بھارت میں نفرتی مہم پر لگام کسنے کی ضرورت

سیاسی قیادت کی زباں بندی اورپولیس کی سست کے خلاف اے پی سی آر میدان میں، میڈیا کی نفرت انگیزی پر عدالت سے رجوع

افروز عالم ساحل

’ملک میں جس طرح نفرت انگیز حرکتیں بڑھ رہی ہیں، اس پر تو عدالت کو خود نوٹس لینا چاہیے تھا، لیکن نہیں لیاگیا۔ اس دوران ایک نفرتی میڈیا چلانے والا یہ شخص مسلسل اپنے ٹی وی چینل پر اور عوام کے درمیان پروگراموں میں نفرت پروس رہا تھا۔ دوسری طرف ہم پولیس سے شکایت پر شکایت کرتے رہے لیکن پولیس نے بھی جب کچھ نہیں کیا تو ہمارے پاس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ اب عدالت سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں۔ ہمیں پوری امید ہے کہ عدالت اس معاملے میں اس شخص کے خلاف کارروائی کرے گی۔‘

یہ باتیں ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کے نیشنل سکریٹری ندیم خان نے ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کہیں۔ ندیم خان سدرشن ٹی وی کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ 27 جنوری کو دہلی کی ساکیت ڈسٹرکٹ کورٹ کے میٹروپولیٹن مجسٹریٹ جتیندر پرتاپ سنگھ نے سدرشن ٹی وی کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے کے خلاف ایک تقریب میں مبینہ طور پر نفرت انگیز تقریر کرنے اور مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کے الزام میں دائر کردہ اے پی سی آر کی درخواست پر پولیس سے کارروائی کی رپورٹ طلب کی ہے۔

میٹروپولیٹن مجسٹریٹ جتیندر پرتاپ سنگھ کی جانب سے دہلی پولیس کو جاری کی گئی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ وہ 19 دسمبر 2021 کو سریش چوہانکے کی طرف سے کی گئی نفرت انگیز تقریر سے منسلک کارروائی کی رپورٹ پیش کرے۔ یاد رہے کہ دہلی کے گووند پوری علاقے میں اس پروگرام کا اہتمام ہندو یووا واہنی نے کیا تھا۔ ساکیت کورٹ نے اس معاملے کی اگلی سماعت کی تاریخ 15مارچ 2022 کو مقرر کی ہے۔

جہد کار ندیم خان مزید کہتے ہیں کہ پولیس کی اب تک کی صفر کارروائی یہ بتاتی ہے کہ حکومت کی جانب سے سریش چوہانکے کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ پولیس کا ایک مہینے کا ٹائم زون ان کی کارکردگی بتانے کے لیے کافی ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں شاید حکومت کی طرف سے کسی قسم کا ایکشن لینے سے روکا گیا ہے۔

عدالت سے تاریخ ملنے کے سوال پر ندیم خان نے کہا ’کورٹ کو دیکھنا چاہیے تھا کہ پہلے ہی ایک مہینے تک پولیس نے ہماری شکایت پر کوئی ایکشن نہیں لیا ہے، تو ایسے میں ’ایکشن ٹیکن رپورٹ‘ کے لیے مارچ تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔‘

’دعوت‘ کےسوال کہ اگر ساکیت کورٹ سے بھی انصاف نہیں ملا تو؟ اس کے جواب میں ندیم خان کہتے ہیں ’تو پھر ہم دہلی ہائی کورٹ کا رخ کریں گے اور ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ بھی جائیں گے۔ ایسے لوگوں پر قانونی کارروائی ہونا ضروری ہے تاکہ ملک میں نفرت کو مزید بڑھاوا نہ ملے۔‘

اس معاملے کے درخواست گزار ’ویلفیئر پارٹی آف انڈیا‘ کے قومی صدر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس ہیں۔ وہیں یہ عرضی اے پی سی آر نے تارا نرولا، تمنا پنکج اور پریا وتس وکلاء کے ذریعے دائر کی ہے۔

