’موکنایک‘ : مینا کوٹوال کا دلت سماج کے مسائل اجاگر کرنے کا عزم

امبیڈکر کے مراٹھی پندرہ روزہ اخبار’موکنایک‘ کا احیاء

افروز عالم ساحل

۳۱ جنوری ۱۹۲۰ کو محض ۲۹ سال کی عمر میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر نے ’موکنایک‘ کے نام سے ایک مراٹھی پندرہ روزہ اخبار شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد معاشرے کے مظلوموں، پسماندوں اور خاص طور پر اچھوتوں کو بیدار کرنا اور ان کے مسائل سے دنیا کو آگاہ کرانا تھا۔ یہ اخبار مسلسل تین سال تک شائع ہوتا رہا، اس کے بعد جب بابا صاحب اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے تب یہ اخبار بند ہوگیا۔ لیکن یہ آج بھی ’بابا صاحب کی بلند آواز کا ایک اہم دستاویز ہے۔‘

آج پورے ۱۰۱ سال بعد اس ’موکنایک‘ کو اسی مقصد کے تحت ۳۰ سالہ مینا کوٹوال نے دوبارہ شروع کیا ہے۔ لیکن اس کا انداز تھوڑا نیا ہے۔ اب یہ اخبار کے بجائے ویب سائٹ کی شکل میں ہے۔ ساتھ ہی یہ ’دی موکنایک‘ کے نام سے چینل کی شکل میں یو ٹیوب پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارموں پر اس کا اکاؤنٹ موجود ہے۔

مینا کوٹوال نے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دلی سے صحافت کی تعلیم حاصل کی ہے اور بی بی سی ہندی سمیت ملک کے متعدد میڈیا اداروں میں بطور آزاد صحافی کام کرچکی ہیں۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں مینا کوٹوال نے کہا کہ آزادی کے پچھتر سال بھی اگر اس ملک کے دلت، قبائلی، پسماندہ اور مظلوم سماج کو اپنی آواز ملک کے لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنا میڈیا پلیٹ فارم کھولنا پڑ رہا ہے تو یہ میری نظر میں مثبت نہیں، بلکہ منفی بات ہے لیکن ہمیں یہ کام مجبوری کے تحت کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ ہمیں نہ مین اسٹریم میڈیا میں رکھا جارہا ہے اور نہ ہی ہماری بات کی جارہی ہے۔ ہمارے پاس وسائل اور پیسہ نہیں ہے پھر بھی ہم پورے جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ سو سال پہلے بابا صاحب نے بھی یہی کیا تھا۔ اس وقت بھی میڈیا ان کی باتوں کو ملک کے سامنے نہیں رکھ رہا تھا، اس لیے انہوں نے ’موکنایک‘ کی شروعات کی تھی۔ لیکن سو سال بعد ملک کے حالات پہلے جیسے تھے آج بھی ویسے ہی ہیں آج بھی ہماری بات کوئی نہیں کرتا۔ ہر معاملے میں بولنے اور لکھنے والے ملک کے ’لبرل لوگوں‘ کو بھی ہمارے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ میں نے بابا صاحب سے متاثر ہوکر اس کام کی شروعات کی ہے۔ مجھے خیال پیدا ہوا کہ اب جب کہ ملک میں ’برہمن ازم‘ کو برقرار رکھنا ہی میڈیا کا مقصد رہ گیا ہے تو کیوں نہ اس کے جواب میں اپنا میڈیا چینل شروع کیا جائے؟ مجھے پوری امید ہے کہ ایک نہ ایک دن مجھے کامیابی ضرور ملے گی یا کم از کم میں اس ملک میں دبے کچلے لوگوں کی آواز کچھ لوگوں تک تو پہنچا ہی سکتی ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ آزادی کے پچھتر سال بھی لوگوں کے دماغوں سے پرانی باتیں نکلی نہیں ہیں۔ اب بھی لوگوں کے دماغوں میں کافی کچھ بھرا ہوا ہے۔ اگر کسی کا کوئی دلت دوست ہے تو وہ سب کو بتاتا ہے کہ اس کا دوست دلت ہے، وہ اس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور کھاتا ہے۔ لیکن میرا سوال ہے کہ یہ آپ کو بتانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس بات کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہم ایک ایسے سماج سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں کوئی چھوتا نہیں تھا، کوئی ان کے ساتھ بات نہیں کرتا تھا لیکن میں نے اس کو اپنا دوست بنایا ہے۔ یعنی آپ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ آپ کتنے بڑے ’برہمن وادی‘ ہیں۔

مینا کوٹوال سوال کرتی ہیں کہ کیوں آج بھی ہمارے سماج کے لوگ کہیں نظر نہیں آتے؟ آپ دیکھ لیجیے میڈیا میں ہمارے سماج کے کتنے لوگ ہیں؟ اور جو یہاں اپنے ٹیلنٹ کے دم پر پہنچتے ہیں انہیں نکال دیا جاتا ہے۔ ملک میں ہمارے سماج کے لوگوں کو ہراساں کیے جانے کی وہی کیفیت ہے جو پہلے تھی بس تھوڑا طریقہ بدل گیا ہے۔ بڑے شہروں میں چھوت چھات تھوڑا سا کم دکھائی دے رہا ہے لیکن اس ملک کا اعلیٰ ذات طبقہ ہمیں اب بھی اپنے سے آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔

یہ پوچھنے پر کہ کیا سوشل میڈیا کی وجہ سے کچھ تبدیلی آئی ہے؟ مینا کوٹوال کہتی ہیں کہ چیزیں بہت زیادہ تو نہیں بدلی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے بدولت تھوڑی بہت تبدیلی ضرور نظر آرہی ہے۔ لوگوں کو اپنے حقوق اور اپنی اصلیت کا پتہ چل رہا ہے۔ زیادہ تر لوگ اب یہی کہہ اور لکھ رہے ہیں۔ یہ اب مین اسٹریم میڈیا کے بھروسے پر نہیں رہتے۔ ویسے بھی اب مین اسٹریم میڈیا پر کسی کو بھروسہ رہ نہیں گیا ہے۔ دراصل تعلیم کا بھی اس میں اہم رول ہے۔ سماج میں اب لوگ دھیرے دھیرے تعلیم یافتہ بن رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ابھی بھی تعلیم کی کافی کمی ہے۔

مینا کوٹوال مزید کہتی ہیں کہ وہ آزادی کے بعد شاید اپنے سماج میں ملک کی پہلی خاتون ہے جو اپنا یو ٹیوب چینل اپنے دَم پر چلا رہی ہے۔ اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اب بھی ہم کتنے پیچھے ہیں۔ جس طرح کے ایشوز میں اٹھاتی ہوں مین اسٹریم میڈیا اسے دکھانا بھی نہیں چاہتا ۔ وسائل کی کافی کمی ہے لیکن اس کے باوجود انہی حالات میں انہی مسائل کو اٹھاتی رہوں گی جن کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021