امریکی صدر کا دورہ ہند اور مودی حکومت کی شاہ خرچیاں

ویلفیر پارٹی آف انڈیا نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی آمد پر کی جانے والی شاہ خرچیوں اور بے جا اصراف کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور ملک غربت کو چھپانے کے لیے دیوار کی تعمیر کو منافقت سے تعبیر کیا۔ پارٹی کے قومی صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس نوٹ میں کہا کہ مودی حکومت نے امریکی صدر کے استقبال پر غیر معمولی اور بے جا تصرفات کیے اور آمد کے پورے راستے کے گرد ایک دیوار چن دی تاکہ صدرِ عالی وقار کو سڑک کے کنارے موجود غریبوں کی جھگی اور جھونپڑیاں نظر نہ آئیں اور ملک میں موجود غربت اور عدم مساوات ان پر ظاہر نہ ہو۔ صدر ویلفیئر پارٹی نے حکومت کو متنبہ کیا کہ ملک کے اندرونی حالات سے ہر وہ شخص واقف ہے جس کی نظر بین الاقوامی سطح پر موجود سماجی و اقتصادی اعداد و شمار پر ہوتی ہے، اسے ان پردوں سے نہیں چھپایا جا سکتا۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی گلوبل ہنگر رپورٹ 2019 سے پتہ چلتا ہے کہ 117 ملکوں کی فہرست میں اس بار بھارت کا نمبر پھسل کر 102 پر آگیا ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا اس معاملہ میں ہم سے بہتر ہیں۔ ڈاکٹر الیاس نے مزید کہا کہ غیر ضروری تزئین و آرائش پر ملک کی دولت کو خرچ کرنے کے بجائے اسے اگر غربت کے خاتمے کے لیے خرچ کیا جاتا تو شاید یہ ملک کی زیادہ بہتر خدمت ہوتی۔ پارٹی کے قومی صدر نے کہا کہ میڈیا میں شائع خبروں کے مطابق مسٹر ٹرمپ اس دورے میں بھارت میں مذہبی آزادی اور شہریت ترمیمی قوانین سے پیدا شدہ مسائل بھی اٹھائیں گے۔ ابھی چند روز قبل یوروپی یونین کی پارلیمنٹ نے تقریباً 600 ممبران کی غیر معمولی اکثریت سے بھارت شہریت ترمیمی ایکٹ (CAA ) پر 6 قراردادیں یہ کہتے ہوئے بحث کے لیے منظور کرلیں کہ یہ قوانین ملک کی شہریت کے ضابطوں میں ایک خطرناک تبدیلی ہیں۔ پارٹی کے قومی صدر نے کہا کہ مودی حکومت نے ان کالے قوانین کے ذریعہ بھارت کی بین الاقوامی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ حال ہی میں شائع جمہوری قدروں کے بین الاقوامی انڈکس پر بھارت 10 پوائنٹ کھسک کر نیچے آگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھارت کی طرف دیکھتی ہے کہ یہان مذہبی آزادی کا دور دورہ ہوگا اور دستور کے مطابق ہر شہری کا قانون کی نگاہ میں یکساں حیثیت اور مرتبہ ہوگا اور ہر ایک سے یکساں سلوک کیا جائے گا۔ کاش کے مودی حکومت نے ملک کو سماجی اور اقتصادی اعتبار سے اونچا اٹھانے کے لیے اقدامات کیے ہوتے اور ملک میں امن و سلامتی، خیر سگالی و بھائی چارہ اور سماجی بہبود کے لیے پالیسیاں وضع کی ہوتیں نہ کہ استحصالی اور نفرت انگیز اور ووٹ بینک کی سیاست کو فروغ دینے میں لگی رہتی۔