کیرالہ اسٹوری ۔۔!

کیا بھارتی سنیما مسلم مخالف پروپیگنڈہ مشنری میں تبدیل ہورہا ہے؟

نور اللہ جاوید، کولکاتا

ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے لیے تاریخ اور حقائق سے چھیڑ چھاڑ
بالی ووڈ کے ساتھ ساتھ علاقائی سنیما میں بھی مسلم مخالف اور جارحانہ قوم پرستی پر مبنی فلم سازی کے رجحان میں اضافہ
کیا مسلم امّت پروپیگنڈہ مہم کا جواب دینے کے منصوبے پر کام کرے گی ؟
سیاسی رجحانات سے سنیما کا متاثر ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہردور میں سیاست سے سنیما متاثر ہوتی رہی ہے ۔حکمرانوں نے تاریخ کے مختلف مراحل میں سنیما کو پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کیا ہے کیوں کہ تصاویر، حرکت اور آواز میں وہ قوت ہے جس کے ذریعہ آسانی سے انسانوں کے دل و دماغ پر دستک دی جاسکتی ہے۔ دیگر فنون و لطیفہ کے برعکس سنیما میں فوری وقوع کا احساس دلانے اور قدرتی طور پر متاثر کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ فلمیں حقیقت کا بھرم پیدا کرتی ہیں۔ بھارت میں سنیمانے سو سالوں کا سفرطے کرلیا ہے۔ایک صدی پر مشتمل اس دورانیے میں بھارتی سنیمانے جدید تکنیک ، فنکارانہ خوبیوں ، ناظرین کے حلقہ کو وسیع کرنے کے اعتبار سے کافی ترقی کی ہے ۔چناں چہ بھارتی سنیما اپنی وسعت اور تکنیک کے معاملہ میں ہالی ووڈ کا مقابلہ کررہا ہے ۔دنیا کے بڑے فلم فیسٹول میں بھارتی سنیمااور بھارتی فلمی اسٹاروں کی دھوم ہے۔بھارتی ادکاروں اور فن کاروں نےدنیا بھر میں اپنے مداح پیدا کیے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی موضوعات کے اعتبار سے بھی اس نے کئی مراحل طے کیے ہیں۔ ہر مرحلے میں غالب موضوع کے ایک خاص پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔ برطانوی دور میں بننے والی فلموں میں مرکزی پیغام مذہب اور مذہبی شخصیات کے گرد گھومتا تھا، جس نے بھارتی معاشرے پر پارسی تھیٹر کے اثرات کو ظاہر کیا۔ ہندی سنیما کا اگلا مرحلہ، آزاد بھارت میں، فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مبنی فلموں کا تھا تاہم پچھلی چند دہائیوں میں، ایک نیا رجحان سامنے آیا جس میں فلمیں اسلاموفوبیا کو ہوا دینے اور فرقہ وارانہ اختلاف پر مرکوز ہونے لگی ہیں۔2014کے بعد بالی ووڈ اور دیگر علاقائی سنیما میں تاریخی واقعات اور شخصیات کے نام فلم سازی کا ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے۔ ان فلموں میں شاطرانہ طریقے سے تاریخی حقائق اور واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔تاریخ کے نام پر بننے والی فلموں میں غیر ملکی حملوں اور قبضوں کا ہندوتوا ورژن پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ایک ایسے ہندو بھارت کی صورت گری کی جا سکے جس کا ان کے خیال میں ایک جنونی مسلمان گروہ نے محاصرہ کر رکھا تھا۔ یہ تمام فلمیں تباہ کن لڑائیوں میں مسلمانوں کے لشکر کا سامنا کرنے والے خود کے فرض کیے ہوئے نیک ہندو بادشاہ پر اختتام پذیر ہوتی ہیں۔ان فلموں نےقوم پرستی کے جذبات کو متاثر کیا۔ قرون وسطٰی کے مسلم حکمرانوں کو ہندو سماجی نظام کو برباد کرنے والے ویلن کے طور پر دکھایا گیا ہے۔
فلموں پر نظر رکھنے والے محققین نے نشاندہی کی ہے کہ ان فلموں نے مسلم کمیونٹی کے بارے میں افسانوں کو جنم دیا ہے۔بھارتی سنیما کے فلم سازوں نے خود کو ہندو قوم پرست منصوبوں کے ساتھ جوڑ کر عوام کا استحصال کرکے بہت زیادہ منافع کمانے کا ایک طریقہ ڈھونڈلیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ تحریک آزادی کی جدو جہد کو بھی فرقہ واریت کی بائنری میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ ’’رانی لکشمی بائی‘‘ جیسی خاتون پر بننے والی فلم میں انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہد اور اس میں ملک کے تمام طبقات کی شرکت اور تعاون کو نظر انداز کرکے گئو کشی اور ہندوتوا کے نظریات کو فروغ دیا گیا ہے۔