شاہ جی :جان نہ سہی استعفیٰ ہی دے دیں

کیا کشمیرفائلز۔2کی اسکرپٹ لکھی جارہی ہے؟۔ٹارگیٹ کلنگ کے خاتمہ کے لیے پس پردہ وجوہات پرسنجیدہ توجہ کی ضرورت

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

وادی کشمیر کے اندر فی الحال ٹارگیٹ کلنگ یعنی چن کر ہلاک کرنے کی واراداتوں سے دہشت پھیل گئی ہے۔ ابھی حال میں کولگام کے اندر ایک بینک میں راجستھانی منیجروجئے بینی وال کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس سے دو دن پہلے اسی ضلع میں 36 سالہ ٹیچر رجنی بالا کا اسکول میں قتل ہوگیا ۔ یہ لوگ وادی میں وزیر اعظم کے خصوصی بحالی پیکیج کے تحت دوسری ریاستوں سے لاکر بسائے گئے تھے ۔ اس طرح کی قتل و غارتگری کا کوئی جواز تو نہیں ہے لیکن اس کے تدارک کے لیے وجوہات پر غورو خوض لازمی ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں مقامی باشندوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کی حد تک ریزرویشن ہوتا ہے ۔ ایک ملک ایک دستور کا نعرہ لگانے والی بی جے پی کی ریاستی سرکاریں بھی مقامی لوگوں کی خوشنودی کے لیے یہ کرتی ہیں ۔ اس کے برعکس وادی کشمیر میں مقامی لوگوں کو ہٹاکر اہم سرکاری عہدوں پر باہر والوں کو فائز کیا جارہا ہے ۔ ایسے میں یہ ردعمل کہیں بھی ہوسکتا ہے مثلاً ہریانہ کے اندر اگر اترپردیش کے لوگوں کو لاکر اہم عہدوں پر فائز کردیا جائے تو اس کے خلاف اول تو احتجاج ہوگا اور اگر مظاہروں پر قدغن لگا دی جائے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی خاطرسرکار کو تشدد کے پس پشت کارفرما وجوہات کی جانب توجہ دینی چاہیے ۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی نے 177 کشمیری پنڈتوں کو وادی کے اندر منتقل کرکے فہرست عام کر د ی ۔ یہ گندی سیاست عسکریت پسندوں کو دعوت دینے کے مترادف تھی ۔حالیہ تشدد کا آغاز 12؍ مئی کو راہل بھٹ نامی ایک کشمیری پنڈت کے قتل سے ہوا جو بڈگام ضلع میں محکمہ محصولات میں ملازم تھا ۔ اس واقعہ کی کشمیر کے سارے رہنماوں نے مذمت کی ۔ سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے الزام لگایا کہ مرکزی حکومت وادی میں بالخصوص اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کانگریس کے سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز نےراہل بھٹ کو پر امن کشمیری کے طور پر خراج عقیدت پیش کیا اور کانگریسی رہنما اشونی ہانڈا نے بھی وادی میں کشمیری پنڈتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ۔راہل بھٹ کی موت کے بعد کشمیری پنڈت سماج کے لوگوں نے بی جے پی کے خلاف مختلف مقامات پر مظاہرے کیے اور لیفٹیننٹ گورنر کی رہائش گاہ کے باہر دھرنا بھی دیا ۔ ان مظاہرین نے ویسو گاؤں کے قریب سری نگر جموں ہائی وے کو بلاک کر دیا ۔ اس کے بعدانتظامیہ نے ان کے کیمپ مقفل کردیا اور ان پر لاٹھی چارج بھی ہوا۔ لیفٹننٹ گورنر نے بہت تاخیر سے ملاقات کی ۔
اس سے قبل گپکار الائنس کے رہنما فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی، ایم وائی تاریگامی، حسنین مسعودی اور مظفر شاہ نے ایل جی سے ملاقات کر کے کشمیری پنڈتوں سے وادی نہ چھوڑنے کی اپیل کی تھی۔ فاروق عبداللہ نے کشمیری پنڈتوں سے ملاقات کرکے اس حملےکو ’’کشمیر کی روح‘‘ پر براہ راست حملہ قرار دیا تھا ۔ تین سال قبل حکومت نے بڑے طمطراق سے کشمیری پنڈتوں کو واپس لاکر بسانے کا اعلان کیا تھا مگر ان واقعات کے بعد کشمیر سے پھر ایک بار نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ ایسے میں اروند کیجریوال کا یہ الزام درست معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کشمیر میں بی جے پی کی حکومت آتی ہے، کشمیری پنڈت ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بی جے پی 30 سالوں میں دو بار کشمیر میں برسراقتدار رہی اوردونوں مرتبہ کشمیری پنڈتوں کو ہجرت کرنی پڑی۔ کیجریوال کے مطابق یا تو ان کی یعنی بی جے پی کی نیت میں خامی ہے یا پھرانہیں کام کرنا نہیں آتا۔ ملک بھر میں بھی یہ دیکھا جا رہاہے ۔
