ہندوتوا انتہا پسندی: نظریاتی کشمکش اور مسلمان

مبصر: محمد عارف اقبال
(ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی)

ماہنامہ ’زندگی نو‘ نئی دہلی (ترجمان، جماعت اسلامی ہند) میں ’ہندوتوا‘ کے حوالے سے کئی اشاراتی مضامین شائع ہوئے۔ موجودہ امیر جماعت اسلامی ہند سیّد سعادت اللہ حسینی اس ماہنامہ کے ذریعہ اس موضوع پر اہم معلومات اردو قارئین اور اپنے رفقائے تحریک کو دیتے رہے۔ اردو بک ریویو (شمارہ جولائی تا دسمبر 2022) میں اس کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے ’بلا تبصرہ‘ کالم کے تحت ’نو ہندوتوا‘ کے عنوان سے اختصار میں ان میں سے ایک مضمون کو شائع کیا گیا تھا۔ زیرنظر کتاب ’ہندوتوا انتہا پسندی‘ میں یہ مضمون (صفحہ 101) بھی شامل ہے۔ مصنف نے خود اپنے ’دیباچہ‘ میں لکھا ہے کہ ’’اس کے اکثر مضامین ’زندگی نو‘ میں شائع ہوچکے ہیں۔ بعد میں ان پر نظرثانی کی گئی۔ بعض مضامین بڑھائے بھی گئے ہیں اور کئی مضامین کے اندر بعض اضافے بھی کیے گئے ہیں اور مضامین کی ترتیب پر نظرثانی کرکے اسے ایک مبسوط کتاب کی شکل دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔‘‘
ہندوستان کے پہلے نائب صدر جمہوریہ ہند اور ماہر تعلیم ڈاکٹر رادھا کرشنن نے اپنی کتاب "The Hindu View of Life” میں لفظ ’ہندو‘ کی نسبت جغرافیائی اعتبار سے ’سندھ‘ سے منسلک کی ہے جبکہ ایرانیوں نے ’سندھو‘ کو ’ہندو‘ کہنا شروع کیا تھا۔ رادھا کرشنن نے لکھا ہے کہ ’ہندو مذہب‘ ایک طرز حیات تو ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
زیر نظر کتاب ’ہندوتوا انتہا پسندی: نظریاتی کشمکش اور مسلمان‘ دراصل ہندوستان میں ہندوتوا کے بیانیے (Narratives) اور نظام فکر کے مبسوط جائزے پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس میں ’خیر امت‘ کی حیثیت سے ہندوستانی مسلمانوں کے ردّعمل اور رویے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’ہندو مذہب‘ اور ’ہندوتوا‘ کے حوالے سے بہت سی اہم معلومات سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ وغیرہ پر آسانی سے دستیاب ہیں۔ فاضل مصنف نے یہ اچھا کام کیا ہے کہ انہوں نے عرق ریزی اور محنتِ شاقہ سے ان معلومات کو جمع کرنے کا فریضہ ادا کیا ہے۔ لیکن اس کتاب میں ’ہندو مذہب‘ یا ’ہندوتوا‘ کے تحقیقی جائزے کی تلاش شاید کار عبث ہے۔ لہٰذا اسی تناظر میں اس کتاب کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر حصہ مختلف ابواب پر محیط ہے۔ حصہ اول ’نظریات و نظام فکر‘، حصہ دوم ’مقابل قوتیں اور ان کی ناکامیاں‘، حصہ سوم ’عدل پر مرکوز متبادل بیانیہ‘ اور حصہ چہارم ’آگے کی راہ‘ پر مشتمل ہے۔ کتاب میں کُل 22 ابواب ہیں۔ اس کے تمام ابواب پر طائرانہ نظر ڈالتے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے عام تعلیم یافتہ افراد کے لیے اس میں ہندوتوا انتہا پسندی اور آر ایس ایس کے عزائم پر مفید معلومات مہیا کردی ہیں۔
’ہندوتوا‘ تحریک کے نظریہ سازوں میں کہا جاتا ہے کہ ونایک دامودر ساورکر (وفات 1966) کا نام اساس کا درجہ رکھتا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ ساورکر نے ہندو مہاسبھا کو کانگریس سے الگ مستقل حیثیت دے کر اسے الگ نظریہ دیا۔ ’سیاست کا ہندوکرن اور ہندو قوم کا فوجی کرن‘ ان کا انقلابی نعرہ تھا۔ (صفحہ 14)
آر ایس ایس کا قیام 1925 میں برٹش انڈیا میں عمل میں آیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس کو اس بات کا کلّی طور پر یقین تھا کہ گاندھی جی کی قیادت میں جو تحریک آزادی ہند جاری تھی، اس کے نتیجے میں انگریز جلد ہی بھارت سے نکل جائیں گے۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوگا، شاید اس کا ادراک بھی ان کو تھا۔ لہٰذا ان کے تمام سرسنگھ چالک بالخصوص مادھوراو گولوالکر (وفات 1973) نے پورے ملک میں ہندو قوم کے لیے ایسی بساط بچھائی جس کے تحت ان کے افکار و خیالات کو مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندانہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ان کی دو کتابیں "Bunch of Thoughts” اور "We or Our Nationhood Defined” نے آگ پر گھی کا کام کیا۔ انہوں نے کانگریس کی تحریک آزادی میں ایسے افراد کو داخل کیا جو سیاسی اعتبار سے اپنے مسموم زدہ افکار اور خیالات سے مسلمانوں کے خلاف ماحول کو گرم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنے لگے۔ اس معاملے میں ان کا طریقہ کار ابتدا سے یہودیوں کے طرز پر رہا ہے۔ ‘Divide & Rule’ کا نسخہ دراصل مسلمانوں پر آزمایا گیا تھا۔ ہندوؤں کے خیالات کو اتنا منتشر کیا گیا کہ بھارت کی سرزمین کے لیے مسلم حکمرانوں کی قربانیاں بھی وہ فراموش کر بیٹھے۔ آخری مغل حکمراں بہادر شاہ ظفر اور ان کے خانوادے کو نیست و نابود کرنے اور عبرت ناک انجام سے دوچار کرنے کے منصوبے میں صرف انگریز حکمرانوں کا ہاتھ تھا یا اس کی پشت پر کچھ اور ہاتھ بھی تھے؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ انجام اس وقت کے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے تھا تاکہ آئندہ کوئی سر نہ اٹھا سکے۔ لیکن اس گتھی کو ہمارے دانشور اور سیاسی رہنما حضرات شاید سمجھ ہی نہ سکے۔ اسلامی افکار جن تین اساس پر قائم ہیں ان میں توحید، رسالت اور آخرت کا تصور ناقابل انکار حقیقت ہے۔ ہندوستان میں تقریباً آٹھ سو برسوں کے دوران میں اپنی چند بداعمالیوں کے باوجود مسلم حکمرانوں اور مٹھی بھر علمائے حق نے توحید کے چراغ کو بجھنے نہیں دیا ہے۔ لیکن اس سے قبل ہی سرزمین ہند میں ایرانی اسکالر ابو ریحان البیرونی (973-1048) کے علاوہ ایسا لگتا ہے کہ شاید کسی دانشور نے بھی یہاں پائے جانے والے شرک کی جڑوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ البیرونی کی کتاب ’کتاب الہند‘ (مطبوعہ 1030) عربی زبان میں لکھی گئی تھی۔ وہ محمود غزنوی کے دور میں ہندوستان آئے اور یہاں کے چپے چپے میں گھوم کر انہوں نے مختلف مذاہب کا تحقیقی و تقابلی مطالعہ کیا۔ لیکن ان کی تحقیق سے ہمارے محققین نے فائدہ نہیں اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہم ’ہندو دھرم‘ اور ’ہندوتوا‘ انتہا پسندی کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ فاضل مصنف نے اپنی کتاب میں گولوالکر کے اس بیان کو نقل کیا ہے کہ:
’’لوگ مندروں کو جاتے ہیں اور وہاں مورتیوں پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (یہ سوچ کر) کہ یہ خدا کی علامات ہیں۔ ایک بے شکل (fujkdkj) اور بے صفت (fuxqZ.k) خدا (کا تصور) ہمیں کہیں نہیں لے جا پاتا۔ لیکن ہم جیسے سرگرمی اور زندگی سے بھرپور لوگوں کو یہ سب مطمئن نہیں کر سکتا۔ ہمیں ایک زندہ خدا (Living God) کی ضرورت ہے۔‘‘ (صفحہ 21)
اس وقت ہندوستان کی تاریخ کو جس طرح مسخ کیا جا رہا ہے اور بالخصوص مسلمانوں کی تاریخ کو، اس کے بارے میں فاضل مصنف نے لکھا ہے:
’’ان کوششوں کا آغاز آزادی کے کچھ عرصے بعد ہی ہوگیا تھا البتہ ودیا بھون نے حکومت ہند کے تعاون سے ہندوستانی عوام کی تاریخ لکھنے کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا اور گیارہ جلدوں پر مشتمل ’ہندوستانی عوام کی تہذیب اور تاریخ‘ (The History and Culture of the Indian People) شائع کی۔ اس کے مرتب مشہور تاریخ داں آر سی مجمدار (1888-1980) تھے۔ اس کتاب نے عہد وسطیٰ کو دیکھنے کا ایک مخصوص زاویہ تشکیل دے ڈالا۔‘‘ (صفحہ 52)
مصنف آگے لکھتے ہیں:
’’اس کتاب کا رخ کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ مسلم دورِ حکومت کا نہایت خوف ناک اور وحشت ناک نقشہ کھینچنے کے بعد اس کتاب میں یہ تک کہہ دیا گیا کہ:
ہندوؤں نے ملک پر مسلم قبضے کی مزاحمت کی اور اس دن کا حسرت سے انتظار کرتے رہے جب ملیچھوں (مسلمانوں) سے ملک کو پاک کرکے، ملک کے نام ’آرویہ ورت‘ کے لیے جواز پیدا ہوسکے۔‘‘ (صفحہ 53)
آر ایس ایس نے ہندوستان میں زمینی سطح پر اکثریت کے ذہن کو مسموم کرنے کی کوششیں تو آزادی ہند سے قبل ہی شروع کردی تھیں لیکن آزادی کے بعد ان کو کھل کر کھیلنے کے بہتر مواقع میسر آئے۔ ان کے مقابلے میں مسلم قیادت خواب غفلت میں پڑی رہی اور کانگریسی مسلمانوں نے تو ’پاکستان‘ کے قیام کو مسئلہ بناکر خود کو مطعون کرنے کے علاوہ اور شاید کچھ بھی نہ کیا۔ جب زمین تیار ہوگئی اور باضابطہ BJP کی حکومت نریندر مودی کی قیادت میں قائم کردی گئی تو ’ہندو راشٹر‘ کا وہ باب رفتہ رفتہ واضح ہونے لگا۔ آج ’ہندو راشٹر‘ کا اعلان کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں کانگریس میں چھپے ہوئے آر ایس ایس کے افراد مسلسل جدوجہد کر رہے تھے۔ انہی میں کچھ ایسے نام نہاد تاریخ داں بھی پیدا ہوئے جنہوں نے دیدہ دلیری کے ساتھ ہندوستان کی ازسرنو تاریخ لکھنے کے لیے اپنی مذموم کوششیں جاری رکھیں۔ ان میں پی این اوک (1917-2007) جیسے ’تاریخ داں‘ نے "Institute for Rewriting History” جیسا ادارہ بھی قائم کر دیا۔ اس کا بنیادی مقصد مسلم حکمرانوں کی خدمات کو مسخ کرنا تھا۔ تحقیق کے نام پر ایسے پُرفریب نکتے بیان کیے گئے کہ ’حقیقی محققین‘ بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔ مصنف نے ان کے دامِ فریب کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’… یہ سب حسین و جمیل عمارتیں اصلاً ہندو راجاوں کی تعمیر کردہ تھیں۔ تاج محل ایک شیو مندر ’تیجو مہالیہ‘ تھا، لال قلعہ ’لال کوٹ‘ تھا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کعبہ بیت اللہ ویدک دور کا شیو مندر تھا اور کرسچیانیٹی (Christianity) دراصل ’کرشنا نیتی‘ ہے۔‘‘ (صفحہ 63)
فاضل مصنف نے یقینی طور پر اپنی اس کتاب میں عام تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے پُرمغز معلومات کو جمع کرکے اہم کام انجام دیا ہے۔ اس موضوع پر کتاب کا حصہ اول اور دوم زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اگر مصنف حصہ سوم اور چہارم کی شمولیت اس میں نہ کرتے تب بھی یہ کتاب اپنے موضوع پر مکمل ہوتی۔ لیکن ’کانگریسی تحریکات اور مفکرین‘ کے ذیل میں مصنف کی درج ذیل باتیں محل نظر ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’گاندھی جی، وویکانند، نہرو وغیرہ کی سوچ، ادویتا کے فلسفے سے متاثر ہونے کے باوجود اسلام کے سلسلے میں روادار تھی۔‘‘ (صفحہ 137)
’ہندوتوا انتہا پسندی‘ کے موضوع پر کاش فاضل مصنف اس کتاب کا بھی باریکی سے مطالعہ کرتے جو تقریباً 29-28 سال قبل شائع ہوئی تھی۔ معروف اسلامی اسکالر اور دانشور اسرار عالم صاحب کی یہ کتاب ’ہندوتوا ‘ کے نام سے سب سے پہلے دسمبر 1995 میں ’اسلامک فقہ اکیڈمی، نئی دہلی‘ کے زیر اہتمام امین عثمانی (مرحوم) کی کاوشوں سے شائع ہوئی تھی۔ اس کا ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ یہ کتاب ایک مقالہ کی صورت میں دعوت سہ روزہ نئی دہلی کے چیف ایڈیٹر جناب پرواز رحمانی کی خصوصی گزارش پر دعوت سہ روزہ کے خاص نمبر کے لیے لکھی گئی تھی، لیکن اسے فاضل مدیر نے نہ جانے کس مصلحت سے ’ہندو دھرم‘ کے موضوع پر دعوت سہ روزہ کے خاص نمبر میں اس مقالہ کو شامل نہیں کیا۔ اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرار عالم صاحب نے بڑی عرق ریزی سے ’ہندوتوا کی حقیقت‘ کی قلعی کھول دی تھی اور اس کے کریہہ چہرے کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی۔ جس طرح یہودیوں کے مذموم عزائم کو علامہ سید مودودی نے ’سانحہ مسجد اقصیٰ‘ کے نام سے کتاب لکھ کر قوم کو خبردار کیا تھا، جس کی اشاعت بعد میں ’یہودیوں کا منصوبہ‘ کے نام سے کی جانے لگی۔ اسی طرح یہ مختصر مقالہ (38صفحات) اپنے موضوع پر تحقیقی نکات (Synopsis) کا درجہ رکھتا ہے۔ لہٰذا اس کی بنیاد پر بڑی سے بڑی تحقیقی کتاب لکھی جاسکتی ہے اور سرزمین ہند کی اصل حقیقت جاننے کے لیے تحقیق کے در وا کیے جاسکتے ہیں۔ افسوس کہ دعوتِ دین کا کام کرنے والوں نے اس پہلو سے اس عظیم میدانِ کار کا شاید ابھی تک جائزہ بھی نہیں لیا ہے۔ لہٰذا ’اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں‘…۔ اسرار عالم صاحب لکھتے ہیں:
’’ہندوتوا کی حقیقت نسل، خون، ہڈی اور تسلسل نطفہ ہے۔ عقیدہ، شعائر، کتاب، دین، روایات، فلسفہ، شاستر، قانون، فضا، تاریخ، ثقافت، زبان، تہذیب، ہیئت، ساخت، جسم، ذرائع سب کچھ عوارض سے زیادہ کچھ بھی اہمیت نہیں رکھتے۔ چنانچہ اس فکر کی تین ہزار سالہ تاریخ دراصل تسلسل نطفہ اور تغلب نسل کی تاریخ ہے۔‘‘ (ہندوتوا، صفحہ 10)
مصنف متنبہ کرتے ہوئے آگے لکھتے ہیں:
’’ہندوتوا ترقی کی صورت میں لامتناہی طور پر پھیلتا ہے۔ اس کی وجہ اس نسل کی نفسیات ہے۔ بنیادی طور پر ہندو نفسیات غیر معمولی طور پر حساس اندرونی نفسیات (Insular Psyche) کی حامل ہے۔ لہٰذا اپنی اصل کے اعتبار سے اس کا رجحان تسابق للبقا کا نہیں ہوتا بلکہ تنازع للبقا کا ہوتا ہے۔ اگر کوئی مقابل قوم فکر، عقیدہ، قوت اور اجتماعیت کے اعتبار سے اتنی ہی قلاش اور مفلوک الحال واقع ہوئی کہ ہر طرح کی ذلت برداشت کرنے کو تیار ہو جائے جب بھی ہندو نفسیات دنیا کی دیگر قوموں کے مقابلے میں مغلوب قوم کی اس درجہ تذلیل پر بھی بس نہیں کرتی اور اسے مزید سے مزید ذلیل کرکے مقام انسانیت سے ہی خارج کردینا چاہتی ہے۔ چنانچہ ہزار سالوں کے بعد بھی ہندو قوم سے ہار جانے والی قومیں تمام ذلت برداشت کرنے کے باوجود سکون نہیں پاسکیں۔‘‘
(ہندتو، صفحہ 12)
مصنف ’ہندوتوا‘ کے تضاد کو آگے اس طرح واضح کرتے ہیں:
’’اس کے برخلاف تنزل کی صورت میں ہندوتوا کچھوے کی طرح سمٹ جاتا ہے، مگرمچھ کی طرح ساکت و صامت ہوجاتا ہے اور سیپ کی طرح مضبوط خول میں چھپ جاتا ہے۔‘‘ (ہندوتوا، صفحہ 12)
فاضل مصنف نے اپنے مقالے میں ایسے نکات بیان کیے ہیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اس موضوع پر محققین نے اس طرح کے تحقیقی نکات شاید کبھی بیان نہیں کیے۔ اس کے برعکس ہمیشہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ ملک مختلف النوع مذاہب کا مجموعہ ہے۔ سب کے خیالات بے شک جداگانہ ہیں لیکن سب ایک باغ کے مختلف النوع پھول کی طرح ہیں۔ اس بیانیہ یا فلسفہ کو اتنا عام کیا گیا کہ لوگ پنجرے میں قید اس طوطے کی طرح اسے رٹنے لگے جو شکاری کے جال میں پھنسے ہونے کے باوجود ’آزادی کا گیت‘ گاتا رہتا ہے۔
مصنف نے اپنے تحقیقی مقالے میں یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے:
’’معاصر ہندوستان میں مسلمانوں کی نئی درجہ بندی کی گئی ہے۔ لہٰذا اس وقت دنیا کے مسلمانوں کے تعلق سے ہندوتوا کے دو خانے ہیں:
(۱) بیرون ملک کے مسلمان اور ملک کے اندر غیر مغلوب نفسیات والے مسلمان ملیکش ہیں۔
(۲) ملک کے اندر پائے جانے والے مسلمانوں کے ایسے گروہ جو علمی، نفسیاتی، ثقافتی اور تہذیبی تغلب کو تسلیم کرچکے ہیں، ان میں سے اکثر کو شودر قرار دیا گیا ہے۔ ان کی باضابطہ فہرست موجودہ شودروں کی فہرست میں شامل کی گئی ہے۔ لہٰذا مرکزی طور پر اور ہر ہر صوبے میں الگ الگ ایسی (SC، ST اور BC) قوموں کی فہرست سازی اسی دھرم شاستر کا حصہ ہے۔‘‘(ہندوتوا، صفحہ 22-23)
اس وقت ہمارے ملک میں یتی نرسنگھانند مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر اور زہریلے بیانات کے لیے مشہور ہیں۔ 5 اپریل 2023 کو ان کی ایک اور تقریر نشر ہوئی ہے جو سوشل میڈیا پر بھی گشت کر رہی ہے۔ خاص طور سے جدید ہندوستان کے تناظر میں یتی نرسنگھانند نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے خلاف جس مسموم و مذموم عزائم کو دہرایا ہے اس کا ادراک کرتے ہوئے ’ہندوتوا کے کھیل‘ کو سادگی سے لینا مناسب نہیں ہے بالخصوص اس مسلم قیادت کو جس کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول سے محبت کو اولیت حاصل ہے۔ یتی نرسنگھا نند نے تمام ہندوؤں کو اکساتے ہوئے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف مسلح ہوکر ان کے قتل عام کی دعوت دی ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے ہندوؤں کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ سعودی عرب پر حملہ کرکے مکہ مکرمہ پر قبضہ کرلیا جائے۔ حیرت ہے کہ ایسے شخص کے لیے موجودہ بی جے پی حکومت کی طرف سے کوئی سرزنش نہیں ہوئی ہے۔ اس تقریر سے خود ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی بری طرح مجروح ہورہی ہے۔
’ہندوتوا‘ کا ایک حربہ یہ بھی رہا ہے کہ جب ہندو قوم کی براہ راست قیادت انہیں مشکوک بناسکتی ہے تو وہ ذیلی مغلوب قوموں سے آلہ کار منتخب کرتی ہے۔ اس کی تعریف و توصیف کرکے اسے مقام بلند پر فائز کرتی ہے حتیٰ کہ ان میں بعض کو ’اوتار‘ کا درجہ بھی دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ طریقہ ’ہندوتوا‘ کے کامیاب طریقوں میں سے ایک ہے۔ واضح ہو کہ عہد وسطیٰ میں مغل خاندان کے خلاف شیواجی کو ابھارنا اور پھر بعد میں شواجی کے خاندان کی آڑ میں پیشواوں کی حکومت کا قیام اسی حربے کا ایک حصہ ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ شیواجی اصلاً نچلی قوم کے ایک فرد تھے۔ اسی طرح ماضی قریب میں موہن داس کرم چند گاندھی اور بھیم راو امبیڈکر اس عمل کی اعلیٰ مثال ہیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ہندو قوم کے اعلیٰ ترین قائدین کی کوشش قوم کو جگا تو سکتی ہے لیکن عام بیداری پیدا نہیں کرسکتی تو انہوں نے محسوس کرلیا کہ یہ بیداری رقیب قوت سے محاذ آرائی کے لیے کافی نہیں ہے اور برہمن مغلوب قوموں کو Mobilise نہیں کرسکتے تو ان کی آنکھیں ایسے شخص کو تلاش کرنے لگیں جو صدیوں سے چلے آرہے اس عمل کی ذمہ داری قبول کرلے اور وہ غیر برہمنوں میں سے ہو۔ ’ہندوتوا‘ کے فاضل مصنف لکھتے ہیں:
’’چنانچہ ایک شخص پر ان کی نظر پڑی جو جنوبی افریقہ میں غیر معروف زندگی گزار رہا تھا لیکن اس میں وہ تمام اوصاف پائے جاتے تھے جس کی انہیں تلاش تھی — یعنی ہندو فلسفے سے آگاہ ہونا، معاصر عہد سے آگاہ ہونا، غیر برہمن ہونا، غیر چھتری ہونا، آمادہ کار ہونا۔‘‘ (ہندوتوا، صفحہ 27)
خیال رہے کہ ابھی ’ہندوتوا‘ احیا کے دوسرے ہی دور میں تھا کہ ہندوستان میں اسلام کی آمد ہوئی۔ اسلام کی آمد کے بعد ’ہندوتوا‘ کا مقابلہ ایک غیر معمولی قوت سے ہوا۔ خود ’ہندوتوا‘ کی تاریخ میں کسی ایسے مقابلے کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لہٰذا اسلام کی غیر معمولی قوت نے ’ہندوتوا‘ کے کس بَل نکال دیے اور اسلام نے اسے یہاں تک Merginalise کردیا جہاں تک اسلامی قانون جو سرتاسر اعلیٰ اخلاق اور انسانیت پر مبنی ہے، اجازت دیتا تھا۔
’ہندوتوا‘ کے مصنف لکھتے ہیں:
’’مسلمان خواہ کتنی ہی ہمہ گیر قوت کے مالک تھے اسلام نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی کہ وہ دائرہ اسلام میں آنے والوں کو بزور مسلمان بنائیں، نہ ہی اس کی اجازت دی کہ جزیہ دینے کے بعد اور ذمی بن کر رہنے کی آمادگی کی صورت میں انہیں قتل کردیں… اہل ہند کے دونوں بنیادی طبقات یعنی ہندوؤں اور مغلوب قوموں — چھتریوں، ویشیوں اور شودروں کی اپنی بدبختی ہے کہ وہ 800 سالوں کی بلافصل قائم حالت امن میں بھی اپنی صورت حال پر نظرثانی نہ کرسکے اور بطور خاص مغلوب قوموں چھتریوں، ویشیوں اور شودروں کے اندر وہ جرأت رندانہ پیدا نہ ہوئی کہ وہ اس طویل حالت میں امن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تاریخی ظلم کا خاتمہ کر دیتے۔‘‘ (ہندتو، صفحہ 29)
بدقسمتی سے اُس دور میں بعض ایسی باتیں بھی رونما ہوئیں جن سے ’ہندوتوا‘ کے تنِ مُردہ میں پھر جان پڑگئی۔ 1556 سے 1905 تک اس نے نہ صرف خود کو سنبھالا بلکہ واضح طور پر ایک ہدف مقرر کرلیا۔ لہٰذا اس کے احیا کا تیسرا دور 1947 سے شروع ہوگیا۔ چنانچہ 1896 کے کانگریس سیشن میں بنکم چندر چٹرجی نے ہدف کا پہلا اعلان وندے ماترم سے کیا۔ یہ آنند مٹھ کا ایک گیت ہے۔ لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ ’ہندوتوا‘ کی سب سے واضح اور بیّن آواز بکرمی سمبت 1959 میں رویندر ناتھ ٹھاکر کی ابھری۔ یہ آواز زوردار اور مسحور کن تھی جو ’ہندوتوا‘ کے جادو سے بھری ہوئی تھی۔
’ہندوتوا‘ کے مصنف لکھتے ہیں:
’’1906 میں کلکتہ کانگریس سیشن میں ایک فیصلہ لیا گیا۔ وہ فیصلہ تھا:’سوراج کا حصول‘ تب یہ ایک ذو معنی اور مبہم اصطلاح رہی ہوگی جس کا ظاہر انگریزی حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا اور ملک کو آزاد کرانا تھا۔ لیکن جس کا باطن ہندتو کے لیے قوتِ نافذہ حاصل کرنا تھا۔‘‘
مصنف آگے لکھتے ہیں:
’’1930 کے بعد اور بطور خاص 1935 کے بعد ہندوتوا کی فکر نے Pincer Attack کی حکمت عملی اختیار کرلی۔ اس کا ایک بازو گاندھی جی کی سربراہی میں کام کرنے لگا اور دوسرا کیشومل رام ہیڈگیوار (1889-1940) کی سربراہی میں۔
ہندوتوا کا وہ دستہ جو گاندھی جی کی سربراہی میں کام کر رہا تھا بالواسطہ ہندوانے کے طریقے پر عمل پیرا تھا۔ اس Indirect Indianisation کا ظاہر ہدف بھارتتیہ (Composite Culture) کا قیام تھا اور اس کا ذریعہ سیکولرزم (Secularism) اختیار کیا گیا۔ … دوسرا دستہ جو بلاواسطہ ہندوانے (Direct Hinduisation) کے طریقے پر عمل پیرا تھا، کا ظاہری ہدف ہندو راشٹر کا قیام قرار دیا گیا۔‘‘ (ہندوتوا، صفحہ 32)
واضح ہو کہ جدید ہندوستان میں سیکولرزم کا مفہوم وہی ہے جو گاندھی جی نے اختیار کیا۔ اس کی بلاوجہ تاویل یا توجیہ کرکے نیا مفہوم نکالنا ہندوستان کے تناظر میں شاید درست محسوس نہیں ہوگا۔
کانگریسی مسلم قیادت کے رویے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آزادی ہند کے بعد بھی وہ ’ہندوتوا‘ کے طریقہ کار کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کا روشن مستقبل کانگریس میں شمولیت ہی رہا۔ فاضل مصنف سیّد سعادت اللہ حسینی بجا طور سے لکھتے ہیں:
’’آزادی کے ساتھ ہی تقسیم ملک کی شدید تلخیاں ہندوستان کے، خاص طور پر شمالی ہند کے مسلمانوں کے حصے میں آئیں۔ مسلمانوں کا سیاسی مستقبل نہایت غیر یقینی حالات کا شکار ہوگیا بلکہ کچھ وقت کے لیے مسلمان خوف و ہراس اور مایوسی و ناامیدی کی ایسی کیفیت میں آگئے کہ اس میں کسی سیاسی جدوجہد کا تصور بھی ان کے لیے مشکل تھا۔ ان حالات میں 27 اور 28 دسمبر 1947 کو لکھنؤ میں وہ کانفرنس منعقد ہوئی جسے آزاد کانفرنس کہا جاتا ہے۔ مولانا آزاد اور جمعیت العلما کے رہنماوں نے مسلمانوں کو علیحدہ سیاسی جماعتیں نہ بنانے اور کانگریس میں شامل ہونے کی ہدایت کی۔ مولانا حفظ الرحمٰن نے اس موقع پر جو خطاب کیا، اس کے یہ جملے اکثر نقل کیے جاتے ہیں۔ ان سے بدلے ہوئے حالات میں مسلم سیاست کا رخ سمجھ میں آتا ہے۔
’کانفرنس نے تمہیں مشورہ دیا ہے کہ مشترک سیاست میں حصہ لو، کسی بھی سیاسی جماعت میں شرکت کرو جو ہندو مسلمانوں کی مشترک ہو، میں کہتا ہوں کہ تم کانگریس میں شرکت کرو کیونکہ اس سے بہتر کوئی جماعت ہمارے سامنے نہیں۔‘
یہ صرف ہنگامی حالات کا اعلان نہیں تھا بلکہ ایک لمبے عرصے تک مسلمان اسی پالیسی پر عامل رہے۔‘‘ (صفحہ 214-215)
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 1947 کے بعد مسلم قیادت اور علما کی دوڑ دھوپ اور نصب العین کا محور اسی طرح کی سطحی سیاست رہی ہے۔ وہ مسلمانان ہند کی منصبی رہنمائی کیا کرتے۔ آج آزادی ہند کے تقریباً 75 سال کے بعد مسلمانان ہند کا بگڑا ہوا جو رنگ روپ ہے، اس کا سِرا کہاں ہے، قابل غور و فکر ہے۔
’ہندوتوا انتہا پسندی‘ یقینی طور پر معلومات سے پُر ایک مفید کتاب ہے۔ کتاب غیر معمولی حوالوں سے مؤثق ہے، اس کے لیے جناب سیّد سعادت اللہ حسینی مبارکباد کے مستحق ہیں۔

 

***

 فاضل مصنف نے یہ اچھا کام کیا ہے کہ انہوں نے عرق ریزی اور محنتِ شاقہ سے ان معلومات کو جمع کرنے کا فریضہ ادا کیا ہے۔ لیکن اس کتاب میں ’ہندو مذہب‘ یا ’ہندوتوا‘ کے تحقیقی جائزے کی تلاش شاید کار عبث ہے۔ لہٰذا اسی تناظر میں اس کتاب کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر حصہ مختلف ابواب پر محیط ہے۔ حصہ اول ’نظریات و نظام فکر‘، حصہ دوم ’مقابل قوتیں اور ان کی ناکامیاں‘، حصہ سوم ’عدل پر مرکوز متبادل بیانیہ‘ اور حصہ چہارم ’آگے کی راہ‘ پر مشتمل ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 مئی تا 20 مئی 2023