اسی طرح گزشتہ سال کے اواخر میں پردہ سیمیں پر دھوم مچانے والی فلم ’آر آر آر‘ کہنے کو تو مجاہدین آزادی کی کہانی پر مشتمل ہے مگر اس میں بڑی چالاکی سے ذات پات کی تفریق کو جواز بخشنے کی کوشش کی گئی ہے۔بھارتی سنیما بالخصوص بالی ووڈ میں مکمل طور پر ہندو دائیں بازو نظریہ کو اختیار کرکے مسلمانوں کو غیر بنانے کا مستقل رجحان مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ سنیما کو دیکھنے والے زیادہ تر ناظرین کی طرف سے بھی اس طرح کے تعصبات و خرافات کی تائید ہو رہی ہے۔
آج بھارتی سنیما مواد کے اعتبار سے بحران کے دور سے گزر رہا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ وہ عوام کے لیے معیاری سیرو تفریح کا سامان پیدا کرنے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ چناں چہ اپنی اس ناکامی کے تدارک کے لیے ایک طرف عریانیت و اخلاق باختہ مودا کا سہارا لے کر نوجوانوں کو لبھانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو دوسری طرف سیاست دانوں کے اشاروں پر انتہا پسندی و قوم پرستی کے ایجنڈے کی مقصد براری کے لیے ہندوؤں کی دیو مالائی کہانیوں کو حقیقت کا روپ دے کر نفرت انگیز ماحول کو ہوا دیتے ہوئے ملک کے عوام کو منقسم کیا جا رہا ہے۔ باجی راو مستانی، پدماوت، سوریہ ونشی جیسی فلموں میں مسلم شخصیات کی شبیہ کو منفی طور پر اجاگر کرتے ہوئے مسلمانوں کے کردار کو جس طریقے سے پیش کیا گیا ہے اس سے نہ صرف تاریخی حقائق کو نقصان پہنچا ہے بلکہ مسلمانوں کی غلط تصویر پیش ہوئی ہے اور مستقبل میں اس کے مضر اثرات سامنے آنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ کشمیر فائلز کے بعد دی کیرالا اسٹوری جیسی فلموں کو سرٹیفکیٹ کا دیا جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ آج بھارتی سنیما مسلم مخالف پروپیگنڈہ مشنری میں تبدیل ہوگیا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بورڈ نے تمام قوانین و ضوابط کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔
تاریخی واقعات اور ماضی کے حادثات پر فلم سازی سے ایک قدم آگے بڑھ کر اب آر ایس ایس اور بی جے پی کے پسندیدہ موضوعات ’لو جہاد‘، ’گھر واپسی‘ ، ’مسلمان ملک کے لیے خطرہ‘ ، ’گئو کشی‘ اور جارحانہ قوم پرستی جیسے ایشوز کو سامنے رکھ کر فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔ سمراٹ پرتھوی راج، رام سیتو، کوڈ کا نام: ترنگا اور برہمسترا پارٹ ون: شیوا جیسی فلمیں اسی منصوبے کا حصہ ہیں۔اس فلم میں قوم پرستی اور ہندوتوا جیسے تصورات کا احاطہ کیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک طرف سپریم کورٹ نفرت انگیز تقاریر پر سختی دکھاتے ہوئے پولیس کو از خود کارروائی کرنے کی ہدایت دے رہی ہے تو دوسری طرف وہ دو فرقوں کے درمیان اجتماعی طور پر نفرت انگیزی کو بڑھاوا دینے والی فلموں پر ’اظہار رائے کی آزادی‘ کے نام پر پابندی لگانے سے انکار کر رہی ہے۔عدالتوں کے پورے احترام کے ساتھ عرض ہے کہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالتیں اس طرح کی فلموں سے سماج پر مرتب ہونے والے اثرات کی سنگینی کا احساس کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔معاشرے میں جہاں سیاسی بیان بازی کی وجہ سے نفرت انگیز ماحول پیدا ہوتا ہے وہیں نفرت انگیز فلموں سے لوگوں کے دل و دماغ کہیں زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔انفرادی طور پر پھیلائی جانے والی نفرت سے کہیں زیادہ اجتماعی نفرت انگیزی سنگین ہوتی ہے۔ اس طرح کی پروپیگنڈہ فلموں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے اور حکومت کے ایما پر ہی ایسی فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ ٹیکس معافی کے ساتھ انہیں ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ایسے میں مسلمانوں کے سامنے بھی کئی سوالات ہیں کہ وہ پروپیگنڈہ پر مبنی فلموں کا جواب کس طریقے سے دیں گے؟ میڈیا کی اس صنعت کا استعمال کرکے تاریخی حقائق اور سچائی کو سامنے لانے کا کوئی منصوبہ آیا ان کے پاس موجود بھی ہے یا نہیں؟ یا پھر وہ خاموش تماشائی بن کر صرف اپنی بے بسی کا نوحہ پڑھتے رہیں گے۔ یہ صورت حال جہاں بھارتی سنیما کے زوال کی عکاسی کرتی ہے وہیں مسلمانوں کے سامنے بھی کئی سوالات کھڑے کرتی ہے۔ یہ سوالات اس لیے اہم ہیں کہ جس تسلسل کے ساتھ بھارتی سنیما میں سنگھ پریوار کے نظریات کو فروغ دیا جا رہا ہے اور مسلم مخالف قوم پرستی اور تاریخی شخصیات کے نام پر بننے والی فلموں میں انہیں ہندوؤں کے قاتلوں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سے ملک میں نہ صرف نفرت انگیزی کے ماحول میں شدت آئے گی بلکہ ملک کے دو بڑے طبقات کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوگا۔ بدامنی اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
’کیرالا اسٹوری‘ اظہار رائے کی آزادی اور آئین
گزشتہ کئی برسوں سے کیرالا میں دائیں بازو کی جماعتیں قدم جمانے کی کوشش کررہی ہیں۔اس مقصد کےلیےبڑے پیمانے پر فرقہ واریت ، لوجہاد اور مسلم انتہا پسندی جیسے "خطرات” کا ہوا کھڑا کیا جارہا ہے۔ ’لو جہاد‘ کے نام پر سب سے زیادہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ پھیلایا گیا ہے۔’تبدیلی مذہب‘ کے انفرادی واقعات کو ’لوجہاد‘ اور منظم سازش سے جوڑ کر یہ بیانیہ مرتب کیا گیا کہ کیرالا میں ہندو لڑکیوں کو محبت کے فریب میں پھنساکر مسلمان بنایا جارہا ہے۔ ’’ہادیہ کیس‘‘ میں ملک کی سب سے بڑی ایجنسی این آئی اے کو جانچ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔ حکومت کی خفیہ رپورٹس سے بھی یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ’لوجہاد‘ کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے ۔ ملک کے سابق وزیر داخلہ اور مودی حکومت میں وزیر دفاع جیسے اہم عہدہ پر فائز راج ناتھ سنگھ وزارت داخلہ کے انچارج رہنے کے دوران یہ واضح کرچکے ہیں بھارت میں مسلمانوں اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود داعش کے فریب میں پھنسنے والوں کی تعداد پوری دنیا میں سب سے کم ہے۔اس کے باوجود پروپیگنڈہ کا سلسلہ جاری ہے۔ اب اس پروپیگنڈہ کو آگے بڑھانےکےلیے سنیما کا سہارا لیا گیا ہے۔’’دی کیرالا اسٹوری‘‘ کے ذریعہ لوجہاد اور مسلم ہونے والی خواتین کو دہشت گردتنظیموں کے ہاتھوں یرغمال بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔پہلے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کیرالا میں 32ہزار ہندو ، عیسائی لڑکیوں کو مسلم بناکر دہشت گردی میں ملوث کیا گیا ۔جب اس اسٹوری پر چوطرفہ تنقید کی گئی توتین افراد کی اسٹوری بتاکر یہ کہنے کی کوشش کی گئی تعداد کے بجائے اس معاملے کی حساسیت کو سمجھا جائے۔ ویڈیو میں شالنی اننی کرشنن کا مرکزی کردار ادا کرنے والی ادا شرما کو یہ کہتے ہوئے دیکھا گیا کہ ’میں اکیلی نہیں ہوں، میری طرح 32 ہزار لڑکیاں ہیں جو پہلے ہی مذہب تبدیل کر کے شام اور یمن کے صحراؤں میں دفن ہو چکی ہیں۔ اس فلم کے ڈائریکٹر سدیپتو سین ایک انٹرویو میں کہتے ہیں ’’یہ تعداد اہم نہیں ہے۔ ہاں، ہم نے کہا کہ32ہزار لڑکیاں اپنا گھر چھوڑ کر چلی گئیں، لیکن ہم نے یہ نہیں کہا کہ وہ آئی ایس میں شامل ہوئیں۔ ہم نے ان لڑکیوں کا ٹھکانہ جاننے کے لیے آر ٹی آئی بھی دائر کی تھی۔ لیکن کیرالا پولیس نے ابھی تک ہمیں لاپتہ ہونے والی لڑکیوں کی صحیح تعداد نہیں بتائی ہے۔ ہمیں تعداد کے بجائے مسئلے پر بات کرنی چاہیے۔ اگر یہ صرف سو لڑکیوں کے ساتھ ہوا تو کیا معاملہ کی سنگینی کم ہو جائے گی؟ نمبروں پر زور دینے کے بجائے، ہمیں ان لڑکیوں کے درد اور ان کے ساتھ کیا ہوا اس کے بارے میں بات کرنی چاہیے‘‘۔
مگر سوال یہ ہے کہ اگر کسی دعویٰ کے پس منظر میں دلیل اور حقائق نہیں ہے تو وہ دعویٰ ردی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے قابل ہے۔اگر اس کو ردی میں نہیں پھینکا جاتا ہے تو وہ جھوٹ حقیقت کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور پھر اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔کیرالا میں بڑے پیمانے لڑکیوں کے اسلام قبول کرنے اور پھر ان کے داعش جیسی تنظیموں سے جوڑنے سے متعلق کسی بھی دعویٰ کا ثبوت پیش کرنے میں فلم ساز ناکام ہیں ۔وہ اپنا سورس نہیں بتارہے ہیں ۔اسمبلی میں پیش کردہ ایک رپورٹ کا آدھا ادھورا حوالہ دیا جارہا ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق کیرالا کے سابق سابق وزیر اعلیٰ اومن چانڈی نے 2012میں اسمبلی کہا تھاکہ کیرالا میں 2009 سے اب تک(یعنی 2012تک) 2,667 نوجوان خواتین نے اسلام قبول کیا ہے۔ان اعداد و شمار کو سالانہ بتا کر دس سالوں میں ضرب کرکے 32ہزار کا دعویٰ کیا گیا ہے۔جب کہ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اومن چانڈی نےکہا تھاکہ ریاست میں زبردستی تبدیلی مذہب کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہےاور ’لوجہاد‘ کی تھیوری مکمل طور پر غلط ہے۔اس دعوے کو اگر جنوبی ہند کے مشہور اخبار ’’نیو انڈین ایکسپریس‘‘ کی رپورٹ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت معلوم ہوجائے گی یہ اعدادو شمار ٹھوس بنیادوں پر قائم نہیں ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2020 میں کیرالا میں تبدیلی مذہب سے ہندو مذہب کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ اس سال ریاست میں مذہب کی تبدیلی کے لیے رجسٹر ہونے والے 506 افراد میں سے 241 نے ہندو مذہب اختیار کرنا چاہا جب کہ 144 افراد نے اسلام قبول کیا اور 119نے عیسائیت اختیار کی۔اسی طرح داعش سےوابستگی سے متعلق اگر وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ پر بھروسہ کیا جائے تو مئی 2014 سے دسمبر 2019 کے درمیان آئی ایس سے تعلق رکھنے والے کل 177 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ گرفتاریاں تمل ناڈو سے کی گئیں، جہاں گرفتاریوں کی تعداد 34 رہی۔ فہرست میں مہاراشٹر دوسرے نمبر پر ہے جہاں 26 گرفتاریاں ہوئی ہیں، اس کے بعد اتر پردیش (25)، کیرالا (19) تلنگانہ (17) اور جموں و کشمیر (11) ہیں۔ تمل ناڈو میں یہ تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سال 2019 میں این آئی اے کی طرف سے کی گئی گرفتاریاں کی گئی ہیں کے تناظر میں کیرالا اسٹوری کے دعوے کا دوسرا حصہ بھی منہدم ہوجاتا ہے ۔ آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے ذریعہ کرائے گئے ایک سروے میں جس کا عنوان ’’دی اسلامک اسٹیٹ ان انڈیاز کیرالا‘‘ کے مطابق ہندوستان میں تقریباً دو سو ملین کی بڑی مسلم آبادی میں داعش کے حامیوں کی تعداد مٹھی بھر ہے۔چناں چہ اس فلم کے ذریعہ کیے جانے والے دونوں دعوے غلط اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔اگرچہ اس وقت ’’دی کیرالا اسٹوری‘‘ کی مخالفت کیرالا کی حکمراں جماعت سی پی آئی ایم اور اپوزیشن کانگریس دونوں کررہے ہیں اور اس کو کیرالا کی شبیہ بگاڑنے اور سماجی تانے بانے بگاڑنے کا قدم قرادے رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اومن چانڈی ہو یا پھر سی پی آئی ایم کے سینئر لیڈر اچوتھانند یہ سب سیاسی فائدے کے لیے ماضی میں متنازع بیانات دے کر آر یس ایس اور سنگھ پریوار کے افواہوں کو تقویت بخش چکے ہیں۔
