رزق کی کنجیاں

توکل،صلہ رحمی، انفاق اور دیانت داری سے رزق میں کشادگی ہوتی ہے

مسلم محمود، مسقط (عمان)

یوں تو انسان کے رزق کی تلاش دنیا میں آتے ہی شروع ہو جاتی ہے، جس کا اعلان نومولود اپنے رونے سے کرتا ہے، پھر یہ تلاش تاحیات جاری رہتی ہے جو کہ ایک فطری عمل ہے، لیکن رزق ہی زندگی کا محور بن جانا صحیح نہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے تخلیق کیا ہے نہ کہ رزق کی جستجو میں اپنے مقصد حیات سے غافل رہ جانے کے لیے۔
والدین بچے کی تعلیم و تربیت کا مرکز و محور بہترین رزق کی فراہمی کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیتے ہیں اور جب بچہ شعور کو پہنچ جاتا ہے تو خود وہ بھی اسی راہ پر چل پڑتا ہے۔ بچہ اور والدین خود کی حکمت عملی اور فیصلوں پر انحصار کرتے ہیں اور خود کو کامیابی اور ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ رزق کا فیصلہ انسان کی پیدائش سے پہلے فرما دیتا ہے اور کوئی انسان اپنا رزق پورا حاصل کیے بغیر اس دنیا سے نہیں جا سکتا۔ ویسے بھی رب ذوالجلال جو انسان کی عاقبت سنوارنے کے لیے مکمل ہدایت سے روشناس کرتا ہے وہ انسان کی دنیوی زندگی کی بقا کو کیسے نظر انداز کرسکتا ہے، لہٰذا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن اور اسوہ نبیؐ کے ذریعے مکمل رہنمائی عطا فرمائی ہے کہ انسان جائز، حلال اور بابرکت رزق باعزت طریقے سے حاصل کرے اور بحیثیت اشرف المخلوقات اس کے وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھائے اور رزق کی فطری تلاش کو پر وقار طریقے سے انجام دے۔
رزق کی فراہمی اور اس میں برکت کے لیے قرآن و حدیث میں ہم کو مکمل رہنمائی ملتی ہے جو رزق کی کنجیوں کے حوالے سے مندرجہ ذیل عنوانات میں پیش خدمت ہے:
توبہ و استغفار: اللہ سبحانہ تعالیٰ کو رزاق ماننے کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ وہ ہم سے راضی ہو۔ دانستہ اور غیر دانستہ غلطیوں کے لیے ہم اللہ سے سچی توبہ کریں اور مغفرت مانگتے رہیں۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان صبح وشام اللہ کی نافرمانی کرے اور اسی سے رزق میں اضافہ اور برکت کی امید رکھے۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: ’’اپنے رب سے معافی مانگو وہ بے شک معاف کرنے والا ہے۔ وہ آسمان سے تم پر خوب بارشیں برسائے گا۔ تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لے نہریں جاری کر دے گا۔ (سورہ نوح،آیت: 10تا12)
حضرت عمرؓ سے لوگوں نے بارش کی دعا کرنے کے لیے کہا۔ آپؓ باہر تشریف لائے، استغفار کیا اور واپس چلے گئے۔ بارش شروع ہو گئی۔ آپ سے لوگوں نے پوچھا، آپ نے صرف استغفار کیا تو حضرت عمرؓ نے مندرجہ بالا آیات کی تلاوت کی اور فرمایا میں نے اللہ کے اسی حکم پر عمل کیا۔
توکل: اللہ پر مکمل اعتقاد اور یقین کامل کہ ہماری کاوش کے بعد رزق کا عطا فرمانے والا صرف اللہ ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ’’ ہر اس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا اور ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا دھیان بھی نہ جاتا ہو۔‘‘ (سورۃ الطلاق، آیت: 2,3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم اللہ پر اسی طرح بھروسہ کرو جیسا کہ کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو اسی طرح رزق دے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیتا ہے۔‘‘(المسند)
