لکھیم پور کھیری تشدد: احتجاج میں سیکڑوں کسانوں شریک تھے تو صرف 23 ہی گواہ کیوں؟ سپریم کورٹ نے اترپردیش حکومت سے پوچھا

نئی دہلی، اکتوبر 26: سپریم کورٹ نے اتر پردیش حکومت کو ہدایت دی ہے کہ لکھیم پور کھیری تشدد کیس میں مزید عینی شاہدین کی شناخت کرے۔ عدالت نے ریاستی حکومت سے گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کو بھی کہا۔

چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا اور جسٹس سوریہ کانت اور ہیما کوہلی پر مشتمل بنچ نے اس وقت حیرت کا اظہار کیا جب حکومت اتر پردیش کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ ہریش سالوے نے کہا کہ ابھی تک صرف 23 عینی شاہدین کی شناخت ہو سکی ہے۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق وکیل نے عدالت کو بتایا ’’68 میں سے 30 گواہوں کے بیانات ضابطہ فوجداری کے 164 کے تحت ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 23 عینی شاہد ہیں۔‘‘

مرکز کے تین نئے فارم قوانین کے خلاف احتجاج کے دوران 3 اکتوبر کو لکھیم پور کھیری ضلع میں چار کسانوں سمیت آٹھ افراد مارے گئے تھے۔

کسانوں نے الزام لگایا ہے کہ مرکزی وزیر اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا کی گاڑی مظاہرین پر چڑھ دوڑی تھی۔ آشیش مشرا کو 9 اکتوبر کو اس معاملے پر سپریم کورٹ کی جانب سے اتر پردیش حکومت کی کھنچائی کے ایک دن بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

منگل کی سماعت میں چیف جسٹس نے سالوے سے پوچھا کہ احتجاج میں سیکڑوں کسان موجود تھے۔ ’’وہاں صرف 23 لوگ ہی [عینی شاہدین] تھے؟‘‘

سماعت کے دوران، سپریم کورٹ نے اتر پردیش حکومت سے کہا کہ وہ صحافی رمن کشیپ اور شیام سندر کے نام سے ایک دوسرے شخص کے قتل سے متعلق انکوائری پر الگ الگ جواب داخل کرے۔

عدالت نے زبانی طور پر فارنسک لیب سے بھی کہا کہ وہ تشدد کی ویڈیوز سے متعلق رپورٹس جمع کرانے کے طریقہ کار کو تیز کریں۔

سپریم کورٹ نے جانچ میں کوتاہی اور تاخیر کے لیے اتر پردیش حکومت کی متعدد بار سرزنش کی ہے۔

کیس کی اگلی سماعت 8 نومبر کو ہوگی۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے 7 اکتوبر کو لکھیم پور کھیری کیس کی سماعت کی تھی جب دو وکلا نے اس معاملے میں مداخلت کی درخواست کی تھی۔

8 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ تشدد کی تحقیقات میں اتر پردیش حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات سے مطمئن نہیں ہے۔

20 اکتوبر کو پچھلی سماعت میں عدالت نے مشاہدہ کیا تھا کہ اتر پردیش حکومت تشدد کی تحقیقات میں ’’اپنے پاؤں گھسیٹتی‘‘ دکھائی دیتی ہے۔

عدالت نے یہ بھی سوال کیا کہ 44 میں سے صرف چار گواہوں کے بیانات کیوں قلمبند کیے گئے؟ عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ استغاثہ نے عدالتی تحویل میں رہنے والے چھ ملزمان کی پولیس تحویل کیوں نہیں مانگی۔