تحریک اسلامی میں بےدلی اور غفلت کے اسباب

موثر قیادت، سمع واطاعت ،متنوع پروگرام اور بروقت احتساب ضروری

سراج الدین ندویؔ
چیرمین ملت اکیڈمی ۔سرکڑہ بجنور

تحریک کوئی بھی ہو نشیب و فراز کا شکار ہوتی رہتی ہے ۔ایسا ملک کے حالات کے تحت بھی ہوتا ہے ،قدرتی حالات کے تحت بھی اور تحریک کے داخلی معاملات کے زیر اثر بھی ۔لیکن تحریک میں بے دلی اور غفلت نہیں پیدا ہونا چاہیے ۔کام کم ہونا اور بات ہے اور تحریک کے افراد و کارکنان میں بے دلی ،بد دلی یا ان میں لاپروائی پیدا ہوجا نا دوسری بات ہے ۔حالات کے مطابق ہدف یا نصب العین نہیں بدلتا، بلکہ پالیسیاں اورپروگرام بدلتے ہیں۔رفتار میں سستی اگر کسی سبب سے ہے تو قابل تلافی ہے ،لیکن سست رفتاری کسی متعین سبب کے بغیر ہے تو داخلی احتساب کی ضرورت ہے۔کسی بھی تحریک میں بے دلی اور غفلت اس تحریک کے لیے موت کا سامان ہے ۔تحریک اسلامی میں غفلت اور بے دلی کے اسباب درج ذیل ہوسکتے ہیں۔
٭سب سے پہلا سبب نصب العین کا ذہول ہے۔نصب العین کی چمک کارکن کے اندر ذوق،شوق،ہمت اور حوصلہ پیدا کرتی ہے۔کارکن کے اندر اپنے نصب العین کا جس قدر شعور ہوگا اسی قدر اس کی کارکردگی میں تیزی ہوگی ۔نصب العین آنکھوں سے اوجھل ہوگا تو کارکن کے اندر سستی اور کاہلی پیدا ہوگی۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہمارے کارکنان کے اندر نصب العین کا شعور نہیں ہے ،یا ہمیں اپنا نصب العین یاد نہیں رہا ہے ،گردش زمانہ اور آلام روزگار نے نصب العین کی طرف سے غافل ضرور کردیا ہے ۔جس مقصد کے لیے ہم نے تحریک سے اپنا رشتہ جوڑا تھا ،جس کے حصول کے لیے ہم نے اللہ سے عہد کیا تھا ، جس کے لیے ہمیں اپنا سب کچھ قربان کرنا تھا لیکن افسوس ہم اسی مقصد کو فراموش کربیٹھے ہیں،کسی تحریک کے افراد جب اپنے مقصد کی طرف سے غافل ہوجائیں یا اس کو تر جیح دینا چھوڑ دیں تب اس تحریک کی پیش قدمی رک جاتی ہے۔ہمارے کاربار یا ہماری معاشی مصروفیات یا ہمارے گھریلو مسائل ہمیں اپنے مقصد سے غافل نہ کرسکیں ۔اسی بات کو قرآن مجید میں درج ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ-وَ اللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْن(سورہ توبہ ۲۴)
(اے رسولؐ آپ فرمادیجیے ۔ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور تمہاری کمائی کے مال او ر وہ تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے پسندیدہ مکانات تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیاد ہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔)
