڈیا تنظیمیں کس کے ٹکڑوں پر پل رہی ہیں۔ اس لیے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گودی میڈیا میرے بارے میں کیا کہتا ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں نے کیا کہا ہے۔ اور جو کچھ بھی کہا ہے آئین کے دائرے میں رہ کر کہا ہے۔ لیگل فریم ورک میں رہ کر اپنی بات رکھی ہے۔ اور اگر میری تقریر میں ایسا کچھ بھی ہے جو آئین کے دائرے سے باہر ہے تو بالکل حکومت میرے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔
ملک کے عوام کو آپ کا پیغام کیا ہوگا؟ اس پر آفرین کہتی ہیں، ’میں ان سے یہی کہنا چاہوں گی کہ ہم کو ڈرنا نہیں ہے۔ ڈر سے میرا مطلب صرف پولیس یا سرکار کا ڈر نہیں بلکہ ہم کو اپنی شناخت سے بھی نہیں ڈرنا ہے۔ ہم کو ہر حال میں اپنی شناخت کے ساتھ سڑکوں پر اترنا ہے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ جب ہمارے آئین کے ساتھ کھلواڑ کی جا رہی ہے تو ہم اسے بچانے کے لیے ضرور کھڑے ہوں۔
آفرین فاطمہ دہلی کے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ایم اے لنگویسٹک کی طالبہ ہیں، ساتھ ہی یہاں کے اسکول آف لینگویج اینڈ کلچرل اسٹڈیز سے طلبہ یونین میں کونسلر بھی۔ اس سے پہلے انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لنگوسٹک میں بیچلر کیا ہے۔ سال 2018-19میں انہوں نے یہاں بھی طلبہ یونین کے انتخاب میں حصہ لیا اور وومن کالج کی صدر منتخب ہوئیں۔ تب یہ خوب مشہور ہوئیں کیونکہ انہوں نے اپنی جیت کے جشن کا جلوس بوائز ونگ میں بھی نکالا۔ تب سے ان کی یہ دلیری ان کی پہچان بن گئی۔
ان کے والد جاوید محمد ایک بزنس مین ہیں اور والدہ ہوم میکر ہیں۔ آفرین کے مطابق ان کی والدہ نے چند کلاسز پڑھ کر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی تھی لیکن انھوں نے اپنی تین بیٹیوں کو اچھی تعلیم دلائی۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے والی اپنے خاندان کی پہلی نسل ہیں۔