اے پی سی آر کے سکریٹری ندیم خان نے کہا کہ ’شکایت کنندہ جو ایک عوامی جذبہ رکھنے والے شہری ہیں، انہوں نے گزشتہ سال دسمبر میں دہلی میں سریش چوہانکے کی نفرت انگیز تقریر کے خلاف قانونی مشورہ اور قانونی مدد کے لیے ہم سے رابطہ کیا۔ ہمارے وکیلوں کی مدد سےشکایت تیار کی گئی اور 25دسمبر کو دہلی کے گووند پوری پولیس اسٹیشن میں سریش چوہانکے کے خلاف تعزیرات ہند 1860کی دفعہ 153A, 153B, 295A, 298, اور 504, 505(2) اور 506 کے تحت درج کی گئی تھی۔ ہماری شکایت پر ایک انکوائری افسر کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئی لیکن جرم کی سنگینی کے باوجود فوری کارروائی نہیں کی گئی۔ اس کے بعد 31دسمبر کو بھی دہلی کے سریتا وہار میں جنوب مشرقی ضلع کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کو آن لائن شکایت بھیجی گئی، جس میں عوامی امن و سکون کو برقرار رکھنے کے لیے نفرت انگیز تقریر پر کارروائی کا مطالبہ کیا گیا لیکن اس شکایت پر بھی کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔

درخواست گزار سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ’’سریش چوہانکے کے خلاف تمام دستیاب الیکٹرانک ثبوتوں اور پولیس کے تمام رینک کے افسروں سے رجوع کرنے کے باوجود، مقررہ وقت میں میری شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ دہلی پولیس کی سستی نے ہمیں انصاف کے حصول کے لیے معزز عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔‘‘

اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ چوہانکے کو لوگوں کے ایک گروپ کو ہندوستان کو ’’ہندو راشٹر‘‘ بنانے کے لیے’’مرنے اور مارنے‘‘ کا حلف دلاتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ واحد واقعہ نہیں ہے جہاں ملزم نے نفرت انگیز بیانات دیے اور اپنے حامیوں سے ’’ہندو قوم کے خواب‘‘ کے لیے لڑنے اور میڈیا ہینڈلز یا ’’بنداس بول‘‘ نام کے اپنے شو کے ذریعے مذہبی فسادات پھیلانے کی اپیل کی ہو بلکہ مسلسل عوامی تقریبات کے ذریعے فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل ڈالنے کے لیے اکسایا جاتا رہا ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’ان کے بیانات مختلف کمیونٹیز میں براہ راست تشدد کو ہوا دینے اور تناؤ کو ہوا دینے والے ہیں۔ ایسے میں سریش چوہانکے کو ان کے اشتعال انگیز بیانات کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے اور تشدد کے کسی بھی واقعے کو روکنے کے لیے کارروائی کرنا ضروری ہے۔‘‘

واضح رہے کہ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) ایک غیر منافع بخش اور غیر سرکاری تنظیم ہے جو سال 2006 میں معاشرے کے پسماندہ طبقات کے حقوق کی دفاع کے لیے قائم کی گئی تھی۔ اے پی سی آر کا نیٹ ورک ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے جو عدل و انصاف کے فروغ کے لیے انتھک جدوجہد میں مصروف ہے۔ ساتھ ہی یہ تنظیم نفرت کے خلاف بھی سرگرم ہے اور ملک میں نفرت کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے طویل عرصے سے لڑ رہی ہے۔

اس عرضی میں کیا کیا ثبوت دیے گئے ہیں؟

ساکیت ڈسٹرکٹ کورٹ میں داخل کردہ اس عرضی میں سریش چوہانکے کے ذریعے ملک میں نفرت پھیلانے کے مقصد سے حالیہ عرصے میں دیے گئے تمام بیانات کی ویڈیوز اور تحریری ثبوت بھی پیش کیے گئے ہیں اور بتایا گیا کہ کس طرح اس کی یہ حرکتیں ملک کے ماحول کو خراب کر رہی ہیں۔

