ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ :ایک علمی اور فکری ادارہ

مجتبیٰ فاروق
جب تک مسلمان اسلام کے اصل ماخذ ومنبع یعنی قرآن و حدیث سے اکتسابِ علم کرتے رہے اور صحیح غور و فکر سے کام لے کر اپنے اجتہاد سے علمی و عملی مسائل حل کرتے رہے اس وقت تک اسلام نہ صرف زمانہ کے ساتھ حرکت کرتا رہا بلکہ مسلمان بھی عروج پر رہے۔ لیکن اہلِ اسلام کو آج وہ مقام حاصل نہیں ہے۔ امت مسلمہ کے زوال وپستی کے مختلف اور متنوع وجوہات ہوسکتے ہیں لیکن ایک بنیادی وجہ ہے اور وہ یہ کہ اس وقت امت مسلمہ علمی و فکری اعتبار سے انحطاط کی شکار ہے۔ تحقیق و تفتیش اور تلاش و جستجو ہی ایک فرد یا قوم کو آگے بڑھاتی ہے اور اس کے روز مرہ مسائل کو حل کرنے کاذریعہ بنتی ہے۔ تیز رفتاری سے آگے بڑھنا ترقی کے منازل طے کرنا اور نت نئے مسائل کا حل نکالنا تحقیق و تفتیش کا خاصہ ہے۔ جب بھی انسان اس سے لا تعلق ہو جاتا ہے یا عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے تو زوال و پستی اس کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے اور یوں وہ قصہ پا رینہ بن جاتا ہے جس کی دنیا میں کوئی وقعت نہیں رہتی ہے۔ آج امت مسلمہ نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ امت کو فکری پستی سے نکالنے کے لیے ایک ہمہ جہت علمی و فکری انقلاب کی ضرورت ہے جس کے بغیر امت کی سر بلندی نا ممکن ہے۔ اس کار خیر کے لیے جدید اسلوب میں فکری لٹریچر تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت و احساس کو محسوس کرتے ہوئے تحریک اسلامی ہند کے اکابرین نے ایک علمی اور فکری ادارہ کی بنیاد ڈالی اور اس کا نام’’ ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی‘‘ رکھا۔ یہ ادارہ ایک فکر گاہ Think Tank کی حیثیت رکھتا ہے۔
ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی ایک مایہ ناز علمی، تحقیقی اور فکری ادارہ ہے جس کی بنیاد رام پور میں ۱۹۴۹ء میں رکھی گئی تھی۔ ۱۹۵۵ء میں اس کو جماعت اسلامی ہند کا ’’شعبہ تصنیف و تالیف‘‘ کا نام دیا گیا تھا اور اسی نام کے تحت یہ کئی سال تک کام کرتا رہا۔ اس کو کئی وجوہات کی بنا پر ۱۹۷۰ء میں علی گڑھ منتقل کیا گیا اور ۱۹۸۱ ء میں’’ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی‘‘ کے نام سے اس کو ایک آزاد ادارہ کی حیثیت دی گئی۔ علمی اعتبار سے آزاد نقطہ نظر رکھتے ہوئے تحریک اسلامی کے اکابرین اور علماء کے زیر سایہ اس ادارہ نے کام کرنا شروع کیا۔ رام پور سے منتقلی کے بعد علی گڑھ کی پان والی کوٹھی میں محدودد وسائل کے باوجود ادارہ نے اپنی علمی و فکری خدمات کو تھمنے نہیں دیا۔ علی گڑھ میں منتقل کرنے کی وجوہات بتاتے ہوئے اس کے سابق سیکریٹری ڈاکٹر صفدر سلطان اصلاحی مرحوم لکھتے ہیں کہ’’یہاں منتخب علماء اور محققین کی ایک مشہور جماعت ہی نہیں بلکہ نسل نو کی تیاری کا ایک جامع پروگرام ہے تاکہ وہ آئندہ امت اور تحریک کی علمی وراثت کے حامل اور امین ہوسکیں‘‘۔ بے سروسامانی کے باوجود اس ادارہ نے ہر وقت اپنا علمی سفر جاری رکھا۔ ادارہ کا بنیادی مقصد جدید موضوعات پر فکری لٹریچر تیار کر نا اور اس کے لیے نوجوان اسکالرس کو تیار کرناہے۔ اس ادارے کے قیام کے تین اہم مقاصد یہ ہیں:
