ہر گھر ترنگا سے زیادہ ہر ایک دلت کو ملے انصاف
تعصب، تنگ نظری اور ذات پات کورونا اور منکی پاکس سے بھی زیادہ خطرناک
(دعوت نیوز نیٹ ورک)
راجستھان میں نام نہاد اعلیٰ ذات استاد نے دلت طالب علم کو گھڑے سے پانی پینے پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔علاقے میں کشیدگی
ایک طرف ملک 75ویں یوم آزادی مہوتسو منا رہا ہے، ہر گھر ترنگا، گھر گھر ترنگا اور ہر ہاتھ میں ترنگا کے شور سے پوری فضا گونج رہی ہے۔ حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف تیسری جماعت کے دلت طالب علم اندر کمار کو اس کے ناکردہ جرم کی بنا پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اس معصوم کی ویڈیو دیکھ کر راقم الحروف کو ایسا لگا جیسے وہ اپنے والد سے کہہ رہا ہو کہ ایسی دنیا میں جینے کا کیا فائدہ جہاں مرتے دم تک میں نیچ ہی رہوں گا اوپر نہیں اٹھ سکوں گا۔ جہاں میں ذات پات کی ناقابل عبور سرحدوں میں گھیر دیا گیا ہوں۔ جہاں میرا استاد مجھ پر ایک شاگرد سمجھ کر مشفقانہ نگاہ تو کیا ڈالتا الٹا مجھے پیاس بجھانے کے جرم میں مار مار کر ادھ موا کر دیتا ہو محض اس مفروضے پر کہ وہ اعلی ذات کا اور میں ادنی ذات کا فرد ہوں؟ استاد تو ہر طرح کے تعصب سے آزاد ہو کر طالب علموں کی علمی پیاس بجھاتا ہے، یہ کیسا استاد ہے جو مجھے پانی کی پیاس بجھانے پر میری چمڑی ادھیڑ ڈالتا ہے؟ اس ذات پات کی دنیا میں گھٹ گھٹ کر جینے سے تو مر جانا ہی اچھا ہے۔ یہ تو کورونا وائرس، منکی پاکس اور کینسر سے بھی زیادہ خطر ناک ہے۔
دراصل یہ واقعہ ریاست راجستھان کے ضلع جالور میں پیش آیا جب مبینہ طور پر ایک اعلی ذات کے استاد چھیل سنگھ نے ایک دلت طالب علم اندر کمار کی بے رحمی سے پٹائی کی تھی، جس کے تین ہفتوں بعد 13 اگست کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ واقعہ ضلع جالور کے سائلہ تھانہ علاقے کے گاؤں سورانا کے ایک پرائیویٹ اسکول سرسوتی ودیا مندر کا ہے۔ مقتول نو سال کا طالب علم اندر کمار تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ اس کے چچا کشور کمار نے سائلہ پولیس اسٹیشن میں اسکول ڈائریکٹر چھیل سنگھ کے خلاف جان لیوا حملہ کرنے، ذات پات پر مبنی فقرے کسنے، تذلیل کرنے اور مار پیٹ کے بعد طالب علم کو قتل کرنے کا مقدمہ درج کرایا ہے۔ ملزم چھیل سنگھ پر الزام ہے کہ اسے اندر کمار کا اس کے گھڑے سے پانی پینا ناگوار گزرا اور وہ آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے اندر کمار کو جانوروں کی طرح پیٹا۔ واضح ہو کہ مہلوک طالب علم نے اپنے ساتھ ہونے والی مارپیٹ سے اپنے والد کو آگاہ کر دیا تھا۔ پولیس نے اس معاملے میں ایس سی-ایس ٹی ایکٹ سمیت قتل کا معاملہ درج کر کے تحقیقات شروع کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پولیس نے نجی اسکول کے منیجر کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ دوسری طرف اندر کمار کے خاندان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی بھی جانچ ہو رہی ہے۔ وہیں راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت نے مقتول دلت طالب علم کے افراد خانہ کے لیے پانچ لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔
یوں تو ملک کے کمزور طبقات کو مضبوط بنانے اور دلتوں کو ترقی دینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے یہاں تک کے آدی واسی اور دلت شخصیتوں کو صدر جمہوریہ کے عہدے تک پہنچایا جاتا ہے لیکن سماج میں ان کی حقیقی تصویر دیکھنا ہو تو اس واقعہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ گاندھی جی اور دلتوں کے امید کی کرن ‘دستور ہند کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے دلتوں کی بہتری کا جو خواب دیکھا تھا اس خواب کو کس طرح شرمندہ تعبیر کیا جا رہا ہے۔ راجستھان میں ہی تقریباً چھ سال پہلے جودھ پور میں مبینہ طور پر ایک دلت طالب علم نے اعلیٰ ذات کے طالب علم کے کھانے کو صرف ہاتھ لگا دیا تھا جس کے بعد اس کے استاد نے اسی بنیاد پر اس دلت شاگرد کو پیٹا تھا۔
2018 میں راجستھان پولیس کے ایک جوان گینارام میگھوال کو اپنے افراد خاندان کے ساتھ پھانسی کا پھندا لگا کر خودکشی کرنی پڑی تھی۔
رپورٹ کے مطابق گینارام کی فیملی کو چوری کے ایک جھوٹے معاملے میں دو سالوں سے پریشان کیا جا رہا تھا۔ لگاتار ہونے والے استحصال سے مایوس گینا رام، اس کی بیوی، بیٹی اور بیٹے نے پہلے زہر کھایا اور بعد میں پھانسی کے پھندوں پر جھول گئے۔ خودکشی سے پہلے گینا رام کی فیملی نے اپنے خودکشی نوٹ کو سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کیا جس میں اس پر مظالم ڈھانے والے لوگوں کے نام لیے گئے تھے۔
اس طرح کے متعدد واقعات ہیں جنہیں صرف شمار کیا جائے کئی کتابیں تیار ہو سکتی ہیں۔ لوگ بھلے یہ کہتے ہوں کہ ستر سالوں سے بھارت پر کا نگریس حکومت کر رہی تھی لیکن حقیت یہ ہے کہ کانگریس نہیں بلکہ نام نہاد اعلیٰ ذات ملک پر قابض ہیں جنہوں نے اپنے مفاد کے لیے ذات پات کے سسٹم کو فروغ دیا ہے۔ بھارت میں دلتوں کی عزت و احترام کو ہزاروں سالوں سے پیر تلے روندا گیا ہے۔ بھارت میں موجود ذات پات پر مبنی نظام دنیا بھر میں سماجی سطح پر طبقاتی تقسیم کی سب سے پرانی صورت ہے۔ ہزاوں سال پرانے اس نظام میں ہندوؤں کو ان کے کرما (کام) اور دھرما (فرض) کی بنیاد
پر چار سماجی گروہوں برہمن، شتری، ویش اور شودر کے نام سے تقسیم کیا گیا ہے۔ اور عجیب بات تو یہ ہے کہ اچھوتوں یا دلتوں کا شمار ہندو ذات پات کے نظام سے باہر سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اونچی ذات کے لوگوں کے سامنے ان کی حیثیت ایک جانور سے بھی بدتر ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019 میں دلت سماج اور درج فہرست قبائل کے افراد کے خلاف جرائم میں بالترتیب 7.3 فیصد اور 26.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ 2018 میں دلتوں کے خلاف جرائم کے کل 45935 مقدمات درج کیے گئے اسی طرح درج فہرست قبائلی لوگوں کے خلاف جرائم کے کل 8257 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ یہ اعدد وشمار وہ ہیں جو پولیس نے درج کیے ہیں ورنہ ایسے کئی واقعات ہیں جو پولیس میں درج ہی نہیں ہو پاتے۔
