اُردو صحافت کے دوسو سال اور تعمیر ہند میں اُردو میڈیا کا رول!

ابن صفی کی مکالماتی زبان پرنٹ و اکٹرانک میڈیا کے لیے قابل تقلید

محمد عارف اقبال
ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی

آزاد ہندوستان کی تعمیر میں اردو پرنٹ میڈیا کا کردار حوصلہ بخش نہیں ہے۔ اس تلخ حقیقت کو جاننے کے لیے کلکتہ کے کہنہ مشق صحافی اور یوایس آئی ایس کے سابق اردو ایڈیٹر (ریٹائرڈ) جناب رضوان اللہ (پ 15جولائی 1931) کی خودنوشت آپ بیتی ’اوراقِ ہستی‘ (2020) کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ البتہ آزادی سے قبل 1822 سے 1857 اور 1858 سے 1947 تک اردو صحافت ایک مشن کے تحت کام کر رہی تھی۔ اس لیے جنگ آزادی میں اردو صحافت کی خدمات یقینی طور پر ناقابل فراموش ہیں۔ مولوی محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر کی شہادت غلام ہندوستان میں ایک نادر مثال ہے۔
آزاد ہندوستان میں الٰہ آباد ایک ایسا علمی و ادبی مرکز تھا جہاں عباس حسینی کے علاوہ ابن صفی، راہی معصوم رضا، جمال رضوی، مجاور حسینی، قمر جائسی، نازش پرتاپ گڑھی، مصطفی زیدی، ڈاکٹر سیّد اعجاز حسین وغیرہ پر مشتمل ایک ایسا گروپ تھا جس کا اولین مقصد اردو زبان و ادب کی خدمت رہا۔ عباس حسینی نے اس کام کے لیے ایک ماہنامہ نکہت 1948 میں جاری کیا جس میں مختلف ادیبوں کے جاسوسی، رومانی اور تاریخی ناول شائع ہوتے تھے۔ لیکن افسانہ نگار اور انشا پرداز ابن صفی کا نام سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے کہ انہوں نے 1952 سے اپنی حیات 1980 تک ماہنامہ نکہت کو تقریباً ہر ماہ ایک ایسا ناول دیا جس کا سرکولیشن ایک لاکھ سے تجاوز کرگیا تھا۔ اس کے قارئین میں طلبا اور اساتذہ کے علاوہ ڈاکٹرز، انجینئرز، تاجر، سیاست داں، اسکالرز، دانشور، ادیب ونقاد، شاعر ہر طبقے کے افراد تھے۔ معروف مورخ حسن عسکری (پٹنہ) کا شمار ابن صفی کے بہترین قارئین میں ہوتا تھا۔ سیّد شاہد مہدی صاحب آج بھی ابن صفی کی تحریروں کے رسیا ہیں۔
ابن صفی کا پہلا ناول ’دلیرمجرم‘ 1952 میں شائع ہوا تھا۔ اس ناول میں انہوں نے ہندو-مسلم اتحاد کا واضح پیغام دیا تھا۔ انہوں نے اپنے تمام ناولوں میں ’اردوئے مبین‘ کے ذریعے ایسا مکالماتی انداز اختیار کیا کہ اس کی مثال انگلش کے برٹش معروف ناول نگار ڈاکٹر سرکانن ڈائل سے دی جاسکتی ہے۔ ان کے ناولوں کی زبان انگلینڈ میں آج بھی معتبر اور Trend-setter (رجحان ساز) کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی صورت حال ابن صفی کے ناولوں کی ہے۔ انہوں نے زبان کے معاملے میں کبھی بھی ریجنل یا علاقائی اثرات کو قبول نہ کیا بلکہ گلوبل مکالماتی اردو کی طرح ڈالی۔ یہ مکالماتی زبان کے ایسے نمونے ہیں جن کو پرنٹ میڈیا یا الکٹرانک میڈیا قبول کرلے تو اخبارات و رسائل اور الکٹرانک میڈیا کی زبان بلند ترین ہوسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ابن صفی نے اپنے ناولوں کے ذریعے مطالعہ کتب کے رجحان کو غالب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ اردو صحافت کی کلید مطالعہ کتب کو سمجھتے تھے۔ اس زمانے میں ہر محلہ میں لائبریری کے قیام کو باعث فخر تصور کیا گیا۔ افسوس کہ 1990 کے بعد برصغیر میں حکومتی سطح سے لے کر انفرادی سطح تک لائبریری کی اہمیت کو نظر انداز کردیا گیا۔ اردو دنیا کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ برٹش کالونی نے ہندوستان میں 54,856 لائبریری قائم کیں جس کا آغاز مدراس (موجودہ چنئی) میں 1661 میں ہوا تھا۔ اسی طرح کلکتہ میں 21 مارچ 1836 کو پبلک لائبریری قائم ہوئی جسے 1953 میں مولانا ابوالکلام آزاد (مرکزی وزیر تعلیم) نے یکم فروری 1953 کو نیشنل لائبریری قرار دیا۔
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 1952 میں ابن صفی نے مطالعہ کتب کے رجحان کو جس طرح اپنی تخلیقات کے ذریعے رائج کیا اس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ 1995 میں راقم الحروف نے اپنے چند احباب کے مشورے سے ’اردو بک ریویو‘ جاری کیا جس کا بنیادی مقصد اُردو بک انڈسٹری کے تصور کو مستحکم کرنا اور مطالعہ کتب کے رجحان کے ساتھ تعلیمی ادارے میں اردو کی حقیقی ترقی کے تصور کو عام کرنا رہا ہے۔ اردو دنیا کا یہ بین الاقوامی مجلہ اردو کے ہر موضوع کی کتابوں پر تبصرے اور تجزیے کے لیے وقف ہے۔ گزشتہ 27 برسوں سے اس میں نئی کتابوں (New Arrivals) کی موضوعاتی فہرست (Classified List) شائع ہو رہی ہے۔ اردو دنیا کے اسکالرز، دانشور اور اہم شخصیات کی Obituaries (وفیات) کے اہتمام کے ساتھ بلاتفریق مذہب و ملت باحیات اردو اسکالرز، محبان اردو اور اساتذہ کے تعارف اور انٹرویوز بھی شائع ہوتے ہیں۔ اردو میڈیا کے حوالے سے یہ کام اتنا اہم اور دستاویزی ہے کہ دانشوروں کے بقول اس نوعیت کا دوسرا کوئی اردو مجلہ اس وقت اردو دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اردو صحافت کے دوسو سالہ جشن کا اہتمام بڑا ہی آسان ہے لیکن پہلی بار پریس کلب آف انڈیا (PCI) کے زیراہتمام 27 مارچ کو مولوی محمد باقر کے پوٹریٹ کا افتتاح اور اس موقع پر مسلم و غیر مسلم محبانِ اردو مقررین کا اظہار خیال ہمارے نزدیک ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں اردو صحافت کے نام پر منعقد کیے جانے والے دوصد سالہ جشن سے کہیں بہتر ہے اور پریس کلب آف انڈیا کا یہ مختصر پروگرام ناقابلِ فراموش رہے گا۔
***

 

***

 ابن صفی نے اپنے ناولوں کے ذریعے مطالعہ کتب کے رجحان کو غالب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ اردو صحافت کی کلید مطالعہ کتب کو سمجھتے تھے۔ اس زمانے میں ہر محلہ میں لائبریری کے قیام کو باعث فخر تصور کیا گیا۔ افسوس کہ 1990 کے بعد برصغیر میں حکومتی سطح سے لے کر انفرادی سطح تک لائبریری کی اہمیت کو نظر انداز کردیا گیا۔ اردو دنیا کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ برٹش کالونی نے ہندوستان میں 54,856 لائبریری قائم کیں جس کا آغاز مدراس (موجودہ چنئی) میں 1661 میں ہوا تھا۔ اسی طرح کلکتہ میں 21 مارچ 1836 کو پبلک لائبریری قائم ہوئی جسے 1953 میں مولانا ابوالکلام آزاد (مرکزی وزیر تعلیم) نے یکم فروری 1953 کو نیشنل لائبریری قرار دیا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  17 تا 23 اپریل  2022