نصابی کتابوں میں بے جاسیاسی مداخلت ‘ تعلیمی معیار پر سمجھوتہ

ترمیمات و تحریفات کے ذریعے فرقہ وارانہ منصوبوں پر عمل آوری

ایم ایم انصاری / محمد نوشاد خان

تاریخ کے حقیقی واقعات اور ماضی کے شاندار ریکارڈ کو حذف کرنے میں کوئی معقولیت نہیں
ملک کے اٹھارہ سو سے زائد سائنس دانوں، علم سائنس کے اساتذہ اور ماہرین تعلیم نے 10ویں جماعت کی کتابوں سے انسانی حیاتیاتی ارتقاء کے نظرئیے Theory of Biological Evolutionکے عنوان سے پڑھائے جانے والے حصے این سی ای آر ٹی کی جانب سے حذف کردیے جانے پرایک کھلے خط کے ذریعے اپنی شدید ناراضگی و ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ اس خط میں ان شخصیتوں نے لکھا کہ انسانی ارتقائی حیاتیات سے متعلق علم حاصل کرنا اور اسے سمجھنا، نہ صرف حیاتیات کے کسی ذیلی شعبے کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ ہمارے اطراف پائے جانے والے انسانی ماحول کو سمجھنے کے لیے نہایت مفید اور ضروری ہے۔ دراصل حیاتیات، سائنس کا ایک ایسا شعبہ ہے جس کی بنیاد پر معاشرے اوراقوام عالم کی فلاح کے لیے طبی تحقیق کی جاتی ہے اورمختلف قسم کی بیماریوں اور وبائی امراض کے علاج کے لیے ادویات کی دریافت کی جاتی ہے۔ ماحولیات کے مسائل کو حل کرنے کے علاوہ انسانی نفسیات کے مسائل کے انبار سے نمٹنے کی صلاحیت، طلباء و طالبات میں پیدا ہوتی ہے۔ اسکولوں میں طلباء کے اندر، تعلیم کے ذریعے،عام انسانوں کا احساس اور شعور بیدارکرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اس خط کے ذریعے، یہ بات ذمہ داروں کوسمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان ، اس کی زندگی اور اس کے جسم کے مسائل کو حل کرنے میں اس علم کا کیا مقام ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو واضح طور پر اس بات کا کوئی ادراک نہیں ہوتا کہ قدرتی نظام کے اصول دراصل ہمیں اس بات کو سمجھنے میں مدددیتے ہیں کہ کوئی بھی وبائی مرض یا متعدی بیماری کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ کس طرح وہ پھیلتی ہے؟اور پھر بعض بیماریاںازخود کیسے معدوم بھی ہوجاتی ہیں۔
جسمانی بیماریوں کے علاوہ یہ علم انسانی سماج کے دیگر مسائل کو بھی سمجھانے میں مددکرتا ہے۔ NCERT نے اپنی مرضی و منشاء کے مطابق، اسکولوں کے تعلیمی نظریاتی نصاب کو اپنے طور پر عقلی بتانے اور عملی ثابت کرنے کے بہانے، نصابی تعلیم کے سہارے، معاشرے کو مذہب کی بنیاد پرمنتشر کرکے ، نصابی تعلیم کو فرقہ وارانہ رنگ دینے اور سیاسی بنانے کی کوشش کی ہے۔ نام نہاد ماہرین تعلیم کے ذریعے نصابی کتابوں کے مختلف عنوانات کے تحت شامل اسباق میں حذف و اضافہ کی گہرائی اور تفصیلات میں گئے بغیر ہم یہ ظاہر کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ صاحب اقتدار حکمران طبقہ اپنی حکمرانی اورصرف اپنے منشاء کے مطابق،زہریلے ناپاک نظریات کو عام کرنے اور سیاسی منصوبوں پر عمل آوری میں مصروف ہے۔ حق تو یہ ہے کہ ماضی میں بھارت میں حکمرانی کرنے والی سلطنتوں اور مغلیہ حکومتوں کو موجودہ سیاسی جماعتوں اور ان کی حکومتوں کی جانب سے بہترین حکمرانی اور ان کے شاندار مقاصدکے خلاف، موجودہ حکومت انہیں نقصان پہنچانے کی متواتر کوششیں کررہی ہے۔