۱۔ فکر اسلامی پر مدلل لٹریچر تیار کرنا
جدید تقاضوں اور عصری اسلوب میں اعلیٰ علمی اور تحقیقی معیار پر فکری، سیاسی، سماجی، معاشرتی، اقتصادی، ماحولیاتی وغیرہ موضوعات پر قابلِ قدر لٹریچر منصہ شہود پر لانا بے حد ضروری ہے۔ یہ لٹریچر مغربی تحقیق ومنہج، اسلوب اور معیار سے بھی اعلیٰ ہو جس میں زندگی کے متنوع مسائل کا ٹھوس، مدلل اور اطمینان بخش جواب ہو۔ اس تعلق سے ادارہ اپنے ہدف کی طرف محوِ سفر ہے۔ عصری تقاضوں کو مَدّ نظر رکھ کر اسلام کے مختلف پہلوؤں پر جدید لٹریچر تیار کرنا جس میں عصری مسائل کا تسلی بخش جواب ہو، ادارہ کا ایک بنیادی مقصد ہے۔ اس ادارے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے ابتداء ہی سے فکری لٹریچر تیار کرنے پر زور دیا ہے جس میں یہ اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہے۔ ادارے نے اسلام کو درپیش چیلنجز، حالات اور ایشوز پر بہترین لٹریچر تیار کیا ہے۔ ادارہ تحقیق و تصنیف کی ابتداء ہی سے یہ پالیسی اور ہدف رہا ہے کہ ایسے موضوعات پر کام کرنا ہے جن کی واقعی ضرورت بھی ہو اور امت کی رہنمائی میں کار آمد بھی ثابت ہوں۔ ادارے سے وابستہ مصنفین نے بھی ادارہ کی اس ہدف اور پالیسی کو مد نظر رکھ کر جدید موضوعات پر علمی اور فکری لٹریچر تیار کیا ہے۔نیز عصری موضوعات پر مشتمل کتابوں کے تراجم کرنا بھی ادارہ کے اغراض و مقاصد میں شامل ہے اس تعلق سے کئی اہم کتب کو اردو زبان میں منتقل کیا گیا ہے۔
۲۔ اسلام کو درپیش چیلنجزکا حل تلاش کرنا:
ماضی کی طرح عصر حاضر میں بھی امت مسلمہ کو جدید چیلنجز درپیش ہیں، جو فکری، تہذیبی، اقتصادی اور معاشرتی نوعیت کے ہیں۔ یہ فکری مسائل نہ صرف دینی عقائد بلکہ تہذیبی شناخت کے وجود کو بھی ختم کرنے کے درپے ہیں۔ موجودہ دور میں ہمیں پیش آمدہ چیلنجز کے تقاضوں کے مطابق انتہائی جرأت و اعتماد کے ساتھ علمی، استدلالی اور منصوبہ بندی کرنے کے علاوہ قرآن و سنت کے دائرے میں رہتے ہوئے نئی راہیں نکالنی ہوں گی۔ ایسی راہیں جو تقلید، نقل اور جذباتیت سے محفوظ اور سطحیت سے بلند تر ہوں۔ اسی غرض سے ادارہ تحقیق و تصنیف کا وجود عمل میں لایا گیا تاکہ جدید دور کے جو فکری مسائل ہیں ان کامدلل حل پیش کیا جائے۔ ادارے نے آغاز ہی سے اس کی طرف توجہ دی اور جدید دور کے فکری مسائل کے حل کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں اطمینان بخش جوابات دے رہا ہے اور اسلام کو درپیش چیلنجز، حالات اور ایشوز پر بہترین لٹریچر تیار کر رہا ہے۔
۳۔ انسانی وسائل کی فراہمی:
نظریہ ساز مصنفین اور اسکالرس پیدا کرنا بھی ادارے کا ایک اہم مقصد ہے۔ ان اسکالرس کو علوم شرعیہ کے ساتھ ساتھ جدید علوم اور افکار پر گہری نگاہ حاصل ہو تاکہ وہ عصر حاضر میں نوع انسانیت کی صحیح رہنمائی کا کام انجام دے سکیں۔ نئی نسل کے اندر جدید اسلوب اور تقاضوں کے تحت تحقیق و تصنیف کا ذوق و شوق پیدا کرنا اور انہیں بہترین انسانی وسائل کے طور پر تیار کرنا ادارہ کا مقصد ہے۔ اس تعلق سے علوم شرعیہ اور علوم جدیدہ سے لیس افراد کی تیاری میں ادارہ تحقیق و تصنیف کا منصوبہ جلیل القدر مقصد کا حامل ہے۔ ادارے نے ہر وقت یہ کوشش کی ہے کہ زمانہ شناس اور اسلامی فکر کے حامل اسکالرس کی ایک متحرک جماعت تیار ہو جو اسلام کا حقیقی پیغام عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عالم انسانیت تک پہنچائے۔ ادارہ نہایت قلیل وسائل کے باوجود اپنے مقصد کی طرف رواں دواں ہے۔ ادارے نے جس موضوع پر بھی کام کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس ادارہ کے بہت سے اسکالرس اور مصنفین ایسے ہیں جو ملک اور بیرون ملک میں علمی و فکری خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ادارے کے مقاصد کے بارے میں مولانا جلال الدین عمری کہتے ہیں کہ ادارہ کے جو مقاصد طے کیے گئے وہ یہ ہیں: ۱؎ دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق تصنیف و تالیف ۲؎ جدید موضوعات پر اہم کتب کے اردو، انگریزی اور ہندی زبانوں میں تراجم کرنا ۳؎ مدارس، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے سند یافتہ نوجوانوں کی تصنیفی تربیت کرنا تاکہ وہ ریسرچ اور تحقیق کے کاموں کے لیے تیار ہوسکیں۔
ادارہ تحقیق کے پانچ نمایاں شعبہ جات:
۱۔ تحقیق و تصنیف:
مختلف موضوعات پر ادارے کے رفقاء نے اب تک کم از کم آٹھ درجن کتابیں تیار کی ہیں۔ یہ سبھی کتابیں معیاری اور عصری موضوعات پر ہیں۔ ان میں بعض کتابیں ایسی بھی ہیں جو بے حد مقبول ہوئیں اور جن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوا۔ سب سے زیادہ علمی کام سماجی موضوعات اور ایشوز پر کیا گیا۔ نیز ادارے کے تیار کردہ کتب میں اسلام پر کیے گئے اعتراضات کے جوابات بھی دئیے گئے۔ ادارہ کے محققین نے نادر اور اچھوتے موضوعات پر کام کیا اور وہ روایتی تحریروں، سطحی تحقیق اور پرانے چیزوں کو پھر سے دہرانے کے قائل نہیں ہیں۔ ادار ہ میں اب تک جن رفقاء (Research Fellows) نے علمی کام انجام دیا ان کے نام یہ ہیں: مولانا صدر الدین اصلاحیؒ ، مولانا وحید الدین خان، مولانا سید جلال الدین عمری، مولانا سلطان احمد اصلاحیؒ، پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی، ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، مولانا محمد جرجیس کریمی، ڈاکٹر محمد شمیم اختر ندوی، ڈاکٹر محمد صادق اختر ندوی، مولانا ضمیر الحسن خاں، مولانا کمال اختر قاسمی اور احقر۔
۲۔ تصنیفی کورس:
یہ ادارے کا نہایت اہم شعبہ ہے۔ اس شعبہ کے تحت یونیورسٹیوں اور مدارس کے فارغین کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ یہ کورس دو سال پر مشتمل ہے جس میں نوجوان اسکالرس کو پہلے سال قرآنیات، حدیث، سیرت، تاریخ، اصول اور جدید افکار و نظریات پر مبنی لٹریچر کا بھر پور مطالعہ کرایا جاتا ہے اور دوسرے سال کسی علمی موضوع پر ایک مبسوط مقالہ لکھوایا جاتا ہے۔ادارے میں اسکالرس کے لیے ضروری سہولتوں سے آراستہ ہوسٹل کا بھی انتظام ہے جہاں کھانے پینے اور رہائش کا نظم و نسق ہے۔ کورس کے دوران اسکالرس کو سات ہزار روپے اسکالرشپ بھی دی جاتی ہے۔ ادارے سے اب تک پچاس کے قریب اسکالرس تصنیفی تربیت کا دو سالہ کورس مکمل کر کے مختلف علمی میدانوں میں علمی اور تدریسی کام انجام دیے ہیں۔ جن میں مولانا سلطان احمد اصلاحیؒ، پروفیسر سعود عالم قاسمی، ڈاکٹر نسیم رفیع آبادی، مولانا محمد جرجیس کریمی، ڈاکٹر الطاف احمد مالانی، مولانا رفیق سلفی مدنی، مزمل کریم فلاحی اور محمد انس مدنی قابل ذکر ہیں۔
