سیرت صحابیات سیریز(۲۸) حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ

جن کی فریاد سات آسمانوں کے اوپر سنی گئی تھی

امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ ایک دن چند اصحاب کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں ایک بوڑھی خاتون ملیں انہوں نے امیر المومنین کو روکا اور باتیں شروع کردیں۔ حضرت عمرؓ سر جھکا کر دیر تک ان کی باتیں سنتے رہے اور جب تک وہ خاموش نہ ہوئیں آپ کھڑے رہے۔ ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے عرض کیا:
’’امیر المومنین آپ نے اس بڑھیا کی باتیں سننے میں اتنا وقت گزار دیا اور اپنے ساتھیوں کو اتنے دیر روکے رکھا‘‘۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’جانتے بھی ہو یہ عورت کون ہے؟ یہ عورت وہ ہے جس کی بات سات آسمانوں پر سنی گئی تھی۔ واللہ اگر یہ رات بھر ٹھہرتی تو بھی میں سوائے نماز کے اور کوئی کام نہ کرتا اور اس کی باتیں سنتا‘‘۔
یہ خاتون جن کی صدائے درد اللہ تعالیٰ نے عرش معلی پرسنی تھی اور جن کا خلیفہ عرب و عجم فاروق اعظمؓ اس قدر احترام کرتے تھے حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ تھیں۔
حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ (بن اصرم بن فہر بن قیس بن ثعلبہ بن غنم بن سالم بن عوف) کا تعلق انصار کے قبیلہ بنی عوف بن خزرج سے تھا۔ ان کا نکاح اپنے ابن عم حضرت اوس بن صامتؓ سے ہوا تھا جو حضرت عبادہ بن صامتؓ کے بھائی تھے۔ ان دونوں بھائیوں کا شمار جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔ حضرت خولہؓ بھی اپنے شوہر کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوئیں اور رحمت عالمﷺ کی بیعت کی سعادت حاصل کی۔ وہ ایک گھریلو خاتون تھیں اور گم نامی کی زندگی بسر کررہی تھیں کہ اچانک ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے انہیں لازوال شہرت عطا کردی اور صحابہ کرامؓ کے نزدیک ان کا مرتبہ بہت بلند ہوگیا۔
واقعہ یہ تھا کہ حضرت خولہؓ کے شوہر اوس بن صامتؓ ایک معمر آدمی تھے اور بڑھاپے کی وجہ سے ان کے مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہوگیا تھا، ذرا ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتے تھے اور بعض اوقات جوش غضب میں آپے سے باہر ہوجاتے تھے۔ ایک دن غصے میں آکر اپنی زوجہ سے کہہ دیا ’’انت علی کظہر امی (یعنی تو میرے اوپر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ) اس زمانے میں اس طرح کے الفاظ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ’تم مجھ پر میری ماں کی طرح حرام ہو‘‘۔ اس قسم کے فعل کا نام ’’ظہار‘‘ ہے۔ جب ان کا غصہ اترا تو سخت پریشان ہوئے کہ میں یہ کیا حرکت کر بیٹھا ہوں اور اب گھر کو بچانے کی کیا صورت ہو؟ خولہؓ بھی دم بخود بیٹھی تھیں۔ جب حضرت اوسؓ نے ان کے سامنے ندامت کا اظہار کیا تو بولیں۔
’’گو تم نے طلاق نہیں دی لیکن میں نہیں کہہ سکتی کہ یہ الفاظ کہنے کے بعد میرے اور تمہارے درمیان میاں بیوی کا رشتہ باقی رہ گیا ہے یا نہیں تم رسول اللہؐ کی خدمت میں جاو اور اس بات کا فیصلہ کروا‘‘۔
حضرت اوسؓ نے کہا ’’مجھے یہ واقعہ رسول اللہؐ کے سامنے بیان کرنے سے شرم آتی ہے۔ خدا کے لیے تم ہی ہادی برحق سے اس کے متعلق فتویٰ لو‘‘
حضرت خولہ ؓ فوراً رحمت عالمﷺ کی خدمت میں پہنچیں، آپؐ اس وقت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے گھر تشریف فرما تھے۔ خولہؓ نے سارا قصہ بیان کرکے عرض کیا:
یا رسول اللہ ؐ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ کیا میری اور میرے بچوں کی زندگی کو تباہی سے بچانے کی کوئی صورت ہوسکتی ہے‘‘۔
حضور نے فرمایا: ’’میرا خیال ہے کہ تم اس پر حرام ہو گئی ہو‘‘
ایک دوسری روایت کے مطابق حضورؐ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے:
اس مسئلے میں ابھی تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نہیں دیا گیا‘‘۔
سرور عالم ؐ کا جواب سن کر حضرت خولہؓ نالہ و فریاد کرنے لگیں اور بار بار حضور ؐ سے عرض کرنے لگیں کہ اوسؓ میرا ابن عم ہے، اس کی تند مزاجی اور بڑھاپے کا حال حضورؐ پر روشن ہے اس نے غصے میں آکر ایسی بات کہہ دی ہے جو میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ طلاق نہیں ہے۔ خدارا کوئی ایسی صورت بتائیں کہ میری اور میرے بوڑھے شوہر اور بچوں کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے۔
سرور عالمؐ اپنی رائے پر قائم رہے لیکن خولہؓ مایوس نہ ہوئیں اور برابر حضورؐ کو قائل کرنے کی کوشش کرتی رہیں پھر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی:
اے مولائے کریم میں تجھ سے اپنی سخت ترین مصیبت کی فریاد کرتی ہوں، اے اللہ جو بات ہمارے لیے رحمت کا باعث ہو اسے اپنے نبی ؐ کی زبان سے ظاہر فرما‘‘
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ یہ منظر اتنا درد ناک تھا کہ میں اور گھر کے سارے لوگ اشک بار ہو گئے۔
حضرت خولہؓ کا اصرار جاری تھا کہ یکایک رحمت عالمﷺ پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی، حضرت عائشہؓ نے فرمایا خولہؓ ذرا انتظار کرو شاید اللہ تعالیٰ نے تمہارے معاملے کا فیصلہ کر دیا ہے۔
حضرت خولہؓ کے لیے یہ سخت امتحان کی گھڑی تھی۔ انہیں ڈر تھا کہ فیصلہ میرے خلاف ہوا تو اس صدمے سے جانبر نہ ہو سکوں گی لیکن جب حضورؐ کی طرف دیکھا تو آپؐ کو متبسم پایا، اس سے ان کے دل کو قرار آگیا اور خوش خبری سننے کے لیے کھڑی ہو گئیں۔ حضور نے فرمایا: ’’خولہ ؓ اللہ تعالیٰ نے تمہارا فیصلہ کردیا ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے سورہ مجادلہ شروع سے اخیر تک پڑھی، اس کی پہلی آیت حضرت خولہؓ کے بارے میں تھی:
قَدْ سَمِعَ ٱللَهُ قَوْلَ ٱلَّتِى تُجَٰدِلُكَ فِى زَوْجِهَا وَتَشْتَكِىٓ إِلَى ٱللَهِ وَٱللَهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَآ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌۢ بَصِيرٌ
’’اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملے میں تم سے تکرار کررہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے۔ اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، بے شک اللہ سمیع اور بصیر ہے‘‘
اس کے بعد اس سورۃ میں نازل ہونے والے احکام کے مطابق آپؐ نے حضرت خولہؓ سے فرمایا کہ اپنے شوہر سے کہو کہ ایک لونڈی یا غلام آزاد کردیں۔
حضرت خولہؓ نے عرض کیا : ’’یا رسول اللہؐ ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، میرے خاوند کے پاس نہ کوئی لونڈی ہے نہ غلام‘‘
حضور نے فرمایا :’’تو پھر وہ مسلسل ساٹھ روزے رکھیں‘‘
حضرت خولہؓ بولیں: ’’یا رسول اللہؐ ! خدا کی قسم میرا شوہر بہت کم زور ہے جب تک وہ دن میں تین بار نہ کھا پی لے اس کی بینائی جواب دینے لگتی ہے مسلسل ساٹھ روزے رکھنا اس کے لیے ناممکن ہے‘‘۔
حضورؐ نے فرمایا: ’اچھا تو ان سے کہو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دیں‘‘۔ خولہؓ نے کہا۔ ’’یا رسول اللہؐ ! میرا شوہر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا۔ الا یہ کہ آپؐ مدد فرمائیں‘‘۔
رحمت عالمﷺ کا سحاب کرم تو حاجت مندوں پر ہر وقت برستا ہی رہتا تھا۔ آپؐ نے حضرت اوس بن صامت کو اتنا سامان خوارک عطا فرمایا جو ساٹھ آدمیوں کی دو وقت کی غذا کے لیے کافی تھا۔ حضرت اوسؓ نے یہ سامان صدقہ کرکے اپنے ظہار کا کفارہ ادا کردیا۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۔7
ایک دوسری روایت میں ہے کہ کفارہ کا نصف سامان خوراک حضورؐ نے عطا فرمایا اور نصف حضرت خولہؓ نے شوہر کو دیا۔
علامہ ابن سعدؒ کا بیان ہے کہ خولہؓ حضورؐ سے رخصت ہو کر گھر آئیں تو حضرت اوسؓ کو دروازے پر اپنا منتظر پایا۔ بے تابی سے پوچھا، کیوں خولہؓ حضورؐ نے کیا حکم دیا؟ خولہؓ نے سارا ماجرا بیان کیا اور کہا کہ تم بہت خوش قسمت ہو ، جاو اور ام المنذر بنت قیس سے ایک بار شتر کھجوریں لے کر ساٹھ مسکینوں پر صدقہ کرو تاکہ تمہاری قسم کا کفارہ ادا ہوجائے۔
حضرت اوسؓ کو اس فیصلے پر ناقابل بیان مسرت ہوئی اور انہوں نے کفارہ ادا کرکے آئندہ کے لیے ایسی بات منہ سے نہ نکالنے کا عہد کیا۔
سورہ مجادلہ کے نزول کے بعد حضرت خولہؓ کا مرتبہ لوگوں کے نزدیک بہت بلند ہوگیا یہاں تک کہ اکابر صحابہؓ بھی ان کی از بس توقیر و تعظیم کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ سے ان کی ملاقات کو جو واقعہ اوپر بیان کیا گیا ہے وہ بیہقی سے ماخوذ ہے۔ بعض دوسرے اہل سیر نے اسے دوسرے انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے راستے میں خولہؓ کو دیکھا تو ان کو سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دے کر حضرت عمرؓ کو وہیں روک لیا اور کہنے لگیں:
اوہو، عمر ایک زمانہ تھا کہ میں نے تمہیں بازار عکاظ میں دیکھا تھا اس وقت لوگ تھے تھوڑے ہی زمانے کے بعد لوگ تمہیں عمر کہنے لگے اور پھر وہ وقت آیا کہ تمہارا لقب امیر المومنین ہوگیا۔ پس مخلوق خدا کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یقین جانو کہ جو شخص عذاب الہی سے ڈرتا ہے اس کے لیے بعید بھی قریب ہوتا ہے اور جو موت سے ڈرے گا اس کو ہر وقت مرنے کا دھڑکا لگا رہے گا اور وہ اسی چیز کو کھودے گا جس کو بچانا چاہتا ہے‘‘
کچھ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے ساتھ تھے ایک نے کہا ’’بڑی بی تم نے تو امیر المومنین کو بہت کچھ کہہ ڈالا‘‘
(بہ قول حافظ ابن عبدالبرؒ یہ بات کہنے والے حضرت جارود عبدیؓ تھے) حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا:
’’یہ جو کہتی ہیں انہیں کہنے دو۔ تمہیں معلوم نہیں یہ کون ہیں؟ یہ خولہؓ بنت ثعلبہ ہیں ان کی بات تو سات آسمانوں کے اوپر سنی گئی تھی اور انہیں کے بارے میں تو آیت قد سمع اللہ نازل ہوئی تھی۔ مجھ اللہ کے ناچیز بندے کو تو ان کی بات بدرجہ اولیٰ سننی چاہیے‘‘۔
حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ کے سال وفات اور زندگی کے دوسرے حالات کی تفصیل کتب سیر میں نہیں ملتی۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  08 تا 14 مئی  2022