’’یو اے پی اے کو موجودہ شکل میں نہیں رہنا چاہیے‘‘: سپریم کورٹ کے سابق ججوں نے انسداد دہشت گردی قوانین کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا

نئی دہلی، جولائی 25: دی ہندو کے مطابق سپریم کورٹ کے سابق ججز آفتاب عالم، مدن بی لوکور، گوپال گوڑا اور دیپک گپتا نے ہفتے کے روز بھارت میں انسداد دہشت گردی قوانین کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا۔

جسٹس گپتا نے کہا کہ عدالتیں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے استعمال سے متعلق مداخلت کریں اورمناسب ہدایات مرتب کریں۔ انھوں نے کہا کہ ’’یو اے پی اے کو موجودہ شکل میں نہیں رہنا چاہیے۔‘‘ انھوں نے یہ باتیں ’’جمہوریت، اختلاف اور ڈراکونین لاء‘‘ کے عنوان سے ایک ورچوئل کانفرنس میں خطاب کے دوران کہیں۔

ریٹائرڈ جج نے نوٹ کیا کہ منی پور کے کارکن ایرینڈرو لیچومبام کو کووڈ 19 کے علاج کے طور پر گائے کے پیشاب کے خلاف بولنے کے لیے ملک بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا ہم ایک ’’پولیس اسٹیٹ‘‘ میں رہ رہے ہیں۔

لیچومبام اور منی پور کے صحافی کشورچندر وانگکھیم کو 13 مئی کو ان کے فیس بک پوسٹ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ 17 مئی کو امپھال عدالت نے انھیں ضمانت دے دی، لیکن ان کی رہائی سے قبل ہی حکومت نے ان پر قومی سلامتی ایکٹ نافذ کردیا۔

لیچومبام اور وانگکھیم کو رواں ہفتے مختلف عدالتوں نے ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ ان کی مسلسل نظربندی آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت زندگی کے حق اور ذاتی آزادی کی ضمانت کی خلاف ورزی ہے۔

ہفتہ کے روز جسٹس گپتا نے 84 سالہ قبائلی حقوق کے کارکن اسٹان سوامی کی موت کے بارے میں بھی بات کی، جو 5 جولائی کو حراست میں انتقال کرگئے تھے۔

سوامی پارکنسن کی بیماری میں مبتلا تھے اور وہ جیل میں رہتے ہوئے کورونا وائرس انفیکشن کا بھی شکار ہوگئے تھے۔ طبیعت خراب ہونے کے باوجود انھیں بار بار ضمانت سے انکار کیا گیا۔ سوامی بغیر کسی قابل اعتماد ثبوت کے بھیما کورے گاؤں کیس میں یو اے پی اے کے تحت جیل میں بند تھے۔

انڈیا ٹوڈے نے رپوٹ کیا کہ سوامی کے معاملے کو ایک مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے گپتا نے کہا کہ ’’آزادی کے 70 سال بعد بھی ہمارے ججوں کو احساس نہیں ہوتا ہے کہ ملک بغاوت کیا ہے اور دہشت گردی کیا ہے۔‘‘

جسٹس عالم نے کہا کہ حکومت اختلاف رائے پر توجہ مرکوز کرکے دہشت گردی کے 3 فیصد اصل واقعات سے اپنی توجہ ہٹا دیتی ہے۔ انھوں نے نشاندہی کی کہ 2019 میں یو اے پی اے کے تحت درج مقدمات میں سے صرف 42 فیصد مقدمات میں چارج شیٹ دائر کی گئی۔

سابق جج نے کہا ’’جیلوں کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار لوگوں سے بھرا جارہا ہے، لیکن ان میں سے صرف کچھ کو ہی سزا سنائی جاتی ہے۔‘‘

جسٹس گوڈا نے کہا کہ سوامی کی موت کا سبب بننے والے حالات تشویشناک ہیں۔ انھوں نے مزید کہا ’’این آئی اے اور عدالتیں اس بات پر غور کرنے میں ناکام رہی ہیں کہ وہ ضمانت کے حق دار تھے۔‘‘

ریٹائرڈ جج نے کہا کہ یو اے پی اے جیسے قوانین سیکیورٹی اداروں کو بے لگام طاقت اور حکومت کو زیادتیوں کا ارتکاب کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ یو اے پی اے ججوں کے عدالتی جائزہ لینے کے اختیارات کو محدود کردیتا ہے، گوڈا نے کہا کہ ایسا قانون جو ضمانت دینے کے لیے آئینی عدالتوں کے اختیار کو چھین لیتا ہے وہ خود غیر آئینی ہے۔