اس فلم پر پابندی عائد کرنے کے لیے دائر عرضیوں کو سپریم کورٹ اور کیرالا ہائی کورٹ نے مسترد کردیا ہے۔ کیرالا کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین بھی اس معاملے میں اپنی بے بسی ظاہر کرچکے ہیں۔ تاہم ماہرین قوانین بتاتے ہیں کہ بادی النظر میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ ’’کیرالا اسٹوری میں غلط معلومات دی گئی ہیں جس سے نفرت انگیز ماحول پیدا ہونے کا امکان ہے ۔سپریم کورٹ کے وکیل کالیشورم راج کہتے ہیں کہ یہ تعجب خیز ہے کہ ان حقائق کے باوجود سنسر بورڈ اس کو موجودہ شکل میں منظور کیسے کرسکتی ہے۔انہوں نے اس فلم پر پابندی کے مطالبے کی عرضی کی سماعت کے دوران دلیل دیتے ہوئے کہا کہ وہ مکمل پابندی نہیں مانگ رہے ہیں لیکن یہ کہہ رہے ہیں کہ سی بی ایف سی کے ذریعہ مزید کٹوتیاں ہونی چاہئیں کیوں کہ فلم کے ٹریلر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ سچی کہانیوں پر مبنی ہے جب کہ اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے عدالت میں کہا کہ اگر عدالت کو لگتا ہے کہ یہ نفرت انگیز تقریر نہیں ہے تو پھر کسی اور چیز کو نفرت انگیز تقریر نہیں سمجھا جائے گا۔ کالیشورم کہتے ہیں کہ یہ ایک پروپیگنڈا فلم ہے جس میں حقائق، غیر حقائق اور افسانے کو گڈمڈ کر دیا گیا ہے۔ اصطلاح کے وسیع تر معنوں میں یہ نفرت انگیز تقریر کے مترادف ہو سکتا ہے۔لائیو لا کے مینیجنگ ایڈیٹر مانو سیباسٹین کہتے ہیں کہ نفرت انگیز تقریر کی قانون میں کوئی واضح تعریف نہیں ہے۔ لیکن تعزیرات ہند 153A اور 153B کی تشریح میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی بیان، تقریر، یا اظہار جو گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دیتا ہے یا جو کسی خاص کمیونٹی کو خطرناک اور ملک دشمن کے طور پر پیش کرتا ہے۔ افسانے کے کام کے معاملے میں اگر کام کا پورا حصہ کسی خاص گروہ کو نشانہ بنانے اور کسی قسم کی فرقہ وارانہ نفرت کو فروغ دینے کا اثر رکھتا ہے تو یہ نفرت انگیز تقریر کے مترادف ہو سکتا ہے۔ اسی لیے سنیماٹوگراف ایکٹ کہتا ہے کہ ایسی فلموں کو سرٹیفائیڈ نہیں کیا جانا چاہیے۔
بھارتی سنیما پروپیگنڈہ مشنری میں کیسے تبدیل ہوا؟
دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمن نے یہودیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار اور جرمن قوم پرستی کے فروغ کے لیے سنیما کا سب سے زیادہ سہارا لیا ۔نازی جرمن کے پروپیگنڈہ وزیر گوئبلز کا خیال تھا کہ فلموں کا عوام پر اثر انداز ہونے میں زیادہ کردار ہوتا ہے۔ گوئبلز نے خالص جرمن نسل کی بنیاد پر قومی شناخت بنانے کے لیے اس میڈیم کا استعمال کیا۔ہٹلر کے اقتدار میں آنے سے پہلے کئی ہدایت کاروں نے جرمن معاشرے پر انتہائی دائیں بازو کی گرفت کی وجہ سے یہود مخالف فلمیں بنائیں۔ گوئبلز نے خصوصی ہدایات جاری کیں کہ کس طرح کی فلمیں بنائی جائیں گی ۔چناں چہ اس دور میں ایسی ایسی فلمیں بنائی گئیں جس میں یہودیوں کے خلاف کھلے عام جھوٹ بولے گئے تھے، ان فلموں کا مقصد عوام کو ہٹلر کے ’’عظیم مقصد‘‘ کے بارے میں قائل کرنا تھا۔ نازی پارٹی جرمن نسلی پاکیزگی اور اس کے نسلی فخر کے بارے میں مسلسل بات کرتی تھی۔ جرمن قوم پرستی نے یہودیوں، روما اور خانہ بدوشوں کی شہریت کو خارج کردیا۔یہودیوں اور غیر قوموں کے درمیان ازدواجی تعلقات کو نسلی پاکیزگی کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ ہٹلر کو جرمن معاشرے میں خدا جیسی شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا اور نازی ایک اعلیٰ اخلاقی گروہ تھے جو امن اور مساوات کے لیے لڑ رہے تھے۔ سواستیکا نشان کو فلموں میں آریائی نسلی فخر کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ نسلی پاکیزگی کے لیے جرمن خواتین کو یہودیوں اور دیگر اقلیتوں سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔ ایسی ہی ایک فلم ہے ٹرائمف آف دی وِل (1935) ہدایتکار لینی ریفنسٹہل کی، جس نے ایڈولف ہٹلر اور نازی پارٹی کی تعریف کی تھی۔ ہٹلر کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ یہ فلم نہ صرف جرمنی بلکہ فرانس اور بیلجیم میں بھی مقبول ہوئی تھی۔ دوسری فلمیں اقلیتوں بالخصوص یہودیوں کو غیر انسانی اور شیطانی بنانے کے لیے بنائی گئیں۔ نازیوں کے علاوہ پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے بھی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے سنیما کا سہارالیا تھا۔1920 کی دہائی میں سوویت یونین نے کمیونسٹ نظریات کو پھیلانے کے لیے فلموں کو استعمال کرنا فن شروع کیا تھا۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ ہندو قوم پرست جماعتیں نازی جرمن کو اپنا ہیرو اور آئیڈیل مانتے رہے ہیں اور بہت سارے معاملات میں نازی جرمن کے فارمولے اور منصوبے کو روبہ عمل لایا گیا ہے۔ چناں چہ 2014میں نریندر مودی کے وزارت عظمی کی کرسی سنبھالنے کے ساتھ ہی بالی ووڈ کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ بالی ووڈ اصل بھارت ہے جہاں مذہب و نسل اور علاقائیت کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ یہاں ہر ایک صلاحیت مند کا استقبال ہے اور وہ اپنی محنت و لگن سے جگہ بنا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں آزادی کے ابتدائی سالوں میں راج کپور اور دلیپ کمار جیسے سرکردہ فلمی ستاروں اور مغل اعظم جیسی فلموں نے بھارتی فلمی صنعت کی اعلیٰ تکثیری اخلاقیات پر مبنی فلم سازی کے ماحول کے لیے حالات ساز گار بنایا۔ مگر کہتے ہیں کہ تبدیلی ناگزیر ہے ۔بھارت کی سیاست میں تبدیلی کے اثرات سے بالی ووڈ بھی متاثر ہوتی چلی گئی۔پولیٹکل سائنس سنٹر فار اسٹڈیز ان سوشل سائنس کلکتہ میں پروفیسر معید الاسلام نے اپنی کتاب Indian Muslims after Liberalization میں 1990 کے بعد ہندی سنیما کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بالی ووڈ سنیما میں بھارتی مسلمانوں کی امیج بنانے کی شکلیں اور بیانیے بڑے پیمانے پر تنقید کی مستحق ہیں۔ کتاب میں ہندی سنیما میں مسلمانوں کی بے حرمتی کے مسلسل عمل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کو ’غیر، وحشی، قانون مخالف اور ملک دشمن‘ ثابت کرنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے۔
پروفیسر معید الاسلام نے اپنی اس کتاب میں لکھا ہے کہ لبرلائزیشن کے بعد بالی ووڈ سنیما میں مسلمانوں کی نمائندگی کے رجحان میں نمایاں طور پر تبدیلی آئی ہے۔ 1990 کی دہائی اور اس کے بعد ریلیز ہونے والی ہندی فلموں میں مسلمانوں کی نمائندگی چار اہم موضوعات غالب ہے: (الف) قوم کے دشمن کے طور پر ’’مسلمان دیگر‘‘ (غیر) (ب) ایک ہندو نسل کی قوم کا خیالی تصور جہاں مسلمانوں کو شہریت کے نچلے درجے پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ (ج) مسلمان قومی ریاست کے اندر دہشت گردی کا ذریعہ ہیں۔ اور (د) مسلمان، دہشت گرد اور پاکستانی ہمدرد ہیں‘‘۔ لبرلائزیشن سے قبل ان بیانیوں کو عوام نے پوری طرح سے مسترد کر دیا تھا۔اب پاکستان مخالف فلمیں بالی ووڈ کے ہدایت کاروں کی حالیہ پسندیدہ بن گئی ہیں جو لوگوں کو خوش کرنے والا سینما بنانا چاہتے ہیں۔ ہائپر نیشنل ازم کو تفریح کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔فلموں میں پاکستان کو ایک ویلن کے طور پر دکھایا گیا ہے جس کی شکست میں ہندوستانی قومی غرور کو تسکین ملتی ہے۔ پاکستان مخالف فلمیں بھارت میں مسلمانوں کی شہریت اور ان سے تعلق کے بارے میں پریشان کن سوالات اٹھاتی ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بھارت میں رہنے والے تمام مسلمان یا تو کالی بھیڑیں ہیں یا پاکستانی ایجنٹ ہیں۔
