فوج کی حراست سے ’’گمشدہ‘‘ ہونے والے نوجوان کے مردہ پائے جانے کے بعد جموں و کشمیر کے کپواڑہ میں احتجاجی مظاہرہ

نئی دہلی، مارچ 4: جموں و کشمیر میں کئی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے جمعرات کو پولیس کو اس شخص کی لاش ملنے کے بعد معاملے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، جو فوج کی حراست سے ’’لاپتہ‘‘ ہو گیا تھا۔

شمالی کشمیر کے کپواڑہ ضلع کے کنن گاؤں کے رہنے والے عبدالرشید ڈار کو فوج کی 41 راشٹریہ رائفلز یونٹ کے جوانوں نے 15 دسمبر کو اس کے گھر سے پوچھ گچھ کے لیے اٹھایا تھا۔ ایک دن بعد پولیس نے ڈار کے اہل خانہ کو مطلع کیا تھا کہ وہ فوج کی حراست سے فرار ہو گیا ہے۔ تب سے اس کا ٹھکانہ معلوم نہیں تھا۔

بدھ کو ایک بیان میں پولیس نے کہا کہ ڈار کی لاش کپواڑہ کے ایک جنگل سے برآمد ہوئی ہے اور اس کے اہل خانہ کے حوالے کر دی گئی۔

دی وائر کی خبر کے مطابق عبدالرشید کے بڑے بھائی شبیر احمد ڈار نے، جو جموں اور کشمیر پولیس کے ساتھ خصوصی پولیس افسر کے طور پر کام کرتے ہیں، فوج پر الزام لگایا ہے کہ اس کو حراست میں لے کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

اس نے فوج کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا کہ اس کا بھائی ان کی تحویل سے فرار ہو گیا تھا۔ شبیر نے کہا کہ فوج کا یہ دعویٰ ’’قتل کو چھپانے کے لیے ایک صریح جھوٹ‘‘ ہے۔

شبیر نے بتایا کہ ان کا بھائی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کبھی نہیں بھڑا۔ انھوں نے کہا ’’اس کا کوئی پولیس ریکارڈ نہیں ہے۔ اس کے خلاف ایک بھی کیس نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جب ماضی میں مظاہرے ہوتے تھے، تب بھی وہ کبھی ان میں شامل نہیں ہوتا تھا۔‘‘

احمد ڈار نے بدھ کے روز دعویٰ کیا کہ اس نے اپنے بھائی کے جسم پر سرخ نشانات دیکھے، جس سے لگتا ہے کہ ’’اسے جلایا گیا ہے۔‘‘

لاش کو لواحقین کے حوالے کیے جانے کے فوراً بعد کپواڑہ میں ایک احتجاجی مظاہرے میں شامل ہونے کے لیے ایک بڑا ہجوم نکلا۔ مظاہرین نے الزام لگایا کہ ڈار کو حراست میں قتل کیا گیا اور انھوں نے انصاف کا مطالبہ کیا۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے جمعرات کو ٹویٹر پر لکھا کہ ریاست کے خصوصی درجے کی منسوخی کے بعد سے اس طرح کے واقعات ’’کسی بھی جواب دہی کے بغیر معمول بن گئے ہیں‘‘۔

انھوں نے کہا کہ کنن پوش پورہ سے عبدالرشید ڈار کی مسخ شدہ لاش کی تصویریں دیکھ کر بہت پریشان ہوں۔ ’’سیکیورٹی کے بہانے فیملی سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مہینوں پہلے آرمی کے ذریعے اسے پوچھ گچھ کے لیے اٹھانے کے بعد کیا ہوا، کسی کو کچھ اندازہ نہیں۔‘‘

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس معاملے میں ’’حقیقی تحقیقات‘‘ کا حکم دینے کی ضرورت ہے۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) لیڈر ایم وائی تاریگامی نے نوٹ کیا کہ جموں و کشمیر میں جبری گمشدگیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔

لاپتہ افراد کے والدین کے حقوق کے ایک گروپ کے مطابق جموں و کشمیر میں 1989 سے 2006 کے درمیان 8000-10,000 لوگوں کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

تاریگامی نے جمعرات کو مطالبہ کیا کہ ڈار کی ’’پراسرار موت‘‘ کی مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے۔

پیپلز کانفرنس کے چیئرپرسن سجاد لون نے بھی اس معاملے کی تیز رفتار اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

2017 کے بعد سے ڈار تیسرا شہری ہے جسے فوج نے اٹھایا یا حراست میں لیا اور اسے کے بعد اسے لاپتہ قرار دیا گیا، بعد ازاں اس کی لاش برآمدہوئی۔