کیااقوام متحدہ کو قفل لگانے کا وقت آگیا؟

یوکرین جنگ سے عالمی ادارے کا رہاسہا اعتبار بھی مجروح

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

بوچا شہر میں قتل و غارت گری کے مناظر‘مغربی جمہوری نظام کے اندر پوشیدہ چنگیزیت آشکار
24 ممالک کا روس کی انسانی حقوق کونسل سے معطلی کے حق میں ووٹ۔بھارت کا رائے دینے سے گریز!
یوکرین کے معاملہ میں روس کے خلاف سخت ترین اقدام کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کونسل سے معطل کر دیا گیا ہے۔ 93 ممالک نے روس کو یو این ایچ آر سی سے باہر کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ چین سمیت 24 ممالک نے اس تجویز کے خلاف ووٹ دیا جبکہ اپنی روایت پر قائم رہتے ہوئے ہندوستان سمیت 58 ممالک نے رائے دینے سے گریز کیا۔ اس بار ہندوستان سے امید تھی کہ وہ روس کے خلاف ووٹ دے گا مگر دہلی سے اس کی اجازت نہیں ملی۔ یہ توقع اس لیے تھی کہ صرف ایک دن قبل پہلی بار ہندوستانی نمائندے ترومورتی نے حالیہ بحران کے دوران یوکرین کی صورتحال پر اپنااب تک کے سب سے سخت بیان دیا تھا۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی سے شہر بوچا میں ہونے والے مظالم کی دل دہلا دینے والی تفصیلات سننے کے بعد ہندوستان نے بھی ہلاکتوں کی روس کا نام لیے بغیر مذمت کی تھی۔ ٹی ایس ترومورتی نے بوچا میں شہری ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئےنام لیے بغیر سخت الفاظ میں مذمت کر کے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا لیکن جب اگلے دن روس کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل سے معطل کرنے کی تجویز آئی تو قومی مفاد ان کے پیروں کی زنجیر بن گیا اوروہ روس کو ناراض کرنے کی جرأت نہیں کرسکے۔قوم پرستی کی بنیاد پر جاری وساری اس منافقانہ سیاست پر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے؎
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس ہنگامی اجلاس میں یوکرین کے نمائندے نے کہا کہ انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزی اور جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے روسی فیڈریشن کی معطلی آپشن نہیں فرض ہے۔برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اسے نسل کشی کا ہم پلہ بتایا اور فرانس نے بھی پرزور مذمت کی ۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے ویڈیولنک کے ذریعہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کوئی جرم نہیں ہے جو روس نے بوچا میں نہیں کیا، روسی فوجیوں کی طرف سے کیے گئے ہولناک اور سفاکانہ مظالم کا ایک سلسلہ درج کیا گیا ہے۔ زیلنسکی نے بوچا کے مظالم کا موازنہ مشرق وسطیٰ میں اسلامک اسٹیٹ کی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ کیا اور ایک ویڈیو دکھاکر اسے جنگی جرم ثابت کیا۔ اس ویڈیو کے اندر لاشوں کے ڈھیر میں کچھ کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ داعش کے سفید فام دہشت گردوں نے بھی کبھی ایسے بڑے پیمانے پر قتل و غارتگری نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کے خلاف کوئی قرار داد جنرل اسمبلی میں آتی تو کیا 24 ممالک اس کے خلاف ووٹ دیتےاور 58 غیر جانبدا رہتے؟ آج اسرائیل کے مظالم کے خلاف کوئی تجویر آئے توکیا خود زیلنسکی اس کی مخالفت کریں گے ؟ اس سوال کا جواب انہیں دل پر ہاتھ رکھ کر دینا چاہیےکیونکہ ؎
یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہُنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظُلمات
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس تو سلامتی کونسل میں کہتے ہیں ’’میں بوچا میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی ہولناک تصاویر کو کبھی نہیں بھولوں گااورمیں عصمت دری اور جنسی تشدد کی ذاتی گواہی سے بھی حیران ہوں‘‘۔اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو نے ایک اجتماعی قبرکا ذکر کرنے کے بعدقتل، عصمت دری اور لوٹ مار کا بھی الزام لگایا لیکن ان سب کو جھٹلاتے ہوئے قوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندے واسیلی نیبنزیا نے یوکرینی باشندوں کے قتل کا الزام اسی ملک کے فوجیوں ، یوکرینی نازیوں اور قدامت پسندوں کے سر منڈھ دیا۔ تصاویر کی ٹائم لائن پر سوال کرکے انہیں مشکوک کرنے کی مذموم کوشش کی۔ روسی سفیر نےانخلاء کی وجہ شہری آبادی کو نقصان سے بچانا بتاکر روسی سپاہیوں پر لگنے والے سنگین الزامات کو غلط بیانی کہہ کر مسترد کرتے ہوئے اسے روس کے خلاف پروپیگنڈے کا حصہ بتایا۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے مطابق لاشوں کا منظر گھڑی ہوئی داستان ہے اور ان تصاویر کی مدد سے مغربی ملکوں نے سوشل میڈیا پر یوکرین کے بارے میں حقائق کا ایک مصنوعی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔اس طرح کی سفاکانہ ڈھٹائی یوروپی اقوام کا خاصہ رہی ہے۔ اس لیےاقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئیترس کے ذریعہ کی جانے والی جنگ بندی کی اپیل بے اثر ہوجاتی ہے ۔روس کی چوری اور سینہ زوری نے مغرب کے دیو استبداد کو بے نقاب کردیا ہے؎
ہے وہی سازِ کُہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
روس کی تردید اور چین کی حمایت کے بعد اب اقوام متحدہ کوبوچا کے واقعات کی غیر جانبدار تفتیش پر راضی ہونا پڑا ہے حالانکہ سیٹلائٹ کی مدد سے سامنے آنے والی تصاویر میں سڑکوں پر شہریوں کی لاشوں کوصاف دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ تصویریں حکومت روس کےان دعووں کو غلط ثابت کرتی ہیں کہ یوکرین کی افواج نے قتل وغارتگری کی یا پھر مصنوعی طریقے سے ان مناظر کو پیش کیا گیا ۔میکسار ٹیکنالوجیز نامی ادارے نے 18، 19 اور 31 مارچ کو بوچا کی یہ تصاویر رائٹرزجیسی مؤقر خبررساں ایجنسی کو فراہم کی تھیں۔ بوچا شہر پر 30؍ مارچ تک روسی فوج کا قبضہ تھا۔ روزنامہ نیو یارک ٹائمز نے بھی سیٹلائٹ تصاویر کی درستگی کی تصدیق کرچکا ہے۔بوچا کے معاون میئر، تاراس شپراسکی نے روسی افواج کی شہر سے پسپائی پر 50 مکینوں کی لاشیں دیکھنے کی گواہی دی ہے۔ یہ تباہی دراصل مغرب کے جمہوری نظام کے اندر پوشیدہ چنگیزی کو منہ بولتی تصاویر ہیں ۔ علامہ اقبال تو پہلے ہی اس نشاندہی کرچکے؎
تو نے کيا ديکھا نہيں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگيز سے تاريک تر!