19 دسمبر 2021 کے پروگرام کی وہ ویڈیو بھی عدالت میں اس عرضی کے ساتھ پیش کی گئی جسے چوہانکے نے اپنے ٹویٹر ہینڈل سے ’’میرے ساتھ ہندو راشٹر کی شپت لیتے ہوئے ہندو یوا واہنی کے شیر اور شیرنیاں‘‘ لکھ کر شیئر کیا تھا۔ اس ویڈیو میں اسے صاف طور پر یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’ہم سب شپت لیتے ہیں، وچن دیتے ہیں، سنکلپ لیتے ہیں، اپنے انتم پران کے شان تک اس دیش کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے، بنائے رکھنے کے لیے، آگے بڑھانے کے لیے لڑیں گے، مریں گے، ضرورت پڑی تو ماریں گے، کسی کے بھی بلیدان کے لیے، کسی بھی قیمت پرشان بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے، ہمارا یہ سنکلپ پکارنے کے لیے ہمارے گرودیو، ہماری کل دیوتا، ہماری گرام دیوتا، بھارت ماتا، ہم کو شکتی دے، جئے دیو، جئے دیو، وجئے دیو۔۔۔‘ اس نے دانستہ اور بدنیتی کے ساتھ مسلم کمیونٹی کے خلاف دشمنی، نفرت کو پروان چڑھانے کے لیے یہ بھی کہا کہ ’’ مسلمانوں نے چار چار بیویاں اور چوالیس بچے پیدا کر کے، ہندوستان پر غزوہ ہند کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے‘‘۔ ملزم نے مسلم کمیونٹی کے خلاف بد نیتی کو فروغ دینے کے ارادے کے ساتھ مزید کہا کہ ’’یہ ہندوستان ہندوؤں کا ہے اور ہمارے باپ دادا نے اس کے لیے بلیدان دیے ہیں اور اگر کسی اور کے باپ دادا نے تھوڑی بہت مدد کی بھی تو اس کے لیے ہم نے ان کو پاکستان دے دیا ہے‘‘۔

اس عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چوہانکے معاملے کی حساسیت سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ’’کاشی-متھرا ابھی باقی ہے‘‘ کے نعرے لگا کر تقریب میں موجود سامعین کی بڑی تعداد کو مسلمانوں کے مذہبی مقام ’مساجد‘ کو منہدم کرنے کے لیے اکسایا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ’شیواجی مہاراج سے حوصلہ پا کر ہی 5 اپریل 1770 کو ملال راؤ ہولکر کے یددھاؤں نے نظام کو ہرایا تھا، متھرا کو پنہ مکت تو کیا تھا، مسجد توڑ کر پنہ مندر بنایا تھا۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہم لوگ جاگ جاتے ہیں اور پنہ سوجاتے ہیں۔ جاگتے ہیں تو پنہ پرتیشودھ لیتے ہیں اور پھر سو جاتے ہیں اور پنہ دشمن حاوی ہو جاتا ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ لینا چاہیے کہ ہم کبھی سوئیں گے نہیں۔‘

اس عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس پروگرام کے فوراً بعد چوہانکے کو اپنے ٹویٹر ہینڈل سے ’’ایک ہی سپنا ہندو راشٹر‘‘ کے نام سے ایک ہندی ہیش ٹیگ کو مقبول بناتے ہوئے دیکھا گیا۔ ہیش ٹیگ ’’ایک ہی سپنا ہندو راشٹر‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے ملزم کے ذریعہ شیئر کی گئی ٹویٹس کی حقیقی کاپیاں بھی اس عرضی کے ساتھ عدالت میں ثبوت کے طور پر پیش کی گئیں اور بھی بتایا گیا کہ ملزم کے اس طرح کے ٹوئٹس اس ملک کے آئین کی بنیادی اقدار، سیکولرازم، مساوات اور بھائی چارے پر براہ راست حملہ آور ہیں اور مذہب کے نام پر دشمنی پیدا کرتے ہیں۔

اس عرضی میں اس بات کی بھی گزارش کی گئی کہ عدالت، موجودہ درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے، دیگر واقعات پر بھی غور کرے جہاں ملزم چوہانکے ہندو برادری کو اکسا رہا ہے اور نفرت اور تشدد کو فروغ دے رہا ہے۔ اس بات کے لیے بھی عرضی میں کئی ثبوت پیش کیے گئے۔