آج ہمارے اسکولوں کی نصابی کتابوں میں ’بھارت رتن‘ مولانا آزاد کا کوئی ذکر نہیں ہے، جنہوں نے گاندھی جی کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف بھارت کی آزادی کی جنگ لڑی تھی اورآزادی کے بعد ایک طویل عرصے تک بھارت کے وزیر تعلیم بھی رہے۔ مولانا آزاد کا نام پہلے گاندھی جی، جواہر لال نہرو ، سردار پٹیل اور بے آر امبیڈکر کے ساتھ اور دیگر سرکردہ قائدین کے ساتھ لیا جاتا تھا۔ ایک اور حقیقت جس کا ذکر ضروری ہے وہ یہ کہ جہاں مولانا آزاد نے وطن کے لیے ایک بہت بڑی قربانی دی تھی ۔ مولانا آزاد 1946 میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدر تھے۔ پارٹی کے دستور کی روشنی میں وہ بھارت کی آزادی کے بعد خود بخودبھارت کے پہلے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال سکتے تھے۔لیکن عین موقع پر گاندھی جی نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیں تاکہ پنڈت جواہر لال نہرو کے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہوجائے۔ چنانچہ مولانا آزاد نے فوراً انڈین نیشنل کانگریس کے صدر کی حیثیت سے استعفیٰ دیا اور پنڈت جواہر لال نہرو بھارت کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مولانا آزاد نے آزادی کے بعد ملک کی تقسیم کی شدید مخالفت کی تھی۔ بحیثیت وزیر تعلیم، انہوں نے تعلیم اور ترقی سے متعلق بیشمار پالیسیاں ترتیب دیں، اعلی تعلیم اور ابتدائی تعلیم کے لیے الگ الگ کمیشن تشکیل دئیے اور IIT آئی آئی ٹی جیسے اعلی معیاری ادارے قائم کئے۔ مولانا آزاد کے ان کارناموں کی تفصیلات کو نصابی کتابوں سے حذف کردینے سے جدید بھارت کی تعمیر میں مسلمانوں کی قیادت اور شمولیت کے کردارکو یقینا نقصان پہنچے گا۔
NCERT کی جانب سے مغلیہ دور کی تاریخ کے ابواب کو ختم کرنے سے ملک میںفرقہ وارانہ ماحول پرورش پائے گا ، آپسی نفرت کی زہریلی فضاء پروان چڑھے گی۔ موجودہ صاحب اقتدار ٹولے نے قرون وسطیٰ کی دو انتہائی مقبول، فعال اور غالب حکومتوں یعنی مغلیہ سلطنت اورسلطنت وجئے نگر میں سے صرف وجئے نگر سلطنت کا ذکر نظر ثانی شدہ نصابی کتابوں میں باقی رکھا ہے، جس کے پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ اس طرح تاریخ کو بگاڑ کر لکھنے اور اسی بگڑی ہوئی تاریخ کو نصابی کتابوں میں شامل کرنے اور آئندہ آنے والی نوخیز نسل کو پڑھانے میں ، انصاف کا عنصرکہیں نظر نہیں آتا۔ یاد رہے کہ مغلیہ سلطنت کا دوربھارت کی تین صدیوں کی زندگی اور وقت کا احاطہ کرتا ہے جسے حکومت نے مکمل طور پرحذف کردیا ہے۔ کیا یہ بھارت پر احسان کرنے والے ان مغل حکمرانوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہے۔ نصابی کتابوں میں تاریخ کے تین سو سالہ سنہری دور کو حذف کئے جانے کی سازش کوآنے والی تاریخ از خودبیان کردے گی۔ نصابی کتابوں سے تاریخ کے مسلمہ دور کی تفصیلات حذف کردئیے جانے کے بعد، تاریخ پڑھانے والے اساتذہ کوآج عجیب الجھن کا سامنا ہے کہ وہ طلباء کو یہ کیسے بتائیں گے کہ راجپوتوں نے کس سے جنگیں لڑیں اور خود کیوں ہار بھی گئے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی رانا پرتاپ اور شیواجی کی بہادری کے کارنامے اور تعریفیں بیان کرتے ہیں لیکن اب تاریخ پڑھانے والے اساتذہ اکبر اور اورنگ زیب کے ذکر کے بغیر، ان کی تعریفیں نہیں کرپائیں گے۔ ان کوتاہ ذہن صاحب اقتدار ٹولے کوبہت اچھی طرح یاد ہے کہ بلاشبہ تمام مغل حکمرانوں نے بھارت کو اپنا گھر، اپنا وطن بنالیا تھا، ان کی جو اولادیں ہوئیں وہ سب یہیں کے ہو کر رہے، یہیں پرفوت ہوئے اورابدی زندگی کے سفر کے لیے اسی سرزمین میں دفن ہوئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مغل حکمرانوں کی آدھی تعداد، راجپوت مائوں کے بطن سے پیدا ہوئی۔ یاد رہے 127 راجپوت لڑکیوں کا نکاح، مغل شہزادوں سے ہوا۔ یہ وہ تاریخی حقایق ہیں جسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا اور نہ اس سے کوئی انکار کرسکتا ہے۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ نظریاتی، مذہبی اور اخلاقی تنگ نظری کے پیش نظر، نصابی کتابوں میں قلیل مدت کے لیے صرف چھیڑ چھاڑکی جاسکتی ہے۔ ہمارے بچوں کو مغلیہ دور میں بھارت کی تاریخ کے سنہری دور کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوگاکہ جس دور میں بھارت معاشی طور پر پوری دنیا میں اس قدر خوش حال تھا کہ دنیا کی آمدنی میں اس کا دو تہائی حصہ تھا اورآج یہ بتاتے ہوئے ہمیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ بی جے پی کے دور میں بھارت کا دنیا کی آمدنی میں صرف 2% حصہ ہے۔ مزید برآں، مغلیہ دور میں بھارت تکنیکی اور پیشہ ورانہ ماہرین، تاجروں، کاریگروں اور فنکاروں کے لیے ایک نہایت پرکشش ملک تھاجہاں مغلوں نے بھارت کی صنعتی پیداوار، برآمدات اور بہترین طرز حکمرانی میں زبردست کردار ادا کیا۔ مغل حکمرانوں نے بھارت کو دنیا کے امیر ترین ملکوں کی صف میں لا کھڑا کیا تھا۔ اگر اس سنہری دور کا موازنہ ہم آج کے نام نہاد ’’امرت کال‘‘ دور سے کریں تو حقیقت کھل کر سب کے سامنے آجائے گی کہ آج ہمارے ملک میں بیروزگاری اور غربت، پورے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ملک کی دو تہائی آبادی کی کوئی آمدنی نہ ہونے یا ناکافی آمدنی کی وجہ سے ان کا گذر بسر مشکل ہوگیا ہے، فاقہ کشی سے عوام مررہے ہیں، محض ان فاقہ زدہ عوام کو زندہ رکھنے کے لیے حکومت ، مفت راشن دینے پر مجبور ہوگئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ آج ہر روز 647 اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ، انجنئیر، ڈاکٹر، تاجر اور کاروباری افراد، بھارتی شہریت ترک کرکے وطن چھوڑرہے ہیں۔ آٹھ لاکھ سے زیادہ نوجوان اعلی تعلیم کے حصول اور ملازمتوں کے لیے بیرون ملک روانہ ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں یہاں کے وسائل، فطری طور پر دوسرے ممالک کو منتقل ہورہے ہیں۔ کیا کسی صاحب اقتدار نے ان مسائل پرغور کیا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
بھارت کے اسکولوں کے نظام تعلیم میں بے جاسیاسی مداخلت کی وجہ سے طلباء کا تعلیمی معیار اور ان کی اپنی قابلیت زوال پذیر ہے جو آج کے ترقی یافتہ، روشن خیال، خوش حال معاشرے کی تشکیل کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ بھارت کے موجودہ حکمران، بھارت کو دنیا کا ایک اقتصادی سوپر پاور بنانے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن کیا انہوں نے اس کے لیے کوئی مثبت اور ٹھوس قدم اٹھایا ہے؟ دراصل ملک کے نصابی تعلیمی ڈھانچے کے لیے مجوزہ لائحہ عمل یافیصلے کے مطابق، انہیں چاہیے تھا کہ وہ اسکولوں میں نصابی تعلیم کے معیار پر توجہ دیتے، سب کے لیے معیاری تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی جستجو کرتے تاکہ آنے والی نسلیں، موثر طریقے پر ان درسی کتابوں سے استفادہ کرسکیں،ان سے وہ سب کچھ سیکھیں جو عالمی علمی معیشت کے لیے عملی طور پر کارگر اور موثر ثابت ہو۔
اس پس منظر میں یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ بھارت میں برپا شدہ 1984 کے سکھ مخالف فسادات اور کانگریس پارٹی کی حکمرانی میں پیش آئے دیگر سماجی جرائم کے بارے میں طلباء کو تعلیم دے کر،موجودہ حکومت کیا ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟ اس کے برخلاف 2002 میں گجرات میں برپا کئے گئے مسلم کش فسادات کے دوران مسلمان عورتوں کی عصمت ریزی بے قصور نوجوانوں ،معصوم بچوں اور کمزوربوڑھوں کے قتل عام کو تمام سرکاری ریکارڈ سے ہٹانے میں کیا حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔ مہاتما گاندھی کے قتل کے درپردہ مبینہ طور پر آر ایس ایس سے وابستہ فاشسٹ تنظیموں اور غیر سماجی افراد کے حوالہ جات کو یکسرکیوں نظر انداز کیا گیا؟ یہ کس حکمت عملی کا حصہ ہے کیوں کہ یہ سراسر ناانصافی ہے، ظلم ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ گاندھی جی کے قتل کے بعد، اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے ملک مخالف سرگرمیوں کی پاداش میں آر ایس ایس پرپابندی عائد کردی تھی۔