۳۔ مجلہ تحقیقات اسلامی:
سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی ادارہ کا ایک علمی و فکری ترجمان ہے۔ اس کا اجراء ۱۹۸۲ء میں ہوا۔تحقیقاتِ اسلامی کو علمی دنیا میں خاص اہمت حاصل ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی علمی اور تحقیقی خدمات پر نصف درجن سے زائد ملک اور بیرون ملک میں تحقیقی مقالات لکھے جاچکے ہیں۔ ادارے کے قیام کے فوراََ بعد ’’تحقیقات اسلامی‘‘ کے نام سے ایک علمی جرنل کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس کے آغاز سے آج تک یہ بلاناغہ شائع ہو رہا ہے۔ اس میں جن موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے ان میں تفسیر، حدیث، سیرت، تاریخ، فقہ، اصول فقہ، علم کلام، تصوف اور سیر و سوانح کے علاوہ سیاسیات، سماجیات اور معاشیات جیسے موضوعات شامل ہیں۔ نیز جدید افکار و نظریات اور مسائل پر بھی مقالات شائع ہوتے ہیں۔ مجلہ کی خاص بات ہے کہ یہ آغاز ہی سے معروف عالم دین اورمفکر مولانا سید جلال الدین عمری کی ادار ت میں شائع ہو رہا ہے اور معروف محقق ومصنف ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی معاون مدیر کی حیثیت سے فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ اس کے آغاز سے لے کر آ ج تک ۳۸ جلدیں شائع ہوچکی ہیں جو اب انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں ۔جناب رؤوف احمد کے مطابق ’’تحقیقاتِ اسلامی میں ۱۹۸۲ء سے ۲۰۱۹ ء تک شائع ہونے والے مضامین کی کل تعداد ایک ہزار ایک سو اٹھاسی
(1188 ) ہے لیکن ان میں تحقیقی مقالات کی تعداد چھ سو بتیس (632) اور دیگر مضامین کی تعداد چھ سو چھپن (656) ہے‘‘۔
۴۔ رائٹرس فورم:
’ رائٹرس فورم ‘ ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کی زیر تربیت اسکالرس کی ایک انجمن ہے جس کے تحت علوم اسلامیہ کے کسی ماہر کی صدارت میں ادارے کے اسکالرس اپنے اندر علمی اور تحقیقی صلاحیت بڑھانے اور علمی استعداد پیدا کرنے کے لیے ہر ماہ تحقیقی مقالے پیش کرتے ہیں۔اس علمی نشست میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرس بھی شرکت کرتے ہیں۔ اس میں مقالہ خوانی کے بعد سامعین کو بھر پور سوالات اور اظہار خیال کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ آخر میں صدارتی گفتگو ہوتی ہے جو کافی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ نظر ثانی کے بعد یہ مقالے شائع بھی ہوتے ہیں۔
۵۔ لائبریری
ادارہ میں اسکالرس اور محققین کے لیے ایک اعلیٰ درجہ کی لائبریری بھی موجود ہے جس میں علوم شرعیہ کے ساتھ ساتھ جدید علوم و افکار پر مشتمل عربی، اردو اور انگریزی زبانوں میں بیش بہا ذخیرہ موجود ہے ۔ادارے کے اسکالرس اور محققین کے علاوہ علی گڑھ یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرس بھی لائبریری سے استفادہ کرتے ہیں۔ ادارے کا ایک ضخیم کتب خانہ ہے اور یہ اسلامی مآخذ کا ایک اہم مرکز بن چکا ہے جس میں تحقیقی رسائل و مجلات کے علاوہ پندرہ ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں۔