بوچا شہر کے رباہی کی تفصیل جاننے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے آخر اس قتل عام کی براہِ راست ذمہ داری کس پر آتی ہے؟ یہ الزام موٹورائزڈ رائفل بریگیڈ کے40سالہ کمانڈر اجاتبیک اومورکوو کے سر ہے۔ اس درندے کو 2014 میں روس کے ڈپٹی وزیر دفاع دیمتری بلگاکوو نے بہترین کارکردگی کے لیے فوجی تمغہ سے نوازا تھا۔ روسی تمغہ سے آراستہ اجاتبیک نے اجتماعی آبروریزی اور نسل کشی کے احکامات جاری کیے تھے۔ اس ظالم نے حکم دیا تھا چالیس سال سے کم عمر والے سبھی مردوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے مشہور اخبار ڈیلی میل نے اسے ’بوچا کا قصائی‘ کے لقب سے نواز دیا لیکن یہ تو قصائیوں کی بھی توہین ہے کیونکہ وہ ایسا ظلم کبھی نہیں کرتے۔ رپورٹ کے مطابق اس سفاک افسر نے پسماندگان کو لاشیں دفنانے کی خاطر صرف بیس منٹ کا وقت دیا۔
اجاتبیک کی قدامت پسند عیسائی راہب کے ساتھ ایک تصویر بھی شائع ہوچکی ہے۔ اپنے گرو سے آشیرواد لینے کے بعد اس نے کہا تھا کہ تاریخ شاہد ہے ہم بیشتر جنگ اپنی روحانیت سے لڑتے ہیں۔ اسلحہ سب سے اہم شے نہیں ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ روسی فوجیوں نے وہاں پہنچ کر پہلے دستاویز طلب کیے اور معمولی خطرے کے گمان پر بھی گولی چلادی۔ فوجیوں کے جسم پر بنے ٹیٹو کی جانچ کے لیے لوگوں کو برہنہ کیا گیا۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق فوجی کمانڈر کو ما تحت فوجیوں کےجنگی جرائم کا ذمہ دار ماناجاتا ہے۔زیلنسکی روسی فوج اس افسر کو جنگی جرائم کے تحت فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ امریکی صدر جوبائیڈن تو ان جنگی جرائم پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے خلاف مقدمہ چلا نے کی بات کررہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ چین کے ہوتے کس کی مجال ہے کہ وہ پوتن کی جانب نگاہِ غلط اٹھا کر دیکھے؟ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پچھلے ۷۷ سال میں مغربی اقوام عالم انسانیت کے جنگل راج کو ختم کرنے میں کامیاب ہوسکی ہیں؟ کیا اب بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج نہیں ہے۔پہلے یہ لاٹھی یوروپ کے ہاتھ میں تھی اس لیے اس کی تعریف وتوصیف ہوتی تھی اب ڈنڈا چونکہ خود اپنےسر پر پڑ رہا ہے اس لیے ہوش ٹھکانے آنے لگا ہے۔ حکمت کے نام پرجوحرص و ہوس کا عالمی بازار گرم تھا اس کی قلعی کھل گئی ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا ؎
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو
ہوس کی پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
اجاتبیک اومورکوو اگر یوروپی عیسائی بلکہ مسلمانوں میں سے ہوتا اور چار سو تو دور صرف چالیس لوگوں کے ساتھ بھی یہ سلوک کردیتا تو تصور کریں کہ دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیسا طوفان بدتمیزی برپا کیا جاچکا ہوتا؟ پوری مسلم قوم کوبدنام کرنے کے لیے کون کون سے حربے استعمال نہیں کیے جاتے ؟ اسلام اور قرآن کے خلاف نہ جانے کتنے مضامین لکھے جا چکے ہوتے؟ دنیا بھر میں کارٹونوں کا انبار لگ گیا ہوتا؟ غیر تو غیر اپنے مغرب نواز لوگ بھی اس کا تعلق نہ جانے کس کس تنظیم اور علماء و دانشوروں سے جوڑتے ؟ لیکن اب وہ صرف ایک شخص کا ایک انفرادی عمل ہے۔ اس کے مذہبی عقائد سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی اس مجرمانہ حرکت کے لیے کسی اور پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس کے گرو کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سب درست ہے لیکن ایسا رویہ سبھی کے ساتھ اختیار کیا جانا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنے آدمی کو تو بچا لیا اور مخالف کو پھنسا دیا جائے۔ روشن خیالی ، کشادہ دلی اور رواداری کے بلند بانگ دعوے کرنے والوں کو تو کم از کم یہ زیب نہیں دیتا ۔ مغرب اس دوغلے پن پر علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