عبادت: اگر انسان اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عبادت کا حقیقی حق ادا کرتا ہے اور رزق کی جستجو میں عبدیت کی ذمہ داری سے غافل نہیں ہوتا تو ایسے شخص کو اللہ بھی فراموش نہیں کرے گا۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث نشان دہی کرتی ہیں:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ فرماتا ہے ’’اے ابن آدم! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا، میں تیرے دل کو بے نیازی سے بھر دوں گا اور تیرے دونوں ہاتھوں کو رزق سے۔ اے ابن آدم! تو مجھ سے دور نہ جا، اگر ایسا کرے گا تو میں تیرے دل کو محتاجی سے بھر دوں گا اور تجھے بے کار کاموں میں الجھا دوں گا۔‘‘(المسند)
حج و عمرہ: حج اور عمرہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ رزق میں برکت اور رحمت عطا فرماتا ہے اور انسا ن کے گناہ معاف کر دیتا ہے جیسے نو زائیدہ بچہ گناہوں سے پاک پیدا ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ حج اور عمرہ ایک دوسرے کے بعد ادا کیا کرو، کیوں کہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی سونے چاندی اور لوہے کی میل کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔‘‘ (سنن نسائی)
صلہ رحمی: رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک رزق میں اضافہ اور برکت کا باعث بنتا ہے۔ حسن سلوک ہر قریب اور دور کے رشتہ دار کے ساتھ روا رکھا جائے۔ بغیر اس تفریق کے کہ کون ہمارے ساتھ اچھا ہے اور کون برا ہے۔ اس لیے کہ ہمارا عمل اپنے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہے اور اسی سے ہم کو اس کا صلہ چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص عمر میں اضافہ چاہے اور رزق میں کشادگی ہو تو وہ صلہ رحمی کرے۔ ‘‘
’’نیکیوں میں سب سے جلد ثواب صلہ رحمی کا ملتا ہے، یہاں تک کہ کوئی نافرمان گھرانا اور اس کے لوگ بھی صلہ رحمی کرتے ہیں تو اللہ سبحانہ تعالیٰ ان کے مال اور افراد میں اضافہ کرتا ہے۔ صلہ کرنے والے کبھی محتاج نہیں ہوتے۔‘‘(صحیح بخاری)
اللہ کی راہ میں خرچ کرنا: اللہ کی راہ میں حسب حیثیت خرچ کرنے سے بھی رزق میں اضافہ اور برکت ہوتی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کے مال میں کوئی کمی نہیں آتی، کیوں کہ جو مال ایک انسان دوسرے انسان پر خرچ کرتا ہے اللہ تعالٰی وہ دوسرے انسان کے لیے پہلے انسان کے رزق میں عطا فرماتا ہے۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: ’’تم اللہ کی راہ میں جو خرچ کرو وہ اس کا بدلہ دے گا اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔‘‘
(سورۃ السبا، آیت: 39)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتاہے: ’’ اے ابن آدم! تو بندوں پر خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔‘‘(صحیح مسلم)
دوسری حدیث میں ہے:’’ ہر دن جس میں لوگ صبح کرتے ہیں، دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں، ایک دعا کرتا ہے کہ اے اللہ خرچ کرنے والوں کو بہتر بدل عطا فرما۔ دوسرا دعا کرتا ہے کہ جو نہ خرچ کرے اس کا مال تلف کرے۔‘‘(صحیح بخاری)
احسان: اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ہم پر بیش بہا احسانات ہیں اور اس کو پسند ہے کہ ہم بھی دوسروں کے ساتھ خالص اسی کی رضا اور خوشنودی کے لیے بے لوث احسان کریں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تمہاری مدد تمہارے کمزوروں کی وجہ سے کی جاتی ہے اور انہی کی وجہ سے تم کو رزق ملتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری)
ہجرت کرنا: رزق حلال کی تلاش کے لیے ہجرت کرنا جائز اور رزق میں اضافہ اور برکت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ اگر رزق کے وسائل کسی مقام پر محدود ہوں تو کوئی دوسرا شہر یا دوسرا قریہ جا کر محنت کرنا اس بات سے بہتر ہے کہ انسان ایک جگہ محدود ہو کر رہ جائے۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: ’’اور جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں پناہ لینے کی بہت جگہ اور بسر اوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا۔‘‘ (سورۃ النساء، آیت: 100)
آخرت پر نظر: انسان کا مقصد حیات اللہ کی عبادت کرنا اور اپنی عاقبت سنوارنا ہے اور اسی پر اس کی نظر ہونی چاہیے۔ یہ دنیا تو چند روزہ ہے اور اس کو ختم ہونا ہی ہے، لہٰذا انسان ابدی زندگی کو اپنا مطمح نظر بنائے، کیوں کہ دنیا ایسے شخص کے خود پیچھے آتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس شخص کی آخرت پر نظر ہو اس کے دل کو اللہ قناعت عطا فرماتا ہے، اس کے بکھرے ہوئے معاملات کو سمیٹ دیتا ہے اور دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی سے مفلسی کو کھینچ لیتا ہے۔ دنیا اس کے پاس حقیر ہوکر پیچھے آتی ہے، اس کی صبح و شام قناعت پر ہوتی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
نکاح: رزق میں اضافہ اور خوش حالی کے حصول کی ایک کنجی نکاح ہے۔ نکاح کرنے سے دو نصیب جڑتے ہیں اور اللہ رزق میں اضافہ و برکت عطا فرماتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا ۔ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے۔‘‘ (سورۃ النور، آیت: 32)
صبح سویرے کام پر نکلنا: صبح سویرے کام کے لیے گھر سے نکلنے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے خیر وبرکت رکھی ہے۔ رزق کے دروازے صبح اٹھ کر کوشش کرنے والوں کے لیے ہی کھلتے ہیں۔ اللہ کے رسول ؐ نے دعا فرمائی کہ ’’ اے اللہ میری امت کے منہ اندھیرے نکلنے والوں کو برکت عطا فرما ۔‘‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم فوجی دستہ صبح سویرے روانہ فرمایا کرتے تھے۔تجارت میں سچائی: تاجر کے رزق میں برکت اور اضافہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ تجارت میں سچ بولے۔ اپنا مال جھوٹ بول کر نہ بیچے، اپنے مال کی کمزوری بتا کر بیچے۔ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی سے پرہیز کرے۔ سچے تاجر کے لیے قیامت کے دن انبیاء اور صدیقین کی ہمراہی کی خوش خبری دی گئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کوئی چیز فروخت کرے اور اس میں جو کچھ عیب ہو اسے بیان نہ کرے اور جسے اس عیب کا علم ہو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کو بیان نہ کرے۔‘‘
مندرجہ بالا رزق کی کنجیوں کے علاوہ آسان اور روز مرہ کی زندگی میں کیے جانے والے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
۱- سلام کہہ کر گھر میں داخل ہونا۔
۲- نماز کے لیے مسجد جانا، جماعت سے نماز پڑھنا۔
۳- مریض کی عیادت کو جانا۔
۴- جنازے کے ساتھ جانا۔
۵- حق بات کرنا۔
۶- غیبت نہ کرنا۔ وغیرہ وغیرہ
***

 

***

 اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن اور اسوہ نبیؐ کے ذریعے مکمل رہنمائی عطا فرمائی ہے کہ انسان جائز، حلال اور بابرکت رزق باعزت طریقے سے حاصل کرے اور بحیثیت اشرف المخلوقات اس کے وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھائے اور رزق کی فطری تلاش کو پر وقار طریقے سے انجام دے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 جون تا 18 جون  2022