یہ آیت ان صحابہ کرام ؓ سے مخاطب ہے جنہوں نے اپنی تحریک کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا۔قیامت تک تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کے لیے یہ آیت ہدایت ہے ۔ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگرہم نے اپنے نصب العین سے ذرا بھی غفلت برتی توہمارا شمار بھی فاسقین میں ہوگا۔ہجرت کے وقت سراقہ بن جعثم نے اللہ کے رسول ﷺ کا پیچھا کیا اور ایسا پیچھا کیا کہ آپ ؐ تک پہنچ گیا ۔اللہ کے نبی ﷺ اس حال میں ہیںکہ اپنا شہر چھوڑ کر جارہے ہیں ،آپ ؐ کے ساتھ صرف آ پ کے دوست ابوبکر صدیق ؓ ہیں ،راستے کی تکالیف الگ ہیں ۔اس پر مزید یہ کہ سراقہ ان کو گرفتار کرنے پہنچ گیا ہے ۔اس کے باوجود آپ ؐ کو اپنے نصب العین کی کامیابی پر اس قدر پختہ یقین تھا کہ سراقہ سے فرماتے ہیں ’’ سراقہ ہم تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘یعنی اس حالت میں بھی اپنی منزل صاف دیکھ رہے ہیں ۔جب مقصد اور نصب العین پر اس قدر پختہ یقین ہوتا ہے تبھی انسان اس کے حصول کے لیے جان کی بازی لگاتا ہے ۔اسی طرح کعبے میں داخل ہوتے وقت جب عثمان بن طلیحہ نے کعبے کی چابیاں آپ ؐ کو دینے سے انکار کردیا تو آپ ؐ نے فرمایا ’’اے عثمان ایک دن وہ آئے گا جب یہ چابیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی اور میں جس کو چاہوں گا دوں گا‘‘۔تحریک سے شعوری وابستگی کا تقاضا ہے کہ حالات خواہ کیسے بھی ہوں ،ایک داعی کبھی نہ مایوس ہوتا ہے نہ اپنے نصب العین کی جانب سے غافل ہوتا ہے۔
٭دوسری وجہ جو تحریک میں بے دلی پیدا کرتی ہے وہ جماعتی فیصلوں پر شرح صدر نہ ہونا ہے ۔اجتماعیت کی کامیابی کی دلیل یہ ہے کہ اس کے وابستگان اپنی امارت و شوریٰ کے فیصلوں پر شرح صدر رکھیں ۔بعض فیصلے ایسے ہوئے جن کی تفہیم خود فیصلہ کرنے والے ہی نہ کراسکے ۔مثلاً جماعت میں سیاسی پارٹی کے قیام کو لیکر فیصلہ ہوا ۔ایک سیاسی پارٹی وجود میں آئی ۔اب یا تو یہ فیصلہ ہوتا کہ یہ سیاسی جماعت ہماری ہے اور اس کی حمایت کرنا سب کے لیے ضروری ہے ۔لیکن اس کے بجائے رفقاء جماعت کو اختیار دیا گیا کہ چاہیں تو اس کی حمایت کریں یا نہ کریں ۔اب ہر مقام پر رفقاء جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ۔اس طرح تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور پہنچ رہا ہے کیوں کہ اس کو لے کر جماعت کے دوسرے فیصلے ہونے لگے ،افراد جماعت کو ذمہ داریاں یہ دیکھ کر دی جانے لگیں کہ اس کا موقف کیا ہے ۔تقرر کرنے والا اگر سیاسی جماعت کا حمایتی تھا تو اس نے اپنے تحت تمام ایسے افراد کا تقرر کیا جو اس کے موقف کی حمایت کرتے تھے ۔کسی بھی تنظیم میں اگر اس کی قیادت اپنے ارکان کو اپنے ذریعے لیے گئے فیصلوں پر مطمئن نہیں کرتی تو تحریک میں بے دلی پیدا ہوجاتی ہے ۔
نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ایسے مرحلے آئے جب صحابہ کرام میں بے چینی پیدا ہوئی لیکن آپ ؐ نے بروقت صحابہ کو مطمئن کردیا ۔غزوہ حنین کا موقع تھا ،مال غنیمت کے طور پر بہت سا مال آپ ؐ کے ہاتھ آیا تھا ،آپ ؐ نے جب اسے تقسیم کیا تو مکہ والوں کو ان کی دل جوئی کی خاطر کچھ زیادہ دے دیا ۔مدینے کے انصار میں بے اطمینانی کی کیفیت پیدا ہوئی ،وہ کہنے لگے محمد ﷺ کو پناہ ہم نے دی ،مدد ہم نے کی ،جنگیں ہم نے لڑیں ،آج جب دینے کا وقت آیا تو حضور ﷺ اپنے لوگوں کو نواز رہے ہیں ،یہ خبر حضور ﷺ تک پہنچی ،آپ نے سب کو ایک جگہ جمع کیا اور تقریر کی ۔