زکوٰۃ کا اجتماعی نظم اور خواتین

فریضے کی ادائیگی کے لیے عورتوں میں ملکیت کا شعورضروری

ڈاکٹر خان مبشرہ فردوس

فضول خرچی،فخر ومسابقت خواتین کے صاحب نصاب بننے میں مانع
رمضان المبارک میں ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس بابرکت مہینے میں زیادہ سے زیادہ نیکی کے کاموں کو انجام دے۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحیح بخاری ومسلم )
’’ جو شخص ماہِ رمضان میں ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے تو اللہ رب العالمین اس کے اگلے اور پچھلےگناہ معاف فرما دیتا ہے ۔‘‘
یہ احتسابی لمحہ ایک مسلمان کو زکوٰۃ بھی اسی ماہ میں نکالنے پر آمادہ کرتا ہے۔ زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے ۔زکوٰۃ کے ذریعے اللہ رب العالمین پورے سماج میں باہمی تعاون اور اجتماعی تکافل کا مزاج قائم کرنا چاہتا ہے ۔
جس شخص کو اللہ رب العالمین نے رز ق میں اتنی وسعت عطا کی ہو کہ اس کا مال زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر ایک سال کی مدت گزر جائے تو اس مال میں سے ڈھائی فیصدمال بطور زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے ۔اس کا مخاطب ہر فرد ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ۔
موجودہ دور میں خواتین اپنے طور پر مختلف طرح کے بزنس کرتی ہیں، مختلف اداروں میں نوکریاں کرتی ہیں اور تنخواہیں پاتی ہیں۔ چوں کہ ان پر ذمہ گھر کی ذمہ داریاں نہیں ہیں، اس لیے ان کے پاس خطیر رقم جمع ہوجاتی ہے ۔رقم چاہے کسی ذریعے سے کمائی گئی ہو، زکوٰۃ کی ادائیگی مال کو پاکیزہ کرنے کے لیے ضروری ہے۔
عبادات کے سلسلے میں مرد اور عورت کو اللہ تعالیٰ نے یکساں مخاطب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِنَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ
’’جو مردوں نے کمایا ہے، اس میں مردوں کا حصہ ہے اور جو عورتوں نے کمایا ہے ،اس میں عورتوں کا حصہ ہے۔‘‘ (النساء 32:)
یہاں’ کسب‘ سے مراد ہر قسم کی کمائی ہے۔ انسان اپنی صلاحیت کے ذریعے کماتا ہے ، نیکی ، بہتر تعلقات ، نیک نامی ، وغیرہ تمام طرح کے’ کسب‘ کمانے میں شامل ہیں۔ ایسے ہی عبادت کے ذریعہ اللہ کی خوشنودی اور رضا کو وہ کماتا ہے ۔
آج کل خواتین بہت سارے معاش کے شعبوں سے جڑی نظر آتی ہیں ۔ خواتین میں تعلیم کا شعور بڑھا ہے۔ تعلیم کے ذریعہ سرکاری ملازمتوں کے راستے بھی آسان ہوئے ہیں۔ خواتین معاشی طور پر مستحکم ہو رہی ہیں اور سماجی خدمات کے شعبے میں بہترین کارکردگی انجام دے رہی ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ خواتین کہیں کہیں تو مردوں کے مقابلے میں معاشی اعتبار سے زیادہ مستحکم ہیں۔ چوں کہ اسلام نے عورت کے نان و نفقہ اور بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری مرد پر رکھی ہے، ایک خاتون کماتی ہے تو بھی اسے پابند نہیں کیا ہے کہ وہ اس مال کو گھر کی ضرورتوں پر خرچ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے خواتین کو یہ آسانی دی ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ زکوٰۃ جیسی عبادت کو خوش دلی کے ساتھ انجام دیں ۔
