پیگاسس تنازعہ: ششی تھرور نے بی جے پی کو پارلیمانی پینل کی میٹنگ میں رکاوٹ ڈالنے کا ذمہ دار ٹھہرایا، اسپیکر سے کارروائی کا مطالبہ کیا

نئی دہلی، اگست 9: کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے اتوار کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان پر واضح الزام عائد کیا کہ وہ گزشتہ ماہ پارلیمانی پینل کی اس میٹنگ میں رکاوٹ ڈال رہے تھے، جس میں پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال سے شہریوں کی مبینہ نگرانی پر تبادلہ خیال کیا جانا تھا۔

تھرور نے کہا کہ تین وزارتوں کے نمائندوں نے بھی آخری وقت میں اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ کانگریس لیڈر نے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو خط لکھا ہے کہ وہ اس معاملے کا ’’سنجیدہ نوٹس‘‘ لیں۔ اپنے خط میں انھوں نے کہا کہ عہدیداروں کا طرز عمل ’’غیرمتوقع‘‘ تھا اور ’’پارلیمانی استحقاق کی خلاف ورزی‘‘ اور ’’ایوان کی توہین‘‘ کے مترادف تھا۔

تھرور نے اخبار کو بتایا کہ ’’یہ کوئی راز نہیں ہے کہ کمیٹی کے قائم کردہ ایجنڈے پر بی جے پی کے اراکین نے اجلاس میں خلل ڈالا، جو یہ نہیں چاہتے تھے کہ پیگاسس پر بات چیت کی جائے۔‘‘ معلوم ہو کہ تھرور قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے چیئرمین ہیں۔

28 جولائی کو ہونے والا اجلاس کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے منعقد نہیں ہوسکا۔ لوک سبھا کے 21 اور راجیہ سبھا کے 10 ارکان پر مشتمل اس پینل کو معاملات پر بحث کے لیے 10 ارکان کی حاضری درکار ہوتی ہے۔

تھرور نے کہا ’’بی جے پی کے 10 ممبروں کا شرکت کرنا اور بحث کو روکنے کے لیے رجسٹر پر دستخط کرنے سے انکار کرنا حیرت انگیز تھا۔ تین عہدیدار جن کو اس دن گواہی دینی تھی، بظاہر آخری منٹ پر بہانے بنا کر حاضر نہیں ہوئے، جو گواہوں کو طلب کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹیوں کے اختیارات پر ایک سنگین حملہ ہے۔‘‘

پیگاسس کی نگرانی کی وجہ سے اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کے دوران بحث کا مطالبہ کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ بھارت میں کئی سیاستدانوں، صحافیوں اور کارکنوں کی جاسوسی کے لیے پیگاسس سپائی ویئر کا استعمال کیا گیا۔ تاہم حکومت نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

اخبار سے بات کرتے ہوئے تھرور نے اپوزیشن کے الزامات کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں تحقیقات کا مطالبہ دہرایا۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ یہ موضوع پارلیمانی کمیٹی میں بحث کے لیے آئے گا۔

انھوں نے کہا آئی ٹی پینل اب بھی اس پر بحث کر سکتا ہے کیونکہ موضوعات ایجنڈے پر موجود ہیں اور ہمیں اس پر ایک رپورٹ لکھنی ہے لیکن میرے ذہن میں کوئی شک نہیں کہ اگر آپ واقعی کچھ جواب چاہتے ہیں تو عدلیہ مزید تلاش کر کے جوابات حاصل کر سکتی ہے۔