ایم پی: مدرسوں کے تعلیمی نصاب میں قابل اعتراض مواد کا شک،جانچ کا عندیہ

بھوپال،نئی دہلی،18 دسمبر: مدھیہ پردیش میں ان دنوں مدارس کے تعلیمی مواد کے مبینہ طور پر قابل اعتراض ہونے یا غیر ضروری ہونے کا معاملہ گرم ہے ۔خاص طور پر اقلیتی اداروں میں پڑھائے جانے والے مواد اور تعلیمی نصاب پر حکومت کی ٹیڑھی نظر ہے۔ تازہ معاملہ میں مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ ڈاکٹر نروتم مشرا نےمدھیہ پردیش کے مدرسوں میں بچوں کو پڑھائے جانے والے تعلیمی مواد کی جانچ کا اشارہ کیا ہے ۔وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ مدھیہ پردیش کے کچھ مدرسوں میں بچوں کو قابل اعتراض مواد پڑھانے سے متعلق معاملہ ان کے نوٹس میں آیا ہے۔

واضح رہے کہ کچھ دن قبل ایک رپورٹ مدھیہ پردیش کے ایک مدرسے کی میڈیا کے ذریعہ سامنے آئی تھی۔ اس خبر کو آر ایس ایس کے ہندی ترجمان ادارہ ’پنج جنیہ ‘ نے شایع کیا تھا۔تعجب خیز طور پر اس میڈیا رپورٹ پر مدرسے کی جس تعلیمی نصاب کو قابل اعتراض قرار دیا ہے وہ اسلام کا بنیادی کلمہ کا مفہوم،یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ دوسرا کوئی معبود نہیں ہے۔اسکے علاوہ جس کتاب کا رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے معروف اور بنیادی اسلامی تعلیم پر مبنی کتاب تعلیم الاسلام ہے جس میں سوال و جواب کے طریقے سے بچوں کو اسلام کی بنیادی تعلیم کی طرف رہنمائی کی گئی ہے ۔رپورٹ میں مضحکہ خیز طریقے سے تعلیم الاسلام میں اس سوال پر نشاندہی کی گئی ہے جس میں اللہ کا انکار کرنے والوں کو کافر اور مشرق کہا گیا ہے ۔اور ان کے لئے آخرت میں عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔میڈیا میں آئے اس رپورٹ پر مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نے آج مدرسوں کے نصاب کی جانچ اور تحقیقات کا حکم جاری کرنے کا اشارہ کیا ہے۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے مدارس کے تعلیمی مواد کی جانچ پڑتال پر غور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں کلکٹر کو ہدایات دی جائیں گی کہ اس کی جانچ متعلقہ محکمہ تعلیم سے کروائے ۔انہوں نے کہا کہ میں نے بھی اسے سرسری طور سے دیکھا ہے۔ اس کی کسی بھی ناخوشگوار صورت حال سے بچنے کے لئے مدرسوں میں پڑھائے جانے والے مواد یا نصاب کو ضلع کے کلکٹروں کو ہدایت دیکر متعلقہ ضلع کے محکمہ تعلیمات سے اس اسٹڈی مٹیریل یا مطالعاتی مواد کی اسکروٹنی کرالیں تاکہ یہ یقینی ہوسکے کہ پڑھایا جانے والا مواد قابل اعتراض نہ ہو۔

قابل ذکر ہے کہ مدھیہ پردیش میں ہی گزشتہ روز اندر کے سرکاری لا کالج کے پرنسپل پروفیسر انعام الرحمان کو کالج کی لائبریری میں آر ایس ایس مخالف کتاب رکھنے کے الزام میں حکومت نے گرفتار کرنے کا حکم دے دیا تھا جس پر عدالت عظمیٰ نے روک لگا دی ہے۔وزیر داخلہ نروتم مشرا نے ہی ان کی گرفتاری کا عندیہ دیا تھا جس کے بعد انہوں نے ذیلی عدالت اور ہائی کورٹ دونوں جگہ پیشگی ضمانت کی درخواست دی لیکن انہیں کوئی راحت نہیں ملی اس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔جس کتاب پر اعتراض کیاگیا تھا اس میں ایک اقتباس ہے جس میں تحریر ہے ہندو عروتیں مردانہ تسلط والی دنیا میں ہوس کی تکمیل کا الہ تھیں اور یہ صحیفوں سے پتہ چلتا ہ کہ وہ کس طرح مردوں کے تابع تھیں‘‘۔قابل ذکر ہے کہ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ اپنے نفرت انگیز بیانات اور فیصلوں کے لئے معروف ہیں،خاص طور پر اقلیتوں کے تعلق سے بے انتہا متعصب ہیں۔

یاد رہے کہ این سی پی سی آر نے گزشتہ آٹھ دسمبر کو تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام ریاستوں کے چیف سکریٹریوں ایک خط لکھ کر ان مدارس کی تحقیقات کرنے کا فرمان جاری کیا تھا جہاں غیر مسلم بچوں کو داخلہ دیا جاتا ہے۔یہ فرمان ان تمام مدرسوں کے لئے جاری کیا گیا تھا جوحکومت سے امداد حاصل کرتے ہیں۔