مولانا حفیظ الرحمن اعظمیؒ : زیرک صحافی، شفیق معلم ومربی

اخلاق و مروت کی پیکر شخصیت جس نے ہر کسی سے خیرخواہی کی

(دعوت نیوز ڈیسک)

مولانا حفیظ الرحمن اعظمی مرحوم سابق ناظم جامعہ دارالسلام عمرآباد بروز منگل،24؍مئی 2022ء کو اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے حسنات اس قدر ہیں کہ ان کا فیض ان کے گزرنے کے بعد بھی جاری رہے گا۔ آپ مولانا محمد نعمان اعظمی کے فرزند اور میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی(شیخ الحدیث جامعہ دارالسلام عمرآباد کے شاگرد رشید تھے۔
مولانا کا صحافت سے خاص لگاو تھا، انہوں نے اپنے کرئیر کی ابتدا صحافت ہی سے کی تھی۔وہ کچھ عرصے تک سہ روزہ دعوت (جو اب ہفت روزہ ہے) سے وابستہ رہے تھے اور اپنے رشحات قلم سے ملک وملّت کے مسائل کی طرف نشاندہی اور رہنمائی میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔
سادگی مولانا حفیظ الرحمن اعظمی کی سرشت میں داخل تھی۔ علم ومرتبے میں اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود لوگوں نے انہیں ہمیشہ منکسرالمزاج ہی پایا۔ مولانا اعظمی کی شخصیت اخلاق ومروت، علم وعمل اور ملنساری سے مرکب تھی۔ وہ جس محفل میں ہوتے وہ محفل آپ کے نام ہوجاتی۔ قلم تو آپ نے پایا ہی تھا لیکن گفتگو پر بھی آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ مولانا اعظمی کی باتیں جہاں مدلل ہوتی تھیں وہیں سوز ان سے چھلکتا تھا۔ مولانا کی وفات نے متعلقین کو جتنا سوگوار کیا ہے اتنا ہی سوگوارآپ کے بے شمار شاگردوں کو کیا ہے جنہوں نے مولانا سے وابستہ یادوں کے حوالے سے انہیں دلی خراج پیش کیا ہے۔
مولانا کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی تھی ،ناظرہ قران ختم کرکے حفظ قرآن کا آغاز مولانا قاری عبید اللہ عمری کے پاس کیا اور اس کی تکمیل دارالعلوم چوک مسجد، پرنام بٹ میں مولانا مفتی محمود الحسن پرنامبٹیؒ کے پاس کی۔ 1953ء میں جامعہ دارالسلام عمرآباد کے شعبہ عربی میں داخلہ لیا اور 29/جنوری1961ءکو سند فضیلت حاصل کی۔ نومبر 1961ء میں "کلیة الشریعة”جامعہ اسلامیہ مدینةالمنورة میں داخلہ ہوا، اور فراغت 1965ء کے اواخر میں ہوئی۔آپ نے جامعہ دارالسلام عمرآباد سے مولوی فاضل،مدراس یونیورسٹی سے افضل العلماء اور جامعہ اسلامیہ مدینة المنورة سے بی اے کیا تھا۔مولانا نے جامعہ دارالسلام عمرآباد میں علامہ شاکر نائطی ،مولانا عبد الواجد عمری رحمانی ،مولانا عبد السبحان ،مولانا سید امین عمری،مولانا ابوالبیان حماد عمری۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں شیخ ابن باز ،شیخ البانی ،شیخ محمد امین شنقیطی ،شیخ عبد ال محسن بن عباد ،حافظ محمد گوندلوی اور شیخ عبد الغفار رحمہم اللہ جیسے اساتذہ سے شرف تلمذ حاصل کیا تھا۔
فراغت کے فورا بعد سہ روزہ مدینہ (بجنورUP) میں کچھ دن اور روزنامہ دعوت (دہلی) میں چند ماہ نائب مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔11/فروری 1966ءسے جامعہ دارالسلام عمرآباد میں معلمی کے فرائض شروع ہوئے تو اخیر تک جامعہ سے منسلک رہے۔ 1976ء سے 1978 تک نائیجریا و افریقہ اور 1982 سے 1986 تک ملیشیا میں رہے۔
مولانا اعظمی نے سہ روزہ دعوت سے تعلق ختم ہونے کے بعد بھی قلم و قرطاس سے اپنا رشتہ باقی رکھا اور جامعہ دارالسلام عمرآباد کے زیر اہتمام شائع ہونے والے جامعہ کے ترجمان ماہنامہ ’’راہ اعتدال‘‘ کے مدیر اعزازی کی حیثیت سے آخر تک اپنی قلمی کاوشوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس رسالے میں مولانا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ علمی و ادبی مضامین شائع ہوئے۔ قرآن شریف آپ کے مطالعہ کا محورتھا،چنانچہ جامعہ دارالسلام کے ترجمان میں مولانا نے قرآن کی سورتوں کا تعارف شروع کیا تھا جو تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ آپ کی تصانیف میں (۱ ) متاع قرآن (۲ ) فکری یلغار۔ (۳) میری زندگی کا حاصل ( ۴)اسلام میں اختلاف کے آداب ( ۵ ) ارض حرم میں پہلا قدم (سفرنامہ حج و عمرہ (۶ )صدائے دل(مجموعہ خطبات) وغیرہ شامل ہیں ۔
مولانا اعظمی ایک بہترین مدرس تھے، بدایۃ المجتھد، صحیح مسلم، سنن ترمذی، حجۃ اللہ البالغۃ، نخبۃ الفکر جیسی کتابوں کی تدریس آپ کے ذمے رہی۔مولانا اپنے شاگردوں کو جدید دور کے مسائل کو قرآن وحدیث سے مستنبط کرنا سکھاتے اور زیر تدریس کتابوں کو موجود وقت کے مسائل سے مربوط کیا کرتے تھے۔ جب کبھی وہ امت مسلمہ کی حالت زار پر گویا ہوتے تو بڑی درد مندی سے مسائل کے حل کی طرف متوجہ کرتے۔ امید قوی ہے کہ اسلام او مسلمانوں کے تعلق سے مولانا کا جو سوز دروں تھا وہ ضرور ان کے خاص شاگردوں میں منتقل ہوا ہوگا اور وہ مولانا کے فیض کو جاری رکھتے ہوئے ان کے باقیات الصالحات کو ان کے لیے ذخیرہ آخرت بنائیں گے۔

 

***

 مولانا اعظمی نے سہ روزہ دعوت سے تعلق ختم ہونے کے بعد بھی قلم و قرطاس سے اپنا رشتہ باقی رکھا اور جامعہ دارالسلام عمرآباد کے زیر اہتمام شائع ہونے والے جامعہ کے ترجمان ماہنامہ ’’راہ اعتدال‘‘ کے مدیر اعزازی کی حیثیت سے آخر تک اپنی قلمی کاوشوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس رسالے میں مولانا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ علمی و ادبی مضامین شائع ہوئے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 جون تا 18 جون  2022