آپ ؐ نے فرمایا ’’اے گروہ انصار تمہارا کہنا بجا ہے ،کہ تم نے میری مدد کی ،مجھے پناہ دی ،مجھے سہارا دیا ،مگر اے گروہ انصار کیا تم نہیں چاہتے کہ مکہ کے لوگ مال و اسباب لے کر اپنے گھر جائیں اور تم محمد ﷺکو اپنے ساتھ لے کر جائو۔‘‘اتنا سننا تھا کہ تمام انصار کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ،سب آب دیدہ ہوگئے ،سب نے بیک زبان کہا’’ اے اللہ کے رسول ہم آپ ؐ کی تقسیم پر راضی ہیں ۔‘‘اس لیے ضروری ہے کہ تحریک اسلامی کے تمام فیصلے حقیقت پر مبنی ہوں ،ان کے پیچھے ایسے دلائل ہوں جو تحریک کے وابستگان کو مطمئن کرسکیں،ظاہر ہے ایک اسلامی تحریک جو بھی فیصلہ لے گی وہ قرآن و احادیث کی روشنی میں ہی لے گی ۔کوئی بھی فیصلہ شریعت کے متضاد نہ ہوگا اور جماعت کے وابستگان بھی یہ جرأ ت نہیں کرسکتے کہ شریعت کی روشنی میں لیے گئے فیصلوں کی خواہ مخواہ مخالفت کریں۔
٭پروگراموں میں یکسانیت بھی سستی کا سبب بن جاتی ہے ۔اس لیے پروگراموں میں تنوع بہت ضروری ہے ۔کبھی کبھی امیر کی سستی اثر انداز ہوجاتی ہے ،کیوں کہ اگر انجن ہی ٹھپ ہوجائے تو ڈبے کیا کریں گے ،یہ بھی ضروری ہے کہ امیر کا انتخاب کرتے وقت یہ ضرور دیکھ لیا جائے کہ وہ کس قدر متحرک ہے ۔
٭منفی انداز فکر بھی پست ہمتی پیدا کرتا ہے ،ہر فیصلے میں کمیاں تلاش کرنا،ہر کام میں منفی نکات ڈھونڈنا،ہر اقدام میں اندیشے تلاش کرنا بھی تحریک کو سست کردیتا ہے۔ہمیں اپنی امیر کی طرف سے آنے والی ہدایات کو مثبت انداز سے غور کرنا چاہیے۔ان ہدایات پر عمل اور فیصلوں کے نفاذ کے امکانات حسب استطاعت تلاش کرنے چاہیے۔سرکلر پڑھ کر جھنجھلاجانا اور فرار کی راہ اختیار کرنے کے لیے بے جا تنقید کرنا مناسب نہیں۔
٭کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی فرد اپنے خاص مقصد کے حصول کے لیے تحریک میں آتا ہے ،کسی کو منصب کی خواہش ہوتی ہے ،کوئی مالی منفعت حاصل کرنا چاہتا ہے ،حالانکہ ایسا بہت کم ہوتا ہے لیکن اگر ہزار میں ایک فرد بھی ان پست مقاصد کے لیے کسی تحریک میں آتا ہے اور اس کا وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو خود بھی تحریک میں نقص تلاش کرتا ہے اور سیدھے سادے ارکان کے اندر بھی تنقیص کا رجحان پروان چڑھاتا ہے ،جب اس مزاج کے دوچار لوگ ہوجاتے ہیں تو وہ پوری یونٹ کو ہی سست کردیتے ہیں۔
٭کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لیے تحریک قائم ہوئی تھی ،وہ مقصد پورا ہوتا نظر نہیں ہوتا تو وابستگان پژمردہ ہوجاتے ہیں ۔وہ رفقاء جن کی عمریں ستر سال سے اوپر ہیں اور جو تحریک کو چالیس سال سے سینچ رہے ہیں ۔اب ان کے قویٰ کمزور ہوگئے ہیں۔منزل ابھی دکھائی بھی نہیں دے رہی ہے۔اہل خانہ سے تحریک کے لیے کوئی وارث بھی میسر نہیں آرہا ہے ۔ایسی صورت حال میں رفقاء کار کی رفتار سست پڑجانا فطری بات ہے۔لیکن ایک قائد کی ذمہ داری ہے کہ وہ منزل کو قابل حصول بنا کر پیش کرے اور اپنے رفقاء کو نا امید نہ ہونے دے۔
