مذہبی منافرت اور پولرائزیشن ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ

بھوک بھارت کا سنگین مسئلہ۔اناج گوداموں میں سڑ رہا ہے اور لوگ موت کے منہ میں جارہے ہیں

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

بے روزگاروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ۔ سوا کروڑ خواتین سمیت 12 کروڑ لوگ ملازمتوں سے محروم
آج ہماری معیشت عرش سے فرش پر پہنچ گئی ہے۔ روپیہ ڈالر کے مقابلے میں سب سے نچلی سطح پر آگیا ہے وہ دن دور نہیں جب روپیہ 100روپے فی ڈالر تک گرجائے گا- اس سے درآمدات اور برآمدات کرنے والوں کی پریشانیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔ گزشتہ 8سالوں میں حکومت نے 80لاکھ کروڑ روپے کا قرض لیا۔ معیشت بڑی تیزی سے تنزلی کا شکار اور حالات کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ سنگھی حکومت 9سالوں میں مہنگائی اور بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی بھارت کے متوسط طبقہ اور غیر منظم سیکٹر کوجو 96فیصد ہے جھٹکے پر جھٹکے دے رہی ہے۔ بے روزگاری فی الوقت سبھی ریکارڈ توڑ چکی ہے۔ اس مدت میں 12کروڑسے زیادہ لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ساتھ ہی سوا کروڑ خواتین بھی نوکریوں سے محروم ہوئی ہیں۔ تھوک قیمتوں سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے 2011میں جانا ہوگا۔ اس وقت کسی شئے کی قیمت 100روپے تھی وہ نومبر 2020میں 125روپے ہوگئی مگر 2020سے 2022تک محض دیڑھ سال کے عرصہ میں وہی شئے 150روپے ہوگئی۔ اس سے مہنگائی کی رفتار کا اندازہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بجلی اور ایندھن کی قیمت میں 19.15فیصد اور تیار شدہ مال کی قیمت میں 64.23فیصد کی تیزی آئی۔ محض ایندھن اور بجلی کی قیمت 2021سے ہر ماہ مہنگی ہوکر 30فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ درج ہورہی ہے۔ اپریل 2022میں مسلسل چھٹے ماہ گیہوں کی تھوک قیمت دوہرے ہندسے 10.7فیصد میں بڑھی ہے۔ بی جے پی حکومت بڑی عیاری سے مذہب کا افیم پلاکر اکثریت کے ذہن کو گیان واپی مسجد، متھرا کرشن جنم بھومی اور قطب مینار کی طرف بھٹکارہی ہے تاکہ 2024کے الیکشن کو جیتا جاسکے۔ اس حکومت کے 8سالوں میں 1000فرقہ وارانہ تشدد ہوئے اچھے دن سنگھیوں اور دنگائیوں کے آئے، بڑے بڑے تین چار دھنا سیٹھوں کے آئے، ان 140لوگوں کے آئے جن کی آمدنی کورونا قہر کے دوران کئی گنا بڑھ گئی۔ حکومت نے اپنے دوست صنعتکاروں کے 9 لاکھ کروڑ روپے کے لون رائٹ آف کردیے۔ حکومت ڈاٹا میں ہیرا پھیری کرکے عوام کو گمراہ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ سبسیڈی میں 12 فیصد کمی کردی گئی اور اکسائز ڈیوٹی بڑھا کر عوام کو بدحال کردیا گیا۔ بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کی جملہ بازی کا کیا کہنا ؟ اس کے ساتھ ہی بھکمری انڈیکس میں ہم 55ویں مقام سے گرکر 101مقام پر پہنچ گئے ۔ فریڈم آف پریس میں 140سے 150پر، رول آف لا انڈیکس میں 35سے 79پر، ڈیمو کریسی انڈیکس میں 27سے 46 ویں پرچلے گئے۔ اس طرح بھارت عالمی پیمانے پر ہر شعبہ میں پھسلتا جارہا ہے۔ پھر بھی وشو گرو بننے کا دعویٰ ہے۔
28مئی کو عالمی یوم بھوک(international hunger day) منایا گیا تاکہ عالمی طور پر انسانوں کے بھوک مٹانے کی سمت میں بیداری پیدا کی جائے۔ ہمارے ملک بھارت میں بھوک ایک سنگین مسئلہ ہے۔ آج بھی ملک کی بڑی آبادی اس مصیبت سے دوچار ہے۔ اس لیے ہر حکومت اس مسئلہ کے حل کے لیے مفت راشن کی تقسیم، اجول گیس منصوبہ کے ساتھ مختلف طرح کے اعلانات بھی کرتی رہتی ہیں پھر بھی یہ مسئلہ پیچیدہ ہے۔ اس کی اہم وجہ طریقہ تقسیم (Distribution System)میں بہت ساری خامیاں ہیں۔ جسے منصوبہ کا فائدہ ملنا چاہیے اسے نہیں مل پاتا بلکہ وہ بدعنوانی کی نذرہوجاتا ہے۔ بھوک مٹانے کی سمت میں زراعت اہم وسیلہ ہے جہاں سے اناج بڑی مقدار میں حاصل ہوسکتا ہے وہ سیاست زدہ ہونے کی وجہ سے کسان بھی زراعت سے منہ موڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف اناج ذخائر میں سڑ رہا ہے اور لوگ بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ ملک میں بے روزگاروں کی فوج دن بدن بڑھتی جارہی ہے جو کسی وقت بھی پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوٹ، اغوا، قتل و دیگر جرائم میں مبتلا ہوسکتی ہے۔ اس کے مد نظر حکومت 80کروڑ انتہائی غریب اور تغذیہ کی کمی کے شکار لوگوں کو غذائی سلامتی کے تحت ترجیحات میں رکھ کر مفت راشن فراہم کررہی ہے۔ ویسے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے خبردار کیا ہے کہ 43ممالک سے 5 کروڑ لوگ بھکمری سے محض ایک قدم دور ہیں۔
ورلڈ بینک کے سابق چیف اکانومسٹ اور 2009-12میں بھارتی حکومت کے چیف معاشی مشیر رہنے والے پروفیسر کوشک باسو نے پی ٹی آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی منافرت اور پولرائزیشن بھارتی قومی ترقی کو تباہ و برباد کررہی ہے۔ ملک کا سب سے بڑا چیلنج بے روزگاری ہے جہاں 24فیصد نوجوان بے روزگار ہیں یہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ایک قوم کی ترقی محض معاشی پالیسی پر منحصر نہیں کرتی۔ بہت سارے ثبوت موجود ہیں کہ عوام الناس کا بھروسہ معاشی ترقی کے لیے اہم اور ضروری ہے۔ پروفیسر باسو کے مطابق بھارتی معیشت کی بنیاد مضبوط ہے۔ ہمارے پاس کاروباریوں کا بڑا طبقہ ہے۔ بہت ہنر مند محنت کش ہیں۔ پھر بھی ہم تنزلی کا شکار ہیں۔ سرمایہ کاری اور جی ڈی پی کے تناسب سے زیادہ ہے۔ بھارت کے باہر بھی انفلیشن ہے مگر تشویش کی بات ہے کہ یہاں غربا اور متوسط طبقہ کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ پروفیسر باسو نے کہا کہ سی پی آئی انفلیشن مزید بڑھ سکتا ہے جو ڈبلیو پی آئی انفلیشن کے قریب تر ہوگا۔ سی پی آئی انفلیشن9فیصد سے تجاوز کرسکتا ہے۔ حکومت کو غربا کو مالی امداد ضرور فراہم کرنا چاہیے کیونکہ مہنگائی سے بہت سے زیادہ غربا اور متوسط طبقہ متاثر ہورہے ہیں اس کے علاوہ حکومت کو چھوٹے کارخانہ دار ۔ غیر منظم سیکٹر اور کسانوں کی ضرور مدد کرنی ہوگی۔ مالی خسارہ کو بڑھنے سے روکنے کے لیے افراد پر ٹیکس کا بوجھ بڑھانا ہوگا خواہ عارضی کیوں نہ ہو۔ آر بی آئی کے سابق گورنر پروفیسر رگھو رام راجن نے گزشتہ ماہ ٹائمز نیٹ ورک انڈیا کانومک کانکلیو میں کہا کہ ملک کی اقلیت مخالفت تصویر غیر ملکی بازاروں میں بھارتی مصنوعات کی طلب کو کم کرسکتی ہے۔ انہوں نے فرقہ وارانہ تشدد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نظریات کی جنگ میں داخل ہوگیا ہے۔ اب دنیا میں بھارت کو ایک ناقابل اعتماد شراکت دار کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس سے بھارتی معیشت کو کافی نقصان ہوگا۔
آر بی آئی نے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ تھوک قیمتوں پر منحصر ڈبلیو پی آئی کے اونچائی پر برقرار رہنے کی وجہ سے کچھ مدت بعد خوردہ مہنگائی پر دباو پڑنے کا خطرہ ہے۔ آر بی آئی نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ صنعتی خام مال کی اونچی قیمت، حمل ونقل کے اخراجات ، عالمی لاجسٹک اور سپلائی چین میں رکاوٹ خاص طور سے مالیاتی خسارہ پر دباو بڑھا رہے ہیں۔ مرکزی بینک نے کہا ہے کہ تیار شدہ مال کی مہنگائی میں تیزی سے درمیانی تھوک اور خوردہ انفلیشن میں بڑھتے فرق کی وجہ سے تیاری خرچ کا دباو کچھ دنوں کے بعد خوردہ مالیاتی خسارہ پر پڑنے کا خطرہ ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ روس۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ٔبھارت کے ساتھ دنیا بھر کے مالیاتی خسارہ کے منظر کو متاثر کرتی نظر آرہی ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 جون تا 18 جون  2022