وراثت میں ملی ہوئی جائیداد، مہر میں ملی ہوئی رقم، زیورات، جاب اور بزنس کے ذریعے جمع کی گئی رقم زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر پر ایک سال کی مدت گزر جائے تو اس پر زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت عطا کی ہے، اس کے مال میں غریبوں اور مسکینوں کا بھی حق رکھا ہے۔ ایک سال کی مدت گزرنے کے بعد،پوری ایمانداری کے ساتھ وہ رقم اللہ کا حق اور امانت سمجھتے ہوئے زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کا حصہ بنانا اللہ کا حکم ہے،جس کا سورہ ٔالتوبہ میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے ذکر فرمایا ہے ۔
موجودہ سماجی مسائل :
سورۃ المعارج میں اللہ تعالیٰ نے نے محروم کی تفصیل بیان فرمائی ہے:
وَالَّذِيۡنَ فِىۡۤ اَمۡوَالِهِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ ۞ لِّلسَّآئِلِ وَالۡمَحۡرُوۡمِ
’’جن کے مالوں میں،سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے۔‘‘۞(المعارج:24)
’ سائل‘ سے مراد پیشہ ور بھیک مانگنے والا نہیں بلکہ وہ حاجت مند شخص ہے جو کسی سے مدد مانگے اور محروم سے مرادوہ بے روز گار ہے جوروزی کمانے کی کوشش کرتا ہو، مگر اس کی ضروریات پوری نہ ہوتی ہوں، یا کسی حادثے یا آفت کا شکار ہو کر محتاج ہو گیا ہو، یا روزی کمانے کے قابل ہی نہ ہو۔ ایسے لوگوں کے متعلق جب معلوم ہو جائے کہ وہ واقعی محروم ہیں تو ایک مومن اس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ وہ اس سے مدد مانگیں، بلکہ ان کی محرومی کا علم ہوتے ہی وہ خود آگے بڑھ کر ان کی مدد کرتا ہے۔
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اپنی کتاب ’زکوٰۃ کا اجتماعی نظم‘ میں لکھا ہے: ’’پیداواری فقراء میں زکوٰۃ کی تقسیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔‘‘ موصوف نے productive poor اور non productive poor کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بہت عمدہ پیرائے میں یہ بات واضح کی ہے کہ معاشرے کے وہ نوجوان جو مفلسی کے باعث پیشہ وارانہ تعلیم یا تجارت کرکے روزی کمانے سے محروم ہیں، زکوٰۃ کے مصرف کا انہیں بھی حصہ بنائیں تاکہ وہ آئندہ سالوں میں زکوٰۃ لینے کی حالت سے نکل کر زکوٰۃ دینے کی پوزیشن میں آجائیں ۔عصری تعلیمی تقاضوں کے لیے بھی زکوۃ کی رقم کو خرچ کیا جاسکتا ہے ۔
اسی طرح زکوٰۃ کی ایک مد’ فی الرقاب‘ ہے۔ موجودہ ہندوستان میں بہت سارے بےقصور نوجوانوں کو جھوٹے الزام میں زنداں کے حوالے کر دیاجاتا ہے، جن کی رہائی پر خطیر رقم ختم ہوتی ہے۔ اس میں بھی زکوٰۃ کی رقم کو اجتماعی نظم کے ذریعہ خرچ کیا جاسکتا ہے ۔بلاسودی کوآپریٹو سوسائٹیز میں اجتماعی نظم کے ذریعے قرض داروں کو قرض سے نکالا جاسکتا ہے ۔
خواتین کو اجتماعی نظمِ زکوٰۃ سے جوڑنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات : 1۔ جوخواتین تعلیمی میدان سے وابستہ ہیں، ا نھیں سماج کے اہم ترین مسائل کی حل کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے انہیں اجتماعی نظم سے جوڑا جاسکتا ہے ۔
2۔ اسی طرح مسلم ڈاکٹرز خواتین کو بھی مجموعی طور پر اجتماعی نظمِ زکوۃ کے فوائد سمجھاتے ہوئے سماجی مسائل کی جانب متوجہ کیا جاسکتا ہے تاکہ سماج کے مسائل کے حل میں وہ بھی حصہ لے سکیں ۔
3۔ تجارت پیشہ خواتین جو گھروں میں بزنس کرتی ہیں یا فری لانسنگ کے ذریعہ پیسے کمارہی ہیں اور وہ اپنی جائیداد کی مالک ہیں، وہ بھی اس اجتماعی نظم زکوۃ کی اسکیم میں حصہ لے سکتی ہیں ۔
زکوٰۃ ایک اہم عبادت ہے۔ اس عبادت کو ادا کرنے سے جو چیزیں صاحبِ نصاب بننے سے روکنے والی ہیں، ان پر بھی خواتین کی توجہ ہونی چاہیے ۔اچھی تنخواہیں پانے والی بہنیں بھی اس عبادت سےبعض کوتاہیوں کی وجہ سے زکوٰۃ جیسی عبادت کو دل جمعی کے ساتھ ادا کرنے سے محروم رہ جاتی ہیں ۔
برسرِ روزگار خواتین کے صاحب نصاب بننے میں مانع عوامل
فضول خرچی : خواتین کی کمائی میں پُرتعیش زندگی کا احساس سرمایہ دارانہ نظام اور آن لائن شاپنگ بے دریغ خرچ کا عادی بنادیتا ہے ۔انسان شاپنگ کا اس درجے عادی بنتا ہے کہ اپنی مایوسی کو رفع کرنے کے لیے بھی شاپنگ کرتا ہے۔ غیر ضروری میک اپ، میچنگ کے زیورات، ان گنت کپڑوں کے انبار،بے شمار بچوں کے کھلونے، آلاتِ تعیشات کی بہتات اور سجاوٹ کے قیمتی چیزوں میں رقم خرچ کرنے کے سلسلے میںخواتین اس کی عادی بنتی جارہی ہیں ۔یہ وہ عوامل ہیں جو خواتین کو صاحبِ نصاب بننے سے روکتے ہیں ۔
مال میں تفاخر و مسابقت : مال و متاع جمع کرنے کے لیے خواتین کا کمانا اور اسٹیٹس ہائی کرنے میں مسابقت کا تصور عام ہوچکا ہے، چاہے وہ گھر کی تعمیرات کا معاملہ ہو ، گھر کی سجاوٹ کا، شادی بیاہ میں زیب و زینت اور میک اپ کا یا مہنگے سے مہنگا لباس زیب تن کرنے کی مسابقت کا ۔یہ الجھنیں ایک مسلم خاتون کو مقصدِ زندگی سے دور کر دیتی ہیں اورصاحبِ نصاب بننے میں مانع ہوتی ہیں اورزکوٰۃ جیسی عبادت سے تاحیات وہ محروم رہتی ہیں۔
شادی بیاہ کی تقاریب: شادی بیاہ کی شایانِ شان تقاریب کا تصور انسان کو اتنی فرصت نہیں دیتا کہ وہ سماج کے مسائل پر نظر دوڑا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسال سے تعلیمی نظام معطل رہا، تاہم شادی خانوں کی تعمیر ہنوز جاری ہے اور بڑے پیمانے پر شادی انڈسٹری میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس تصور کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ تب ہی ممکن ہے کہ آپ اپنی زکوٰۃ میں دوسروں کا حصہ ادا کرنے کی ذمہ داری کو محسوس کریں گے ، خوش دلی سے زکوٰۃ ادا کرسکیں گے اور اس عبادت میں سبقت لے جانے پر آمادہ ہوسکیں گے ۔
سرکاری کاموں کے رشوت پر فوراً آمادگی :
چھوٹے بڑے کاموں کو آسانی سے حل کرنے کے لیے سرکاری یا غیر سرکاری کاموں میں رشوت دے کر حل کرنا اور خطیر رقم بچوں پر تعلیمی ڈونیشن دے کر تعلیم دلوانے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ اس طرح ہم معاشرے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کے ذریعے جانے انجانے میں سرمایہ دولت مندوں کے حوالے کرکے سماج کے معاشی نظام اور معیشت کی تقسیم کو غیر متوازن بنارہے ہیں ۔
اپنے زیورات، جائیداد، یا مہر کی رقم کو خود اپنی ملکیت کا شعور نہ ہونا بھی اس سلسلے میں مانع ہے، جو ایک خاتون کو روایتی طرزِ فکر نقصان پہنچاتی ہے۔اس لیے ہر خاتون کو حق ملکیت کا شعور بھی ضروری ہے۔
ان تمام عوامل پرہمیں قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم صاحبِ نصاب بن سکیں اور اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں سرخرو ہوسکیں۔

 

***

 زکوٰۃ ایک اہم عبادت ہے۔ اس عبادت کو ادا کرنے سے جو چیزیں صاحبِ نصاب بننے سے روکنے والی ہیں، ان پر بھی خواتین کی توجہ ہونی چاہیے ۔اچھی تنخواہیں پانے والی بہنیں بھی اس عبادت سےبعض کوتاہیوں کی وجہ سے زکوٰۃ جیسی عبادت کو دل جمعی کے ساتھ ادا کرنے سے محروم رہ جاتی ہیں ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  17 تا 23 اپریل  2022