٭ عمو ماً ہمارے ہفتہ واری اجتماعات روایتی بن گئے ہیں۔ان میں شرکاء کے لیے دلچسپی کا کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔ان میں تنوع اور دلچسپی کے موضوعات کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔یہاں تک کہ تحریک اسلامی کی ذیلی تنظیمیں بھی اسی طرح کاروایتی پروگرام منعقد کرتی ہیں جس طرح کے جماعت کرتی ہے ،اسی لیے ذیلی تنظیموں پر فوراً ہی جماعت اسلامی کا ٹھپا لگ جاتا ہے اور قبول عام کی منزل کو نہیں پہنچتیں۔جب کہ ان کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ جو لوگ براہ راست جماعت اسلامی سے گریز کرتے ہیں وہ ان تنظیموں میں شامل ہوکر اجتماعیت کا حصہ بنیں۔
٭بروقت احتساب کی کمی بھی تحریک کی رفتار کو سست کردیتی ہے ،ضروری ہے کہ ہر شخص کا محاسبہ ہو،بروقت ہو،اگر عذر میں معقولیت ہو تو مزید وقت دیا جائے ،اگر کچھ موانع ہوں تو انہیں دور کرنے میں مدد کی جائے ۔وگرنہ کسی دوسرے فرد کو ذمہ داری دی جائے ،ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص بیس سال سے امیر مقامی ہے ۔مگر تحریک میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہورہا ہے ،یہاں تک کہ ہفتہ وار اجتماعات،ماہانہ اعانتیں،گھریلو اجتماعات،لٹریچر کی تقسیم وغیرہ تک بھی متأثر ہیں مگر قیادت کوئی نوٹس نہیں لیتی۔اس سبب سے بھی کارکنان تحریک میں سستی اور غفلت پیدا ہوجاتی ہے۔
٭تحریکی رفقاء کے درمیان خوش گوار ماحول کا ہونا بھی ضروری ہے ،ناچاقیاں مقصد اور نصب العین سے دور کردیتی ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں ،قرآن نے ان کے لیے رحماء بینھم کے الفاظ ارشاد فرمائے ہیں ،اس کی عملی تفسیر ہم بھی پیش کریں،اگر کوئی شکایت ہے تو آپس میں مل کر دور کرلیں ،کسی بھی تحریک کے وابستگان کا تحریکی تعلق کسی جائداد اور مال کی وجہ سے نہیں ہوتا ،ان کے درمیان کوئی جھگڑا مال و جائداد کی تقسیم کا نہیں ہوتا،زیادہ تر بدگمانیاں ہوتی ہیں جو رفقاء میں دوریاں پیدا کردیتی ہیں۔اگر تعلقات بر وقت درست کرلیے جائیں تو تحریک میں بے دلی کو دور کیا جاسکتا ہے۔وابستگان تحریک کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے ماند ہونا چاہیے۔

 

***

 تحریک میں بے دلی اور غفلت نہیں پیدا ہونا چاہیے ۔کام کم ہونا اور بات ہے اور تحریک کے افراد و کارکنان میں بے دلی ،بد دلی یا ان میں لاپروائی پیدا ہوجا نا دوسری بات ہے ۔حالات کے مطابق ہدف یا نصب العین نہیں بدلتا، بلکہ پالیسیاں اورپروگرام بدلتے ہیں۔رفتار میں سستی اگر کسی سبب سے ہے تو قابل تلافی ہے ،لیکن سست رفتاری کسی متعین سبب کے بغیر ہے تو داخلی احتساب کی ضرورت ہے۔کسی بھی تحریک میں بے دلی اور غفلت اس تحریک کے لیے موت کا سامان ہے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  17 تا 23 اپریل  2022