اس مضمون میں پروفیسر معید الاسلام نے ایسی دس فلموں کا تجزیہ کیا ہے جنہوں نے تین سو کروڑ سے زائد کی کمائی کی ہے جس میں سلمان خان کی بجرنگی بھائی جان، عامر خان کی تھری ایڈیٹس، پی کے اور سلطان جیسی فلمیں شامل ہیں۔ان فلموں میں سے کسی کہانی میں مسلمان کلیدی کردار میں نہیں ہیں۔بجرنگی بھائی جان کے ابتدائی مراحل میں چاندنی چوک کو دکھایا گیا ہے ۔چاندنی چوک بھارت تہذیب و تمدن کے تنوع کا مرکز ہے اس میں مسلمانوں سے متعلق کچھ نہیں کہا گیا ہے۔دونوں فلموں میں صرف مسلمانوں کو پاکستان کے شہری اور ہندوؤں کو ہندوستان کے شہری کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سوشانت سنگھ راجپوت پی کے میں سرفراز یوسف کے طور پر اور بجرنگی بھائی جان میں تمام نمایاں مسلم کردار پاکستانی ہیں۔یہ ان بالی ووڈ بلاک بسٹروں کا بنیادی فرقہ وارانہ تعصب ہے۔پروفیسر معیدالاسلام نے ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد بالی ووڈ کے ’زعفرانائزیشن‘ کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔قوم پرستی، ہندو عزت، تاریخی ہندو شبیہیں، ماضی میں ہندو مصائب اور فوجی طاقت میں اضافہ جیسے موضوعات پر بننے والی فلموں اور اس کے فلم سازوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ’’دی نیوز من‘‘ نے بالی ووڈ کے زعفرانائزیشن اور اس پر کنٹرول کرنے کی کوششوں پر تفصیلی رپورٹ شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے واقعہ کا سہارا لے کر بی جے پی اور سنگھ پریوار نے بالی ووڈ کو اس قدر خوف زدہ کردیا ہے کہ سیکولرازم، بھائی چارہ اور مذہبی تفریق کے خلاف آواز بلند کرنے والے بالی ووڈ کی شخصیات یا تو خاموش ہو گئی ہیں یا پھر انہوں نے بھی اپنے کاروبار اور مالی فوائد کے پیش نظر وہ بھی اسی کینگ کا حصہ بن گئے ہیں۔ چناں چہ اب بیشتر فلمیں اسی طرح کی موضوعات پر مبنی ہوتی ہے۔حد یہ ہے کہ اب گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کو بھی اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ اسی سال 30 جنوری کو جس دن 1948میں مہاتما گاندھی کو قتل کیا گیا تھا، ہدایت کار راج کمار سنتوشی نے گاندھی گوڈسے، ایک یدھ کو ریلیز کیا۔
اس فلم میں ناتھورام گوڈسے کو اپنے نظریے کی وضاحت کرنے اور اپنے اعمال کا جواز پیش کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور گاندھی کو اس کے لیے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔2023 کے صرف چار مہینے میں ہندی فلم انڈسٹری میں دس سے زیادہ اس طرح کی بڑے بجٹ، بڑے بینر کی فلمیں قطار میں کھڑی ہیں۔ رندیپ ہڈا کی ’’سواتنتر ویر ساورکر‘‘ کرن جوہر کی پروڈیوس کردہ’’ اے وطن میرے وطن‘‘ سدھارتھ ملہوترا کی اداکاری والی ’’یودھا رامائن‘‘ میگھنا گلزار کی ’’سام بہادر‘‘ وکی کوشل کی’’ سام مانیک ‘‘شامل ہیں۔ آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹر ہیڈگیوار پر ایک بائیوپک فلم جو دسہرہ پر ریلیز ہونے والی ہے۔ یہ فہرست کافی لمبی ہے ۔
دلتوں کی جدوجہد سے کیا مسلم دانشور سبق لیں گے
سنیماپر عمومی طور بھارت کی نام نہاد اشرافیہ کا دبدبہ رہا ہے۔چناں چہ مسلمانوں کی طرح دلت، سنیما کا کلیدی موضوع نہیں رہے ۔ذات پات مخالف فلمیں انگلی پر گنی جا سکتی ہیں۔ دلتوں کے ساتھ تعلیمی، سماجی اور دیگر عوامی اداروں میں ہونے والے بھید بھاو جیسے موضوعات سنیما کا مرکزی موضوع نہیں بنتے۔ اگر کچھ فلمیں بنتی بھی ہیں تو اس میں ذات پات کی حقیقتوں کو ’’امیر بمقابلہ غریب‘‘ کے بیانیے میں ڈھک دیا جاتا ہے اور اس کو ترس کی عینک سے دکھایا جاتا ہے اور ساورن کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ملک جیسی فلمیں بنانے والے ابھینو سنہا کی لاک ڈاون اور کورونا کے دوران سڑکوں پر پیدل گھر پہنچنے والے عام لوگوں کی جدو جہد پرمبنی فلم پر سنسر بورڈ نے اتنی قینچی چلائی کہ فلم کی روح ہی ختم ہوگئی۔ اس فلم پر قینچی چلنی ہی تھی کیوں کہ اس میں حکومت کی ناکامی اور عام لوگوں کی جدو جہد کو دکھایا گیاتھا جسے برداشت نہیں کیا گیا۔ ان حالات میں تمل اور تلگو میں گزشتہ چند سالوں میں کچھ ایسی فلمیں بنائی گئی ہیں جن کے ذریعہ دلت سماج کے مسائل کو اجاگر کیا گیا۔ تمل فلم ’’کرنان‘‘ ناظرین کو لبھانے میں کامیاب رہی ۔اسی طرح او ٹی ڈی پلیٹ فارم پر جے بھیم نے کامیابی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ بی بی سی، خلیج ٹائمس اور دیگر بین الاقوامی میڈیا ہاوسیس نے اس کی خوب تعریف کی ہے۔ ’’جئے بھیم‘‘ آئی ایم ڈی بی پر شاشانک ریڈیمپشن (1994) اور دی گاڈ فادر (1972) کو پیچھے چھوڑ کر اب تک کی سب سے زیادہ رینک والی فلم بن گئی ہے۔ تمل فلم ’’کرنن‘‘ نے بنگلورو میں انوویٹیو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بہترین ہندوستانی فلم کا ایوارڈ جیتا ہے۔ٹالی ووڈ (تلگو فلم انڈسٹری) نے 2021 میں ذات پات مخالف موضوعات پر اب تک کی سب سے زیادہ فلمیں بنائیں۔ لو اسٹوری، اپینا اور سری دیوی سوڈا سنٹر جیسی فلموں میں دلت کرداروں کو بطور لیڈ دکھایا گیا ہے۔
دلت اگر آج تمل ، تلگو اور مراٹھا سنیما میں مرکزی موضوع بن رہے تو پھر ایسی کوئی وجہ نہیں ہے ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو زیادہ دنوں تک نظر انداز کیا جاسکے۔اگرماضی میں مائی نیم از خان اور چک دے انڈیا جیسی فلمیں آسکتی ہیں تو مستقبل میں بھی آسکتی ہیں ۔اوٹی ٹی ،سوشل میڈیا اور انٹر یٹ جیسے پلیٹ فارم کی موجودگی نے کام کو آسان کردیا ہے۔مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کا جواب ان پلیٹ فارموں کا استعمال کرکے دیا جاسکتا ہے ۔ملک میں بالخصوص آزادی کے بعد مسلمانوں پر بڑے بڑے سانحے گزرے ہیں،فسادات کا لامتناہی سلسلہ جاری رہا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ زندہ اور غیرت مند قومیں اپنے اوپر گزرنے والے سانحات کو فراموش نہیں کرتیں، بلکہ اپنے شعور میں انہیں اس طرح رچا بسالیتی ہیں کہ نسل درنسل یہ منتقل ہوتے ہیں اور پوری قوت کے ساتھ زندہ قومیں بار بار اس عزم کو دہراتی ہیں کہ ’’اب دوبارہ نہیں ہوگا‘‘۔ دی کیرالا اسٹوری، کشمیر فائلز جیسی پروپیگنڈا فلموں پرمسلمان سخت رد عمل دیتے ہیں اوراس میں کوئی حرج نہیں ہے۔تاہم سوال یہ ہے کہ اس طرح کے پروپیگنڈوں کے جواب میں ہم نے سچائی کو سامنے لانے کےلئے کیا اقدامات کئے ہیں ۔میرٹھ، ملیانہ، ہاشم پورہ، بھاگلپور، گجرات ، جمشید پور اور نیلی قتل عام جیسے سیکڑوں سانحات سے مسلمان گزر چکے ہیں لیکن نئی نسلیں ان سانحات کو فراموش کرتی جارہی ہیں۔آج ضرورت ہے کہ دین و شریعت کے دائرہ میں رہ کر مسائل کا مستقل حل نکالنے کی طرف توجہ دی جائے اور اس میں ملی و دینی جماعتوں کواہم کردار ادا کرنا ہوگا ۔

 

***

 دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمن نے یہودیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار اور جرمن قوم پرستی کے فروغ کے لیے سنیما کا سب سے زیادہ سہارا لیا ۔نازی جرمن کے پروپیگنڈہ وزیر گوئبلز کا خیال تھا کہ فلموں کا عوام پر اثر انداز ہونے میں زیادہ کردار ہوتا ہے۔ گوئبلز نے خالص جرمن نسل کی بنیاد پر قومی شناخت بنانے کے لیے اس میڈیم کا استعمال کیا۔ہٹلر کے اقتدار میں آنے سے پہلے کئی ہدایت کاروں نے جرمن معاشرے پر انتہائی دائیں بازو کی گرفت کی وجہ سے یہود مخالف فلمیں بنائیں۔گوئبلز نے خصوصی ہدایات جاری کیں کہ کس طرح کی فلمیں بنائی جائیں گی ۔چناں چہ اس دور میں ایسی ایسی فلمیں بنائی گئیں جس میں یہودیوں کے خلاف کھلے عام جھوٹ بولے گئے تھے، ان فلموں کا مقصد عوام کو ہٹلر کے ’’عظیم مقصد‘‘ کے بارے میں قائل کرنا تھا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 مئی تا 20 مئی 2023