بصارت سے محروم محمد کیف نے سماج کی آنکھیں کھولیں

دسوس میں ااعلی نمبروں سے کامیابی کےبعد نابینا نوجوان کے حوصلے بلند

سید احمد سالک برماور ،ندوی

حافظ قرآن بننے اور قانون کی پڑھائی کرنے کا عزم ۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت
دنیا میں کچھ ایسے باہمت لوگ بھی ہوتے ہیں جو زندگی میں نہ صرف کچھ کر دکھانے کا جذبہ رکھتے ہیں بلکہ اپنے فولادی عزائم سے بلندی کے راستے کی تمام رکاوٹوں کے آگے اس طرح ڈٹ جاتے ہیں کہ مشکلات خود ہار مان لیتی ہیں۔ ایسے لوگ اپنی مجبوریوں اور معذوریوں کے باوجود بھی دنیا پر چھا جانے کا ہنر رکھتے ہیں۔ کرناٹک کے ضلع اڈپی کے چھوٹے سے قصبہ شیرور سے تعلق رکھنے والے بینائی سے محروم ایک نوجوان محمد کیف بن عبدالعزیز شیخ نے اپنے آہنی عزائم سے وہ کام کر دکھایا کہ جسے دیکھ کر اچھے اچھوں کے ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ پیدائشی طور پر بینائی سے محرومی کے باوجود اس نوجوان نے عام بچوں کی بہ نسبت پڑھائی میں اپنی امتیازی حیثیت درج کی۔ انہوں نے ایس ایس ایل سی کے امتحان میں تہتر فیصد نمبرات کے ساتھ نمایاں کامیابی حاصل کر کے بصارت سے محروم طلبہ کے لیے شاندار مثال قائم کی ہے۔
محمد کیف نے بچپن ہی سے اپنے گھر سے دور رہ کر پہلی تا آٹھویں جماعت تک رومَن اینڈکیتھرنگ اسکول فار بلائنڈ منگلورو میں رہ کر تعلیم حاصل کی جس کے بعد نویں جماعت کے لیے بنگلورو کا رخ کیا لیکن کورونا وبا کے سبب وہ اپنی تعلیم وہاں مکمل نہیں کر پائے جس کی وجہ سے انہیں مجبورا اپنے گھر شیرور واپس لوٹنا پڑا، لیکن انہوں نے یوٹیوب اور دیگر ذرائع ابلاغ کے سہارے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور صرف چار ماہ کے مختصر ٹیوشن کی مدد سے دسویں کے امتحان میں امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔ مشکلات کے باؤجود اس نوجوان نے ہار نہ مانی اور کامیابی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہا۔
محمد کیف کھیل کود کے بھی شوقین ہیں اور کرکٹ پر ان کی خاص توجہ رہتی ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں محمد کیف نے کہا کہ کرکٹ کا کھیل ان کے لیے نہ صرف تفریح کا ذریعہ ہے بلکہ اس کے ذریعہ سے انہوں نے اپنی عام معلومات میں بھی اضافہ کیا ہے۔
محمد کیف بظاہر آنکھوں سے محروم ہیں لیکن وہ اپنی تمام ضروریات از خود مکمل کرتے ہیں۔ محمد کیف نئی ٹیکنالوجی پر منحصر اینڈرائید موبائل کا بھی بخوبی استعمال کرتے ہیں جو ان کی تعلیمی زندگی ودیگر ضروریات کی تکمیل میں ان کا معاون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوٹیوب پر موجود مواد سے استفادہ کر کے ہی انہوں نے دسویں جماعت کے اسباق سمجھنے میں مدد لی اور تہتر فیصد نمبرات کے ساتھ کامیاب ہوئے ہیں۔ ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے کیف سے ان کے مستقبل کے عزائم جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ مستقبل میں حافظ قرآن بننے کے ساتھ ساتھ ایل ایل بی کر کے سماج کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔
محمد کیف کی تعلیمی ترقی کی یہ داستان پڑھتے ہوئے ایک کڑوی حقیقت یہ بھی ہمارے سامنے آتی ہے کہ اس سال دسویں کا امتحان لکھنے والے 8 لاکھ سے زائد طلبا میں ایک لاکھ بائیس ہزار سے بھی زیادہ طلبا کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایک ایسے دور میں جبکہ سماج اور ملک کی قیادت کی صلاحیت رکھنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد صرف پاسنگ مارکس لینے میں بھی ناکام رہی ہو، ہمارے بینا سماج کے لیے ایک نابینا نوجوان کی محنت میں بڑی چشم کشا عبرتیں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بصیرت سے محروم لوگ اپنی آنکھیں کھول کر پورے سماج کی بھلائی کے لیے کچھ مؤثر اقدامات کریں تو امید کی جا سکتی ہے کہ محمد کیف جیسے نوجوانوں کی محنت یقینا رنگ لا ئے گی۔ ہم محمد کیف کو مبارکباد دیتے ہوئے ان کے روشن مستقبل کے لیے دعا گو ہیں۔

 

***

 محمد کیف کی تعلیمی ترقی کی یہ داستان پڑھتے ہوئے ایک کڑوی حقیقت یہ بھی ہمارے سامنے آتی ہے کہ اس سال دسویں کا امتحان لکھنے والے 8 لاکھ سے زائد طلبا میں ایک لاکھ بائیس ہزار سے بھی زیادہ طلبا کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایک ایسے دور میں جبکہ سماج اور ملک کی قیادت کی صلاحیت رکھنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد صرف پاسنگ مارکس لینے میں بھی ناکام رہی ہو، ہمارے بینا سماج کے لیے ایک نابینا نوجوان کی محنت میں بڑی چشم کشا عبرتیں ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 جون تا 18 جون  2022