ادارہ تحقیق اسلامی معروف مفکرین کی سرپرستی میں:
ادارے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ابتداء ہی سے اس کی سرپرستی معروف مفکرین اور محققین نے کی ہے۔ اس کے پہلے صدر مولانا صدر الدین اصلاحیؒ تھے انھوں نے ادارہ کی صدرات ۱۹۸۱ء تا ۱۹۸۵ء کی۔ ان کے بعد معروف ہندی مترجم قرآن مولانا محمد فاروق خان کو ادارہ کا صدر منتخب کیا گیا۔ مولانا فاروق خان نے ۱۹۸۵ء سے ۲۰۰۰ء تک پندرہ سال صدر کی حیثیت سے ادارے کی سرپرستی کی۔ اور ۲۰۰۰ء سے تا حال مولانا سید جلال الدین عمری صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔ صدر کے علاوہ ادارے کا ایک عہدہ سکریٹری کا ہوتا ہے۔ اس کے پہلے سکریٹری ۱۹۸۱ء سے ۲۰۰۰ء تک مولانا سید جلال الدین عمری رہ چکے ہیں۔ ان کے بعد معروف دانشور ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی ؒسکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انھوں نے ۲۰۰۷ء تک اس ذمہ داری کو انجام دیا۔ ڈاکٹر فریدی کے انتقال کے بعد ڈاکٹر صفدر سلطان اصلاحیؒ کو ادارے کا سکریٹر ی منتخب کیا گیا لیکن ۲۰۱۷ء میں ایک کار حادثہ میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کے بعد معروف محقق ومصنف ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کو ادارہ کا سکریٹری بنایا گیا۔ انھوں نے اس ذمہ داری کو ۲۰۱۹ ء تک بخوبی نبھایا۔ گزشتہ سال مولانا اشہد جمال ندوی کو بحیثیت سکریٹری کے انتخاب عمل میں لایا گیا اور وہ اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔
ادارے کا علمی اور فکری کام:
ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی میں متنوع موضوعات پر کام کیا گیا ہے۔ ادارے کے پہلے صدر مولانا صدر الدین اصلاحی ؒنے قرآنیات اور دین کی اساسیات پر کام کیا۔ مولانا صدرالدین اصلاحی نےؒ نہ صرف قرآنی فکر کو اجاگر کیا بلکہ اس کی تفہیم بھی کرائی۔ نیز انھوں نے تحریکی فکر اور اس کے استحکام کو مدلل بھی کیا۔ احادیث کو عام فھم انداز میں پیش کرنے کا کام مولانا محمد فارق خان نے انجام دیا۔ مولاناسید جلا ل الدین عمری نے دعوت دین اور خواتین کے حقوق پر قابل تحسین کام کیا ہے نیز انھوں نے انسانی حقوق کو بھی اپنی تحقیق کا موضوع بنا کر اسلامی لٹریچر میں قیمتی اضافہ کیا۔ مولانا سلطان احمد اصلاحی ؒ کی سماجی مسائل پر گہری نظر تھی انھوں نے اس کو اپنی تحقیق کا موضوع بنا کر چالیس قیمتی کتابیں تصنیف کیں۔ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے قرآنیات اور سماجیات کے متنوع پہلوؤں پر علمی کام کیا ہے۔مولانا جرجیس کریمی نے اسلام کی اساسیات پر کام کیا ہے۔ ان کے علاوہ پروفیسر سعود عالم قاسمی، ڈاکٹر شہاب الدین، ڈاکٹر شمیم اختر، مولانا کمال اختر قاسمی اور مجھے بھی مختلف موضوعات پر کام کرنے کی توفیق ملی ہے ۔
(مضمون نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے
اسلامک اسٹڈیز کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں)