بڑھتی ہوئی منافرت اور ملی تنظیموں کی فکرمندی

چیلنجزسے نمٹنے کے لیے اجتماعی حکمتِ عملی اور اشتراک عمل کی ضرورت

عرفان الٰہی ندوی

بھارت میں منافرت کے بڑھتے ہوئے ماحول میں مسلم تنظیمیں خاصی فکرمند ہوگئی ہیں۔وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کے شاہی عید گاہ کے معاملے عدالت میں پہنچتے ہی پورے ملک میں ایک ہیجان طاری ہو گیا ہے۔اکثر یتی فرقہ کے کٹر عناصر نے اقلیتی طبقہ کی درجنوں عبادت گاہوں اور تاریخی مقامات پر دعوے ٹھونک دیے ہیں۔ان حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کی ملی تنظیموں میں میٹنگوں اور اجلاس کا دور اپنے عروج پر ہے ۔ملک کے مختلف حصوں میں نصف درجن سے زیادہ میٹنگیں اور مشاورتی اجلاس ہو چکے ہیں ۔ان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘ مسلم مجلس مشاورت اور جمیعت علمائے ہند کے دوروزہ اجلاس کے علاوہ سابق رکن راجیہ سبھا محمد ادیب کی دہلی اور مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی کی ممبئی میں ہونے والی میٹنگس شامل ہیں۔مسلمانوں کے سماجی اور معاشی مسائل پر سی پی آئی ایم بھی کرناٹک میں ایک اہم میٹنگ کا انعقاد کر چکی ہے۔اس میں مسلمانوں کے معاشی مسائل کے ساتھ انہیں در پیش سماجی دشواریوں پر بھی فکرمندی کا اظہار کیا گیا۔
ملی تنظیموں کا رویہ
ملی تنظیموں اور شخصیتوں کی ان سرگرمیوں اور تشویش کو عوام اور ملت کے جذبات کا عکاس سمجھا جا رہا ہے۔یہ ایک خوش آئند بات ہے تاہم دانشوروں کے ایک طبقہ کو اس بات کا بھی گلہ ہے کہ ملی تنظیمیں ہمیشہ جذباتی مسائل پر ہی کیوں بیدار اور سرگرم ہوتی ہیں۔مظلوموں ‘اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے دیرینہ مسائل پر توجہ کیوں نہیں مرکوز کرتیں۔ایک سوال یہ بھی باربار اٹھتا ہے کہ مسلم تنظیمیں اور جماعتیں اپنی اپنی ڈھپلی اور اپنا اپناراگ چھوڑکر اشتراک عمل کا راستہ کیوں نہیں اپناتی ہیں؟ ان میٹنگوں اور جلسوں میں عوام کی عدم شرکت اور نوجوان قیادت کو مواقع فراہم نہ کرنے کے سوالات بھی مسلسل سر اٹھا رہے ہیں۔
مذکورہ سوالوں کے تناظر میں اگر مشاورتی اجلاسوں اور میٹنگوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہماری ملی تنظیمیں اپنی بساط بھر مسائل کا سامنا کرنے کی کوشش تو کر رہیں ہیں تاہم ان کاوشوں کو مرکزی سطح پر مربوط کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل کی کمی ہے ۔سب نے اپنے حلقے اور دائرے بنا لیے ہیں ان سے باہر نکلنے کے لیے مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہے جس کا موجودہ ملی قیادت میں فقدان ہے۔
دوسری بات ان تنظیموں اور تحریکوں میں اتحاد ملت کے نعرے تو زوردار انداز میں لگتے ہیں تاہم اشتراک عمل کی سنجیدہ کو ششیں نہیں کے برابر ہیں۔ ملائشیا یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر طاہر بیگ کہتے ہیں’’مسلمانوں کو اس وقت اتحاد سے زیادہ اشتراک عمل کی ضرورت ہے کیونکہ اشتراک عمل میں فکری اور مسلکی اختلاف کے باوجود کسی خاص مقصد پر اتفاق رائے بنا کر کام کیا جا سکتا ہے۔‘‘
آر ایس ایس سربراہ کا بیان
اسی دوران مندر۔مسجد تنازعوں پر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا ایک اہم بیان سامنے آیا ہے۔انہوں نے ناگپور میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہر روز نیا مسئلہ نہیں لانا چاہیے‘تنازعہ کو ہوا کیوں دینا‘ ہماری گیان واپی کے تئیں عقیدت ہے اور اس کے مطابق کچھ کرنا ٹھیک ہے لیکن ہر مسجد میں شیولنگ کیوں تلاش کریں ؟‘‘ موہن بھاگوت نے اپنے کارکنوں کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی تنظیم نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی تحریک میں حصہ لیا لیکن اب وہ مندروں کے تعلق سے کوئی تحریک نہیں چلائیں گے۔ آر ایس ایس سربراہ کے اس بیان کو مسلم حلقوں میں جرات مندانہ بیان مانتے ہوئے خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔
جمیعت علمائے ہند کی قراردادیں اور اعلامیہ
جمیعت علمائے ہند کے دیوبند میں منعقدہ مجلس منتظمہ کے دو روزہ اجلاس میں جو قرار دادیں منظور کی گئیں ان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بھارت کے ہر باشندے کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے ۔مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے یا سب پر یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی ہے ۔جمیعت کے اعلامیہ میں مسلمانوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ خوف ‘ مایوسی اور جذباتیت سے دور رہ کر اپنے مستقبل کی بہتری کے لیے کام کریں ۔ جمیعت کے اجلاس میں ماحولیات کو بہتر بنانے اور اردو کے ساتھ ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں کو اپنانے پر بھی تجاویز منظور کی گئی ہیں۔
تاہم مسلم تنظیموں کے رویوں سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ہماری ملی تنظیمیں اپنے ہی مسائل میں الجھ کے رہ گئی ہیں۔مولانا محمود اسعد مدنی گروپ کے اجلاس میں جمیعت کے دوسرے دھڑے کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بھی شرکت کی ‘دونوں دھڑوں کو متحد کرنے کی بات بھی ہوئی لیکن حتمی اعلان نہیں ہو سکا۔اسی طرح برادران وطن کو ساتھ لے کر سدبھاونا منچ بنانے کا اعلان کیا گیا لیکن مسلم تنظیموں کے ساتھ اشتراک عمل پر کوئی لائحہ عمل یاطریقہ کار پیش نہیں کیا گیا۔
جمیعت علمائے ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے اجلاس کے آخری دن یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ جو مسلمانوں کو اس ملک سے باہر بھیجنے کی بات بار بار کرتے ہیں تو وہ سن لیں ہم نہیں جائیں گے جسے ہمیں بھیجنے کا شوق ہے وہ یہاں سے کہیں اور چلا جائے ہم تو اس ملک کے باشندے ہیں اور یہیں رہیں گے۔مولانا کے اس بیان کو قومی میڈیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور عوام میں بھی موضوع بحث بنا۔ ہفت روزہ دعوت نے اس سلسلے میں اتحاد ملت کونسل کے صدر مولانا توقیررضا خاں سے فون پر تاثر جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا’’مولانا محمود مدنی کا بیان ایسا ہے جیسے وزیر اعظم نریندر مودی کا انتخابی جملہ‘‘ان کے مطابق اس طرح کے بیانات سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے والا ‘مسلمانوں کو اس وقت سنجیدہ اور ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
