’کوئی لوٹا دے میرے بیتے ہوئے دن‘

ہریانہ: عبدالسبحان، دہشت گردی کے الزام سے 8سال بعد باعزت بری

حسن آزاد

پولیس کی نا اہلی اور بے جا میڈیا ٹرائل کے خلاف کب کسا جائے گا قانون کا شکنجہ؟
دہشت گردانہ کارروائی کے الزام میں ’بے گناہ قیدی‘ عبدالواحد شیخ پر بنی فلم (Haemolymph)ریلیز
عریانیت سے پاک، مسلم موقف کو دنیا کے سامنے رکھنے والی فلم کو دیکھنے کی کیوں ہے ضرورت؟
ہفت روزہ ’دعوت‘ سے واحد شیخ کی خاص گفتگو
(دعوت ایکسکلوزیو )
آج کے دور میں جانب دار میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ نیوزروم میں بیٹھے اینکرس خود ہی فیصلے سنا دیا کرتے ہیں گویا وہ صحافی نہ ہوئے بلکہ جج ہوگئے! ۔ان کا انداز جارحانہ ہوتا ہے اور وہ اپنے تجزیوں میں حقیقت پسند کم اور جلاد زیادہ نظرآتے ہیں۔ آج سے ٹھیک 8 سال پہلے ایسے ہی ایک واقعہ میں متعصب میڈیا نے ایک بے گناہ شخص کو نامعلوم ذرائع، سوالیہ نشان اور حروف استعجاب کے ذریعے دہشت گرد قرار دے دیا گیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عبدالسبحان کو اپنی زندگی کے قیمتی آٹھ سال دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں تہاڑ جیل میں گزارنے پڑے۔ 10 مئی 2022 کو وہ دہشت گردی کے الزامات سے بری ہونے کے بعد ہریانہ میں واقع اپنے گاؤں پہنچے۔ آٹھ سال قبل ان کی گرفتاری کے وقت ان کے گھر کے سامنے میڈیا چینلز کا مجمع لگا ہوا تھا، متعصب میڈیا نے اسپیشل سیل کی طرف سے مرچ مصالحہ لگا کر من گھڑت کہانی نشر کی تھی اور دنیا کو باور کرایا تھا کہ عبدالسبحان ایک دہشت گرد ہے۔
دہلی کے پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے 9 مئی کو عبدالسبحان کے ساتھ ساتھ محمد شاہد، محمد راشد، اصہاب الدین اور ارشد خان کو بھی دہشت گردی کے الزامات سے بری کر دیا۔ ان پانچوں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 120 بی اور غیر قانونی سرگرمیاں ( امتناعی) ایکٹ یو اے پی اے کی دفعہ 18 بی اور 20 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
اس معاملے میں جانب دار میڈیا کی کارکردگی انتہائی رسوا کن ہے جس نے من گھڑت کہانیاں بنائیں۔ ہریانہ کے شہر نوح سے تقریباً 25 کیلومیٹر کی دوری پر گُمٹ بہاری نامی گاؤں واقع ہے۔ گاؤں میں ایک تاریخی مقبرہ ہے لیکن یہ کس کا ہے؟ گاؤں والوں کو نہیں معلوم۔ کچھ لوگوں کے مطابق اس مقبرے کی دیکھ بھال کرنے والے نگہبان کا نام بہاری تھا، اس لیے گاؤں کا نام گمٹ بہاری پڑ گیا۔ نفرتی میڈیا چینلز اس کہانی کو کس طرح گھڑتے ہیں اس کے حوالے سے نیوز پورٹل ’نیوز کلک‘ سے بات کرتے ہوئے عبدالسبحان کے بیٹے محمد عالم بتاتے ہیں کہ ’’ابو کی گرفتاری کے وقت کئی میڈیا چینلوں نے بتایا کہ عبدالسبحان بہار میں دھماکہ کرنا چاہتا تھا‘‘۔ عالم کے مطابق میڈیا نے ایسا صرف اس لیے کیا کیونکہ ان کے گاؤں کے نام کے ساتھ لفظ بہاری لگا ہوا ہے۔
عبدالسبحان کی گرفتاری کے وقت یہ کہانی گھڑ لی گئی تھی کہ وہ 2011 میں راجستھان کے گوپال گڑھ اور 2013 میں اتر پردیش کے مظفر نگر میں ہونے والے فسادات کا بدلہ لینے کے لیے ملک میں دھماکے کرنا چاہتا تھا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ عبدالسبحان کالعدم دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) کا رکن تھا، مذکورہ فسادات نے اس کے جذبہ جہاد کو جنم دیا۔ اس نے اپنا منصوبہ محمد راشد کو بتایا، راشد نے جہاد کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے ایک تاجر کو اغوا کرنے کے اپنے ارادے کی وضاحت کی کہ رقم دبئی میں جاوید بلوچی کی مدد سے حوالہ کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔ اس نے راشد سے کہا کہ وہ محمد جاوید بلوچی سے بات کرنے کے لیے جعلی شناخت پر موبائل فون کنکشن اور سم کارڈ کا بندوبست کرے۔ عبدالسبحان نے میوات سے جاوید اور شبیر کو بھی جوڑنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس کے ساتھ شامل نہیں ہوئے۔ جاوید اور شبیر وہ دو افراد ہیں جنہیں پولیس نے عبدالسبحان کے خلاف گواہ بنایا تھا۔
