قسط ۔2:بھارتی مسلمانوں کا تعلیمی ایجنڈا۔چند تجاویز

اسکولوں میں دینی تعلیم کا اور دینی مدارس میں عصری علوم کا اہتمام کیا جائے

سید تنویر احمد
(ڈائریکٹر ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ)

بھارت میں تعلیمی نظام کی تاریخ کے چار اہم ادوار گزرے ہیں۔ (1) ویدک دور۔ ویدک دور میں علم کے حصول کا حق صرف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں ( برہمنوں ) کو ہی حاصل تھا۔ برہمنوں کے علاوہ دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو ویدوں کی تعلیم حاصل کرنے کی ممانعت تھی بلکہ اگر کوئی اس روایت کو توڑتا تو اسے سختسزائیں دی جاتی تھیں۔ اس دور میں علم ویدوں کی تعلیم کی حد تک ہی محدود تھا۔جن مراکز میں ویدوں کی تعلیم دی جاتی تھی، انہیں گروکل کہا جاتا تھا۔ (2) دوسرا دور بدھسٹوں کا ہے۔ بدھ مذہب کے ماننے والوں نے مٹھ قائم کیے تھے۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کیے جیسے ٹکساشیلا اور نالندہ یونیورسٹی وغیرہ، ان اداروں میں تمام طبقات کو علم حاصل کرنے کی اجازت تھی۔بدھ مذہب کے ان تعلیمی مراکز میں بھی زیادہ تر تعلیم مذہب کی ہی دی جاتی تھی۔ مذہب کے علاوہ چند قدیم علوم جیسے علم فلکیات، ریاضی اور طب کے علاوہ علم نجوم اور جغرافیہ کی تعلیم کے بھی کچھ ثبوت ملتے ہیں۔ (3)تیسرا دور مسلم دور رہا ہے۔ اس کا آغاز بارہویں صدی عیسوی سے ہوتا ہے اور اختتام انگریزوں کے ہمارے ملک پر قبضے تک رہتا ہے۔ اس دور کی تعلیمی روایات بتاتی ہیں کہ اس دوران ملک میں تین طرح کے علوم رائج تھے۔ ایک مکاتب، دوسرے مدارس اور تیسرے ہندو تعلیمی مراکز جنہیں بدھ مذہب اور ہندوؤں کے اعلیٰ طبقات چلاتے تھے۔ مکاتب بنیادی طور پر مسجدوں یا دینی مدرسوں میں قائم تھے، جب کہ جدید تعلیم کے مراکز کو اس زمانے میں بھی مدارس کہا جاتا تھا۔ مکاتب میں دینی تعلیم کا انتظام ہوا کرتا تھا تو مدارس میں اس دور کی دینی و جدید دونوں طرح کی تعلیم کا انتظام ہوتا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ بات ملتی ہے کہ اس دور کے مدارس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ ریاضی، علم فلکیات اور طب کی تعلیم دی جاتی تھی۔ طب میں بالخصوص یونانی طریقہ علاج کو مسلم دور میں کافی فروغ حاصل ہوا۔ جب کہ بدھسٹ اور ویدک دور میں آیوروید کو مقبولیت حاصل تھی۔ آیوروید کے مشہور وید جس میں چرک بھی شامل ہیں، اسی دور کے ویدوں میں سے ایک تھے۔ مدارس میں زراعت کی تعلیم، فوجی تربیت، حکومت کے انتظامی امور کو چلانے کی مہارت، سماج کے لیے ضروری ہنر، فنون لطیفہ اور ادب جیسے مضامین بھی نصاب میں شامل تھے۔
چوتھا دور برطانوی سامراج کا تھا۔ اس دور میں تعلیمی نظام کو پوری طرح بدل دیا گیا تھا۔ مغربی طرز تعلیم عام ہونے لگی تھی۔ برطانوی حکومت نے مدارس کو دی جانے والی امداد پر کنٹرول کیا اور مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی بات بھی ہونے لگی تھی۔ مدارس اسلامیہ میں برطانوی حکومت کی مخالفت کو بہت زیادہ ہوا دی جاتی تھی یہاں تک کہ اس نظام میں آزادی کو ایک دینی فریضہ قرار دیا گیا اور مغربی نظام تعلیم اور وہ مضامین جو مغربی نظام تعلیم میں رائج تھے، مدارس میں ممنوع قرار پائے۔ مغربی مضامین نہ پڑھانے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی تھی کہ اس سے ایمان کم زور ہوگا۔ اس دور میں مغربی کلچر کو برطانوی حکومت فروغ دے رہی تھی، تو یہ خدشہ مسلمانوں نے محسوس کیا تھا کہ اس تہذیبی یلغار کی وجہ سے مسلمانوں کا اسلامی تشخص خطرے میں پڑ جائے گا اس لیے اس دور کے علمائے کرام نے ایسے مدارس کو زیادہ سے زیادہ قائم کیا جہاں دینی علوم کو پڑھایا جاتا تھا۔ لیکن ان مدارس میں ان طلبہ کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اس زمانے کے کچھ ہنر بھی سکھائے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ وہی کلچر پورے مسلم سماج میں عام ہوگیا اور تعلیم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اب مدارس اسلامیہ میں اگر عصری علوم پڑھائے جانے کی بات کی جاتی ہے تو ذمہ داران مدارس کہتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ میں جب عصری علوم کو پڑھانے کی بات ہوتی ہے تو کیوں نہیں عصری علوم کے اسکولوں میں دینی تعلیم کی بات کی جانی چاہیے۔ یہ دلیل صحیح ہے اور اسی دلیل کے جواب میں مولانا مناظر احسن گیلانی نے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ مسلمان طلبہ کے لیے میٹرک تک بنیادی عصری تعلیم کا انتظام کیا جائے جس میں انگریزی زبان، ریاضی اور سائنس جیسے مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین کے ساتھ ساتھ بنیادی دینی تعلیم کا انتظام دسویں جماعت تک ہونا چاہیے۔ دسویں جماعت کے بعد طلبہ کو یہ آزادی دی جائے کہ یا تو وہ عصری علوم کی طرف آگے بڑھیں یا پھر دینی علوم حاصل کرنے کے لیے عالمیت، فضیلت و دیگر تخصصات میں حصہ لیں۔ لیکن آج بھی تعلیم کی صورت حال ویسی ہی ہے جیسی کہ ملک کی آزادی سے پہلے تھی۔ تعلیم کے میدان میں بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ عصری اسکولوں میں نصاب تعلیم اور عمل تدریس میں نت نئی تبدیلیاں ہوئی ہیں لیکن مدارس اسلامیہ میں ایک عرصہ دراز سے تبدیلی نہیں ہوسکی۔ یہاں تبدیلی کا مطلب ہرگز یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ مدارس اسلامیہ کی بنیادی اسپرٹ کو تبدیل کرنے کی بات کہی جارہی ہے بلکہ مدارس اسلامیہ کی بنیادی اسپرٹ کو دور حاضر سے ہم آہنگ کرنے کی بات ہورہی ہے تاکہ مدارس اسلامیہ سے نکلنے والے علمائے کرام اپنے زمانے کے مرجع خلائق بنیں۔ ہولسٹک ایجوکشن بورڈ اس جہت میں کام کررہا ہے۔ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران سے گفتگو ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ ورکشاپ بھی منعقد کیے گئے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ بعض ریاستوں میں سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں بے چین ہیں کہ کس طرح مدارس میں عصری علوم کو رائج کریں۔ان دنوں مدارس اسلامیہ اور قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے عنوان پر مباحث جاری ہیں۔ ہم یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 راست طور پر مدارس اسلامیہ میں اصلاحات کی بات نہیں کرتی اور نہ ہی مذکورہ پالیسی میں مدارس اسلامیہ کے لیے کوئی پروگرام پیش کیا گیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی مسلم ملت اپنے مقام و مرتبے کو اسی وقت حاصل کرسکتی ہے اور اس ملک میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کرسکتی ہے جب وہ علم کے اصل مقصد سے آشنا ہوجائے اور علم کی دوئی کو ختم کردے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مندرجہ ذیل پروگرام وضع کیا جاسکتا ہے:
ملت میں علم و تعلیم کے صحیح شعور کو بیدار کرنے کے لیے مختلف النوع پروگرام کیے جائیں۔ مثلاً جمعہ و عیدین کے خطبات، سرپرستان طلبہ کے پروگرام، تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں کے پروگرام، مضامین کا اجرا، کتابوں کی اشاعت، مختصر و طویل ویڈیو، سوشل میڈیا کے ذریعے شعور کی بیداری، وغیرہ۔
مدراس اسلامیہ کے ذمہ داران کے مسلسل پروگرام، تاکہ علم کی دوئی کو مدارس اور معاشرے سے ختم کیا جائے۔
مسلم تعلیمی اداروں کے ذمہ داران پر دینی تعلیم و تربیت کو واضح کیا جائے۔ تاکہ وہ اپنے تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم و تربیت کا انتظام کرسکیں۔ اس کے لیے ان اداروں میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ کی تربیت کا انتظام کیا جائے۔ تاکہ وہ دینی تعلیم و تربیت کے ہمہ جہت پروگرام جاری رکھ سکیں۔ایسے مسلم طلبہ جو ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کے لیے جزوقتی مکاتب یا ویک اینڈ (Week end) اسلامی کلاسوں کا انتظام کیا جائے۔(جزوقتی مکاتب کا ایک مکمل خاکہ ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ نے ترتیب دیا ہے جسے ذیل میں پیش کیا جارہا ہے)۔
وقت کا تقاضا ہے کہ بھارتی مسلمان ایک ایسے تعلیمی نظام کو اختیار کریں جو ملک کے دستوری و قانونی حدود میں رہتے ہوئے عصری و دینی علم کا حسین امتزاج پیداکرے۔ جہاں ممکن ہو ان اسکولوں میں دینی تعلیم کا انتظام کیا جائے اور دینی مدارس میں عصری علوم کا اہتمام کیا جائے۔ اگر یہ انتظام اسکولوں اور مدارس میں ممکن نہیں ہے تو اسکولوں اور مدارس سے ہٹ کر دینی و عصری تعلیم کے مراکز قائم کیے جائیں۔ عصری اسکولوں کے طلبہ کے لیے الگ سے دینی مکاتب ہوں اور دینی مدارس کے طلبہ کے لیے الگ سے عصری علوم کے مراکز قائم کیے جاسکتے ہیں۔
ذیل کی سطور میں ہم ان دونوں طرح کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے دو پروگراموں کا تعارف کرائیں گے۔
پہلا پروگرام: عصری اسکولوں کے لیے جز وقتی دینی مکاتب
موجودہ دور میں مسلم بچوں کی دینی تعلیم و تربیت ایک چیلنج بن کر ابھری ہے۔ ہمارے ملک میں مسلم طلبہ تین طرح کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں:
ایک وہ اسکول جو حکومت کے زیر انتظام ہیں، انہیں سرکاری اسکول کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ اسکول جو پرائیویٹ ادارے چلاتے ہیں۔ انہیں غیر سرکاری اسکول کہا جاتا ہے۔ غیر سرکاری اسکولوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جسے مسلم انتظامیہ چلاتی ہے دوسری وہ ہے جسے غیر مسلم انتظامیہ چلاتی ہے۔ تیسرے دینی مکاتب و مدارس ہیں جہاں خاص طور پر دینی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ان تینوں طرح کے تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کا انتظام اور اس کی نوعیت مختلف ہے۔ اول الذکر سرکاری تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کا کوئی باضابطہ نظم نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ دستور ہند کے مطابق سرکاری اسکولوں میں کسی مخصوص مذہب کی مذہبی تعلیم کا انتظام سرکار نہیں کرسکتی۔ البتہ طلبہ کی معلومات کے لیے مذاہب کے کلچر اور عقائد کو پڑھایا جاسکتا ہے۔ ہاں، اردو بحیثیت زبان پڑھائی جاتی ہے۔ بعض سرکاری اسکولوں میں اساتذہ اپنی دل چسپی کی وجہ سے طلبہ کی دینی تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں لیکن اس طرح کا اہتمام بہت کم سرکاری اسکولوں میں کیا جارہا ہے۔ جن اسکولوں کو مسلم انتظامیہ چلاتی ہے، ان میں تھوڑی دینی تعلیم، دینی تصورات، اذکار، قرآنی سورتوں اور احادیث کو یاد کرادینے کا ( حفظ کرادینے کا ) سسٹم رائج ہے اور اسی کو دینی تعلیم کہا جاتا ہے۔
مسلم معاشرے کے ایک طبقے میں ایسے اسکولوں کی مانگ موجود ہے جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ ‘ان کے اسکول میں دنیوی اور دینی تعلیم کا معقول انتظام موجود ہے’۔ اب اس طرح کے جملے اسکولوں کے اشتہارات کی زینت بن رہے ہیں۔ جن اسکولوں میں دینی تعلیم کا انتظام کیا جارہا ہے، ہم اسے غنیمت سمجھتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انتظامیہ کے ان اقدامات کو سراہتے ہیں۔ تاہم ہمیں اس سسٹم کی کم زوری کو بھی سمجھنا چاہیے۔ جن اقدامات کو یہ اسکول دین و دنیا کی تعلیم کا حسین امتزاج قراردیتے ہیں، وہاں دینی تعلیم کا انتظام زیادہ تر حفظ کو محور بنا کر ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ دینی تعلیم کی اصل روایات میں تحفیظ قرآن اور حافظے کو اصل اہمیت حاصل نہیں ہے بلکہ اصل اہمیت تزکیہ، تربیت، فہم اور معرفت کے پہلوؤں کو حاصل کرنے کی ہے جو ایک جداگانہ تدریسی و تربیتی نظام چاہتا ہے۔ افسوس کہ یہ نظام موجودہ تعلیمی روایات سے مفقود ہوگیا ہے۔
اسکولوں اور مدارس کی درجہ بندی میں ایک گروپ دینی مدارس کا بھی ہے۔ اسلامی تعلیمی نظریے کے تحت دینی مدارس کی اہمیت، سیکولر تعلیم کا انتظام کرنے والے اسکولوں سے زیادہ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ علم کے ایک بنیادی مقصد یعنی ’’معرفت الٰہی‘‘ کی تعلیم کا انتظام ان مدارس میں اسکولوں کی بہ نسبت قدرے بہتر ہوتا ہے۔ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ علم کی دوئی کا شکار ہیں۔ دینی مدارس نظریاتی طور پر نہ سہی، عملًا جس رویے کو اور تدریسی عمل کو اختیار کیے ہوئے ہیں، اس میں آفاق و انفس کی تعلیم کا انتظام نہیں کے برابر ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس مضمون میں اس پر گفتگو کی گنجائش نہیں ہے۔(جاری)
(قارئین سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر تجاویز و مشورے مندرجہ ذیل وہاٹس ایپ نمبر پر ارسال کریں تاکہ مضمون کی اگلی قسط میں انہیں شامل کیا جا سکے ۔ وہاٹس ایپ نمبریہ ہے: 9844158731)
***

 

***

 اسلامی تعلیمی نظریے کے تحت دینی مدارس کی اہمیت، سیکولر تعلیم کا انتظام کرنے والے اسکولوں سے زیادہ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ علم کے ایک بنیادی مقصد یعنی ’’معرفت الٰہی‘‘ کی تعلیم کا انتظام ان مدارس میں اسکولوں کی بہ نسبت قدرے بہتر ہوتا ہے۔ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ علم کی دوئی کا شکار ہیں۔ دینی مدارس نظریاتی طور پر نہ سہی، عملًا جس رویے کو اور تدریسی عمل کو اختیار کیے ہوئے ہیں، اس میں آفاق و انفس کی تعلیم کا انتظام نہیں کے برابر ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 مئی تا 20 مئی 2023