جمیعت علمائے ہند کی مجلس منتظمہ کی اس قرارداد کو بھی عوا م و خواص میں پسند کیا جا رہاہے کہ اسلامو فوبیا اور منافرت کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے پورے ملک میں ایک ہزار سدبھاونا منچ بنائے جائیں گے جن میں مسلمانوں کے ساتھ دیگر برادران وطن کو بھی شامل کیا جائے گا تاکہ نفرت کا جواب محبت سے دیا جا سکے۔یاد رہے کہ اس سے پہلے مشہور اسلامی مفکر مولانا ابوالحسن علی حسنی المعروف علی میاں ندوی مرحوم ’’پیام انسانیت‘‘کے فورم سے اس کام کو انجام دے چکے ہیں تاہم گردش زمانہ اور ندوی برادری کی عدم دل چسپی نے اسے رسمی کام بنا دیا جو صرف پمفلٹ شائع کرنے تک محدود رہ گیا ہے۔
جمیعت علمائے ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے جماعت اسلامی مغربی اتر پردیش کے امیر حلقہ انجینئر احمد عزیز خان نے کہا ’’مولانا محمود مدنی نے ایک خاص پس منظر میں یہ بیان دیاہے اور اسے اسی تناظرمیں سمجھنا چاہیے ‘‘ان کے مطابق مسلمانوں کو بار بار ملک سے باہر جانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں جبکہ ان کے آبا و اجداد نے تقسیم کے وقت پاکستان جانے کے بجائے ہندستان میں رہنے کو ترجیح دی جبکہ ان کے پاس یہاں رہنے یا جانے کی چوائس تھی۔انہوں نے میڈیا سے بیان کو غلط موڑ دینے کے بجائے اسی پس منظر میں دکھانے کی اپیل کی۔
جماعت اسلامی ہند کا موقف
جماعت اسلامی مغربی اتر پردیش کے امیر حلقہ احمد عزیز نے موجودہ حالات میں جماعت کا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے سامنے چار صورتیں ہیں ‘پہلی مسلمان یہاں کے سماج میں ضم ہو جائیں ‘دوسری وہ خود کو الگ تھلگ کر لیں یعنی قومی دھارے سے الگ ہو جائیں تیسری صورت ٹکراو اورمسلسل تصادم کی ہے تاہم جماعت‘ کثیر ثقافتی پلورل سوسائٹی میں اپنے مذہب اور فکر کے ساتھ داعی امت کی حیثیت سے رہنے کو ترجیح دیتی ہے جس کے تحت دیگر برادران وطن کے ساتھ پر امن بقائے باہم کے اصولوں پر اس ملک میں رہنا ہے اور اپنے حقوق کی حفاظت اور بازیابی کے لیے کوشش کرنا ہے۔جماعت اسلامی نے اسی موقف کے تحت سی اے اے اور این آر سی کی مہم میں سرگرم حصہ لیا اور موجودہ حالا ت میں بھی ملی تنظیموں اور ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مشترکہ محاذ بنا کر اشتراک عمل کے ساتھ قوم کو در پیش مسائل کا سامنا کرنے کا عزم رکھتی ہے۔
آخری بات
موجودہ حالات میں مسلمانوں کو در پیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ملی تنظیموں کو اتحاد سے زیادہ اشتراک عمل کی ضرورت ہے اور اس اشتراک عمل میں مسلمانوں کے تمام طبقات کو مناسب نمائندگی دینے کے ساتھ ہم خیال جماعتوں ‘افراد اور شخصیات کو بھی شامل کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ ہی جذباتی مسائل میں الجھنے کے بجائے نئی سوچ اور اپروچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار گزشتہ بیس برسوں سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ ہیں)
***

 

***

 موجودہ حالات میں مسلمانوں کو در پیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ملی تنظیموں کو اتحاد سے زیادہ اشتراک عمل کی ضرورت ہے اور اس اشتراک عمل میں مسلمانوں کے تمام طبقات کو مناسب نمائندگی دینے کے ساتھ ہم خیال جماعتوں ‘افراد اور شخصیات کو بھی شامل کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ ہی جذباتی مسائل میں الجھنے کے بجائے نئی سوچ اور اپروچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 جون تا 18 جون  2022