یاد رفتگاں: رفیع احمد قدوائی کی ملک کے لیے خدمات

افروز عالم ساحل

 

آج سے تقریباً سو سال پہلے رولٹ ایکٹ کے بعد پورے ہندوستان میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ جگہ جگہ مظاہرے ہونے لگے۔ جلوس نکالے جانے لگے۔ پولیس نے لوگوں پر لاٹھیاں برسائیں اور گولیاں چلائیں۔ پنجاب تو ہندوستان سے کاٹ دیا گیا تھا اور جب گاندھی جی نے پنجاب میں داخل ہونے کی کوشش کی تو زبردستی ریل گاڑی سے اتار دیا گیا۔ یہ سب ٹھیک ویسے ہی ہو رہا تھا جیسا آج شہریت ترمیمی قانون احتجاج پر ہو رہا ہے۔

جس طرح آج ملک کے نوجوان شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ٹھیک ویسے ہی رولٹ ایکٹ کے خلاف ملک میں مظاہرے شروع ہوئے تو ایک نوجوان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ لکھنؤ اور بارہ بنکی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جسے خطرناک اور باغی سمجھا گیا۔ اس دور کے انگریز ڈپٹی کمشنر اور فیض آباد کے کمشنر نے ان کے والد کو وارننگ دی کہ وہ اپنے لڑکے کی سیاسی سرگرمیوں کو روکیں لیکن نہ ان کے والد صاحب نے اس حکم کی تعمیل کی نہ ہی اس نوجوان نے۔

یہ نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے شیخ امتیاز علی عرف لالہ میاں کے صاحبزادے رفیع تھے، جو بعد میں رفیع احمد قدوائی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کے والد سرکاری ملازم تھے اور اس زمانے میں برطانوی حکومت کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے کسی بھی سرکاری ملازم کے لڑکے کا کانگریس کے اجلاس میں شرکت کرنا سخت قابلِ اعتراض تھا۔

اس کے باوجود رفیع احمد قدوائی کانگریس اور خلافت کمیٹی کے نہ صرف اہم رکن تھے بلکہ تحریک عدم تعاون کی وجہ سے وکالت کی اپنی پڑھائی بھی چھوڑ دی۔ اس کے بعد پیدل ہی اپنے ضلع بارہ بنکی کے متعدد گاؤں کے دورے کیے اور کانگریس و خلافت کمیٹی کی شاخیں قائم کیں۔ سچ پوچھیے تو اس ضلع میں خلافت اور عدم تعاون کی تحریک وہ اکیلے ہی چلا رہے تھے۔

ان کی کامیابی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پورے اتر پردیش میں بارہ بنکی ہی وہ ضلع تھا جسے چوٹی کے سرکاری افسر سب سے خطرناک ضلع تسلیم کرتے تھے۔ رفیع صاحب کی کوششوں کی وجہ سے بارہ بنکی اس تحریک میں بہت آگے تھا۔ یہاں بہت سارے سرکاری ملازموں نے اپنی نوکریوں سے استعفیٰ دے دیا تھا، ان میں سب سے زیادہ پیش پیش رفیع صاحب کے چھوٹے بھائی شفیع احمد قدوائی تھے جنہوں نے کو آپریٹیو سوسائٹیوں کے اسسٹنٹ رجسٹرار کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ دونوں بھائی گرفتار کر لیے گئے اور دونوں کو قید سخت کی سزا ہوئی۔ ان دونوں کی سزا یابی سے ان کے والد کو جو تحصیل دار تھے، برطانوی حکومت کے عتاب کا نشانہ بننا پڑا اور بڑی اذیتیں اٹھانی پڑیں۔ ان سے جواب طلب کیا گیا، لیکن انہوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ اپنے لڑکوں کی سیاسی سرگرمیوں میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد پولس نے ان کے آبائی مکان کی مکمل تلاشی لی اور ان کے والد کی جائیداد کو نیلام کردیا، ان کے قریبی لوگوں کے پیچھے پولیس سی آئی ڈی کو لگا دیا گیا اس کی وجہ سے ان کے پورے خاندان کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا۔

نہرو خاندان کے ساتھ ساتھ ان کے گاندھی جی سے بھی کافی اچھے تعلقات رہے۔ موتی لال نہرو کے ساتھ ساتھ گاندھی جی بھی انہیں خوب مانتے تھے۔ اور جواہرلال نہرو کے تو یہ ہردلعزیز دوستوں میں تھے۔ گاندھی جی سے ان کے قربت کا اندازہ گاندھی جی کے ذریعہ ان کو لکھے خطوط سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

