پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں الیکشن کمیشن میں تقرریوں کے بل پر بحث ہو گی

نئی دہلی، ستمبر 14: مرکزی حکومت نے بدھ کے روز انتخابی کمشنروں کی تقرریوں سے متعلق ایک بل کو قانون سازی کے اس کام کے ایک حصے کے طور پر درج کیا ہے، جو 18 ستمبر سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے دوران اٹھایا جائے گا۔

مرکزی پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے 31 اگست کو اعلان کیا تھا کہ خصوصی اجلاس 18 ستمبر سے 22 ستمبر تک منعقد کیا جائے گا۔ تاہم حکومت نے اجلاس کے ایجنڈے کا اعلان نہیں کیا تھا، جسے اپوزیشن نے افسوس ناک اور یک طرفہ قرار دیا تھا۔

تاہم بدھ کے روز لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی طرف سے جاری کردہ بلیٹن میں چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز (تقرری، سروس کی شرائط اور دفتر کی مدت) بل راجیہ سبھا میں بحث کے لیے درج ہیں۔

بل کا مقصد انتخابی کمشنروں کی تقرری کے لیے ایک سلیکشن کمیٹی تشکیل دینا ہے، جس میں وزیر اعظم (بطور چیئرپرسن)، لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعظم کے ذریعہ نامزد کردہ مرکزی کابینہ کے وزیر شامل ہوں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کے نئے بل کا مقصد الیکشن کمیشن کی تقرریوں پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔

پارلیمنٹ میں زیر بحث دیگر بلوں میں ایڈووکیٹ (ترمیمی) بل، پریس اینڈ رجسٹریشن آف پیریڈیکل بل اور پوسٹ آفس بل بھی شامل ہیں۔ تاہم بلیٹن نے کہا کہ قانون سازی کے کام کی اس فہرست کو ’’مکمل طور پر نہیں لیا جانا چاہیے۔‘‘

پارلیمانی اجلاس کے پہلے دن ’’سمودھن سبھا سے شروع ہونے والے 75 سال کے پارلیمانی سفر‘‘ پر بھی ایک مباحثہ طے کیا گیا ہے۔

کانگریس ایم پی جے رام رمیش نے دعویٰ کیا کہ مرکز نے کانگریس پارلیمانی پارٹی کی چیئرپرسن سونیا گاندھی کے وزیر اعظم نریندر مودی کو لکھے گئے خط کے بعد ہی اجلاس کا ایجنڈا جاری کیا ہے۔

گاندھی نے 6 ستمبر کو لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ خصوصی اجلاس اپوزیشن پارٹیوں میں سے کسی سے مشورہ کیے بغیر بلایا گیا ہے۔ تاہم بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت مرکزی حکومت نے اس الزام کی تردید کی اور دعویٰ کیا کہ سیشن کو طریقۂ کار کے مطابق ہی منعقد کیا جا رہا ہے۔

کانگریس جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے کہا کہ اپوزیشن کا ’’انڈیا‘‘ اتحاد ’’CEC [چیف الیکشن کمشنر] بل کی مضبوطی سے مخالفت کرے گا۔‘‘

ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ڈیرک اوبرائن نے سوال کیا کہ حکومت نے کیوں کہا کہ قانون سازی کے کاروبار کی فہرست کو حتمی نہیں سمجھنا چاہیے۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا یہ ’’گندی چالوں‘‘ کی ہی ایک مثال ہے؟