بینک منیجر اور ٹیچر کے بعد چاڈورہ میں ٹی وی پر کام کرنے والی فنکارہ عنبرین بٹ کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور پھر اینٹ کےبھٹوں پر کام کرنے والے دو غیر مقامی مزدورں کو گولی مار دی گئی ۔ ان میں سے ایک مزدور نے دوران علاج دم توڑ دیا۔ اس کے بعد سے پی ایم پیکیج کے تحت کام کرنے والے کشمیری پنڈتوں نے وادی سے نکلنے کی کوشش کردی لیکن پولیس نے ان کی کالونی کو سیل کرکے باہر جانے کی اجازت نہیں دی ۔ جموں و کشمیر انتظامیہ کشمیری پنڈتوں کو محفوظ مقامات یعنی ضلع ہیڈکوارٹر پر تعینات کرناچاہتا ہے مگر پنڈت وادی کشمیر کو چھوڑنے کی ضد پرا ڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح گویا حکومت اور پنڈت سماج کےدرمیان ٹھن گئی ہے کیونکہ اپنا وقار بچانے کی خاطر سرکار ان پر زبردستی کررہی ہے۔ کیجریوال نے پی ایم ریلیف پلان کے تحت 4500 کشمیری پنڈتوں کو کشمیر میں دوبارہ آباد کیے جانے کی بابت یہ انکشاف کیا کہ ان سے نوکری دیتے وقت ایک بانڈ پر دستخط کرائے گئے کہ انہیں کشمیر میں ہی نوکری کرنی ہوگی۔ وہ ٹرانسفر کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتے۔ منتقلی کے مطالبہ کی صورت میں ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
کیجریوال کے مطابق کشمیری پنڈت اس بندھن سے آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری پنڈت بندھوا مزدور بلکہ کہیں بھی کام کرنے کے لیے آزاد ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ کشمیری پنڈتوں کے نام پر سیاست کرنے والی بی جے پی ان کا بے دریغ ا ستحصال کررہی ہے۔
کشمیرمیں مسلمانوں کو احتجاج سے روکنے والی سرکار کے خلاف اب پنڈت خود مظاہرہ کررہے ہیں ۔راہل بھٹ کی ہلاکت کے خلاف وادی کشمیر سمیت جموں اور دہلی میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے۔ سرینگر سمیت بانڈی پورہ اور ضلع اننت ناگ میں درجنوں کشمیری پنڈتوں نے مقتول راہل بھٹ کو خراج عقیدت اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے سر کے بال منڈوا لیے تاکہ ان کے اہل خانہ کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ دکھ کی اس گھڑی میں تنہا ہیں، بلکہ پوری کشمیری پنڈت برادری ان کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی ہے۔احتجاج میں شامل کشمیری پنڈتوں نے سیاسی جماعتوں سمیت انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ’’کشمیری پنڈتوں کو بلی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’پی ایم پیکج کے تحت ہمارے ساتھ کئی وعدے کیے گئے تھے، لیکن آج تک وہ وعدے وفا نہیں کیے گئے۔ ہمیں معقول سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔‘‘ احتجاج میں شامل کشمیری پنڈتوں نے انتظامیہ سے کشمیر میں مقیم پنڈتوں کو منتقل کیے جانے کا مطالبہ دوہرایا۔
حکومت کے خلاف دھرنا اور احتجاج سے بات نہیں بنی تو کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی نے ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر اور لداخ کے دروازے پر دستک دے دی۔ کے پی ایس ایس نے عدالت سے فریاد کی کہ تمام مذہبی اقلیتوں کو وادی سے باہر محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی حکومت کو ہدایت دی جائے ۔ کے پی ایس ایس نے چیف جسٹس کو شکایت کی کہ انتظامیہ کی جانب سے کشمیری پنڈتوں کو وادی چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔حکومت نے سڑکیں بند کر دیں، ٹرانزٹ کیمپوں کی دیواروں کو رکاوٹیں لگانے کے لیے برقی کرنٹ کا استعمال کیا، کیمپوں کے مرکزی دروازے باہر سے تالے لگا کر بند کر دیے گئے۔ یہی سلوک اگر فاروق عبداللہ یا کانگریس کرتی تو بی جے پی والے آسمان سر پر اٹھالیتے لیکن اب تو انہیں کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا، وزیر داخلہ امیت شاہ کے تحت یہ سب کررہے ہیں ۔ کشمیر فائلز بنا کر جن پنڈتوں کو خوش کیا گیا تھا وہ اب ناراض ہوگئے ہیں۔
کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ کہہ کر بدنام نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ کشمیر کے 272 گاؤں میں رہنے والے 808 خاندانوں کی ایک تنظیم ہے۔ اس کی دلیری کا ثبوت یہ ہے کہ 90 کی دہائی میں عسکریت پسندی کےزمانے میں بھی ان لوگوں نے وادی کشمیر کو نہیں چھوڑاتھا۔ اب اگر اس کے سربراہ سنجے ٹکو نے الزام لگایا ہے کہ مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی انتظامیہ اور مرکزی حکومت وادی کشمیر میں مقیم مذہبی اقلیتوں کی زندگی کو محفوظ بنانے میں ناکام رہی ہے تو اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔دفعہ 370کے خاتمہ سے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا والے دعویٰ کو اس مطالبے سے بے معنیٰ کر دیا ہے۔عدالت کے اندر درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ آئین ہند کے دفعہ 21 کے تحت دیئے گئے زندگی کے حق کی صریح خلاف ورزی ہے کیونکہ ایک طرف تو انتظامیہ مذہبی اقلیتوں کی زندگیوں کے تحفظ میں ناکام ہے اور دوسری جانب انہیں وہاں سے جانے نہیں دیتی تاکہ وہ اپنی جانوں کی حفاظت کر سکیں۔‘‘ ملک بھر میں کشمیری پنڈتوں سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو سنجے ٹکو کے اس مطالبے کی حمایت کرنی چاہیے۔ پڑوسی ممالک کے ہندو مظلومین کو سی اے اے کے تحت تحفظ دینے والی بی جے پی سرکار نے خود اپنے کشمیری پنڈتوں کو غیر محفوظ کردینے کا کارنامہ انجام دے دیا ہے۔
کشمیر فائلز فلم کے ذریعہ ایک جھوٹ پھیلا کر مرکزی حکومت نے ملک بھر میں سیاسی فائدہ حاصل کیا اور اگنی ہوتری نے فلم کی لاگت سے دس گنا زیادہ منافع بھی کمایا لیکن ان دونوں نے کشمیری پنڈتوں کی حالت تیس سال پہلے سے بھی بدتر کردی ۔ کشمیر فائلز کے ذریعہ پھیلائے جانے والے جھوٹ کا قلع قمع کرنے کے لیے ہریانہ کے آر ٹی آئی کارکن پی پی کپورکو جموں و کشمیر پولیس اور صوبے کے لیفٹیننٹ گورنر سے کشمیری پنڈتوں کے خلاف تشدد، ان کی نقل مکانی اور باز آبادی کے متعلق معلومات حاصل کرنی پڑی ۔کپور کے حاصل کردہ اعدادو شمار کے مطابق 1989 میں جموں و کشمیر کے اندر 100 سے زیادہ کشمیری پنڈتوں کے قتل کی کوئی تفصیلات موجود نہیں ہے۔ 1990 سے جولائی 2021 کے عرصے کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق 30 سالوں میں کل 1.54 لاکھ بے گھر ہوئے ہیں جن میں سے 135426 (88 فیصد) ہندو تھےباقی مسلمان اور سکھ تھے۔ قابلِ غور یہ ہے کہ پنڈتوں سے ہمدردی کا دم بھرنے والی حکومت صرف 70218 افراد کی مدد کررہی ہے۔ ان میں 53978 ہندو، 1112 مسلمان، 5013 سکھ اور 15 دیگر ہیں۔ کشمیر فائلز میں بتائی گئی اموات کا سچ یہ ہے کہ 1990 سے 2021 کے دوران عسکریت پسندوں کے ہاتھوں کل 1724 افراد ہلاک ہوئے اور ان میں سے صرف 89 کشمیری پنڈت تھے جبکہ باقی 1635 دیگرمذاہب کے لوگوں میں زیادہ ترمسلمان تھے۔ اس طرح جھوٹ پھیلا کر سیاست چمکانے کا الٹا اثر ہوگیا۔