عالم کا کہنا ہے کہ ’’متعصب میڈیا نے عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی میرے والد کو دہشت گرد ثابت کر دیا تھا۔ جانبدارمیڈیا اکثر ان کے والد کو نشانہ بنایا کرتا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بندھوامیڈیا نے مجھے بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا‘‘۔ واضح ہو کہ عالم نے جنوری 2021 میں کسانوں کی تحریک میں حصہ لیا تھا، جس کی تصاویر انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ کی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب بندھوا میڈیا کے ذریعے کسانوں کی تحریک کو بدنام کرنے کے لیے جعلی خبریں پھیلائی جا رہی تھیں۔ ایک چینل نے عالم کی تصاویر پر مبنی ایک رپورٹ لکھی جس کا عنوان تھا ’’پاکستانی دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کے مشتبہ افراد بھی کسانوں کے احتجاج میں شامل (انٹیلی جنس الرٹ)‘‘۔ عالم نے جب اس کی شکایت کی تو چینل نے اس رپورٹ کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا۔
عبدالسبحان پر یو اے پی اے لگایا گیا۔ اسپیشل سیل نے جو کہانیاں گھڑ رکھی تھیں وہ ایک ایک کر کے عدالت کے سامنے جھوٹی ثابت ہوئیں۔ اسپیشل سیل کی جانب سے پیش کیے گئے گواہوں نے پہلے ہی عدالت کو بتایا تھا کہ انہیں ڈرا دھمکا کر گواہ بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اسپیشل سیل کا عبدالسبحان کا جاوید بلوچی سے تعلق بھی عدالت میں ثابت نہیں ہو سکا۔ پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا نے کہا تھا کہ ’’استغاثہ جاوید بلوچی کی شناخت ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے سوائے اس الزام کے کہ وہ ایک خوفناک دہشت گرد ہے۔‘‘
مزید یہ کہ پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ’’میرا ماننا ہے کہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے کہ ملزمان کالعدم دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کے رکن تھے اور اس کے مطابق وہ دفعہ 20 کے تحت آتے تھے۔ وہیں وہ UAPA کے تحت قابل سزا جرم سے بری ہونے کے مستحق ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ عبدالسبحان پر پاکستان میں بات کرنے کا الزام تھا جس پر عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ’’ محض ایک دوسرے سے بات کرنا یا پاکستانی نمبر کے لیے استعمال ہونے والے موبائل فونز اور سم کارڈز کی ریکوری کسی بھی سازش کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔‘‘ عدالت نے کہا کہ استغاثہ کا مقدمہ کسی قابل اعتماد شواہد کے بجائے قیاس آرائی پر مبنی لگتا ہے۔
جمہوری ملک میں یو اے پی اے اور این ایس اے جیسے قوانین شاید اسی لیے وضع کیے جاتے ہیں تاکہ ہر اس آواز کو دبا دیا جائے جو اقتدارِ وقت کے لیے خطرہ کا سبب بنے یا پھر بے گناہوں ‌کی زندگیاں برباد ‌کی جائیں۔ ملک میں اس کی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں، بلکہ 2015 سے 2019 کے دوران یو اے پی اے کے تحت گرفتاریوں میں 72 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ حکومت نے لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ ’سال 2016-2019 کے دوران یو اے پی اے کے تحت درج معاملوں میں سے محض 2.2 فیصد کو سزا ہوئی ہے‘۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر عدلیہ کے کمزور نظام کی وجہ سے ضمانت نہ ملنے کے سبب وہ خود ہی سزا یافتگان میں شامل ہو جاتے ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کسی مسلمان کو بے قصور ثابت کیا گیا ہو۔ اس سے پہلے ہزاروں مسلمانوں کو اسی الزام میں جیلوں میں ٹھونسا گیا اور اب بھی وہ جیلوں کے اندر سڑ رہے ہیں۔ اسی طرح ممبئی کے باشندہ واحد شیخ کو بامبے ہائی کورٹ نے دہشت گردی کے الزام سے باعزت بری کیا۔ کورٹ نے سخت الفاظ میں حکومت سے کہا کہ ’وہ ان کا نام اس فہرست سے نکال دے جہاں اُن کا نام بطور سیمی کارکن درج ہے‘۔ واحد شیخ جیل سے رہا ہو کر پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکے تھے۔ وہ اب مظلوموں کے حق میں ظالموں کے خلاف کھڑے ہو چکے تھے۔ انہوں نے جیل کے اندر ایک کتاب ’’بے گناہ قیدی‘‘ لکھی جو لائبریریوں، کتب خانوں اور آن لائن پر دستیاب ہے۔ انہوں نے ’کاروان محبت‘ اور ایکویٹ انڈر ٹرائل (Acquit undertrial) کے نام سے یوٹیوب چینلوں کے ذریعے مظلوموں کے حق کے لیے آواز اٹھائی اور 27 مئی 2022 کو ان کی زندگی پر ایک فیچر فلم ‘Haemolymph’ بھی آئی ہے۔ اس فلم کو کیوں دیکھنا چاہیے اور ملک کے ناگفتہ بہ حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے ہفت روزہ دعوت نیوز ڈیسک نے واحد شیخ سے خصوصی بات چیت کی جس کا خلاصہ قارئین کے پیش خدمت ہے۔
سوال: مسلم ناظرین کو فلم دیکھنے کے لیے کیسے راغب کریں گے؟ انہیں یہ فلم کیوں دیکھنا چاہیے؟
در اصل آج کل زیادہ تر فلم کے ذریعے ہی معاشرے میں مثبت و منفی پیغام دیا جا رہا ہے۔ جہاں تک میری فلم ‘Haemolymph’ کا تعلق ہے تو یہ بے حد صاف ستھری فلم ہے۔ یہ ملک کی واحد ایسی فلم ہے جس میں اداکارہ نقاب میں رہتی ہے اور پوری فلم میں اس کا چہرہ تک نہیں دکھایا گیا ہے۔ یہ پہلی ایسی فیچر فلم ہے جو مسلم متاثرہ شخص پر ہندی میں بنی ہے جسے مرکزی بورڈ کا سرٹیفکیٹ حاصل ہے۔ یہ با مقصد فلم ہے جو لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس فلم میں حکومت اور پولیس انتظامیہ کی خامیوں کو سامنے لایا گیا ہے۔ یہ فلم ہماری آواز اور ہمارے موقف کو پیش کرتی ہے لہذا کم از کم اسے ایک بار تو ضرور دیکھنی چاہیے تاکہ مسلمانوں کی آواز پوری دنیا تک پہنچ سکے۔ اگر یہ فلم فلاپ ہو جاتی ہے تو پھر کوئی بھی اس طرح کی فلم بنانے کے لیے ہمت نہیں کر پائے گا۔
سوال: میڈیا کی کارکردگی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
میں نے تو نیوز چینل ہی دیکھنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ کچھ جانب دار نیوز چینلوں کی وجہ سے میڈیا اپنا وقعت کھو چکا ہے۔ میں ایک زمانے سے یہ محسوس کر رہا ہوں کہ نیوز چینلوں میں خبریں کم دکھائی جاتی ہیں اور ایک خاص ایجنڈے کے تحت ہندوتوا کو زیادہ پیش کیا جاتا ہے اور ترجیحی بنیادوں پر حکومت اور پولیس کے موقف کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کم سے کم پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ حکومتی بیان یا پولیس کے موقف کو سامنے رکھ کر خبریں دکھائی جاتی تھیں مگر اب تو میڈیا خود ہی جج اور جیوری بن جاتا ہے اور فیصلہ صادر کر دیتا ہے، ابھی ایجنسیوں کی طرف سے کوئی بیان بھی نہیں آتا ہے کہ میڈیا نشر کرنا شروع کر دیتا ہے کہ ’اس دہشت گرد دھماکے میں فلاں اور فلاں تنظیم کا ہاتھ ہے‘۔ لہذا ایسی صورت ‌میں ہمیں بھی اپنے میڈیا یا دیگر وسائل کے ذریعے اپنی بات اٹھانی چاہیے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے نیوز چینلوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کی زندہ مثال ’میڈیا ون‘ کی ہے جسے اس وقت نہ جانے کتنی مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن ہم ایسی صورت میں بھی کام کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں میڈیا ٹرائل کرنے والوں کےخلاف کیس درج کرواتے رہنا چاہیے تاکہ انہیں بھی مشکلات کا سامنا ہو۔
