کتاب قرآنیات ۔ 22 مقالات کا مجموعہ

قرآنی بصیرت میں معاون ایک مفید تصنیف۔اہم تفاسیر کا تقابلی مطالعہ

نام کتاب:قرآنیات
مصنف:نعیم الدین اصلاحی
ناشر:ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی
سن اشاعت: ۲۰۱۹ء
صفحات:۴۰۰
قیمت:۴۹۰ روپے

ابو سعد اعظمی

اس کتاب میں مصنف نے تزکیہ نفس،حضرت ابراہیمؑ کی وصیت، اولین مکی سورتوں کا پیغام، تکریم انسانیت، فلسفہ عروج وزوال، اسلامی ریاست کی خصوصیات،
فساد فی الارض کی تعریف وجہات اور اسلام میں عورت کے مقام ومرتبہ کو قرآن کریم کی روشنی میں پیش کیا ہے۔نیز بعض شخصیات کی قرآنی خدمات اور قرآنی بصیرت کا ذکر کیا ہے۔
مولانا نعیم الدین اصلاحی ایک عرصہ دراز سے جامعۃ الفلاح میں قرآن کریم کی تدریس سے وابستہ ہیں۔ یوٹیوب پر ان کے دروس قرآن بھی کافی تعداد میں استفادہ کے لیے موجود ہیں ۔بحیثیت استاذ وہ تدریس قرآن کی نزاکت، اس کے لیے مفید علوم، فہم قرآن میں عربی زبان وادب اور اسلوب کلام کی اہمیت سے واقف ہیں۔قرآن کے بعض مقامات کے فہم میں اردو مفسرین کو جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اس پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔
اس کتاب میں پیش لفظ کے علاوہ کل 22 مقالات شامل ہیں۔ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ اکثر مقالات میں قرآن کریم کی روشنی میں کسی مسئلہ کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔فاضل مصنف کو چونکہ طویل تدریسی تجربہ ہے، عربی و اردو کی اہم تفاسیر ان کے مطالعہ میں رہی ہیں اس لیے اپنے مضامین میں کثرت سے ان سے استفادہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابن کثیر، جریر طبری، شوکانی، مولانا سید مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا صدرالدین اصلاحی اور مولانا ابوالکلام آزاد کے اقتباسات کثرت سے نقل کیے گئے ہیں اور ان کے محاکمہ کی روشنی میں مفہوم کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس کتاب کا پہلا مقالہ ’’تزکیہ نفس کا صحیح تصور- قرآن مجید کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے ہے۔قرآن کریم نے حضرت محمد ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ بیان کیا ہے کہ آپ لوگوں کا تزکیہ کریں۔قرآن مجید کی تعلیم سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آخرت میں انسان کی فلاح ونجات کا تعلق تزکیہ نفس ہی سے ہے۔ مصنف نے لغات، مختلف عربی اور اردو تفاسیر کی روشنی میں تزکیہ کا قرآنی مفہوم واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی وصیت کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے آپ نے واضح کیا ہے کہ امت مسلمہ نے جب تک اپنی ملی اور اجتماعی زندگی میں ابراہیمی وصیت کو اپنے سامنے رکھا کامیابی قدم چومتی رہی لیکن جب انہوں نے اسے فراموش کردیا تو ان پر بھی ذلت ورسوائی اور ادبار وتنزل کی گھٹائیں اس طرح چھاتی گئیں جس طرح بنی اسرائیل پر مجرمانہ غفلت بلکہ وصیت ابراہیمی سے مکمل بغاوت کے نتیجہ میں چھاگئی تھیں‘‘۔ (ص۲۷)
’’اولین مکی سورتوں کا پیغام سماجی اور دینی تناظر میں‘‘ کے عنوان پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف مکی آیات کے مضامین کا بالاجمال تذکرہ کیا ہے۔ مولانا ابولکلام آزاد، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا جلیل احسن ندویؒ کے حوالہ سے ان کے پیغام کی وضاحت کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ ’’مکہ کے ابتدائی دور میں جہاں قرآنی دعوت کا اہم محور توحید وآخرت ہے وہیں ان دونوں کے عملی تقاضوں پر بھی مختلف انداز سے انسانوں کو ابھارا گیا ہے۔نماز اور رحمت ومواسات یہ دونوں توحید وآخرت کے عملی تقاضے ہیں‘‘۔ (ص۴۱)۔ایک اہم مقالہ ’’تکریم انسانیت قرآن مجید کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے ہے۔اس میں انسان کا مقام ومرتبہ، ملاء اعلی میں اس کا تذکرہ، فرشتوں کی حفاظت اور ان میں نور یزداں کے ہونے کی وضاحت کی گئی ہے۔اسی طرح اس کے وظیفۂ حیات پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس کی اشرفیت کا انحصار ایمان اور عمل صالح پر موقوف ہے۔اس کے بعد سورہ انعام واعراف کی روشنی میں فلسفہ عروج وزوال کا جائزہ پیش کیا گیا ہے اور کثرت سے تدبر وتفہیم کے حوالے نقل کیے گئے ہیں۔اس ضمن میں تفسیر ماجدی اور فی ظلال القرآن سے استفادہ کرتے ہوئے مختلف ذیلی عناوین کے تحت فلسفہ عروج وزوال کی توضیح کی گئی ہے۔اسلامی ریاست کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہوئے مولانا اسحاق سندیلوی کی کتاب ’’اسلام کا سیاسی نظام‘‘ کے حوالہ سے واضح کیا گیا ہے کہ’’ اس کا نظام معاش للّٰہیت، خلوص، ہمدردی، سخاوت، انسانیت، باہمی امداد ومحبت کے اعلی شریفانہ جذبات واخلاق کا معاون ومربی اور ظلم، حق تلفی، بخل، بے جا نفع اندوزی، قارونیت، سرمایہ دارانہ ذہنیت، دولت پرستی کے ناپاک وننگ انسانیت رجحانات کا دشمن ہے‘‘ (ص۷۸) اس ضمن میں سلطنت داؤدی، حکومت سلیمانی اور ذوالقرنین کے حوالہ سے اسلامی ریاست کے خد وخال کو واضح کیا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انسانیت کے لیے امن وسکون، سعادت وکامیابی صرف اسلامی سلطنت کے قیام اور عادلانہ نظام کے سایہ ہی میں مل سکتاہے۔ایک مقالہ میں فساد فی الارض کی تعریف اور جہات اور زمین میں اس کی عملی شکلوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کے بعد اسلام نے عورت کو جو بلند مقام ومرتبہ عطا کیا ہے اور ماں، بہن،بیٹی کی حیثیت سے جس طرح ان کی عزت افزائی کی ہے اور اعمال خیر میں مرد وعورت میں کسی تفریق کے بغیر آگے بڑھنے کا موقع دیا ہے اور جائیداد میں ان کا حق مقرر کیا ہے ان تمام امور پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ اس مجموعہ میں ایک اہم مقالہ ’’قرآن مجید کی تدوین وکتابت کا مکی نظام‘‘کے عنوان سے ہے۔مضمون کی ابتدا تدوین قرآن سےمتعلق امام فراہیؒ کے نقطۂ نظر سے ہوئی ہے کہ قرآن عہد نبوی میں مرتب ہو چکا تھا اور صحابہ کرامؓ نبی کرم ﷺ کی پیش کردہ اس ترتیب کے مطابق قرآن کریم کو سنتے اور محفوظ کرتے تھے۔اس کے بعد قرآن کریم کے حوالے سے قلم وقرطاس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور پھر علامہ عزیزالحق کوثر ندویؒ کی رائے پیش کی گئی ہے کہ ’’سورہ طور سے واضح ہے کہ قرآن مجید عہد رسالت ہی سے مرتب ومدون شکل میں تھا۔۔۔کاغذ پر قرآن مجید کی باقاعدہ کتابت ہوچکی تھی اور اس کی شکل صحیفہ اور کتاب کی تھی‘‘۔ (ص۱۳۴)ایک مضمون ’’تدریس قرآن میں عربی زبان وادب کی اہمیت‘‘ کے عنوان سے ہے۔ زبان وادب میں درک کے بغیر قرآن مجید ہی نہیں بلکہ احادیث رسول کے فہم میں گہرائی اور بصیرت پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس لیے فہم قرآن میں عربی زبان وادب سے استفادہ قدیم مفسرین کا عام طرز عمل رہا ہے۔چنانچہ خود ابن جریرؒ نے اپنی تفسیر میں سیکڑوں اشعار سے استفادہ کیا ہے۔صحابہ اور سلف صالحین اس تفسیر کو پسند کرتے تھے جو نظم قرآن کے مطابق، کلام عرب اور زبان وادب کے معروف قواعد کی روشنی میں کی گئی ہو۔فاضل مصنف نے مختلف مثالوں کے ذریعہ اس کی وضاحت کی ہے کہ عربی زبان وادب میں درک کی وجہ سے کیسے قرآن کریم کے صحیح مفہوم تک رسائی ہو جاتی ہے۔ اسی سلسلے کا ایک مضمون ’’اسلوب قرآن کے بعض گوشے‘‘ کے عنوان سے ہے۔ کلام کے صحیح معنی ومفہوم تک رسائی کے لیے اسلوب کلام سے واقفیت ناگزیر ہے۔اسلوب کلام کو پیش نظر نہ رکھنے کی وجہ سے بعض مفسرین سے معنی کے فہم میں زبردست تسامح ہوا ہے۔ فاضل مصنف نے مختلف مثالوں کے ذریعہ اس کی نشان دہی کی ہے اور اسلوب کلام کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس کے بغیر فہم قرآن کی کلید ہاتھ نہیں آسکتی۔ایک مقالہ ’’قرآن کریم کے بعض مقامات اور ہمارے مفسرین‘‘ کے عنوان سے ہے۔یہ مقالہ درحقیقت تفاسیر کے تقابلی مطالعہ کے سمت میں ایک عمدہ پیش رفت ہے اور فاضل مصنف نے مختلف تفاسیر سے استفادہ کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ مفسر قرآن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بعض جگہ اسلوب کلام،حرف یا الفاظ کے صحیح مفہوم سمجھنے سے عاجز رہ گئے ہیں ۔انہوں نے اس کی مختلف مثالیں پیش کی ہیں اور اس بات پر زور دیا ہے کہ مقامی طور پر ایسے فضلاء یکجا ہوکر اپنا ورکشاپ بنائیں جو عربی نحو وصرف، زبان وادب اور بلاغت ومعانی پر عبور رکھتے ہوں۔پھر وہ اپنی علمی قابلیت اورسلف صالحین کے مساعی جمیلہ سے استفادہ کرتے ہوئے متفق الفکر، متفق النظام ہوکر بحث وتمحیص کے ذریعہ ایک ایک لفظ اور ایک ایک آیت کے مفہوم ومدعا کو حتمی شکل دے دیں۔(ص۱۹۶)
اس کے بعد ’’غزوہ بدر-ایک جدید تحقیق‘‘ کے عنوان سے مولانا داؤد اصلاحیؒ کے نقطۂ نظر کا مدلل جائزہ لیتے ہوئے علامہ شبلیؒ، فراہیؒ اور مولانا مودودیؒ کے افکار کا خلاصہ پیش کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ داؤد اصلاحی کا یہ نقطۂ نظر غزوات نبوی پر کام کرنے والے محققین اور اسکالرس کے لیے غور وفکر کا ایک وسیع زاویہ نظر دیتا ہے اور تحقیق وجستجو کی نئی جہت عطا کرتا ہے۔اس کے بعد امام فراہیؒ کی اسالیب القرآن کی روشنی میں بعض اسالیب مثلا واؤ عاطفہ، حذف، نفی اور تقدیم وتاخیر کی وضاحت پیش کی ہے اور مثالوں کے ذریعہ اس کو واضح کیا گیا ہے کہ امام فراہیؒ کی رائے کس قدر ٹھوس، مدلل، واضح اور موقع ومحل کے اعتبار سے انسب ہے۔اس کے بعد تدبر قرآن میں ترجمہ وتفسیر سے متعلق بعض تسامحات کی نشان دہی کی گئی ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ کلام الٰہی کے مفہوم و منشا تک رسائی کی عظیم ترین انسانی کوششیں بھی کمی سے یکسر پاک نہیں ہوسکتیں۔ اس لیے اس طرح کے تسامحات سے تدبر قرآن کی اہمیت، افادیت اور مقام ومرتبہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس کے بعد شخصیات سے متعلق مقالات شروع ہوجاتے ہیں، جن میں مولانا ابوالجلال ندویؒ کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے، جنہوں نے ’’اعلام القرآن کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور معارف میں ذوالکفل، بکہ مبارکہ، الروم، حضرت ایوبؑ، ہاروت ماروت، عربی زبان کا فلسفہ کے عناوین سے ان کے وقیع مقالات شائع ہوئے جن کو اہل علم نے بہت پسند کیا۔مصنف نے مختلف اقتباسات نقل کیے ہیں جن سے ان کی قرآنی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مولانا عبد السلام ندویؒ کے تفسیری مباحث کو پیش کیا گیا ہے۔ اور انقلاب الامم، حکمائے اسلام اول ودوم اور الرازی کے حوالہ سے ان کے تفسیری مباحث، رجحانات واشارات پر گفتگو مرکوز رکھی گئی ہے۔علامہ کوثر ندویؒ کا تعارف کرایا گیا ہے، مولانا صدرالدین اصلاحیؒ کی ناتمام تفسیر ’’تیسیر القرآن‘‘ کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے، مولانا جلیل احسن ندویؒ کی قرآنی بصیرت کو اجاگر کیا گیاہے، نظم قرآن سے متعلق مولانا مودودیؒ کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کی گئی ہے اور مولانا شمس پیرزادہؒ نے دعوت القرآن میں اقامت دین کی اصطلاح پر جو نقد کیا ہے اس کا علمی انداز میں محاکمہ کیا گیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ’’موجودہ دور میں تحریک اسلامی نے اقامت دین کی اصطلاح اس وجہ سے اختیار کی ہے کہ یہ تعبیر ایک طرف نص قرآنی ’’اقیموا الدین‘‘ سے ماخوذ ہے اور ثانیاً یہ تعبیر کوئی آج کی نئی تعبیر نہیں ہے بلکہ امت مسلمہ کے مقصد اور نصب العین کے لیے یہ تعبیر خود رسالت مآب ﷺ نے استعمال فرمائی ہے۔ ثالثا نبی ﷺ کے مشن کے لیے اس سے زیادہ جامع اور اس سے بہتر کوئی اور تعبیر، کوئی اور اصطلاح ہو ہی نہیں سکتی‘‘ ۔(ص۳۸۷)
مختصر یہ کہ اس کتاب میں شخصیات کی قرآنی خدمات اور قرآنی بصیرت کا ذکر ہے، بعض قرآنی اسالیب اور مقامات تفسیر سے بحث کی گئی ہے، تفاسیر کے تقابلی مطالعہ کی کوشش ہے، فہم قرآن کے سلسلہ میں عربی زبان وادب اور اسلوب کلام کی اہمیت پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔اور تزکیہ نفس،حضرت ابراہیمؑ کی وصیت، اولین مکی سورتوں کا پیغام، تکریم انسانیت، فلسفہ عروج وزوال، اسلامی ریاست کی خصوصیات، فساد فی الارض کی تعریف وجہات اور اسلام میں عورت کے مقام ومرتبہ کو قرآن کریم کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔چونکہ مصنف گرامی کو قرآن کریم کی درس وتدریس کا طویل تجربہ ہے اس لیے اپنی بات کو صحیح انداز سے پیش کرنے اور مخاطب کو دلائل سے قائل کرنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔ کتاب میں اس کا مشاہدہ جا بجا کیا جاسکتا ہے۔ امید ہے کہ فاضل مصنف کی اس کتاب کو علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

 

***

 چونکہ مصنف گرامی کو قرآن کریم کی درس وتدریس کا طویل تجربہ ہے اس لیے اپنی بات کو صحیح انداز سے پیش کرنے اور مخاطب کو دلائل سے قائل کرنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔ کتاب میں اس کا مشاہدہ جا بجا کیا جاسکتا ہے۔ امید ہے کہ فاضل مصنف کی اس کتاب کو علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 اپریل تا 04 مئی 2024