جموں و کشمیر: انتخابی فہرستوں میں ریکارڈ 11 لاکھ سے زیادہ نئے ووٹرز کا اضافہ

نئی دہلی، نومبر 26: پی ٹی آئی نے حکام کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ جموں و کشمیر کی حتمی انتخابی فہرستیں جمعہ کو شائع کی گئیں، جس میں 11 لاکھ سے زیادہ نئے ووٹروں کا اضافہ ہوا ہے، جو اب تک کا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ووٹر لسٹ سے حذف کیے گئے ناموں کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹرز کی مجموعی تعداد 7,72,872 رہی۔

مرکز کے زیر انتظام علاقے کے جوائنٹ چیف الیکٹورل آفیسر انیل سالگوترا نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ جموں و کشمیر کی نئی انتخابی فہرستوں میں کل 83,59,771 ووٹر ہیں۔

انتخابی فہرستوں کی تیاری مرکز کے زیر انتظام علاقے میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کی طرف ایک قدم ہے، جو کہ اگست 2019 میں آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد سے پہلا انتخابی قدم ہے۔

سابقہ ​​ریاست کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد اسے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔

جموں و کشمیر میں انتخابی فہرستوں کی نظرثانی کو اہمیت حاصل ہے کیوں کہ یہ مشق پہلی بار اس کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کی گئی ہے۔ اگست 2019 تک ریاست میں ووٹنگ کے حقوق ان لوگوں تک محدود تھے جنھیں جموں اور کشمیر کے مستقل باشندوں کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔

کشمیری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انتخابی فہرستوں پر نظرثانی مرکز کے زیر انتظام علاقے کی آبادی کو تبدیل کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس اقدام کو خطے میں مرکز کے ’’نوآبادیاتی آباد کاری کے منصوبے‘‘ کی طرف پہلا قدم قرار دیا ہے۔

فروری 2020 میں مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی حد بندی کا عمل شروع کیا تھا۔ 5 مئی کو حتمی حد بندی کے حکم میں اسمبلی سیٹوں کی تعداد 83 سے بڑھا کر 90 کر دی گئی تھی۔

سات نئی نشستوں میں سے ایک کشمیر کو دی گئی، جہاں نشستوں کی کل تعداد 46 ہوگئی، اور چھ جموں کو دی گئی، جہاں اب 43 نشستیں ہیں۔

اگرچہ یہ ملک کے کچھ حصوں میں ایک معمول کا عمل ہے، لیکن جموں و کشمیر میں حد بندی کا عمل سیاسی طور پر بہت زیادہ حساس ہے، اس خدشے کے پیش نظر کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اسے سیاسی نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے جو اس سے قبل بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست تھی۔

جون میں مرکزی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں انتخابات اس سال کے آخر تک ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیوں کہ الیکشن کمیشن نے ابھی تک کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا ہے۔