وہیں قومی جرم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے پانچ سال پرانے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دلتوں کے خلاف جرائم کے واقعات مسلسل بڑھ رہے تھے۔ تاہم 2012 میں اس میں معمولی کمی آئی تھی۔ این سی آر بی کی 2014 کی رپورٹ کے مطابق دلتوں کے خلاف جرائم 2013 کے مقابلے زیادہ اضافہ دکھایا گیا ہے۔ سال 2014 میں دلتوں پر 47,064 حملوں کے واقعات ہوئے ہیں جبکہ 2013 میں یہ تعداد 39,408 تھی۔ سال 2012 میں دلتوں پر حملوں کے واقعات کے 33,655 کیس سامنے آئے تھے جبکہ 2011 میں ہوئے 719 33 تھے۔ 2010 میں یہ تعداد 33,712 تھی۔ یعنی اوسطا ہر دن دو دلتوں کا قتل اور چھ دلت خواتین عصمت دری کی شکار ہوئیں۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جب دلتوں یا پچھڑوں پر ظلم کی بات ہوتی ہے تو سوشل میڈیا پر بھی کئی صارفین اپنے رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب غیر کانگریس اقتدار والی ریاست میں دلتوں پر ظلم ہوتا ہے تو راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی دوڑے دوڑے وہاں پہنچ جاتے ہیں لیکن خود کانگریس راج میں دلتوں پر مظالم بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ سوشل میڈیا صارفین نے نو سال کے طالب علم کی موت پر غم اور افسوس کا اظہار بھی کیا ہے۔ کسی نے کہا کہ “برطانوی استعمار سے آزادی کے 75 ویں سال کے موقع پر، ہندوستان میں ایک نو سالہ دلت لڑکا اس لیے مار دیا گیا کیونکہ اس نے اعلیٰ طبقےکے لیے بنائے گئے برتن سے پانی پیا تھا۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ بھارت میں ذات پات نہیں ہے انہیں راجستھان کے جالور کی خبر ضرور پڑھنی چاہیے”۔
مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ دلتوں اور پچھڑوں کے ہمدرد اور مسیحا سمجھے جانے والے لوگ بھی اندرونی طور پر ذات پات کے وائرس سے متاثر ہیں۔ اس کی مثال بی بی سی میں کام کرنے والی مینا کوتوال کی ہے۔ مینا کوتوال نے بی بی سی ہندی میں دو سال نوکری کی، ان کا الزام ہے کہ ان دو سال کے عرصے میں انہیں دلت ہونے کا شدت سے احساس دلایا گیا۔ بی بی سی ہندی سے نکالے جانے کے بعد انہوں نے ‘میں اور بی بی سی’ کے عنوان سے بلاگس لکھیں جس میں انہوں نے اپنی آپ بیتی بیان کی۔ حالیہ راجستھان کے واقعہ پر مینا کوتوال نے کہا کہ "دنیا والو دیکھو! اکیسویں صدی کا بھارت، وہی بھارت جو وشو گرو بننے ہی والا ہے، جو دنیا کو سکھائے گا کہ امتیازی سلوک کیسے کیا جاتا ہے، صرف پانی کی خاطر ایک معصوم دلت طالب علم کو کس طرح پیٹ پیٹ کر مار دیا جاتا ہے۔ آزادی کے 75 سال کیسے ‘ڈیتھ فیسٹیول’ میں تبدیل ہوتے ہیں؟ اے دنیا کے لوگو دیکھو!”۔
مصنف، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور سماجی کارکن ہنس راج مینا لکھتے ہیں کہ "ذات سے ملا ریزرویشن سب کو نظر آتا ہے لیکن ذات سے ملا استحصال تعصب اور مظالم کسی کو نظر نہیں آتے”
کہا جاتا ہے کہ بھارت کی اونچی ذات کے افراد جہاں بھی گئے اپنے ساتھ ذات پات کے فرسودہ نظام کو بھی لے گئے۔ ایسے میں اسلام کے نظام عدل و انصاف کو عام کرنے کی ضرورت ہے، جس میں نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے نہ گورے کو کالے پر، نہ عرب کو عجم پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ عجم کو عرب پر، فوقیت حاصل ہے تو نیکی اور تقوی کے اعتبار سے ہے نہ کہ زبان اور نسل کے اعتبار سے؟ ایک صفائی کرنے والا بھی اگر نیک متقی اور پرہیز گار ہو تو وہ امیروں اور حاکموں کی امامت کر سکتا ہے۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 21 اگست تا 27 اگست 2022