کشمیر ایک سنگین مسئلہ اسے سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر حل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ بی بی سی نے وزارت داخلہ کی رپورٹ کے حوالے سے لکھا کہ سن 1990 سے سن 2020 تک کشمیر میں 14 ہزار سے زائد عام شہری اور 5294 سکیورٹی اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ خیال ظاہر کیا کہ مرنے والوں کی تعداد حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ کشمیری عوام کی ناراضی کا حکومت کو بھی اندازہ ہے اس لیے آئین کی دفع 370 ختم کردینے کے بعد نہ صرف سارے اہم سیاسی رہنماوں کو نظر بند کیا گیا بلکہ انٹر نیٹ کی خدمات بھی بند کر دی گئیں ۔ یہ سلسلہ خاصا طویل تھا ۔دوبارہ فور جی کی تیز سروس بحال کرنے میں 18 مہینوں کا عرصہ لگا ۔دنیا بھر میں ڈیجیٹل حقوق کے کارکنان نے اس پابندی کی مخالفت کی ۔ یورپ اور امریکہ کے قانون سازوں نے بھی اس پر تنقید کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے لیے زور دیا۔اخبار ’کشمیر ٹائمز ‘ کی ایڈیٹر انورادھا بھاسن نے پابندی کے خاتمہ پر کہا تھاکہ حکومت ہمیں خیرات نہیں دے رہی ۔ ہمیں محرومی اور نقصان کا معاوضہ طلب کرنا چاہیے۔ اس طرح مسائل حل نہیں ہوتے الجھ جاتے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی تو بول بچن کے بادشاہ ہیں اس لیے ان کے بے شمار جملے ذرائع ابلاغ میں گونجتے رہتے ہیں لیکن وزیر داخلہ امیت شاہ اگر اپنے کسی ڈائیلاگ کی وجہ سے یاد کیے جائیں گے تو وہ ہو گا ’’کشمیر کا سوال آتا ہے تو غصہ آتا ہے۔کشمیر کے لیے اپنی جان دے دیں گے‘‘ کشمیر سے متعلق آئین کی دفعہ 370کے خاتمہ پر انہوں نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا ۔ اس کے ایک ہزار سے زیادہ دن بعد انہیں کی بی جے پی کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر سبرامنیم سوامی نے جموں و کشمیر میں مسلسل ہندوؤں کے قتل کو لے کر مودی حکومت پر حملہ بولتے ہوئے مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔ انہوں نے اپنےٹویٹ میں کہا، ’’جموں و کشمیر میں صدر راج ہے اور وہاں ہر روز ایک کشمیری ہندو کو قتل کیا جا رہا ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ امیت شاہ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیاجائے‘‘۔ جان دینے کے مقابلے استعفیٰ دینا ایک بہت معمولی بات ہے اور اس میں ملک و قوم تو دور پارٹی کا بھی کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہے لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ پندرہ لاکھ کی مانند وہ بھی ’ایک جملہ ‘(فریب) تھا ۔
ملک و قوم کے فائدے کی بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے ۔ وزیر داخلہ رکن پارلیمان ہیں اور آگے بھی رہیں گے اس لیے انہیں گھر خالی کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ ان کی تنخواہ اور دیگر سہولیات بدستور جاری رہیں گی اس لیے ان کا کوئی نقصان نہیں ہے ۔ ویسے جب سے جئے شاہ بی سی سی آئی جیسی سونے کے انڈے دینے والی مرغی کے سربراہ بنے ہیں سرکاری تنخواہ کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے ۔ وزیر داخلہ رہتے بھی شاہ جی کا سارا دھیان پارٹی کو الیکشن میں کامیاب کرنے پر ہوتا ہے۔ وہ اس کام کو استعفیٰ دینے کے بعد بھی زیادہ یکسوئی سے کرسکیں گے۔ ان کے بجائے اگر وزیر اعظم نے کسی باصلاحیت فرد کو وزیر داخلہ بنادیا تو ممکن ہے ملک کے داخلی مسائل پر بھی خاطر خواہ توجہ ہوسکے اور ان کا کوئی حل نکلے۔ بی جے پی کے اندر جو قحط الرجال پایا جاتا ہے اس کے پیش نظر اس کا امکان کم ہے لیکن کوشش کرکے دیکھنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے ۔