یہ عِلم، یہ حِکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
یتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
یوروپی قومیں اس طرح کی سفاکی کا مظاہرہ وقتاً فوقتاً کرتی رہتی ہیں سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ مذہب نہیں ہے۔ عیسائیت کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ شریعت الٰہی سے محروم ہے ۔ اس میں شریعت کے نام پر یونانی عقائد ونظریات اور تہذیب و اقدار کا غلبہ ہے۔ عقائد ایسے گنجلک کہ ابلیس نے بغاوت کے بعد سارے عالم میں اپنا اقتدار قائم کرلیا ۔ اس کو ختم کرنے کی خاطر خدا کو اپنا بیٹا بھیجنا پڑا (نعوذباللہ) اس سونے پر سہاگہ یہ کہ بلا عمل کے صرف ایمان لانے کو نجات کے لیے کافی و شافی سمجھ لینا۔ یہ ایسی باتیں تھیں کہ اس سے بیزار ہو کر کسی بھی باشعور انسان کا لادینیت کی راہوں پر لگ جانا ایک فطری ردعمل تھا ۔ لادینیت نے جب انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت بڑا خلا پیدا کردیا تو اسے پُر کرنے کی خاطر جمہوری قوم پرستی کو ایجاد کی گیا۔ یہ شتر بے مہار پہلے سے بھی زیادہ خونخوار اور بدتر نکلا ۔ اس کا مظاہرہ دو عددجنگ عظیموں میں یکے بعد دیگرے ہوچکا ہے۔ جوہری بم کا استعمال اسی خوشنما نظامِ سیاسی کے حاملین نے کیا اور ساری دنیا کو ظلم وجبر کا گہوارہ بنا دیا ۔ اپنی جارحیت کو جمہوری اقدار کے فروغ کا خوبصورت نام دے کر اپنے حریفوں کا قلع قمع کرتے رہے۔ آپسی جنگ و جدال کو قابو میں رکھنے کے لیے اقوام متحدہ قائم کرلی مگر یوکرین کی جنگ نے اس کا بھرم بھی توڑ دیا کیونکہ لادینیت کے بطن سے بالآخر چنگیزیت کا عفریت نکلنا ہی تھا ؎
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جُدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اس تناظر میں یوکرین کے صدر نےاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کھری کھری سناتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی تک یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت بند کرانے میں ناکام رہی ہے ۔یوکرین میں ہونے والے مبینہ جنگی جرائم پر روس کا احتساب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ بولے کہ ’’ہمارا سابقہ ایک ایسے ملک سے پڑاہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ویٹو کا غلط استعمال کرتے ہوئے دوسروں کو مارنا اپنے لیے جائز قرار دیتا ہے۔زیلنسکی کےبقول روس جو چاہےتباہ کرے اس کو کوئی سزا نہیں دے سکتا۔مایوسی کی انتہا پر پہنچ کر یوکرین کے صدر ولادمیر زیلنسکی نے اقوام متحدہ کو چیلنج کیا ہے کہ وہ روس کے خلاف فوری اقدام کرے یا پھراپنے آپ کومکمل طور پر تحلیل کر دے۔انہوں نے روس کو ۱۵؍ رکنی سلامتی کونسل سے بے دخل کرنے مشورہ دیا تاکہ وہ اپنے خلاف کسی فیصلے کو ویٹو نہ کرسکے۔اس بابت زیلنسکی نے دو ٹوک انداز میں یہ بھی کہہ دیا کہ اگر سلامتی کونسل کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے تو پھراسے تحلیل کردینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’خواتین و حضرات! کیا آپ اقوام متحدہ کو بند کرنے کے لیے تیار ہیں؟ اور کیا بین الاقوامی قوانین کا وقت ختم ہوچکا ہے؟ اگر آپ کا جواب نہیں میں ہے تو پھرآپ کو فوری طورپرعمل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اس جنگ نے جہاں ایک طرف اقوام متحدہ کے اوپر سوالیہ نشان لگا دیا ہے وہیں امریکہ و یوروپ کی عالمی قیادت کے لیے بھی یہ ایک چیلنج بن گئی۔ امریکہ کے اعلیٰ ترین فوجی جنرل نے یوکرین میں جنگ کے برسوں تک جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں دنیا کے زیادہ غیر مستحکم ہوجانے کی بابت خدشات بڑھ رہے ہیں اور بڑی طاقتوں کے درمیان اہم بین الاقوامی تنازعہ کا امکان میں کمی کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔امریکہ کے ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے رو برو ایک سماعت کے دوران مارک ملی نے یوکرین پر روس کے حملے کو یورپ اور دنیا کے امن و سلامتی کے لیے اپنے 42 سالہ پیشہ ورانہ زندگی کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے امریکہ کو درپیش عسکری خطرات کے حوالے سے کہا کہ امریکہ جغرافیائی حیثیت سے ایک بہت ہی نازک اور تاریخی موڑ پر کھڑا ہے۔ چین یا روس کی نسبت طاقت کی غیر واضح صلاحیت کے ساتھ امن کو برقرار رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرکے اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اس امریکہ کا اعلیٰ ترین افسر کہہ رہا ہے جو کسی کو منہ نہیں لگاتا تھا ۔
سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد ’ہمارے ساتھ یا دشمن کے ساتھ‘ کہہ کر کھنڈر بنانے کی دھمکی دیتا تھا لیکن گردش ایام کے تھپیڑوں نے اسے اس موڑ پہ پہنچا دیا جہاں وہ بے یارو مددگار خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ ناٹو کے اندر روس کے خلاف اپنی فوج اتارنے کا دم خم نہیں ہے۔ یہ اگر نئے ورلڈ آرڈر کی ابتداء نہیں تو اور کیا ہے؟ علامہ اقبال نے برسوں پہلے اہل مغرب کو اس خطرے سے آگاہ کردیا تھا؎
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں
ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
عالم سکرات میں گرفتار اقوام متحدہ کے قیام کی کوشش دوسری عالمی جنگ کے دوران شروع ہوئی تھی ۔ 24؍ اکتوبر 1945 کو باقاعدہ طور پر یو این او کا قیام عمل میں آیا۔ عالمی امن کے قیام کی یہ دوسری کوشش تھی۔ اسی مقصد کے حصول کی خاطرپہلی جنگ عظیم کے بعد 10 جنوری 1920 کو ”مجلس اقوام“(لیگ آف نیشنس) قائم کی گئی تھی۔ جنیوا میں مجلس اقوام کا صدر دفتر بنانے کے بعد سر جیمس ارک ڈرمنڈکو سیکرٹری مقرر کیا گیا تھا ۔ لطف کی بات یہ ہے امریکہ اس کا رکن نہیں تھا مگر افغانستان وہاں موجود تھا ۔ مجلس اقوام کی ضرورت کا احساس پہلی جنگ عظیم( 1914۔ 1918) کی تباہی نے دلایا جس میں تقریباً ایک کروڑ افراد ہلاک اور بے شمار زخمی ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق چار کھرب ڈالر کا نقصان ہوا نیز، ہزاروں شہر قصبے اور دیہات تباہ ہو گئے۔ مجلس اقوام سے توقع کی گئی تھی کہ اب دنیا کو پہلی عالمی جنگ عظیم جیسی تباہ کاریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، لیکن ستمبر 1939 میں دوسری عالمی جنگ کے چھڑنے پر یہ امید خاک میں مل گئی۔ دوسری عالمی جنگ اپنے ساتھ پہلی عالمی جنگ سے بھی زیادہ تباہ کاریاں اور ہولناکیاں لے کر آئی۔ اب تیسری جنگ عظیم کے بادل اقوام متحدہ کی ناکامی کا شاخسانہ ہیں ۔ اس کا اظہار یوکرینی صدر کی جانب سے نہایت واضح انداز میں ہوچکا ہے۔ آگے چل کر بہت ممکن ہے کہ پھر سے انہیں خطوط پر کوشش کی جائے لیکن اسے بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا کیونکہ بنیاد میں قوم پرستی فتنہ کی جڑ ہے۔قومیت کو ترک کرکے انسانیت کا نظریہ اپنائے بغیر امن عالم ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے اسلام کی روشنی میں اقوام متحدہ کے قیام سے قبل وحدت آدم پر زور دیتے ہوئے کہا تھا ؎
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
تفریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم
(ڈاکٹر سلیم خان ماحولیاتی سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔فون:91 98673 27357)

 

***

 اس جنگ نے جہاں ایک طرف اقوام متحدہ کے اوپر سوالیہ نشان لگا دیا ہے وہیں امریکہ و یوروپ کی عالمی قیادت کے لیے بھی یہ ایک چیلنج بن گئی۔ امریکہ کے اعلیٰ ترین فوجی جنرل نے یوکرین میں جنگ کے برسوں تک جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں دنیا کے زیادہ غیر مستحکم ہوجانے کی بابت خدشات بڑھ رہے ہیں اور بڑی طاقتوں کے درمیان اہم بین الاقوامی تنازعہ کا امکان میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  17 تا 23 اپریل  2022