سوال: قانونی لڑائی ہمیں کیسے لڑنی چائیے؟
عام طور پر مسلمانوں میں قانون کے متعلق بیداری نہیں پائی جاتی ہے۔ ملک میں ہمیں کون کون سے حقوق میسر ہیں اور پولیس کے حقوق کیا ہیں ان معلومات سے ہم نا آشنا ہیں اور اگر معلومات ہیں بھی تو ہمیں انہیں برتنا نہیں معلوم۔ دوسری طرف ملک میں قانون کی بالادستی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے، بابری مسجد کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے اندر کورٹ کچہری پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے اور وہ نا امید ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں قانونی چارہ جوئی سے ہی کام بننے والا ہے۔
مانا کہ بہت آگ ہے ماحول میں لیکن
اس ملک کی برسات سے مایوس نہ ہونا
سوال: کیا واقعی لوگ حق بات بولنے اور لکھنے سے ڈرتے ہیں؟ ایسے لوگوں کو آپ کیا پیغام دیں گے؟
ڈر اور خوف کا ماحول تو ہے لیکن ہم اسی طرح ڈرتے رہے تو پھر حق بات کون کرے گا؟ اس میں اصولی بات تو یہی ہے کہ ہم صاحب ایمان ہیں۔ ہمیں خداے واحد پر کامل یقین ہے کہ جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا ایسے میں ڈرنے کے بجائے آگے آنے کی ضرورت ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ نہ بولنے والے بچ جائیں گے۔ کئی بار تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو واردات کے وقت موجود نہیں تھے انہیں بھی جیل میں ڈالا گیا ہے۔ ان کے خلاف بھی مقدمات درج کیے گئے۔ شمال مشرقی دلی تشدد کیس میں ہی دیکھ لیجیے کتنے افراد جھوٹے کیسوں کے تحت جیل میں ڈال دیے گئے۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے نام پر بھی کئی لوگوں کو پھنسایا گیا ہے جب کہ وہ احتجاج کے موقع پر موجود نہیں تھے۔ مختصراً یہ کہ بس اب ہمیں اپنے ایمان کو پختہ کرتے ہوئے اپنا فرض نبھاتے رہنا ہے۔ اب ملک ہندو راشٹر کی طرف گامزن ہے ایسے میں اپنے آپ کو بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے اور خوف میں رہ کر تو کوئی تیاری نہیں ہو سکتی ہے۔
پولیس کی نا اہلی کی وجہ سے جن بے گناہ مسلمانوں کی زندگی کے خوبصورت پل جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں اور ان کے گھر والوں کو جن اذیتوں سے گزرنا پڑا، جن مصائب کو جھیلنا پڑا اور جن نقصانات سے انہیں دوچار ہونا پڑا اس کا حساب کس سے لیا جائے گا؟ بے گناہ ثابت ہونے کے بعد بھی عدالت اس کا متبادل نہیں دے سکتی لیکن کم از کم یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ جن پولیس والوں نے سازش رچی ہے ان پر عدالت کو گمراہ کرنے کا مقدمہ چلایا جائے اور اس دوران وہ افسر معطل رہیں، اگر ریٹائر ہو چکے ہیں تو پنشن بند کی جائے۔ کاش کہ ان سوالات کے جوابات ملک کو جلد از جلد مل جائیں۔
(نوراللہ جاویدصحافت سے گزشتہ 20سالوں سے وابستہ ہیں) [email protected]
8777308904
***

 

***

 جہاں تک میری فلم ‘Haemolymph’ کا تعلق ہے تو یہ بے حد صاف ستھری فلم ہے۔ یہ ملک کی واحد ایسی فلم ہے جس میں اداکارہ نقاب میں رہتی ہے اور پوری فلم میں اس کا چہرہ تک نہیں دکھایا گیا ہے۔ یہ پہلی ایسی فیچر فلم ہے جو مسلم متاثرہ شخص پر ہندی میں بنی ہے جسے مرکزی بورڈ کا سرٹیفکیٹ حاصل ہے۔ یہ با مقصد فلم ہے جو لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس فلم میں حکومت اور پولیس انتظامیہ کی خامیوں کو سامنے لایا گیا ہے۔ یہ فلم ہماری آواز اور ہمارے موقف کو پیش کرتی ہے لہذا کم از کم اسے ایک بار تو ضرور دیکھنی چاہیے تاکہ مسلمانوں کی آواز پوری دنیا تک پہنچ سکے۔ اگر یہ فلم فلاپ ہو جاتی ہے تو پھر کوئی بھی اس طرح کی فلم بنانے کے لیے ہمت نہیں کر پائے گا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 جون تا 18 جون  2022