گاندھی جی 28 ستمبر 1933 کو جواہرلال نہرو کو لکھے خط میں لکھتے ہیں، ’۔۔۔ میری رفیع سے لمبی بات چیت ہوئی۔ وہ تمہیں اس کے بارے میں بتائیں گے۔۔۔’ 21 جنوری 1934 کو بھی ان سے رفیع صاحب کا حال پوچھتے نظر آرہے ہیں۔ گاندھی جی جب کانگریس چھوڑ دینے کی سوچ رہے تھے، تب رفیع صاحب نے گاندھی جی کے کانگریس میں رہنے کے لیے درمیان کا راستہ سجھایا تھا۔ اس کا ذکر خود گاندھی نے 17 ستمبر 1934 کو پریس کو دیے گئے بیان میں کیا ہے۔

گاندھی جی رفیع احمد قدوائی کو بھی خط لکھتے رہے ہیں اور ملتے بھی رہے ہیں۔ 7 نومبر 1934 کو بھی بارہ بنکی کے پتے پر گاندھی جی نے ان کو ایک پروگرام اور مظاہرے سے متعلق ایک خط لکھا تھا۔ یکم اگست 1936 کو بھی گاندھی جی نے ان کے ایک خط کا جواب دیا ہے۔ وہیں دوسرے لیڈران کو لکھے خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ رفیع صاحب گاندھی جی سے وقتاً فوقتاً ملتے رہے ہیں۔

رفیع احمد قدوائی ’نیشنل ہیرالڈ’ کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ مئی 1942 میں انہیں برطانوی حکومت نے گرفتار کرلیا، اس پر گاندھی جی نے 31 مئی 1942 کو پریس کے لیے ایک بیان جاری کیا اور رفیع صاحب کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ 18 جولائی 1945 کو گاندھی جی کے ذریعہ ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ رفیع صاحب جیل سے رہا ہو کر آ گئے ہیں۔ گاندھی جی خط لکھ کر ان سے پوچھ رہے ہیں،

’’رفیع بھائی! آپ کے جیل سے چھوٹنے کا میں نے کلکتہ میں جانا۔ اس شام سیوا گرام آیا۔ تم کیسے ہو اپنا سب حال لکھو۔‘‘ اس طرح گاندھی جی ہمیشہ رفیع قدوائی کے لیے فکرمند نظر آئے۔ اسی طرح سے ملک کی آزادی کے بعد جواہرلال نہرو کے سب سے قریبی دوست رفیع احمد قدوائی ہی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ 1954 میں رفیع صاحب جب اچانک اس دنیا کو الودا کہہ گئے تو سب سے زیادہ صدمہ جواہرلال نہرو کو ہی ہوا۔ وہ کہتے تھے کہ رفیع کی موت سے میری زندگی میں ایک خلا پیدا ہوگیا جو کبھی پر نہ ہو سکا۔

بتا دیں کہ ایک نامور سیاستداں، بڑے سوشلسٹ اور تحریک آزادی ہند کے سرگرم کارکن رفیع احمد قدوائی کی پیدائش 18 فروری 1894 اتر پردیش کے ضلع بارابنکی کے قصبہ مسولی میں ایک متوسط زمیندار گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ اس کے بعد بارہ بنکی سے ہی ہائی اسکول کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے علیگڑھ کے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج گئے جہاں سے انھوں نے 1918 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور پھر ایل ایل بی کے کورس کے لیے داخلہ لیا لیکن مہاتما گاندھی کی اپیل پر تعلیم ترک کر کے تحریک عدم تعاون میں شریک ہو گئے۔

1930 میں جب رائے بریلی کے غریب کسان ٹیکس ادا کرنے کے لائق نہیں تھے تو رفیع احمد قدوائی نے ان کے حق میں تحریک چلائی جس کے لیے انھیں انگریزی حکومت نے 6 مہینے قید کی سزا سنائی۔ اس کے باوجود وہ غریب ہندوستانیوں کے حق میں آواز بلند کرتے رہے۔ 1937 میں صوبائی انتخاب ہوا اور کانگریس کو فتحیابی ملی تو اترپردیش میں گووند ولبھ پنت کی کابینہ میں رفیع احمد کو آمدنی اور جیل کا وزیر بنایا گیا۔ 1946 میں انھیں اتر پردیش کا وزیر داخلہ بھی بنایا گیا۔ 1942 کی ’ہندوستان چھوڑو’ تحریک میں سب سے زیادہ سرگرم رہے۔ رفیع صاحب ملک و قوم کی خاطر پانچ مرتبہ جیل بھی گئے۔

ملک کی آزادی کے بعد انھیں وزیر مواصلات اور بعد میں وزیر خوراک بنایا گیا۔ وزیر مواصلات کی حیثیت سے انہوں نے رات کی ہوائی ڈاک کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت یہ ایک بہت مشکل کام تھا۔ رفیع احمد قدوائی کی شخصیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جواہر لال نہرو کی کابینہ میں صرف دو مسلم شامل تھے، ایک رفیع احمد اور دوسرے مولانا ابوالکلام آزاد۔ ملک کے اس مجاہد آزادی کا انتقال 24 اکتوبر 1954 کو ہوا۔