ملک اس وقت نازک ترین دور سے گزر رہا ہے،آبادی کا بڑا حصہ بنیادی ضرویات سے محروم
‘‘آزادی کے 75سال، ہماری امیدیں اور توقعات’’ پر حلقہ خواتین کی ورچوئل کانفرنس
رامپور (دعوت نیوز نیٹ ورک)
سرکردہ سماجی و سیاسی خدمات انجام دینے والی دانشور خواتین کا اظہار خیال
ہمارے لیے یہ بات قابل مسرت ہے کہ ہم آزادی کے 75 سال پورے کرنے جارہے ہیں لیکن ہمیں ان 75 برسوں پر از سرنو غور و خوض کرنا ہوگا کہ ہم نے ان برسوں میں کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔ ہندوستان کی زیادہ تر آبادی آج بھی روٹی کپڑا مکان اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ جماعت اسلامی ہند حلقہ خواتین کی جانب سے 13 اگست کی شام ’’ہندوستان کے 75 سال ہماری امیدیں اور توقعات‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معروف سماجی کارکن ودیا دنکر نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی حقیقی آزادی اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے اکابرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جمہوریت کی بقا و تحفظ کے لیے مشترکہ کوششیں کریں گے۔ آج لوگوں کو ان کے مذہب کے نام پر تقسیم کیا جا رہا ہے جو کہ افسوسناک ہے۔ ودیا دنکر نے کہا کہ آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ حکومت عوام کو کچل کر صنعت کاروں کو فائدہ پہنچانے کی راہ پر گامزن ہو۔ کانفرنس میں مختلف خواتین نے گفتگو میں حصہ لیا۔ عطیہ صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج جبکہ ہمارا ملک آزادی کا 75 سالہ جشن منا رہا ہے ایسے میں ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہمارے بزرگوں نے جس مقصد کے تحت اپنے جان و مال کی قربانی دے کر ملک کو آزاد کرایا تھا اس مقصد کو ہم نے برقرار رکھا ہے بھی یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورت حال دگرگوں ہے، فرقہ وارانہ یگانگت کو تار تار کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی ہندوستان کی زیادہ تر خواتین ناخواندہ ہیں، ان کی تعلیم کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ ملک کی ترقی کے لیے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنا بے حد ضروری ہے۔
شیما محسنہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان روز افزوں ترقی کے میدان میں نت نئے کارہائے نمایاں انجام دے رہا ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہندوستان نے جس قدر ترقی کی ہے وہ ہمارے لیے باعث افتخار ہے لیکن ہندوستان کو جن حالات کا سامنا ہے اس پر بلا تفریق مذہب و ملت تمام ہندوستانی عوام کو غور و فکر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہمارے بزرگوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے بلا تفریق مذہب و ملت جدوجہد کی اور ملک کو آزاد کرایا اسی طرح آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت کی بقا وتحفظ کے لیے بلا تفریق مذہب وملت ملک کے سرکردہ افراد آگے آئیں اور ملک میں انارکی پھیلانے والے کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کا حصول دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے اس عظیم موقع پر انصاف کی حصولیابی کو آسان بنائیں۔ معروف نوجوان بزنس وومن ایڈنا ڈی سوزا نے کہا کہ ہندوستان کو آزادی دلانے والے ہمارے اکابرین کے خواب شرمندہ تعبیر اسی وقت ہوں گے جب ہم ان کے مقصد اور ان کی نیتوں کو سامنے رکھ کر ہندوستان کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی ترقی نوجوانوں کو نظر انداز کرکے کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے۔
شعبہ قانون سے وابستہ سمیہ روشن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی آزادی کے 75سال پورے ہونے پر ہم اس بات کا عہد کریں کہ ہم ہندوستان میں صدیوں سے جاری فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہندوستان کو جیوتی باپھولے اور فاطمہ شیخ جیسی خواتین کی ضرورت ہے۔ راجیہ سبھا ممبر اور سابق وزیر ڈاکٹر فوزیہ خان نے کہا کہ ہندوستان کی خوبصورتی یہی ہے کہ یہاں پر بسنے والے تمام مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزاریں۔ لیکن اس بنیادی تقاضے کو فراموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو ہندوستان جیسے جمہوری ملک کے لیے کسی خطرہ سے کم نہیں ہے۔ انڈین مسلم لیگ سے وابستہ فاطمہ مظفر نے کہا کہ آزادی کی حقیقی تکمیل اسی وقت ممکن ہے جب ہم آزادی کو اس کے معنی میں حقیقی طور پر رائج کریں۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے صحیح مطالب سے اپنے نونہالوں کو واقف کرانا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔
عورہ ای میگزین کی ایڈیٹر رحمت النساء نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ 75 سال گزرنے کے بعد بھی غیر ملکی باشندوں جیسا سلوک ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی بحالی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے ہمارے رہنماؤں کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک کے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف سماجی جہد کار شائستہ رفعت نے کہا کہ فی الوقت ہندوستان میں اپوزیشن کے رول کو خارج کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی جمہوری ملک میں اپوزیشن کا رول اہم ہوتا ہے لیکن آج ملک میں برسر اقتدار پارٹی نہ صرف اپوزیشن کو نیست و نابود کرنے پر تلی ہوئی ہے بلکہ عوام کے مقدر کے فیصلے اپوزیشن کو شامل کیے بغیر کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے کچھ ایسے فیصلے لیے گئے ہیں جس میں عوام کے صلاح و مشورہ کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کے ساتھ اس طرح کا رویہ نہایت ہی افسوسناک ہے۔ رامپور سے احتشام الحق کی رپورٹ کے مطابق کانفرنس کا آغاز ثروت فاطمہ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ جبکہ خان مبشرہ فردوس نے کانفرنس کے موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ بعد ازاں راحیلہ نے استقبالیہ کلمات کے ساتھ شرکاء اور مہمانان کو پروگرام میں خوش آمدید کہا۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 21 اگست تا 27 اگست 2022