خبرونظر

پرواز رحمانی

عربوں کی دولت
انسانی گروہوں میں اللہ رب العزت نے قدرتی وسائل کے لحاظ سے سب سے زیادہ عربوں کو نوازا ہے لیکن المیہ یہ ہوا کہ انہوں نے اس نعمت کی قدر نہیں کی۔ اس دولت کا انہوں نے ہمیشہ منفی استعمال کیا۔ اللہ کے رسول کی بعثت کے بعد جنگوں میں انہیں شکست دینے کے لیے یہ دولت استعمال کی۔ ماضی قریب میں دو بڑی عسکری اور مالی قوتیں باہم برسر پیکار ہوگئیں لیکن ان کے مابین یہ معاہدہ خفیہ طے پایا کہ کوئی تیسری قوت کسی بھی لحاظ سے اٹھنے نہ پائے ۔ یہ تیسری قوت عربوں کی ہی ہوسکتی تھی، اس لیے انہیں عیش و عشرت اور کھیل تماشوں میں جھونک دیا۔ عرب دنیا دن بدن اس میں گرتی رہی۔ دینی اور عصری تعلیمی اداروں کے قیام کا انہیں خیال تک نہ آیا۔ دشمن قوتیں بھی ان کی تاک میں رہیں۔ انہوں نے کہیں کوئی یونیورسٹی انہیں بنانے نہیں دی۔ اب عربوں پر کرکٹ کا کھیل سوار کیا گیا ہے لیکن وہ بھی صرف ان کی دولت اور زمین کی حد تک نہ عرب دنیا میں کسی کرکٹ ٹیم کا قیام تو دور کی بات کوئی انفرادی کھلاڑی بھی پیدا نہیں ہوا۔ کرکٹ کے جوئے باز عربوں سے سالانہ کروڑوں ڈالر لوٹ لیتے ہیں۔

قطر کو یہ کیا سوجھی
ویسے دنیا کا سب سے بڑا کھیل فٹ بال ہے کرکٹ نہیں ہے۔ کرکٹ صرف 15،16ملکوں میں کھیلا جاتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کو اس کھیل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یورپ نے صرف برطانیہ کو سامنے رکھا ہوا ہے تاکہ بھرم رہے۔ دنیا کا سب بڑا ورلڈ کپ فیفا ہے جو افریقہ، یورپ، عرب دنیا اور نیگرو اقوام میں کھیلا جاتا ہے۔ کرکٹ کو جواریوں نے غریب ملکوں کا پیسہ لوٹنے کے لیے مشہور کھیل بنادیا ہے۔ انڈین کرکٹ اسوسی ایشن دنیا کی سب سے مالدار کرکٹ ہے۔ کرکٹ کو عالمی سطح پر وہ مقام حاصل نہیں ہوا جو فٹبال کو حاصل ہے۔ اس بار فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی قطر کررہا ہے۔ جو بہت سوں کے لیے تعجب انگیز ہے اس لیے کہ کرکٹ پر دولت مٹی کی طرح اڑانے کا کام دوسرے مالدار عرب ملکوں نے اپنے ذمے لیا ہے۔ قطر دنیا کی سب سے سنجیدہ اور اسلام پسند مملکت سمجھی جاتی ہے۔ دوسرے عرب ملکوں کی طرح اسرائیل کے ساتھ اس کی دوستی بھی نہیں ہے۔ اس کے حکمراں عیش و عشرت سے بھی دور رہتے ہیں پھر اسے یہ کیا سوجھی کہ فیفا کی میزبانی قبول کرلی۔ جس میں صروف دولت برباد کی جاتی ہے۔ حاصل کچھ نہیں۔ فیفا کی میزبانی بدمعاشیوں کے لیے بھی مشہور ہے۔

یہ کام قطر کو زیب نہیں دیتا
کہا جاتا ہے کہ قطر نے فیفا کے انعقاد کے لیے اس کے انفراسٹرکچر پر دو سو بلین ڈالر اب تک صرف کردیے ہیں۔ یہ تاریخ کا سب سے مہنگا ورلڈ کپ ہے۔ برما کی طرح لٹی پٹی مسلم آبادی پرقطر نے کیا دو بلین بھی خرچ کیے ہیں۔ کیا قطر میں شیخ یوسف القرضاوی کے اثرات بالکل ہی ختم ہوگئے؟ قطر اگرچہ چھوٹی مملکت ہے لیکن اپنے مضبوط کردار اور اسلامی غیرت و حمیت کی وجہ سے پوری امت مسلمہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ وہ فضول کاموں سے بچتی رہی ہے۔ مگر اب فیفا کی میزبانی کی اسے اچانک کیا سوجھی؟ دو سو بلین ڈالر کوئی معمولی رقم نہیں ہے اس سے کئی غریب ملک پل سکتے ہیں۔ کئی غریب مسلم آبادیوں کو بڑا سہارا مل سکتا ہے۔ قطر پر فیفا کی میزبانی کے لیے آخر کس کا دباو تھا۔ درست ہے کہ فیفا یا کسی بھی عالمی کپ کے لیے میزبان کچھ آمدنی بھی ہوجاتی ہے لیکن یہ آمدنی سٹے باز اور جواری قطر کو کھانے نہیں دیں گے۔ اچھا ہوتا اگر قطر یہ کام کسی عادی جواری مملکت کے لیے چھوڑ دیتا۔ قطر کے حکمراں شریف اور ذمہ دار لوگ ہیں۔ انہیں ان فضول کاموں میں نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ کام اسرائیل کے عرب دوستوں کو زیب دیتا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 جون تا 18 جون  2022