اس عرضی میں کہا گیا ہے کہ 11 اکتوبر 2021 کو دہلی کے روہنی میں منعقد ہونے والے’’ہندو راشٹر کا ہنکار، ہندو گورو سمان سماروہ‘‘کے عنوان سے ایک پروگرام میں ملزم چوہانکے نے سامعین کو سینک یعنی فوجی کہہ کر مخاطب کیا اور انہیں مسلح کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ’’بھائی آخر کار ہندو راشٹر کے ہدف کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ جنگ میں آپ اترتے ہیں، لڑائی لڑتے ہیں۔ تو کیول ڈھال ہوتی ہے؟ ڈھال کے ساتھ فوجی کے پاس کیا ہونا چاہیے؟ تلوار بھی تو ہونی چاہیے نا؟ ہم ہندو ساری لڑائی صرف ڈھال لے کر لڑ رہے ہیں۔ ہاتھ میں تلوار نہیں، بس ایک ہاتھ میں ڈھال ہے۔‘

اس عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملزم چوہانکے نے جنتر منتر پر مسلم مخالف نعرے بازی کیس کے ملزموں کے لیے ایک پروقار تقریب کا بھی اہتمام کیا، جہاں اس نے یہ اعتراف کیا کہ ملزمین دیپک سنگھ ہندو اور ونود شرما اس کے ساتھ اس کی کئی تقریبات کا حصہ رہے ہیں۔

اس عرضی میں بتایا گیا ہے کہ جولائی 2021 میں سدرشن ٹی وی پر ایک پروگرام میں ملزم چوہانکے نے مینا برادری کے خلاف ذات پات کے طعنے دیے اور ان کے خلاف ایک تفرقہ انگیز مہم چلائی اور راجستھان میں قبائلی شناخت کے دعوے کی علامت امبر گڑھ قلعہ میں یکم اگست 2021 کو بھگوا جھنڈا لہرانے کے لیے ایک بڑے اجتماع کا اعلان کیا جس کے بعد جے پور کے ٹرانسپورٹ نگر پولیس اسٹیشن میں ایک سازش کے تحت مذہبی جنون پھیلانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول میں خلل ڈالنے کے لیے افراتفری اور فساد پھیلانے کے الزام میں ملزم چوہانکے کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی۔

اس عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2020 میں معزز سپریم کورٹ نے سات سابق بیوروکریٹس کی طرف سے دائر کردہ درخواست کے جواب میں سدرشن چینل پر ملزم چوہانکے کے ذریعہ منعقد کیے گئے ’’UPSC جہاد‘‘ نامی شو کی نشریات پر روک لگا دی، جس میں نفرت انگیز تقریر پر مستند حکم کی درخواست کی گئی تھی۔ ملزم کی طرف سے میزبانی کی گئی اس شو کے سیریز نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں نے یو پی ایس سی خدمات کے لیے دراندازی کی ہے۔ اس شو نے خاص طور پر جامعہ کی رہائشی کوچنگ اکیڈمی کو نشانہ بنایا جب اکیڈمی کے 30 طلبا نے UPSC کا امتحان پاس کیا تھا۔ ملزم چوہانکے نے ان طلبہ کو ’’جامعہ کے جہادی‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ معزز عدالت نے چینل کو اس کے ’’پاگل‘‘ پروگرام اور مسلم کمیونٹی کی’’توہین‘‘ کے لیے سرزنش کی۔

اس عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملزم چوہانکے مسلسل اپنے ٹویٹر ہینڈل کے ذریعے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے، مسلم کمیونٹی اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ساتھ پسماندہ برادریوں کے خلاف نفرت اور دشمنی کو پروان چڑھانے کے لیے غلط معلومات شیئر کرتا ہے۔ عوامی امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے اور مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت کو فروغ دینے کے مقصد سے ملزم کے ذریعہ شیئر کی گئی کچھ اشتعال انگیز ٹویٹس کی اسکرین شاٹس بھی اس عرضی کے ساتھ عدالت میں پیش کی گئیں۔

پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے ایف آئی آر پر کارروائی رپورٹ طلب کی

ایک دوسری عرضی پر دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ کےایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا نے گزشتہ 7 فروری 2022 کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہونے والی سماعت کے دوران پولیس سے کہا ہے کہ وہ سدرشن ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف سریش چوہانکے کے خلاف مبینہ طور پر نفرت انگیز تقاریر کرنے کے لیے ایف آئی درج کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دائر کردہ درخواست پر کارروائی کی رپورٹ پیش کرے۔ عدالت نے دہلی پولیس کو 7 مارچ تک رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔یہ عرضی سماجی کارکن وکاس کانگڑا نے اپنے وکیل محمود پراچہ کے ذریعے دائر کی ہے۔ کانگڑا نے دہلی میں 19 دسمبر کو ہندوتوا تنظیم ہندو یووا واہنی کے ذریعہ منعقدہ ایک پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ چوہانکے نے اپنی تقریر کے ذریعے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے علاوہ ہندوستان کی تمام برادریوں کے خلاف دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کی۔

غور طلب ہے کہ اس سے قبل دہلی کے روہنی کورٹ کے ایک جج نے دہلی پولیس سے ظفیر حسین نامی ایک شخص کی طرف سے دائر کی گئی شکایت کا جواب دینے اور یہ بتانے کے لیے بھی کہا تھا کہ آیا کوئی قابل شناخت جرم ثابت ہوا ہے یا نہیں۔

درخواست گزار نے 15 مئی 2021 کو سدرشن ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک شو پر اعتراض کیا تھا، جس کا عنوان تھا ’’آؤ اسرائیل کا ساتھ دیں، ہماری کل کی لڑائی کا ساتھی ہے اسرائیل۔‘‘ حسین نے الزام لگایا تھا کہ ’’چوہانکے نے فلسطین-اسرائیل تنازعات کی آڑ میں، مسجد نبوی پر بمباری اور اسلام کے مقدس مقامات کو نشانہ بنانے والے میزائل پر مبنی ترمیم شدہ ویڈیو اور نشر کردہ تصویر دکھا کر مسلمانوں کو اکسانے اور بھڑکانے کی کوشش کی۔‘‘ روہنی کورٹ اس معاملے کی اگلی سماعت 2 اپریل 2022 کو کرے گی۔

***

***

 پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے ایف آئی آر پر کارروائی رپورٹ طلب کی
ایک دوسری عرضی پر دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ کےایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا نے گزشتہ 7 فروری 2022 کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہونے والی سماعت کے دوران پولیس سے کہا ہے کہ وہ سدرشن ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف سریش چوہانکے کے خلاف مبینہ طور پر نفرت انگیز تقاریر کرنے کے لیے ایف آئی درج کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دائر کردہ درخواست پر کارروائی کی رپورٹ پیش کرے۔ عدالت نے دہلی پولیس کو 7 مارچ تک رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔یہ عرضی سماجی کارکن وکاس کانگڑا نے اپنے وکیل محمود پراچہ کے ذریعے دائر کی ہے۔ کانگڑا نے دہلی میں 19 دسمبر کو ہندوتوا تنظیم ہندو یووا واہنی کے ذریعہ منعقدہ ایک پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ چوہانکے نے اپنی تقریر کے ذریعے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے علاوہ ہندوستان کی تمام برادریوں کے خلاف دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
غور طلب ہے کہ اس سے قبل دہلی کے روہنی کورٹ کے ایک جج نے دہلی پولیس سے ظفیر حسین نامی ایک شخص کی طرف سے دائر کی گئی شکایت کا جواب دینے اور یہ بتانے کے لیے بھی کہا تھا کہ آیا کوئی قابل شناخت جرم ثابت ہوا ہے یا نہیں۔
درخواست گزار نے 15 مئی 2021 کو سدرشن ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک شو پر اعتراض کیا تھا، جس کا عنوان تھا ’’آؤ اسرائیل کا ساتھ دیں، ہماری کل کی لڑائی کا ساتھی ہے اسرائیل۔‘‘ حسین نے الزام لگایا تھا کہ ’’چوہانکے نے فلسطین-اسرائیل تنازعات کی آڑ میں، مسجد نبوی پر بمباری اور اسلام کے مقدس مقامات کو نشانہ بنانے والے میزائل پر مبنی ترمیم شدہ ویڈیو اور نشر کردہ تصویر دکھا کر مسلمانوں کو اکسانے اور بھڑکانے کی کوشش کی۔‘‘ روہنی کورٹ اس معاملے کی اگلی سماعت 2 اپریل 2022 کو کرے گی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  20 فروری تا 26فروری 2022