ویسے بھی اسکول کی نصابی کتابوں کے متن میں فرقہ وارانہ روش میں چھیڑ چھاڑ اور ترمیم کی ہر زمانے میں گنجائش رہتی ہے اور اس روش پر عمل کرنا، زہر آلود دماغ والے فرقہ پرست سیاست دانوں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ بر سر اقتدار طبقہ اس بات کے لیے کوشاں رہتا ہے کہ ان کااقتداراور ان کی سیاسی جماعت کی پیش کردہ نظریاتی پیشن گوئیوں اور بے بنیاد وعدوں کے سہارے ہمیشہ قائم رہے۔ ہمارے قابل قدر اساتذہ، سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم نے تسلیم کیا ہے کہ ہمیں اپنے شاندار سنہری ترقی یافتہ ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کی زندگی کے قیمتی لمحات کو تابناک اور روشن بنانے کی ہر لمحہ جستجو کرنی چاہیئے اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج بد قسمتی سے ہمارے اسکولوں کی نصابی کتابوں کا نصب العین ہی غلط راستے پرڈال دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا کہ تاریخ کے مضمون کی تدریس میں جانب داری ،قوم کے نونہالوں کے مستقبل سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔
انڈین ہسٹری کانگریس کے صدر پروفیسرKesavan Veluthat کیساون ویلوتھات اور سکریٹری پروفیسر سید علی ندیم رضوی کی جانب سے جاری کردہ ایک صحافتی بیان کے مطابق انڈین ہسٹری کانگریس ،تقریباً نو دہائیوں قبل اپنے قیام کے بعد ہی سے، تاریخ کی ایک درست اور جامع تصویر کشی کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے پر عزم رہی ہے۔ چنانچہ آج تاریخ کے نصاب اور نصابی کتابوں میں کی جانے والی غیر ضروری اور بے جا تبدیلیوں سے وہ خود پریشان ہے۔ تاریخ کے نصاب میں جو غیر ضروری تبدیلیاں، حال ہی میں مرکزی سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے کی گئی ہیں، اس سے ہمارے ماضی کا ریکارڈ، نہایت متعصبانہ، نامعقول اور غلط تاثر پیش کررہا ہے۔ انڈین ہسٹری کانگریس ، اس ضمن میں بیس سال قبل کی گئی اپنی مثبت کوششوں کو یاد کرتی ہے جب اس نے تاریخ کی نصابی کتابوں کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعداسے کتاب کی ایک جلد میں شائع کیا تھا ۔ بعد میں NCERT کی جانب سے اس کتاب میں بے شمار غلطیوں کی نشاندہی کئے جانے کے بعد اس کتاب کی تقسیم اور اشاعت پر پابندی عائد کردی گئی اور آخر میں کتاب واپس لے لی گئی۔
آج وہ وقت آچکا ہے جب تمام مورخین جوتاریخ کے پیشہ تدریس سے وابستہ ہیں، اپنی وفاداری نبھانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور تاریخ کی تمام تحریفات کو عوام کے سامنے قابل قبول اور قابل فہم انداز میں واضح کرکے پیش کریں کیوںکہ NCERT ہمارے شاندارماضی کو بالجبر مٹانے، تاریخ کے حقیقی واقعات کو حذف کرنے اور اپنے سیاسی آقائوں کی مرضی کے مطابق ترمیم شدہ تاریخ کو پھیلانے کی مسلسل لیکن ناکام کوششوں میں دن رات مصروف ہے۔
(ترجمہ: سلیم الہندی حیدرآباد)
***

 

***

 بھارت کے موجودہ حکمران، بھارت کو دنیا کا ایک اقتصادی سوپر پاور بنانے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن کیا انہوں نے اس کے لیے کوئی مثبت اور ٹھوس قدم اٹھایا ہے؟ دراصل ملک کے نصابی تعلیمی ڈھانچے کے لیے مجوزہ لائحہ عمل یا فیصلے کے مطابق، انہیں چاہیے تھا کہ وہ اسکولوں میں نصابی تعلیم کے معیار پر توجہ دیتے، سب کے لیے معیاری تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی جستجو کرتے تاکہ آنے والی نسلیں، موثر طریقے پر ان درسی کتابوں سے استفادہ کرسکیں،ان سے وہ سب کچھ سیکھیں جو عالمی علمی معیشت کے لیے عملی طور پر کارگر اور موثر ثابت ہو۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 مئی تا 20 مئی 2023