’’یہ دہلی کے شہریوں کی توہین ہے‘‘: لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے کسانوں کے خلاف مقدمات کے لیے دہلی حکومت کے منتخب کردہ وکیلوں کے پینل کو مسترد کرنے پر کیجریوال نے جتائی ناراضگی

نئی دہلی، جولائی 25: دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے ہفتے کے روز کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل کے ذریعے سینٹر کے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کے خلاف مقدمات کے لیے عام آدمی پارٹی کی حکومت کے منتخب کردہ وکلاء کے پینل کو مسترد کرنے کا فیصلہ دارالحکومت کے شہریوں کی ’’توہین‘‘ ہے۔

کیجریوال نے ٹویٹ کیا ’’دہلی کے عوام نے تاریخی اکثریت کے ساتھ عام آدمی پارٹی کی حکومت کا انتخاب کیا اور بی جے پی کو شکست دی۔ بی جے پی کو ملک چلانا چاہیے، عام آدمی پارٹی کو دہلی چلانے دو۔ روزمرہ کے کاموں میں اس طرح کی مداخلت دہلی کے عوام کی توہین ہے۔ بی جے پی کو جمہوریت کا احترام کرنا چاہیے۔‘‘

ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق یہ مقدمات زرعی قوانین کے خلاف ہونے والے احتجاج سے متعلق ہیں، جن میں 26 جنوری کو ٹریکٹر ریلی کے دوران پھوٹ پڑے تشدد کے سلسلے میں دائر مقدمات بھی شامل ہیں۔

دہلی پولیس نے قانون کی مختلف شقوں کے تحت 48 ایف آئی آر درج کی ہیں۔ 26 فروری کو انھوں نے دہلی حکومت کے محکمہ داخلہ سے 11 وکلاء کا خصوصی سرکاری استغاثہ مقرر کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ وہ ایف آئی آرز کے سلسلے میں مقدمات، درخواست اور ضمانت کی درخواستوں اور دیگر تمام امور سے نمٹ سکیں۔

جولائی کے پہلے ہفتے میں بیجل نے دہلی حکومت کو خط لکھا تھا اور کابینہ کے اجلاس میں اس معاملے پر غور کرنے کو کہا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ معاملات حساس نوعیت کے ہیں اور ان سے مقررہ وقت میں محتاط انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔

پیر کو کابینہ میں کیجریوال کی زیرقیادت حکومت نے دہلی پولیس کے تجویز کردہ وکلاء کی فہرست کو مسترد کردیا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ دہلی حکومت کے مقرر کردہ پراسیکیوٹر اس کیس کو سنبھال لیں گے۔

کیجریوال حکومت نے دعوی کیا کہ مرکز دہلی پولیس کی فہرست کو منظور کرنے کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے دہلی کابینہ پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ دہلی حکومت کا موقف ہے کہ دہلی پولیس کے ذریعہ تجویز کردہ وکیلوں کی فہرست کی منظوری سے قانونی برابری کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوگی اور ان ملزمان کے ساتھ ناانصافی ہوگی، جنھیں غیر جانبدارانہ مقدمے کا حق ہے۔

ایک الگ فیصلے میں دہلی حکومت نے فروری 2020 میں ہونے والے دہلی فسادات سے متعلق مقدمات کے لیے دہلی پولیس کے ذریعہ تجویز کردہ تین وکیلوں کے ایک اور پینل کو بھی مسترد کردیا۔

اس کے بعد لیفٹیننٹ گورنر نے اختلاف رائے کا حوالہ دیتے ہوئے معاملہ صدر رام ناتھ کووند کے پاس بھیج دیا۔ اپریل میں سنٹر کے ذریعے قومی دارالحکومت ترمیمی ایکٹ 2021 لانے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب لیفٹیننٹ گورنر نے صدر کو ایسا معاملہ بھیجا ہے۔ یہ نیا ترمیمی قانون لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات میں نمایاں اضافہ کرتا ہے۔

این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق ایک خط میں بیجل نے دہلی حکومت کو مطلع کیا ہے کہ اس معاملے کو صدر کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔ تاہم لیفٹیننٹ گورنر نے مزید کہا کہ انھوں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دہلی پولیس کے نامزد وکیلوں کی تقرری کر دی ہے کیوں کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے۔

ہفتے کے روز نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے پوچھا کہ وکلاء کے انتخاب میں مرکز کی دلچسپی کیا ہے؟ ’’اگر وکلاء کا انتخاب بھی انھیں ہی کرنا ہے تو دہلی کی منتخب حکومت کا کیا فائدہ؟‘‘

انھوں نے کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر کے پاس دہلی حکومت کے فیصلوں کو مرکز کے پاس بھیجنے کا اختیار ہے لیکن یہ صرف ’’غیر معمولی حالات‘‘ کے لیے ہے۔ سسودیا نے الزام لگایا کہ ’’وہ [مرکز] تقریباً ہر معاملے میں یہ اختیارات استعمال کر رہا ہے۔‘‘