وزیر اعظم اگر امیت شاہ کے بجائے کسی اور کو وزیر داخلہ بنانے کی بابت کشمیری پنڈتوں سے مشورہ کریں تو وہ کپل مشرا کا نام پیش کردیں گے ۔ مشرا جی کو دنگا فساد کا بڑا تجربہ ہے ۔ دہلی میں ان کی خدمات کا اعتراف کرکے مدھیہ پردیش کے کھرگون میں انہیں دعوت دی گئی۔ وہاں پر جاکر انہوں نے ایک زبردست تقریر کرکے اسے وائرل کروا دیا ۔ اس خطاب میں ’کشمیر فائلس ‘ کا حوالہ دے کر نعرے لگائے گئے تھے ’جس گھر سے برہان نکلے گا ، اس گھر میں گھس کر ماریں گے‘۔ اس نعرے کا جواب بھی وہاں موجود بھکتوں نے بڑے جوش و خروش سے دیا تھا کہ ’جس گھر سے موسیٰ نکلے گا، اس گھر میں گھس کر ماریں گے‘۔ کشمیری پنڈت فی الحال بڑی امیدوں سے کپل مشرا کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ وادی میں پہنچ کر انہیں بچائیں لیکن کپل مشرا دوسروں کے گھر میں گھسنے کے بجائے اپنے گھر میں دبک کر بیٹھا ہوا ہے۔ اسے وزیر داخلہ بنادیا جائے تو ممکن ہے وہ ہمت جٹا کر اپنے گھر سے نکلے۔ ویسے اسی قبیلے کے اجئے مشرا وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ ہیں ۔ ان کا بیٹا نہتے کسانوں پر تو گاڑی چڑھا دیتا ہے مگر وہ کشمیر کی بابت زبان نہیں کھولتے۔
سبرامنیم سوامی نے اپنے ٹویٹ میں وزیر اعظم کو یہ مشورہ دیا ہے کہ ’ انہیں (امیت شاہ کو) ہوم کے بجائے وزارت کھیل کی ذمہ داری دی جا سکتی ہے کیونکہ وہ ان دنوں کرکٹ میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں‘۔ یہ دراصل سوامی جی کی ایک شاطرانہ چال ہے اس لیے کہ ایک دن قبل انہوں نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا تھا،’ خفیہ ایجنسی کو عام طور پر یہ محسوس ہوتا ہے۔ حالیہ انڈین پریمئیرلیگ2022 کے مقابلے طے شدہ تھے۔ ان شکوک و شبہات کی فضا کو صاف کرنے کی خاطر تفتیش کی ضرورت ہے تاہم سرکار یہ نہیں کرے گی کیونکہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کا بیٹا جئے شاہ بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) کا نام نہاد ڈکٹیٹر ہے‘‘ ۔ سوامی جی ایک طرف تو جئے شاہ کی آڑ میں امیت شاہ پر کرکٹ میں بدعنوانی کا الزام لگاتے ہیں اور دوسری جانب انہیں وزیر کھیل بنانے کا مشورہ دیتے ہیں تو کیا وہ چاہتے ملک کی سیاست کے مانند کھیل کی دنیا بھی بدعنوانی کے کیچڑ سے لت پت ہوجائیں ۔ ویسے ہر بدعنوان یہی چاہتا ہے تاکہ اچھے اور برے کا فرق مٹ جائے اور کرپشن کے حمام میں سبھی یکساں طور برہنہ ہوں اور کوئی فرق باقی نہ بچے۔
کشمیر کے حوالے سےآئینی ترمیم کو تین سال مکمل ہونے والے ہیں اس لیے عالمی دباؤ کے تحت حکومت کشمیر میں انتخابات کروانا چاہتی ہےلیکن اس سے قبل اس نے اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر حد بندی کمیشن تشکیل دے کر جموں میں چھ سیٹیں اور وادی کشمیر میں صرف ایک سیٹ بڑھانے کی تجویز رکھوا دی۔ کشمیر کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے ریاستی اسمبلی کی نشستوں کی از سر نو حد بندی کرنے والے کمیشن کی ڈرافٹ رپورٹ کو ناقابل قبول قرار دے کر شدید نکتہ چینی کی اورکمیشن پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے مفاد میں کام کرنے کا الزام عائد کیا ۔اس تجویز کے مطابق جموں علاقے میں اسمبلی کی سیٹیں 37 سے بڑھ کر 43 ہو جائیں گی جبکہ وادی کشمیر میں 46 سے بڑھ کر 47 ہو جائیں گی۔ نئی تجویز کے مطابق جموں و کشمیر کی اسمبلی کے جملہ 90 میں سے ایک درجن سے زیادہ نشستیں مختلف اقلیتی طبقوں کے لیے مخصوص ہوں گی۔ یہ عجیب دوغلا پن ہے کہ اقلیتوں کے لیے جو ریزرویشن جموں کشمیر میں ہے وہ ملک کے دیگر صوبوں میں نہیں ہے۔ اس کے بعد کشمیر کی خصوصی رعایت کے خاتمہ کا دعویٰ ازخود دم توڑ دیتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے سرینگر و دلی اور دل کی دوری میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوتا ہے ۔ جب تک کہ یہ دوریاں کم نہیں ہوں گی حالات معمول پر نہیں آئیں گے ۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 جون تا 18 جون  2022